New Age Islam
Mon Jan 20 2025, 09:40 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

To the Sympathisers of Dr Zakir Naik ذاکر نائک کے ہمدروں کے نام

 

مالک اشتر نوگانوی

15 جولائی، 2016

جیسے ہی یہ خبر آئی کہ مشہور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کی تقاریر کی جانچ کی جارہی ہے ، ان کے حامیوں کا فکر مند ہوجانا فطری بات تھا ۔ ڈھاکہ حملے میں شامل ایک نوجوان کے نائک کا مرید ہونے کی بات سامنے آتے ہی تفتیشی ایجنسیوں ،میڈیا چینلوں اور اخبارات نے نائک کی تقریروں کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ حکومت نے کہا ہے کہ اس سلسلسہ میں تفتیش جاری ہے۔ ذاکر نائک کہہ رہے ہیں کہ ان کا دامن صاف ہے اور وہ اپنے مبینہ میڈیا ٹرائل سے نالاں ہیں ۔ ان سب کے درمیان سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ ذاکر نائک کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر انتہائی جارحانہ تیور اختیار کرلئے ہیں ۔ ایک معاروف اردو اخبار کےمدیر نے اپنے کالم میں ذاکر نائک کے بعض باتوں پر اعتراض کیاہے جس سےنائک کے حامی اور زیادہ ناراض نظر آئے اور اب ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی اس شخص کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں جو نائک پر ذرا سا بھی معترض ہو۔ یہ بات پہلے ہی واضح ہوجانی چاہئے کہ ملک میں سب کو اظہار خیال کی آزادی آئین سے ملی ہوئی ہے اور جب تک دوسرے کے حقوق کی پائمالی نہ ہو اپنی رائے رکھنے کا سب کو حق ہے ۔

ایسے میں مسلم حلقوں کے اندر ہی نائک پربرپا کھینچ تان کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ ، بریلوی اور صوفی حضرات ( بلکہ اس میں بعض دیوبندی افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے) ڈاکٹر ذاکر نائک کے بعض بیانات سے نالاں رہے ہیں ۔ ان میں خاص طور پر یزید کے ساتھ رحمت اللہ علیہ کہنے والا ان کا بیان اور وسیلہ اختیار کرنے کو غلط بتانے والا ان کا بیان شامل ہے۔ مجھے اس بات کو ماننے میں ذرہ برابر تامل نہیں کہ آج ذاکر نائک کے خلاف مسلمانوں کے بعض حلقوں کی مخالفت کا اصل سبب مذکورہ بیانات ہی ہیں ۔ یہ دراصل کہیں اور کی ناراضگی ہے جو کہیں اور نکل رہی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ذاکر نائک سوالات سےمبریٰ اور محفوظ عن الخطا ہیں جن پر اعتراض کرنا فعل حرام ہے؟۔ ذاکر نائک کو اگر اپنے نقطہ نظر کو رکھنے کا حق ہے تو ان کےمعترضین سے یہ حق کیونکر چھینا جاسکتا ہے ۔ ؟ اگر نائک غلط نہیں ہیں او ران پر تمام الزامات بے بنیاد ہیں تو یہ بے چینی کیوں ؟۔ اتنے جارحانہ تیور کیوں؟ اور ہر اس آواز کودبانے کا کیامطلب جو ذاکر نائک پر سوال اٹھا رہی ہو؟ ۔

ذاکر نائک کو اگر یہ کہنے کا حق ہے کہ یزید پر اللہ کی رحمت ہو تو یزید کی مخالفت کرنےوالے بھی تو یہ حق رکھتے ہیں کہ نائک کے بیان کی مذمت کرسکیں۔ اگر نائک وسیلہ اختیار کرنے کو غلط بتانے کے لئے آزاد ہیں تو وسیلہ اختیا ر کرنے والوں کو نائک کی بیان غلط کہنے کاحق بھی تو حاصل ہوگا۔ ذاکر نائک جن باتوں کی تبلیغ کررہے ہیں وہ ان کا نقطہ نظر ہے۔ اس کو ہی صحیح ماننا نہ تو ہر مسلمان پر لازمی ہے اور نہ ہی قرآن و حدیث میں کہیں کوئی نص ملتی ہے جو نائک کو زمین پر پیغمبر خدا قرار دیتی ہو۔ سوال اٹھانا او راختلاف رائے اسلام میں کب سے غلط اور خراب امر ہوگیا، ہمیں نہیں معلوم ۔ یہاں بات یہ نہیں کہ ذاکر نائک صحیح ہیں یا غلط اس کا فیصلہ کرنے کا حق ہر آدمی کو ہے کہ کس کو ان کی باتیں صحیح لگتی ہیں او رکس کو نہیں ، سوال یہ ہے کہ ذاکر نائک کے حامی اپنے رویے سے کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ۔

ذاکر نائک پر اعتراض کرنے والے کالم کے جوا ب میں نائک کے حامیوں نے جو کچھ لکھا اور بولا ، وہ اتنا اشتعال انگیز ، انتہا پسند انہ اور رکیک ہے کہ اس میں سب سے کچھ تو شرفاء کی محفل میں سنایا او ربتایا بھی نہیں جاسکتا ۔ اچھا ہوتا کہ ذاکر نائک کے حامی نائک کے معترضین کا جواب علمی اور عقلی دلائل سےدیتے، اس کے بجائے ، انہوں نے گالیوں اور الزامات کا سہارا لیا، متعہ کی نا جائز اولاد، یہودی سبائی فتنہ اور ،سنگھی ایجنٹ جیسے القابات کا خوب خوب استعمال ہورہا ہے گویا ایسا کرنا ‘اسلاف’ کی سنت رہاہو۔ ذاکر نائک جس اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں وہ سب کا اسلام نہیں ہے بلکہ وہ ایک مخصوص مسلک کا اسلام ہے، اس لئے یہ توقع فضول ہے کہ مسلمانوں کے سارے مسالک نائک کے ہر بات پر سر تسلیم خم کریں گے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ مسلمانوں میں ذاکر نائک اکلوتے عالم نہیں ہیں ، ہر مسلک میں بڑے بڑے علماء موجود ہیں ، ذاکر نائک نے جب تبلیغ شروع نہیں کی تھی اس وقت بھی بھارت اور دنیا میں مسلمان بستے تھے ، عبادت کرتے تھے، اس لئے ذاکر نائک کی ہر ہر بات پر سر جھکا دینالازمی نہیں ۔

ذاکر نائک بہت بڑے مبلغ ہوسکتےہیں ، لیکن وہ انہیں کے لئے ہیں جن کا موقف نائک کے موقف جیسا ہے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ ذاکر نائک کا وجود دنیا بھر کے کروڑوں شیعہ ، بریلوی، خانقاہی، دیو بندی حضرات کے وجود کو مسترد نہیں کرسکتا ۔ دونوں کو اپنی اپنی بات کہنے کا حق ہے لیکن ایک دوسرے کی تکفیر کا اختیار نہیں، یہ کہنے کا حق نہیں کہ فلاں کام (جیسے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت ثواب کی نیت سےکرتی ہو) حرام ہے۔ ذاکر نائک کے حامیوں کا سوشل میڈیا پر اتنہاپسندانہ تیور ، نائک کے معترضین پر گالیوں کی بوچھار اور رکیک جملوں کا استعمال دراصل ایک اور بات کو ثابت کررہا ہے ۔ یہ عمل اپنے آپ میں اس بات کا ثبوت ہے کہ ذاکر نائک کے چاہنے والے اشتعال انگیزی میں یقین رکھتے ہیں اور اپنے موقف کے خلاف جانے والاکوئی انسان اور مسلک تو کیا بیان تک انہیں گوارا نہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ ذاکر نائک کے حامیوں کی طوفان بدتمیزی نے میڈیا کے الزامات کی تصدیق کردی ہے اور اب اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نائک کے چاہنے والے سخت گیر ہیں ۔

یہاں پراس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آج ذاکر نائک جو کچھ کاٹ رہے ہیں یہ انہیں کا بویاہوا ہے۔ یزید کو علی الا علان رحمت اللہ علیہ کہنے پا وسیلے کو غلط بتانے والے بیانات کی ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ ان کو دیئے بنا چارہ نہیں تھا۔ اس سلسلہ میں بڑے بڑے علماء نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اس بات کا لحاظ رکھاکہ ان کی کسی بات سے کسی فرقے کی دل آزاری نہ ہو۔ ذاکر نائک او ران کے چاہنے والوں کی خامی شاید یہی ہے کہ وہ اپنے موقف کو ہی صحیح اور دیگر سب کو غلط مانے بیٹھے ہیں ساتھ ہی وہ گردن پر چھڑی رکھ کر اس موقف کو سارے مسلمانوں کو منوانا چاہتے ہیں ۔ ذاکر نائک جب تک اسلام کی دعوت کا کام کرتے رہے، ہر مسلک میں انہیں احترام کی نظر سے دیکھا گیا، کسی نے یہ جاننے کی کبھی کوشش نہیں کی کہ ان کا تعلق کس مسلک سے ہے ۔ ان کی کتابیں شیعوں، بریلویوں، دیوبندیوں غرض تمام مسالک کے ماننے والوں میں ہاتھوں ہاتھ لی گئیں لیکن جیسے ہی وہ اسلام کی تبلیغ سے مسلک کے تبلیغ پر اترے ان کے خیالات متنازعہ ہوتے چلے گئے ۔

ہم نے اسلام کو جتنا سمجھا ہے اس میں کہیں ایسا نہیں ہے کہ انسان اپنے مسلک کی تبلیغ کرے۔ دعوت کا کام کرنا ہی ہے تو اسلام کی دعوت دی جائے ۔ اس خالص اسلام کی جو نہ شدت پسندی کی تعلیم دیتا ہے او رنہ دل آزاری کی ۔ اردو کے بعض اخبارات میں مراسلے اور مضامین کی زبان پڑھ کر ایک اور بات ذہن میں آتی ہے او روہ یہ کہ ہمارے کچھ مدارس طلبہ کو عالم و فاضل بنائیں نہ بنائیں ،بد زبان ، منہ پھٹ ، بدتمیز اور دل آزاری کا رسیا ضرور بنا رہے ہیں ۔ مدارس کے فارغین کے مضامین میں اگر ذاکر نائک پر اعتراض کرنے والے کے پورے مسلک کو گالیاں دی جائیں گی تو ان مولویوں کو کٹہرے میں کھڑا کئے جانے کی ضرورت ہے جو رقومات شرعی پر گستاخ لونڈے تیار کر رہے ہیں ۔ ان فارغین مدارس میں سے کسی کو اتنی توفیق نہیں ہوئی رمضان المبارک میں انسانیت کو لہو میں نہلانے والے داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف مضامین لکھیں، اسلام کی آفاقی تعلیمات کو عام کریں ،مسلمانوں میں پھیلی سماجی برائیوں کے خلاف تحریک چلائیں، انہیں بس دوسرے مسلک کو گالیوں سےنوازنا آتا ہے۔ جنسی فرسٹریشن کے مارے ہوئے ان افراد کے الزامات اس قدر غلیظ ہوتے ہیں کہ ان کا ذکر تک مناسب نہیں ۔ امید ہے کہ اب تک جو ہوا سو ہوا، اب ہم سب ہوش کے ناخن لیں گے اور سماج میں صحت مند تنقید ، بحث اور غور و فکر کے دروازے کھلے رکھیں گے ۔ اپنی بھد پٹوانے کےلئے او ربھی بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اپنے مسلمان بھائیوں کوگالیاں دینا اور ان پر الزام تراشی سےکچھ حاصل نہیں ہونے والا ۔

15 جولائی، 2016 بشکریہ : اخبار مشرق، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/to-sympathisers-dr-zakir-naik/d/107974

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..