منظور الحق: برائے نیو ایج اسلام
23 جنوری 2018
میں نے اس موضوع پر اپنے ایم پی سے بات کی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے اعتراضات اور شواہد ان کے سامنے پیش کروں۔ میں نے اپنی صوابدید کے مطابق اس بل کو درج ذیل طرز پر دوبارہ تیار کیا ہے، ملاحظہ ہو:
پہلے حکومت کا ڈرافٹ اور اس کے بعد میری تجویزات حسب ذیل ہیں
تعارف:
اپنے شوہروں کے ذریعہ طلاق بول کر شادی شدہ مسلم خواتین کے طلاق کے خاتمے اور ان کے حقوق کی حفاظت اور اس سے متعلقہ معاملات کی فراہمی کے لئے بل۔
میرے اعتراضات/تجاویز (منظور الحق)
تعارف:
شادی شدہ مسلم خواتین کے حقوق کی حفاظت اور ان کے شوہروں کی طرف سے انہیں طلاق دینے کے لئے لفظ طلاق بول کر طلاق کے غلط استعمال کے خاتمہ اور اس سے متعلقہ معاملات کی فراہمی کے لئے بل۔
(نوٹ: یقیناً حکومت ہند ایک مسلمان جوڑے کے لئے طلاق کا راستہ بند نہیں کرنا چاہتی)
اعتراضات کا بیان:
پوائنٹ 3۔ طلاق بدعت پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی یقین دہانی کے باوجود، ملک کے مختلف حصوں سے طلاق بدعت کے ذریعہ طلاق کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طلاق بدعت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بعض مسلم طبقوں میں اس عمل کے ذریعہ طلاقوں کی تعداد میں کمی پیدا کرنے میں مؤثر ثابت نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا سپریم کورٹ کے حکم کو مؤثر بنانے کے لئے اور غیر قانونی طلاق کے متاثرین کی شکایات دور کرنے کے لئے ریاست کو متحرک ہونے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔
(نوٹ: یہ واقعی ایک معقول علمی زبان ہے)
میرے اعتراضات / تجاویز (منظور الحق)
اعتراضات کا بیان:
پوائنٹ 3۔ سپریم کورٹ نے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مروجہ طلاق بدعت کو باطل اور غیر قانونی قرار دیا ہے، بہ الفاظ دیگر جس کا مطلب ایک ہی نشست میں شوہر کی طرف سے طلاق کو حتمی شکل دینے کے لئے تین بار لفظ طلاق کہنا، چونکہ یہ عمل ہندوستان میں وسیع پیمانے پر مروج ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اس طرح کے عمل کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے اس کے ساتھ مجرمانہ دفعات منسلک کیا جائے ، خواہ اس عمل کو فروغ دینے میں شوہر یا اس کے ساتھی ہی کیوں نہ مشغول ہوں۔
پوائنٹ 4۔ طلاق بدعت کے ذریعہ بے یار و مددگار منکوحہ مسلم خواتین کے اوپر جاری ظلم و استبداد روکنے کے لئے فوری طور پر مناسب قانون سازی ضروری ہے تاکہ انہیں کچھ راحت پہنچائی جا سکے"۔
میرے اعتراضات / تجاویز (منظور الحق)
پوائنٹ 4۔ (نوٹ: فضول ہونے کی وجہ سے اس کی کوئی ضرورت نہیں)
سیکشن 2۔ اس ایکٹ میں جب تک سیاق و سباق کی ضرورت نہ ہو، - (اے) "الیکٹرانک آلہ" کو وہی معنی حاصل ہوگا جو اسے انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن (1) کے شق (آر) میں تفویض کیا گیا ہے۔؛ (ب) "طلاق بدعت" یا ایک مسلمان خاوند کی طرف سے اختیار کی گئی طلاق کی ایسی کوئی بھی صورت جس سے فوری اور ناقابل تنسیخ طور پر طلاق واقع ہو جاتا ہو؛ اور (سی) "مجسٹریٹ" سے مراد اول درجے کا وہ مجسٹریٹ ہے جو منکوحہ مسلم خاتون کے علاقے میں کوڈ برائے کریمنل پروسیسنگ 1973 کے تحت حق عملداری رکھتا ہو۔
میرے اعتراضات / تجاویز (منظور الحق)
براہ کرم سیکشن 2 کو (تعریفات) کے (اے) سے (سی) کے بعد شامل کیا جائے:
(د) لفظ 'طلاق' خواہ جتنی مرتبہ بھی بولا گیا ہو اسے ایک ہی شمار کیا جائے گا جو کہ مدت کے اختتام پر تکمیلِ طلاق کے لئے طلاق کے عمل کا آغاز ہے۔
(ای) حلالہ: حلالہ کو ایک مضحکہ خیز عمل مانا جانا چاہئے جو کہ مبینہ طور پر صرف ہندوستان میں مروج ہے، جس میں مطلقہ عورت جان بوجھ کر کسی دوسرے شخص کے ساتھ عقد نکاح کرتی ہے، جس میں اس شوہر ثانی سے اسی شکل میں طلاق لینا پہلے سے ہی متعین ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنے سابق شوہر سے شادی کرنے کے لئے اہل اور لائق ہو سکے۔
(ع) عدت: عدت طلاق کی قانونی مؤثریت کے درمیان وہ وقفہ ہے جس میں بعض مخصوص پابندیا ہوتی ہیں، جس میں مطلقہ عورت کسی دوسرے شخص سے شادی نہیں کرسکتی ہے۔ اگر مطلقہ حاملہ نہیں ہے تو اس کے لئے عدت کی مدت تین مہینے ہیں، اور اگر وہ حاملہ ہے تو اس صورت میں عدت کی مدت وضع حمل تک ہے۔ اگر شادی کی تکمیل نہیں ہوئی یا وہ حائضہ نہیں تو اس صورت میں کوئی عدت کی پابندی نہیں ہے ، اور اس وجہ سے تین قمری مہینے کی تعمیری مدت کو مصالحت اور نظر ثانی کے لئے ایک عدت سمجھا جائے گا۔
جس عورت کا شوہر فوت ہو چکا ہو اس کے لئے عدت کی مدت چار قمری مہینے اور دس دن ہے، خواہ نکاح کی تکمیل ہوئی تھی یا نہیں۔
( ا ) رضامندی: حلالہ کی صورت میں اگرچہ ایک عورت کو مذہبی اثر و رسوخ کے تحت رضامندی کا اختیار دیا جاتا ہے، لیکن اس کی تفویض کو قانوناً نفسیاتی طور پر بہ جبر و اکراہ مانا جائے گا، اور اس بنیاد پر یہ ‘‘رضامندی’’ نہیں ہوئی۔
مسودہ قانون سازی کے سیکشن 3 میں ہے،
کسی شخص کی طرف سے اس کی بیوی کو تقریراً یا تحریراً یا برقیاتی (electronic) یا کسی بھی صورت میں دئے گئے طلاق کو باطل اور غیر قانونی مانا جائے گا۔
میرے اعتراضات/تجاویز (منظور الحق)
دفعہ 3۔ طلاق بدعت کی نیت سے کسی شخص کی طرف سے اس کی بیوی کو تقریراً یا تحریراً یا کسی برقیاتی (electronic) آلہ کے ذریعہ کسی بھی صورت میں دئے گئے طلاق کو باطل اور غیر قانونی مانا جائے گا۔ لفظ 'طلاق' خواہ جتنی مرتبہ بھی بولا گیا ہو اسے ایک ہی شمار کیا جائے گا جو کہ مدت کے اختتام پر تکمیل طلاق کے لئے طلاق کے عمل کا آغاز ہے۔ عدت کی مدت ختم ہونے سے پہلے شوہر کوئی مزاحمت نہیں کرے گا یا شوہر کو بیوی اور بچوں کی رہائش، نان و نفقہ اور خاندان کے ارکان کے لئے دیگر ضروریات کی فراہمی وغیرہ پر مجبور کیا جائے گا؛ اور شوہر کو دو رشتہ داروں کی ایک کمیٹی کی جانب سے ایک رسمی مشاورت (counselling) سے گزرنا ہوگا، جس کی کارروائی کو پوری تفصیلات کے ساتھ ایک قانونی دستا ویز کی شکل میں درج کیا جائے گا۔ اس مدت میں شوہر بیوی کے ساتھ رجوع کر سکتا ہے اور اسے ایسا کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ اس عدت کے بعد مرد اور عورت صرف اپنی باہمی رضامندی کی بنیاد پر ایک تازہ عقددنکاح منعقد کر سکتے ہیں اور اس تازہ نکاح کے انعقاد میں کسی بھی مداخلت کو طلاق بدعت کو دوام بخشنا اور اسے فروغ دینا تصور کیا جائے گا۔ پہلے بیوی کے ساتھ نکاح کا اختیار تیسرے طلاق کے بعد زوجین کے لئے ہمیشہ ہمیش کے لئے منسوخ ہو جائے گا۔
بل کے سیکشن 4 میں ہے؛
"جو شخص اپنی بیوی کو دفعہ 3 میں مذکور طلاق دیتا ہے اسے جرمانہ اور جیل کی سزا دی جائے گی جس کی مدت تین سال تک ہوسکتی ہے۔
میرے اعتراضات/تجاویز (منظور الحق)
سیکشن 4۔ اس تعزیراتی قانون کا ہدف شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی ازدواجی تعلقات نہیں بلکہ وہ سماجی ماحول ہے جس میں یہ زوجین قیام پذیر ہیں، جو مسلم خواتین کے ساتھ سنگین ناانصافی کا باعث ہے۔ لہذا، شوہر کی طرف سے اپنی بیوی کو تین 'طلاق' دیئے جانے کی صورت میں ، اگر کوئی مذہبی عالم بشمول کسی مقامی 'مولوی' یا 'مولانا' کے، اس میں ملوث پایا جاتا ہے، یا بیوی سے شوہر کی علیحدگی کا مشورہ یا اس کی ترغیب دیتا ہے ، تو اس معاملے میں اس کی مذہبی حیثیت خواہ جو بھی ہو، جسے سپریم کورٹ نے سائرہ بانوں بمقابلہ یونین انڈیا آف مع اوآرایس، 2017کے فیصلے میں کسی بھی قانونی عملداری سے پہلے ہی محروم کر دیا ہے، اگر وہ اس کا مشورہ دیتا ہے تو اس شخص کو تین سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔ اگر شوہر کے رشتہ داروں کو حلالہ کی بات کرتے ہوئے پایا جاتا ہے اور انہیں اہل خاندان کی رہائش گاہ میں کوئی خلل اندازی کرتے ہوئے پایا جاتا ہے تو اس طرح کے رشتہ داروں میں سے ہر ایک کو ایک سال قید کی سزا دی جانی چاہئے۔ اگر معاملے کے حقائق پر مطلع کوئی شخص سابق بیوی کے ساتھ نام نہاد حلالہ کرتا ہے، اگر چہ اس کے لئے اسے بیوی یا شوہر کی اجازت حاصل ہو، تو پھر جس شخص نے حلالہ کیا اور جس مولوی نے نکاح حلالہ پڑھایا ان دونوں کو بالترتیب دس اور پانچ سال کی قید کی سزا دی جائے گی۔
مزید شق:
کوڈ آف کرمنل پروسیجر، 1973 میں موجود کسی بھی شق کی موجودگی میں اس ایکٹ کے تحت کوئی بھی قابل سزا جرم اس کوڈ کے معنی اعتبار سے غیر ضمانتی قرار دیا جائے گا۔
میرے اعتراضات/تجاویز (منظور الحق)
اسی طرح سماجی تعزیراتی قانون سازی میں قابل اعزاز سپریم کورٹ کے تبصرے کو شامل کیا جا سکتا ہے۔
[سپریم کورٹ نے ہدایت دیا ہے کہ ریاستی حکومتیں پولیس کو ہدایت دیں کہ "جب آئی پی سی کے سیکشن 498 اے کے تحت کوئی مقدمہ دائر کروایا جائے تو خود کار طریقے سے گرفتاری کو عمل میں نہ لایا جائے بلکہ کریمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 41 کے تحت فراہم کردہ پیمانوں (لسٹ ملاحظہ ہو) کے تحت گرفتاری کی ضرورت کے بارے میں خود کو مطمئن کرے۔ اس کے علاوہ، "مجسٹریٹ ملزمان کی حراست کی توثیق کرتے ہوئے پولیس افسر کے ذریعہ دفعہ 41 کے لحاظ سے تیار کردہ رپورٹ کا جائزہ لیگا اور اپنا اطمینان ریکارڈ کرنے کے بعد ہی ملزم کو حراست میں لینے کی اجازت دیگا "]
ماخذ:
manhaq@yahoo.com
URL for English article: http://www.newageislam.com/islam,-women-and-feminism/manzurul-haque-for-new-age-islam/objections-and-suggestions--muslim-women-protection-of-rights-on-marriage-bill,-2017/d/114032
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism