ڈاکٹر راشد فیصل
ٹائم آن لائن کی ایک رپورٹ میں نامہ نگار گلوبل امانہ وبزنس کے سینئر منیجر امجد علی کی کہانی خود انہیں کی زبانی بیان کرتا ہے ۔ امجد علی کہتے ہیں ‘‘ جب میں 2003 میں H S B Cکے اسلامک بینک ، ایچ ایس بی سی اما نہ کے یو کے برانچ قائم کررہا تھا تو میرے ساتھ ایک نوجوان ، سفید فام عیسائی کام کرتا تھا اس کا نام بیکن تھا ۔ لیکن اس نے خود کو ہماری کمیونٹی میں اس طرح جذب کرلیا تھا کہ اسے مسٹر حلال بیکن کہا جانے لگا تھا ۔ اسے اس بات پر یقین تھا کہ شریعت پر مبنی فائنانس اگرچہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کےمطابق عمل پیرا ہونے کےلئے راستہ فراہم کرتا ہے تاہم اس کی افادیت صرف مسلمانوں تک ہی محدود نہیں ہے ۔’’
امجد علی کی یہ مختصر داستان اس بات پر واضح دلیل ہے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور اس کے معاشی اصول اپنے اندر ہمہ گیر یت رکھتے ہیں ۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے اور اس کی ہمہ گیر تعلیمات زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ کسی بھی دور میں معیشت کے شعبے کو اہم مقام حاصل رہا ہے جب کہ آج کے دور میں بینکاری معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی بن چکا ہے بینکاری نظام کو اسلام سے جوڑ دینے کے بعد اسلام کی بنیادی تعلیمات اس پر عائد ہوجاتی ہیں ۔
یہ بات ہر کس وناکس جانتا ہے کہ اسلام اخلاقی قدروں کے بے انتہا اہمیت دیتا ہے ۔ اسلام ہمیشہ سے یہ کہتا ہے کہ استحصال قمار بازی دھوکہ دھڑی دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ، سودی نظام ، سٹے بازی انسانیت کیلئے زہر قاتل ہیں۔ اسلام نے حرص او رلالچ کے خوفناک انجام سے ہمیشہ ہی آگاہ کیا ہے اسلام میں بدعنوانی کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ یہ تمام اسلامی اصول و ضوابطہ اسلامی بینک کاری کی جان ہیں اور ان کی افادیت سے انکار نہیں ہے ۔
یوں تو اسلامی ادوار میں صدیوں تک مشار کہ مضاربہ اور دیگر اسلامی طریقوں پر تجارت ہوتی رہی ہے مگر اسلامی فائنانس کا با قاعدہ آغاز ایک چھوٹی صنعت کے طور پر 1970کی دہائی میں کچھ عرب ملکوں میں ہوا ۔ اس کے بعد سے ہی مستقل طور پر اس کی ترویج و ترقی ہورہی ہے ۔
فی الوقت اسلامی فائنانس کا عالمی بازار 15 فیصد سالانہ کے حساب سے بڑھ رہا ہے اور امکان ہے کہ 2010 تک یہ بازار 1000ارب ڈالر کے بقدر ہوجائے گا ۔ صرف برطانیہ میں اسلامی فائنانس کا یہ بازار 500 ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ تک پہنچ چکا ہے ۔خاص بات یہ ہے کہ برطانیہ میں غیر مسلمین بھی شریعت پر مبنی پروڈکٹس کا فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ اسلامی بینک آف بریٹن میں مار کیٹنگ کے سربراہ اسٹیون اموس کا کہنا ہے کہ ‘‘ ہمارے یہاں کچھ غیر مسلم صارفین بھی آرہے ہیں اور ان میں کچھ بڑے نام بھی شامل ہیں۔ ہمارے اخلاقی اصولوں کی بنیاد پر یہ لوگ ہماری طرف راغب ہورہے ہیں ’’۔
اسٹینڈ رڈ اینڈ پورس (Standard and Poors) کی ایک حالیہ رپورٹ کہتی کہ پچھلی دہائی کے دوران اسلامی بینکاری کی شرح ترقی نے روایتی بینکاری کو پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔کہا جارہا ہے کہ اسلامی مالیاتی اداروں کے مجموعی اثاثے اس وقت تقریباً 300 بیلن ڈالر ہیں جب کہ اسلامی اکیڈمی فنڈ اور آف بیلنس شیٹ سرمایہ کھاتے 15 ارب ڈالر اور 30 ارب ڈالر کے درمیان ہیں ۔ مجموعی طور پر ان اعداد کو جوڑ کر دیکھا جائے تو اسلامی فائنانس روس کی جی ڈی پی (مجموعی ملکی پیدوار ) کے مساوی ہوجائےگا ۔
