مولانا ندیم الواجدی
24 اپریل،2021
بارھویں پارے کی ابتدائی
آیات میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر اس طرح استدلال کیا گیا ہے کہ اور زمین میں
کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق اللہ (کے ذمہ کرم)
پر ہے او روہ اس کے ٹھہر نے کی جگہ کو (بھی) جانتا ہے، ہر بات روشن میں ہے، اسی نے
آسمانوں اورزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ
تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے، آگے دورکوع تک اسی طرح
کے مضامین ہیں۔
اس کے بعد انبیاء علیہم
السلام کی قوموں کا ذکر شروع ہوا، پہلے حضرت نوع علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا
کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہیں خبردار کرنے والا ہوں، تم اللہ کے سوا
کسی کی عبادت نہ کرو، قوم کے لوگ کہنے لگے کہ تم تو ہمیں ہمارے ہی جیسے انسان لگتے
ہو تمہاری اتباع قوم کے گرے پڑے لوگ کررہے ہیں اور ہم تو تمہارے اندر کوئی فضیلت
اور برتری نہیں دیکھتے۔حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو لاکھ سمجھا یا،یہ بھی
کہا کہ میں تم سے کوئی سوال نہیں کررہا ہوں، نہ کچھ مانگ رہا ہوں، مگر ان کی سرکشی
بڑھتی جارہی۔مجبور ہوکر انہوں نے عذاب الہٰی سے بھی ڈرایا، اس پر یہ لوگ کہنے لگے
کہ بس اب بہت جھگڑ چکے جس عذاب کا تم ذکر کرتے ہو وہ لاکر دکھلاؤ۔ حکم ہوا کہ اے
نوح یہ قوم ایمان لانے والی نہیں ہے، اب تم کشتی تیار کرو۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام
تعمیل حکم میں مصروف ہوگئے۔ قوم کے سردار جب ادھر سے گزرتے تو کشتی بنتے ہوئے دیکھ
کر خوب خوب ہنستے۔بالآخر وقت موعود آپہنچا، تنور ابل پڑا۔ ہم نے کہا کہ ہرقسم کے
جانور کے جوڑے کشتی میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی سوار کرلو۔ حضرت نوح
(علیہ السلام) نے بیٹے کو پکارا، وہ الگ تھلگ رہا اور ڈوبنے والوں میں شامل ہوگیا۔
قرآن مجید میں فرمایا گیا
ہے کہ اللہ رب العالمین نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے
--------
اب قوم عاد کا قصہ شروع
ہوا، اس قوم میں حض رت ہود علیہ السلام پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے بھی
وہی پیغام دیا کہ اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں ہے۔ ان سے یہ بھی کہا کہ اسے میری قوم کے لوگو اپنے رب سے مغفرت چاہ
لو، پھر اس کی طرف متوجہ رہو،وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش برسائے گا اور
تمہاری اس طاقت میں مزید قوت بڑھا دے گا مگر قوم عاد نے سرکشی کا وطیرہ اپنائے
رکھا اور صاف صاف کہہ دیا کہ اے ہود آپ ہمارے سامنے کو ئی دلیل تو لے کر آئے نہیں،
محض آپ کے کہنے سے ہم اپنے معبود دوں کو چھوڑ نے والے نہیں ہیں۔ اس قوم کو بھی اس
کی سرکشی کی سزا دی گئی او ران پر ایک ایسا عذاب آیا جس سے حضرت ہود علیہ السلام
اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کے علاوہ سب تباہ و برباد ہوگئے۔ قوم ثمود کی طرف
حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔ انہوں نے بھی یہی فرمایا کہ اے لوگوں اللہ کی
عبادت کرو، اللہ کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا
اوراسی نے تم کو بسایا ہے، تم اس سے معافی مانگو پھر اس کی طرف متوجہ ہو۔ قوم نے
کہا: اے صالح تم ہمیں ان چیزوں کی پرستش سے روکنا چاہتے ہو جن کی پرستش ہمارے باپ
دادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کے لوگوں کو بہت سمجھایا،اللہ
کے عذاب سے ڈرایا، لالچ دیا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ ان کے سامنے ایک اونٹنی کو
بہ طور دلیل و حجت بھی پیش کیا کہ یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی ہے، اسے
اللہ کی زمین پر چرنے کے لئے آزاد چھوڑ دو اس سے ذرا بھی تعرض مت کرنا اور ورنہ تم
پر فوراً اللہ کا عذاب آجائے گا، مگر انہوں نے اونٹنی کو مار ڈالا، اس کی پاداش
میں ان کو سخت عذاب میں مبتلا کیا گیا اور ایک چیخ سن کر وہ اپنے گھروں کے اند ر
بے حس و حرکت پڑے رہ گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام
کے پاس کچھ فرشتے اوالاد کی خوشخبری لے کر پہنچے۔بعد میں معلوم ہوا کہ یہ قوم لوط
کیطرف ان کا تباہ کرنے جارہے ہیں۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نرم دل انسان تھے۔
انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے معاملے میں جھگڑنا شروع کردیا (کہ اس کا
عذاب نہ دیں کچھ او رمہلت دیدیں) مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ابراہیم (علیہ
السلام)یہ بات چھوڑ دو،تمہارے رب کا حکم آچکا ہے او راب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر
رہے گا جو اب ہٹایا نہیں جاسکتا۔ بہر حال فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کی خدمت میں
حاضر ہوئے، حضرت لوط علیہ السلام کو علم نہیں تھا کہ وہ فرشتے ہیں۔ ان کو خیال ہوا
کہ یہ نوعمر مہمان لڑکے ہیں او رمیری قوم غیر فطری فعل میں مبتلا ہے، یقینا ان کے
ساتھ برا سلوک کرے گی، یہ سوچ کر وہ سخت پریشان ہوئے۔ قوم کے لوگ بھی آپہنچے۔حضرت
لوط علیہ اسلام نے بڑی منت سماجت کی مگر وہ یہی کہتے رہے کہ مہمانوں کو ہمارے سپرد
کرو، حضرت لوط علیہ السلام پریشان ہوکر کہنے لگے کہ کاش میرے پاس اتنی طاقت ہوتی
کہ تم پر کچھ زور چلتا یا کوئی مضبوط سہارا ہی ہوتا کہ اس کی پناہ لیتا،تب فرشتوں
نے ان سے کہا اے لوط علیہ السلام ہم تو آپ کے رب کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، یہ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے، آپ
رات ہی میں اپنے اہل و عیال کو لے کر نکل جائیں اور تم میں سے کوئی شخص پیچھے مڑ
کر نہ دیکھے۔بہر حال اللہ نے اس بستی کو اُلٹ دیا اور اس پرتابڑ توڑ پتھر برسائے
جن سے ہر پتھر اللہ کی طرف سے نشان زدہ تھا۔
مدین کی طرف حضرت شعیب
علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا انہوں نے بھی توحید کا پیغام دیا اور یہ
بھی نصیحت کی کہ ناپ تول میں کمی مت کیا کرو، میں تم کو اچھے حال میں دیکھ رہا
ہوں۔مجھے ڈر ہے کہ تم ایک ایسا دن آئے گا جس کا عذاب سب کو گھیر لے گا، قوم نے کہا
اے شعیب علیہ السلام آپ کی بہت سی باتیں تو ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتیں، ہم دیکھتے
ہیں کہ آپ ایک کمزور آدمی ہیں۔ بالآخر اس قوم پر عذاب الہٰی نازل ہوا، وہ اپنی
بستیوں میں اوندھے منہ پڑے کے پڑے رہ گئے جیسے وہ ان گھروں میں کبھی بسے ہی نہیں
تھے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ہے جو گزشتہ پاروں میں بھی مختلف
طریقوں سے آچکا ہے۔ اس سورہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان قصوں کے بیان کرنے کی
حکمت بھی ارشاد فرمائی کہ پیغمبروں کے یہ قصے جو ہم آپ کو سناتے ہیں ان سے ہم آپ
کے دل کو مضبوط کرتے ہیں، ان سے آپ کو حقیقت کا علم اور اہل ایمان کو نصیحت اور
بیداری نصیب ہوتی ہے۔
سورہ ہود ختم ہوئی۔سورہ یوسف
کا آغاز ہوا، اس سورہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کی سبق آموز داستان بڑی تفصیل کے
ساتھ بیان کی گئی ہے۔ سورہ کے آغاز میں فرمایا کہ یہ کتاب مبین کی آیات ہیں، ہم نے
قرآن کو عربی زبان میں نازل کیا ہے تاکہ تم سمجھ لو، اور ہم اس قرآن کے ذریعے ایک
بہترین قصہ بیان کرتے ہیں۔ اس سے پہلے آپ اس واقعے سے بالکل بے خبر تھے۔ اس کے بعد
قصہ شروع ہوتاہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے
کہا کہ ابا جان میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہے یہ
سب مجھے سجدے کررہے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو سے مت
بتانا ونہ وہ تمہارے خلاف سازش کرینگے۔ ان بھائیوں نے آپس میں یہ کہا کہ یوسف اور
ان کا بھائی دونوں ہمارے والد کے زیادہ چہیتے ہیں حالانکہ ہم پورا گروہ ہیں۔ حقیقی
بات یہ ہے کہ ہمارے والد بہک گئے ہیں، چلو یوسف کو قتل کر دیں یا اس کو کسی (دور
افتادہ) جگہ پھینک آئیں اس طرح والد کی پوری توجہ ہماری طرف ہوجائے گی، اس کے بعد
پھر نیک بن جانا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ یوسف کو قتل نہ کرو، بلکہ اس کو کسی
اندھے کنویں میں ڈال دو شاید کوئی قافلہ اسے اٹھالے۔(تجویز کے مطابق ایک روز یہ سب
والد کی خدمت میں حاضر ہوئے) اورعرض کیا کہ ابا جان آپ یوسف کے سلسلے میں ہم پر
بھروسہ کیوں نہیں کرتے جب کہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں، آپ اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے
کہ گھومے پھرے گا، کھیلے کودے گا، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ اباجان نے کہا مجھے اس
کا تمہارے ساتھ جانا گراں گزرتاہے او رمجھے ڈر رہتا ہے کہ کہیں تمہاری غفلت کی وجہ
سے اسکو بھیڑ یا نہ کھالے۔ انہوں نے کہا کہ اگرہمارے ہوتے ہوئے اسے بھیڑیئے نے
کھالیا تب تو ہم بالکل خسارے میں ہیں۔ اس طرح وہ لوگ یوسف کو لے گئے اور اس پر
متفق ہوگئے کہ اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیں۔ ہم نے یوسف علیہ السلام کو
بذریعہ وحی مطلع کیا کہ ایک وقت آئے گا کہ تم اپنے بھائیوں کو ان حالات سے باخبر
کروگے۔ رات کو یہ لوگ روتے پیٹتے والد کے پاس آئے او رکہنے لگے اباجان ہم آپس دوڑ
لگا رہے تھے اور یوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اسے بھیڑیئے نے
کھا لیا، آپ ہمارا یقین تو کریں گے نہیں خواہ ہم سچے ہی کیوں نہ ہوں۔
وہ لوگ یوسف کے قمیض پر
جھوٹا خون بھی لگا کر لائے تھے،والد نے کہا کہ تم نے اپنے دل سے ایک بات گھڑلی سو
میں صبر کروں گا۔ادھر ایک قافلہ آنکلا، اس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کیلئے
بھیجا،سقے نے کنویں میں ڈو ل ڈالا تو پکار اٹھا کہ مبارک ہویہاں تو ایک غلام
ہے۔انہوں نے مال کی طرح ان کو چھپا لیا اور چند درہموں میں ان کو فروخت کر ڈالا۔
جس شخص نے مصر میں ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اسے اچھی طرح
رکھنا،ممکن ہے یہ ہمارے کام آئے یا ہم اسے بیٹا بنالیں۔جب وہ جوانی کو پہنچے تو ہم
نے ان کو حکمت او ر علم عطا کیا۔ جس عورت کے گھر میں یوسف تھے وہ ان کو ورغلا نے
لگی، ایک دن دروازے بند کر کے کہنے لگی آجاؤ،یوسف نے کہا خدا کی پناہ! میرے آقا نے
مجھے اچھا ٹھکانہ دیا،آخر کاروہ دونوں آگے پیچھے دروازے کی طرف دوڑے اور عورت نے
پیچھے سے ان کا کرتا پھاڑ دیا، دونوں نے عورت کے شوہر کو دروازے پر موجود پایا اسے
دیکھتے ہی عورت بولی ایسے آدمی کی کیا سزا ہے جو تیری بیوی پر نیت خراب کرے۔ عورت
کے خاندان والوں میں سے ایک نے گواہی دی کہ اگر کرتا آگے سے پھٹا ہے تو عورت سچی
ہے اور یہ جھوٹے ہیں اور پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے یہ سچے ہیں، جب شوہر
نے دیکھا کہ کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو کہنے لگا یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں،
مگر اس عورت نے پیچھا نہ چھوڑا او رانہیں جیل خانے میں ڈلوادیا، جیل خانے میں یوسف
کے ساتھ دوغلام او ربھی داخل ہوئے، انہوں نے خواب دیکھا اور یوسف علیہ السلام سے ان کی تعبیر پوچھی او روہ سچ نکلی، ان میں
سے ایک حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ اپنے آقا سے میرا ذکر کرنا مگر وہ
بھول گیا۔ اس کے بعد شاہ مصر نے خواب دیکھا اور درباریوں سے تعبیر معلوم کی، وہ
غلام وہاں موجود تھا، اس نے جیل خانے جاکر یوسف علیہ السلام سے تعبیر معلوم کی انہوں نے بتلادی، شاہ مصر
کومعلوم ہوا کہ یہ تعبیر فلاں شخص سے بتلائی ہے جو جیل میں بند ہے۔ حضرت یوسفعلیہ
السلام کو بلایا گیا، آپ نے آنے والے سے کہا پہلے اپنے آقا سے کہو کہ ان عورتوں سے
معلوم کرو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے۔بادشاہ نے عورتوں سے دریافت کیا، سب نے
اپنی غلطی کا اعتراف کیااس طرح حضرت یوسفعلیہ السلام جیل خانے سے باہر نکلے باقی قصہ اگلے پارے میں
ہے۔
24 اپریل،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/from-stories-prophets-comes-knowledge/d/124743
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism