میجر سردار خان اورکزئی
قرآن حکیم کو غیر مسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب نہیں مانتے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ اس کو پڑھتے ہی نہیں تو یہ کیسے معلوم کرسکتے ہیں کہ یہ نازل شدہ ہے یا افتراء کردہ ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے جو مسلمان اس کو پڑھتے یا پڑھاتے ہیں وہ بھی اس کو عقیدتاً نازل شدہ سمجھتے ہیں ۔ ان کے پاس ا س کے علاوہ او رکوئی دلیل نہیں ہے کہ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا ( 4:82) اگر ہوتا یہ قرآن غیر اللہ کی طرف سے تو تم اس میں بے شمار اختلافات پاتے ۔ یا یہ کہ ۔إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( 15:9) تحقیق ہم ہی نے یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
دیکھا جائے تو یہ دلائل غیر مسلموں کے لئے قابل قبول اس لئے انہیں ہے کہ وہ تو قرآن کو مانتے ہی نہیں ۔ اور یہ دلائل قرآن کے اپنے بارے میں ہیں۔ بات تب بنتی ہے کہ جب غیر مسلموں کے سامنے قرآن کی ماضی اور مستقبل کی وہ باتیں رکھی جائیں جن کا علم ان کو کم از کم سولہویں صدی سے پہلے نہ تھا ۔ وہ یہ جان کر اس بات کے قائل ہوجائیں گے کہ چھٹی صدی عیسوی میں ان باتوں کا ذکر قرآن میں یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ کسی ہستی کا نازل کردہ ہے جو عالم الغیب ہے، خالق و مالک ، رزاق او رتمام جہانوں کا رب ہے۔ اس کے علاوہ ان کو یہ یقین بھی ہو جائے گا کہ قرآن حکیم واقعی اپنے قول کے مطابق محفوظ ہے ۔ اور ایسی باتیں دوسری الہامی کتابوں میں کیوں نہیں ہیں ۔اس دور میں اسلام کی تبلیغ کا صرف یہی طریقہ کار گر ہوسکتا ہے ۔ لیکن طریقے میں رکاوٹ خود مسلمان بنے ہوئے ہیں ۔ آپ ضرور پوچھیں گے وہ کیسے ہیں؟ تو اس ضمن میں عرض ہے کہ بے شک مسلمانوں کے پاس قرآن حکیم محفوظ ہے لیکن اس کے اکثر مندرجات پر روایات کی مطابقت میں جو تراجم اور تعبیریں چسپا ں کی گئی ہیں ۔ ان میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ماضی یا مستقبل کی ایسی خبردے جو ان کے لئے باعث تعجب بن سکے ۔
اس خاکسار کے لئے بھی یہی دشواری آڑے ہے کہ اگر بعض مندرجات کے درست ترجمے اور تعبیریں بیان کردے تو خود مسلمان ہی ان کو نہیں مانیں گے غیر مسلموں کا کیا کہنا۔ تا ہم صرف اس امید پر کہ ہوسکتا ہے کہ مخلص مسلمان ان کو سمجھ لیں او رنہ صرف ان کو قبول کرلیں بلکہ روایتی مسلمانوں کو بھی ان کی طرف راغب کریں اور اس طرح قرآن کو روایات کے جال سے نکالا جاسکے ۔ لہٰذا راقم اس مقالہ میں صرف مثالیں پیش کرے گا جن سے قرآن کا منزل من اللہ ہونا ثابت ہوجائے ۔ جن پر غلط ترجموں اور تفسیروں کے ذریعہ دبیز پردے چڑھا دیئے گئے ہیں ۔ موازنہ کرنے کےلئے روایتی تعبیریں بھی پیش کی جائیں گی ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلی مثال فرعون کے ڈوبنے کی اور اس کےنعش محفوظ کئے جانے سے متعلق ہے ۔ چنانچہ قرآن کے مطابق تقریباً چار ہزار سال قبل فرعون بنی اسرائیل کاپیچھا کرتے ہوئے جب سمندر میں ڈوبنے لگا تو بولا کہ میں موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے رب پر ایمان لاتا ہوں جواب ملا کہ اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔ تاہم آج کے دن تمہاری نعش کو محفوظ کر لیں گے تاکہ بعد کے زمانے والوں کے لئے اللہ کی ایک نشانی بن جائے ۔(فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ( 10:92) آج کے دن ہم تمہاری لاش کو محفوظ کرلیں گے تاکہ وہ تمہارے بعد آنے والوں کے لئے ایک نشانی بن جائے )روایتی ترجمہ یہ ہے کہ ( تو آج کے دن ہم تیرے بدن کو ( دریا) سے نکال لیں گے تاکہ وہ پچھلوں کے لئے عبرت ہو۔ اور بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بےخبر ہیں) ترجمہ فتح الحمید۔
اس کی تعبیر یوں کی گئی کہ جب فرعون کی لاش پھول گئی اور دریا نے اسے کنارے پر پھینک دیا تو وہاں سے گذرنے والے اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرتے تھے ۔ بس نشانی کا یہی مطلب ہے ۔ اور تعبیر کرنے والوں نے اتنا ہی نہ سوچا کہ وہاں سے گذرنے والوں کو کس نے بتایا تھا کہ یہ وہی فرعون ہے جو کل تک مصر کا فرمانروا تھا ۔ اور یہ نظارہ کتنے دن باقی رہا او رکتنے لوگوں نے دیکھا اب آپ پوچھیں گے کہ اس آیت کریمہ کا حقیقی مفہوم کیا ہے اور نشانی سے کیا مراد ہے ۔ تو عرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی نعش کو اس طور پرمحفوظ فرمایا کہ یہ مستقبل کے زمانے میں ظاہر ہو اور اس سے دنیا والے متعجب ہوں اور اس کی پیش گوئی کرنے والی کتاب اور اس کے نازل کرنے والی ہستی پر ایمان لائیں ۔ اور یہ محفوظ نعش بیسویں صدی کے اوائل میں مصر کے مضافات میں آثار قدیمہ کی کھدائی میں بر آمد ہوئی ۔
اب مغرب والوں کو تو اس بات کا علم ہی نہیں ہے کہ لاش کے محفوظ کئے جانے کا ذکر قرآن میں بڑے واضح انداز میں کیا گیا ہے ۔ لیکن اس ذکر کا تمام ترجموں اور تفسیروں میں غلط مفہوم کیا گیا ہے ۔کیونکہ مترجمین اور مفسرین کو بھی لاش کے اس طرح محفوظ ہونے کا یقین نہ تھا ۔ قرون وسطیٰ کے روایتی متزجمین اور مفسرین کو تو لاش کے محفوظ ہونے کی کیا خبر ہوتی ۔
موجودہ دور کے مفسرین بھی لاش کے بر آمد ہونے سےبے خبر نظر آتے ہیں ۔ اور آیت مبارکہ مذکورہ کا مفہوم اسی انداز میں بیان کرتے ہیں ۔ جیسا کہ اگلوں نے بیان کیا ہے۔ حالانکہ لاش کی برآمد گی سے مغرب کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ اب اگر مغرب کو قرآن کی اس پیشگوئی سے آگاہ کیا جائے تو کیا قرآن کریم کے بارے میں ان کا تر دورفع نہیں ہوگا اور اسلام کا بول بالا نہ ہوگا؟
دوسری مثال اس ضمن میں قوم عاد کی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے بہت اعلیٰ قسم کے آلات عطاء کئے تھے ۔ جن کے ذریعہ وہ بڑی دور سے چیزوں کی آواز سن سکتے تھے ۔ او ردیکھ سکتے تھے او رپھر ان کا تجزیہ بھی کرسکتے تھے ۔ ظاہر ہے یہ آلات ریڈیو ، ٹیلی ویژن او رکمپیوٹر ہی ہوسکتے تھے ۔ لیکن جب انہوں نے اپنے ان آلات پر بھروسہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلایا تو یہ آلات ان کے کسی کام نہ آسکے ۔ اور ان کو ایک تیز آ ندھی اور طوفان نے ملیا میٹ کردیا ۔ اس ضمن میں قرآن کا بیان بتدریج ملاحظہ فرمائیں ۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ ( 46:26) اور تحقیق ہم نے ان کو ایسے مقدور دیئے تھے جو تم لوگوں کو نہیں دیئے) صاف ظاہر ہے کہ ان کو کچھ صلاحتیں ایسی دی گئی جو ان کے بعد کسی کو نہیں دی گئیں ۔ آیت مبارکہ کے اگلے حصے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صلاحتیں ٹیکنو لوجی سے متعلق تھیں ۔ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً یعنی ہم نے ان کے لئے بنائے تھے سننے کے آلات ۔ دیکھنے کے آلات اور جانچنے کے آلات) ظاہر ہے کہ سننے کا آلہ ریڈیو ہی ہوسکتا ہے اور دیکھنے کا آلہ ٹیلی ویژن اور جانچنے کا آلہ کمپیوٹر ہی ہوسکتا ہے ۔ لیکن خدا بھلا کرے ہمارے مترجمین اور مفسرین کا کہ انہوں نے اسم نکرہ میں نازل ہونے والے الفاظ سمعاً ۔ ایصاً را اور افدۃ کا ترجمہ کان آنکھیں اور دل کر کے آیت کریمہ کی منشاء کو آنکھوں سے اوجھل کردیا ہے ۔ اور یہ بھی نہ سوچا کہ کان آنکھیں اور دل تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی دئے ہیں تو اس میں قوم عاد کی سائنسی برتری کا اثبات کہا ں سے نکلتا ہے ۔ مترجمین کو یہ علم بھی نہ تھا کہ چیزوں کا نام اسم نکرہ میں ان کو اسم آلا بنادیتا ہے ۔ قرآن یہ بھی فرماتا ہے کہ جب انہوں نے عذاب کو اپنی وادیوں کا رخ کئے دیکھا ( تو اس کا تجزیہ کرنے میں وہ چوک گئے )تو کہا کہ یہ تو عام بادل ہیں جو ہم پر بر سیں گے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کسی نزدیک پہاڑ پر سے آتے بادلوں کو نہیں بلکہ اپنے آلات کے ذریعہ ان کو بہت دور سے آتے دیکھا اور پھر اپنے آلات پر جانچا بھی ہوگا ۔ تب کہیں جاکر انہوں نے یہ کہا ہوگا کہ یہ عام بادل نہیں ہیں ۔فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ( 46:24) پھر جب انہوں نے اس عذاب کو بادل کی صورت میں دیکھا کہ ان کی وادیوں کی طرف بڑھ رہا ہے تو کہا یہ تو بادل ہے جو ہم پر برسے گا) قرآن فرماتا ہے کہ حقیقت میں یہ آندھی کا ایسا طوفان تھا جس نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھدی ۔ اور وہاں سوائے عمارتوں کے ملبے کے ڈھیر کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔قرون اولیٰ کے داستان نویسوں نے قوم عاد کی یہ فضیلت بیان کی ہے کہ وہ دراز قد تھے ۔ اور یہ غلط تاثر انہوں نے اس آیت سے لیا ہے (أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ ، إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ ، الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ (89:7:8:9)
اس کا غلط ترجمہ کچھ یوں کیا گیا ہے کہ ( کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا کیا؟ جو ارم کہلاتے تھے اور اتنے دراز قد کہ تمام ملک میں ایسے پیدا نہیں ہوئے تھے ) عربی گر امر اور علم الکلام سے بے بہرہ مترجمین نے ارم کو تو قوم عاد کی ایک شاخ کے معنوں میں لیا ہے۔ اور ذات العماد کو قد کی دراز ی قرار دیا ہے ۔ حالانکہ عمادستونوں او رمناروں کو کہتے ہیں ۔ اس لئے ارم شہر ایک ستونوں او رمیناروں کا شہر ٹھہرتا ہے ۔ جس کے میناروں کی طرح مینار کسی دوسرے شہر میں نہیں بنائے گئے ۔ مثلھا مونث جمع کی ضمیر ہے ۔ جو ستونوں کی طرف راجع ہوتی ہے نہ کہ قوم عاد کے افراد کی طرف ۔ کیونکہ افراد کو تو طاعون اور ہیضے کی وبا سےبھی ہلاک کیا جاسکتا تھا ۔ لیکن مقصد ان عمارتوں کو تباہ کرنے کا تھا ۔ جن پر ان کوبہت ناز تھا ۔ میرے موقف کی تائید اگلی آیت مبارکہ سے بھی ہوتی ہے جن میں قوم ثمود کے پہاڑوں اور پتھروں کو تراش کر مکانات بنانے کا ذکر ہے ۔ اور فرعون کے اہرام کا بھی ذکر ہے ۔ جن کو اوتار یعنی پہاڑ او رمیخیں کہا گیا ہے۔ اور یہ سب تشبیہات ہیں ۔ یہ نہیں تھا کہ فرعون میخیں لئے پھرتا تھا اور دیوار میں لوگوں کو پیوست کرتا تھا ۔ اللہ کرے کہ مسلمانوں کو روایتی ترجموں اور تعبیروں سے نجات مل جائے تاکہ قرآن حکیم کی حقیقی تعلیمات کا ادراک ہوسکے ۔
تیسری مثال کا تعلق بنی اسرائیل کے عبور بحر سے ہے ۔جسے دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں نے سمجھا ہی نہیں ۔ اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی کہانیاں شامل کر کے اس علم پر پردے ڈال دئے جو اللہ تعالیٰ نے اس قصے کے ذریعہ مسلمانوں کو عطاء کیا ۔ غیر مسلموں کو سمندر اور چاند کی خاصیتوں کاعلم اٹھارویں صدی عیسوی میں ہوا ۔ قصہ یوں ہے کہ جب بنی اسرائیل پر فرعونیوں نے ظلم و ستم کی انتہا ء کردی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے نجات کی دعا مانگی تو حکم ہوا کہ میرے بندوں کو لے کر رات کے وقت مصر سے نکلو ۔ اور تمہارا پیچھا بھی کیا جائے گا ۔ لیکن تم سمندر کو تھمے ہوئے حال میں چھوڑ جاؤ کیونکہ تمہارا پیچھا کرنے والی فوج غرق ہونے والی ہے۔ ( سورۃ الدخان 24۔23۔22)
لیکن حضرت موسیٰ کو تو وہ رات اور نکلنے کا رخ اور سمندر تو معلوم ہی نہ تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس جگہ کی نشاندہی مجمع البحرین کے حوالے سے کردی اور ان کو مجمع البحرین کا پہلے جائزہ لینے کی ہدات کی اس کی نشانی یہ بتائی کہ وہاں ان کو اللہ کا ایک بندہ بھی ملے گا جسے اللہ کی طرف سے علم حاصل ہے ۔ اور وہ اسے بعض مخفی چیزوں سے آگاہ کرے گا ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اپنے ملازم کے ساتھ مجمع البحرین کا دورہ کرنے چل پڑے۔ اور عین ممکن ہے کہ اپنے ساتھ تلی ہوئی مچھلیاں اور روٹی بھی لیتے گئے ہوں ۔ اب سفر چونکہ طویل تھا تو سستانے کےلئے ایک چٹان کے پاس بیٹھ گئے ۔ پھر جب مجمع البحرین پر پہنچے تو دو سمندروں کے درمیان والی اونچی زمین کو نہ پا سکے کیوں کہ پانی اب چڑھ چکا تھا ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ اس پایاب پانی میں سیدھے چلتے گئے اور پار ہوگئے ۔ یہاں تک کا قصہ قرآن حکیم کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ۔وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا ، فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا ( 18:60:61) اور جب موسیٰ نے اپنے ملازم سے کہا کہ میں ہٹنے کا نہیں جب تک دو سمندر وں کے ملنے کی جگہ تک نہ پہنچ جاؤں یا پھر برسوں چلتا رہوں گا ۔ پھر جب وہ دونوں سمندر وں کے ملنے کی جگہ پر پہنچے تو ان کے درمیان اٹھی ہوئی زمین ( حوت) کو نہ پاسکے پس موسیٰ نے پایاب پانی میں سیدھا راستہ لیا) فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا ( 18:62) پھر جب دونوں پار ہوئے ۔ ملازم کو کہا کہ ہمیں آج کا کھانا دو تحقیق اس سفر میں ہمیں بہت تکان ہوئی ہے ۔ اس لمحے ملازم کو تلی ہوئی مچھلیوں کے حوالے سے یاد آیا او رکہا کہ (قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ۚ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا (18:63) آپ کو یاد ہے کہ جب ہم اس چٹان کے پاس سستانے بیٹھے تھے تو میں حوت کا ذکر کرنابھول گیا او رمجھے کسی نے نہیں بھلا یا مگر شیطان نے کہ اس کا ذکر کرتا اور پھر وہ حوت عجیب طریقے سے سمندر میں غائب ہوگئی ) یہاں تک کہ قرآنی بیان سے ظاہر ہورہا ہے کہ نَسِبْتْ الْحْوْتَ وَمَآ سے مراد ان دونوں کی مچھلی نہیں بلکہ سمندر کے درمیان اٹھی ہوئی جگہ ہے جسے وہ پا نہیں سکے کیوں کہ مدو جذر کی وجہ سے اس پر پانی آگیا تھا ۔ اگروہ تھوڑی دیر پہلے پہنچ جاتے تو وہ اسے خشک پالیتے ۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کےملازم نے اسے دیکھا تھا ۔ لیکن عجمی مولویوں نے اس کے ساتھ یہ کہانی جوڑ دی کہ تلی ہوئی مچھلی زندہ ہوکر پانی میں کود گئی اور عجیب طریقے سے غائب ہوگئی ۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگر معجزہ تھا تو کس کا تھا ۔ او رکس کو دکھانا مقصو د تھا ؟ اور عجمی مولوی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مجمع البحرین پر جانے کی وجہ معلوم نہ کرسکے تو ا سکے ساتھ یہ کہانی جوڑ دی ۔ کہ انہوں نے زمین پر سب سے بڑے علم ہونے کا دعویٰ کیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے ایک بندے سے ملاقات کے لئے مجمع البحرین پر بھیجا ۔ اس کو تو اس بات کا علم بھی نہ تھا ۔ کہ وہ اللہ کا بندہ تو بنی آدم نہ تھا ۔ ورنہ کشتی کے ملاحوں کو کیوں نظر نہ آتا جب وہ کشتی میں نقص ڈال رہا تھا یا ایک لڑکے کےکو قتل کرتے وقت کسی کو نظر کیوں نہیں آیا سوائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بلاشبہ وہ عبد تھا من عبادنا۔
اب آپ عبور سمندر کے معجز ے کو بھی سمجھ لیں ۔ اللہ تعالیٰ نے چاند میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ وہ سمندروں کے پانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ جس سے مدو جزریا جوار بھاٹہ وقوع پذیر ہوتے ہیں او رمجمع البحرین ایسی جگہ تھی جہاں سمندروں کے درمیان اونچی زمین پر کبھی ایک سمندر کا او رکبھی دوسرے سمندر کاپانی چڑھ جانا تھا ۔ او رکبھی دونوں سمندروں کا پانی پیچھے کھینچ جاتا تھا اور اونچی زمین کا بڑا حصہ خشک رہ جاتاتھا ۔ مجمع البحرین اس جگہ تھا جہاں اب نہر سوئیز کھودی گئی لے لہٰذا وہ نہراب ہر وقت بھری رہتی ہے ۔ لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے مطابق بنی اسرائیل کو اس مخصوص وقت پر پہنچا یا جب درمیان کی زمین پوری طرح خشک ہونے والی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے سمندر کو لاٹھی سے ضرب دی تو دونوں سمندروں کا پانی پیچھے کی طرف کھینچ گیا ۔ اس وقت چاند غالباً زمین کی دوسری طرف ایسی فضا میں تھا کہ دونوں سمندروں کا پانی یکساں طور پرکھینچ سکے اور چاند ہر سولہ سال کے بعد اسی مقام پر آتا ہے جہاں وہ سولہ سال پہلے آیا تھا ۔یہ وقت صرف اللہ کو معلوم تھا ۔ ا س لئے بنی اسرائیل کو پار کروایا ۔ لیکن جب کچھ دیر کے بعد فرعون کالشکر وہاں پہنچا اور اسی خشک راستے پر چل پڑا تو چاند اس وقت وہاں سے حرکت کر چکاتھا ۔ او ر کسی ایک سمندر کاپانی اس کی کشش سے آزاد ہوچکا تھا ۔ چنانچہ وہ بڑی تیزی کےساتھ اپنی جگہ پر آیا اور فرعونیوں کے سروں پر سے گذر گیا اور ان کو ڈبو کر رکھ دیا ۔( فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ ( 20:78) ۔ پس فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کاپیچھا کیا تو سمندر کی لہروں نے ان کو ڈھانپ لیا یعنی ڈبودیا) ۔ ترجمے اور تفسیر کرنے والے عجمی ملاؤں نے اس واقع کو دریائے نیل سے منسوب کیاہے ۔ یہ اس لئے غلط ہے کہ مصر تو دریائے نیل کے کنارے آباد تھا تو وہاں سے بنی اسرائیل کس طرف گئے اور فرعون نے کہاں سے ان کو جالیا ۔ صرف اسی نکتہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عجمی تر جمے اور تفسیر یں افسانوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں اور یہ افسانے بھی تو تورات ( پرانا عہد نامہ) سے لئے گئے ہیں ۔ جس میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ دریائے نیل کاپانی دونوں طرف دیوار کی طرح کھڑا ہوگیا ۔ جب کہ قرآن فرماتا ہے کہ سمندر پھٹ گیا اور دونوں طرف کا پانی ایک ڈھیر کی طرح بلند ہوگیا (فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ ( 26:63) ۔
اندازہ لگا ئیں کہ اگر مفسرین ایک تاریخی واقعہ کے بارے میں قرآنی بیان سےدرست صورت احوال کا فہم حاصل نہ کر سکیں تو شرعی اور سماجی اور معاشرتی نظام سے متعلق قرآنی فرمودات کی تشریح کیوں کر کرسکتے ہیں ۔
چوتھی مثال کا تعلق قرآن حکیم کی ایک پیش گوئی سے ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگادیں گے سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (68:16) اس میں کسی شخص کا نام یا نسبت مذکور نہیں ہے لیکن اس شخصیت کے خود بخود و آشکار ہ ہونے کی توقع کی جاسکتی تھی ۔ چنانچہ یہ شخصیت آٹھ سال قبل آشکارہ ہوچکی ہے وہ یوں کہ فرعون کی نعش جب 1908 میں برآمد ہوئی تو اسے مصر کے عجائب گھر میں رکھا گیا اور ہر طرح سے اس کی حفاظت کی جاتی رہی ۔ لیکن آٹھ دس سال قبل معلو م ہوا کہ اس کی ناک پر جراثیم کا حملہ ہوا ہے چنانچہ اسے علاج کے لئے فرانس لے جایا گیا وہاں جراثیم کے پھیلاؤ کو روک دیا گیا لیکن ناک پر داغ بدستور موجود ہے ۔ اب تک لکھی ہوئی تواریخ میں ایسی کسی شخصیت کی نشاندہی نہیں کی گئی جس کی ناک پر داغ تاریخ کا حصہ بنا ہو ۔ لہٰذا یہ فرعون ہی تھا جس کی ناک پر داغ کا ذکر بھی قرآن میں کیا گیا تھا ۔ حالانکہ اس کو ڈوبے ہوئے ساڑھے تین ہزار سال ہوچکے ہیں ۔
پانچویں مثال بھی ایک پیش گوئی سے ہے ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے قریب ہم ان کے لئے زمین سے ایک ایسا جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرے گا۔ (وَإِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ أَخْرَجْنَا لَهُمْ دَابَّةً مِّنَ الْأَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ أَنَّ النَّاسَ كَانُوا بِآيَاتِنَا لَا يُوقِنُونَ ( 27:82) اب مسلمان اسی انتظار میں ہیں کہ کسی جگہ زمین پھٹ جائے گی اور ایک جانور اس میں سے بر آمد ہوگا ۔ کیوں کہ مسلمان دنیاوی علوم سے بالکل بےبہرہ ہیں ۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ آخر انسان اور دوسرے جانداروں کو بھی زمین سے نکالا گیا ہے لہٰذا آیت مذکورہ کا مطلب یہی نہیں ہے کہ وہ جانور زمین سے برآمد ہوگا ۔ اس جانور کا زمین سے نکلنا شروع ہوچکا ہے وہ یوں کہ سائنسدانوں نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے کامیاب تجربے کے بعد انسان اور گھوڑی کے مادہ منویہ سے ایک جانور بنانے کی کوشش کی جس کا سر انسان کا اور دھڑ گھوڑے کا تھا ۔ اور یہ جانور معرض وجود میں آیا لیکن اس کےسر میں کچھ تکنیکی خامی رہ گئی تھی لہٰذا وہ باتیں نہ کرسکا ۔ عین ممکن ہےکہ وہ آئندہ تجربات میں کامیاب ہوجائیں ۔ شاید۔
مئی، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/arguments-divinity-quran-/d/98125