اسلامی بینک کاری میں ملیشیا ا س وقت قائدانہ حیثیت رکھتا ہے ۔ ملیشیا کے سنٹرل بینک کے گورنر ڈاکٹر زیتی عزیز نے اپریل 2002 میں جی ۔8ملکوں کی ایک کانفرنس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘‘ اسلامی فائنانس کے نظام میں نگرانی اور توازن کا عمل پایا جاتا ہے اس لئے یہ نظام دہشت گردوں کو فنڈ فراہم کرنے میں معاون نہیں ہوسکتا ’’ ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس نظام میں پورے طور پر شفافیت پائی جاتی ہے اور خطرات کو کم کرنے کا نظم ونسق بھی کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح اسلامی فائنانس کے اندر اتنی خوبیاں موجود ہیں کہ وہ روایتی بینک کاری نظام کا ایک نعم البدل ثابت ہوسکتا ہے ۔ دراصل عالمی معاشی بحران کے سبب روایتی بینکاری نظام عوام میں اپنا اعتماد کھو چکا ہے کیونکہ اس نے سود پر مبنی بینکا ری نظام قائم کر کے انسانی سماج کے لئے حد درجہ مشکلات پیدا کردی ہیں ۔ اب لوگ بینکا ری کے روایتی طریقوں ، کار پوریٹ کے نظام، قواعد و ضوابط کی ناکامی اور خطرات کو کم کرنے کے روایتی نظم ونسق پر سوال اٹھانے لگے ہیں ۔ اب لوگ اخلاقیات پر مبنی بہتر اصول ، شفافیت اور جوابدہی کی ضرورت محسو س کررہے ہیں ۔ اسلامی بینکاری نظام اپنے اندر یہ سب کچھ سموئے ہوئے ہے۔
اسلامی فائنانس کے بنیادی اصولوں کے تئیں حقیقی اثاثوں پر ہی لین دین کی جاسکتی ہے ۔ اس میں ڈیر ائیو یٹوز ہیج فنڈ اور دیگر کسی بھی قسم کی سٹے بازی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ۔ اس کے تحت نفع او رنقصان میں شرکت کی بنیاد پر ہی تجارت کی جاسکتی ہے ۔ اسلامی فائنانس میں اسلامی بینکا ری کے علاوہ اسلامی انشورنس کی بھی صورت موجود ہے جسے تکافل کہا جاتا ہے ۔
اگرچہ مسلمانوں کو قضا و قدر پر یقین کرنا چاہتے تاہم روز مرہ کی زندگی میں کسی کے ساتھ بھی ایسی نا گہانی حادثات یا قدرتی آفات پیش آسکتی ہیں جن کے سبب متعلقہ شخص کے خاندان والوں پر معاشی بوجھ پڑجائے یا انہیں تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے۔ اسلام کسی بھی شخص کو یہ حق فراہم کرتا ہے کہ وہ اس طرح کے حادثات و آفات کو کم کرنے کے طریقوں او رروز مرہ کے مسائل پر غور و فکر کرے او راپنے لئے کوئی راستہ نکالے ۔ روایتی انشورنس کے سلسلے میں علماء کی اکثریت کا خیال ہے کہ یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں ربا ، میسر اور غرر کی شمولیت ہوتی ہے ۔ چنانچہ اس کے متبادل کے طور پر اسلامی انشورنس یعنی تکا فل کو پیش کیا گیا ہے تکافل سماجی یگا نگت تعاون او رممبر ان کے خساروں اور ضروریات زندگی کی باہمی ضمانت پر مبنی ہے اس میں موجود اشخاص کے درمیان یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر ان کے گروپ کے کسی بھی ممبر کو پیسے کی کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ آپس میں اکٹھا کئے گئے فنڈ سے اس کی مدد کریں گے۔ گویا تکافل ، مضاربہ کے تصور پر مبنی ہے جس میں خسارے کے شراکت داری ہوتی ہے اور اس طرح غیر یقینی کے عنصر کو کم کردیا جاتا ہے ۔
یہاں ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ اسلامی بینک کاری کانظام اور فائنانس اسلامی معاشی نظام کا ایک اہم حصہ ہے اور اس نظام کی تعمیر عدل و انصاف او ر اخلاقیات اہم ستون پر ہوتی ہے۔
دراصل موجودہ معاشی بحران کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اخلاقیات کی پستی کی تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں ۔ خود غرضی اور مفاد پرستی ہمارے رگ رگ میں پیوست ہوچکی ہے ۔ ہم نے دولت کی حرص میں لوگوں کا استحصال کیا ہے ۔ ظاہر ہےاس صورت میں ہمیں ایک بہتر متبادل نظام کی ضرورت ہے ۔ بلاشبہ اسلامی معاشی نظام روایتی بینک کاری نظام کے مقابلہ میں ایک صاف و شفاف اور بہترین متبادل نظام پیش کرتا ہے۔
URL: