محمود احمد
14 دسمبر 2015
فرانس اور امریکہ میں بیک وقت حملوں کے بعد مسلم مخالف جذبات عروج پر ہیں اور بہت سے لوگ ان پر چوطرفہ تنقید کر رہے ہیں۔ میں جذباتی طور پر یورپ اور امریکہ میں رہنے والے ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں جنہیں اسلام پر بدترین حملوں کا سامنا ہے۔ یورپ اور امریکہ میں اسلام کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ان براعظموں میں انتہاپسندوں کو مقبولیت اور اور بعض مقامات پر سیاسی اقتدار بھی حاصل ہو رہا ہے۔
اب اسلام فوبیا کو سیاسی مہمات میں ووٹ جیتنے کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس ہفتے کے اوائل میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار کے بیان کو دیکھا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ تمام مسلمانوں کو عارضی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا جانا چاہئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ ایک بنیاد پرست نسل پرستی کی ایک بہترین مثال ہیں جو امن کے مذہب کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں جو کہ ان کی روزمرہ کی بیان بازیوں سے واضح ہے۔
وہ نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کے خلاف خرافات اور بیہودہ باتیں کر رہے ہیں بلکہ انہیں در حقیقت مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو نفرت پر مبنی جرائم کی ہدف بنانے کے لئے جوابدہ قرار دیا جانا چاہیے۔ مسلمانوں کو براہ راست نشانہ بنانے سے پہلے انہوں نے میکسیکو کے لوگوں پر امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے حملہ کیا تھا۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اسلام کے خلاف اس انتہا پسند نظریہ کی حمایت کرنے والے لوگوں کی ایک اچھی تعداد ہے۔
فرانس پر داعش کے حملے کے بعد کہ جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانس پر بدترین دہشت گرد حملہ قرار دیا گیا ہے، انتہا پسند اور مغرب میں متعصب طبقہ دو حالیہ دھماکوں کے ساتھ اسلام کو جوڑ کر خوشی محسوس کر رہا ہے۔ معاشرے کے باشعور لوگوں سے میرا سوال یہ ہے کہ کس طرح اسلام جیسے ایک مذہب کو اس طرح کے خوفناک حملوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ میڈیا حقائق پیش کرتے ہوئے مکمل طور پر منصفانہ رپورٹنگ کی ذمہ داری کی اخلاقیات نظر انداز کرتے ہوئے اسلام کے خلاف نفرت بھڑکانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگرچہ ابتدائی معلومات کمزور اور مختصر ہو، لیکن پھر بھی وہ لوگوں کے ذہن میں اسلام کے ساتھ ایک ربط پیدا کرنے کے لیے بار بار مسلم، اسلام پسندوں اور اسلام جیسے الفاظ استعمال کرنے کی غلط حکمت عملی اپناتے ہیں۔ ہمیشہ وہ پہلے کی مثالوں کو پیش کر کے قیاس آرائی کرتے ہیں، اور اس عمل میں وہ اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اس لیے کہ ہر رپورٹر دوسروں سے آگے بڑھنے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ افراتفری کے اس ماحول میں سچائی گم ہو جاتی ہے۔ اہل مغرب کے اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے کہ: اسلام اور دہشت گردی شانہ بہ شانہ چلتے ہیں، وہ 'مسلم دہشت گرد' یا 'اسلامی شدت پسند' جیسے الفاظ کو بار بار دہراتے ہیں۔ انہیں شرم آنی چاہیئے۔
ایک ایسے معاشرے میں جو تمام مذاہب اور نسلوں کے تئیں روادار ہے ٹرمپ اور ان جیسے نفرت بھڑکانے والے نفرت بھڑکا کر کیا حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں؟ کیاانہیں یہ لگتا ہےکہ امریکی ان کے قدامت پسند نظریات کو تسلیم کر لیں گے اور انہیں صدر بنانے کے لئے اپنی حمایت پیش کریں گے؟ مجھے ایسا نہیں لگتا ہے لیکن ہمیں ریپبلکن انتخابات کے نتائج کا انتظار کرنا ہو گا۔ وائٹ ہاؤس نے ٹرمپ کے بیان کو مسترد کر دیا اور ان کے بیان کو صدر بننے کے لیے نا اہل قرار دیا ہے۔
ہم نے مغرب میں ان انتہا پسندوں کے خلاف لوگوں کی طرف سے مثبت رویہ کا مشاہدہ کیا ہے جو ان کے فائدے اور اسلام پر حملہ کرنے کے لئے دہشت گردانہ حملوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے جس سرعت اور مؤثر طریقے سے ان کے دعوں کو مسترد کر دیا ہے وہ بہت حوصلہ افزا ہے۔
متعصب طبقے اور سوشل میڈیا پر سرگرم رہنے والوں کے درمیان بھی لفظی جنگ چھڑ گئی، جسے دیکھ کر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ ان شر انگیزوں پر عقلمندوں کی آوازیں غالب تھیں۔ سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک بڑھتی ہوئی لہر تھی، لیکن انہیں رواداری اور حمایت کے بہت سے پیغامات کے ساتھ ناکارہ کر دیا گیا۔
اس پلیٹ فارم پر لوگوں نےنفرت انگیزوں سے یہ سوال کیا کہ وہ کیوں بار بار بنیاد پرست افراد کی کاروائیوں کو ایک پرامن مذہب سے منسلک کر رہے ہیں۔ بلکہ ان لوگوں نے انہیں جانب دار میڈیا سے بھی مزید محتاط ہونے اور ان کے بہکاوے میں نہ آنے کا بھی مشورہ دیا۔
میں ٹوئن ٹاورز پر 11/9 کے حملوں کے بعد سے امریکہ میں رہ رہا ہوں اور میں نے ذاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے حملوں کا سامنا کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ میں نے انہیں لوگوں کی جانب سے نفرت انگیز پیغامات اور مختلف حملوں کے باوجود ایماندار امریکی عوام کی مکمل اور غیر مشروط حمایت کا بھی مشاہدہ کیا ہے۔
مذہب کی آزادی کا اظہار کرنے والی ایک با حجاب عورت کو آسانی کے ساتھ سڑکوں پر نفرت انگیز لوگ نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ہم نے ایسے بھی واقعات کا سامنا کیا ہے کہ جن میں ان جیسے لوگوں نے خواتین کو اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا ہے، اور یہ تمام صورت حال نفرت پر مبنی پیغامات اور نفرت انگیز میڈیا کی بدولت ہے۔ ہمارے سامنے ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا جس میں سی سی ٹی وی کیمرے کی معرفت سے ہم نے یہ دیکھا کہ کس طرح لندن کی گلیوں میں حجاب پہننے والی ایک خاتون پر ایک شخص نے حملہ کیا اور اسے زد و کوب کیا، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ حجاب پہنے ہوئی تھی اسی لیے اسے آسانی کے ساتھ ہدف بنا لیا گیا۔
ٹرمپ اور نفرت کی تجارت کرنے والے ان جیسے لوگوں کو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطی میں من حیث المسلم داعش اور عام طور پر دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ہم ایک طویل عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ انتہا پسند نظریہ اسلام کی نمائندگی نہیں کرتا ہے۔ عراق اور شام میں، سینکڑوں اور ہزاروں لوگ ان انتہا پسند جنگجوؤں سے بچنے کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ سعودی عرب میں ہم نے دیکھا ہے کہ وہ کس طرح مساجد اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے، ہم القاعدہ کے حملوں کا شکار تھے اور ہم ان سے اس وقت تک لڑتے رہے جب تک وہ شکست خوردہ نہ ہو گئے۔ ایک ایسے وقت میں ہم ان کے خلاف لڑ رہے ہیں اور ان کی سرگرمیوں کی مذمت کر رہے ہیں، جب مغرب میں ہم ایسے لوگ کو بھی پاتے ہیں جو اسلام کو اس طرح کی سرگرمیوں سے منسلک کر کے معاملات بدتر بنا رہے ہیں۔
اسلام سے نفرت کرنے والے لوگوں کو ہم یہ کہنا چاہیں گے ہم اپنے مذہب کا دفاع نہیں کر رہے ہیں اس لیے کہ اسلام پر الزام عائد نہیں کیاجا رہا ہے، اور اسلام نفرت کے تمام دعووں سے پاک ہے۔ اس طرح کے نفرت انگیز لوگوں کو رواداری، ہمدردی اور رحمت و محبت کے ایک مذہب کی حیثیت سے ایک پرامن مذہب کے طور پر اسلام کے حقیقی پیغام کو جاننا ضروری ہے۔ انہیں نفرت کی تجارت کرنے والے میڈیا کی باتوں پر آنکھ بند کر کے یقین کرنے کے بجائے اپنے دلوں اور ذہنوں کو کشادہ کرنے اور سچائی کو جاننے کی ضرورت۔ بلآخر نفرت انگیز آوازوں کو اپنے نفرت انگیز نظریات کا اظہار کرنے کے لئے کوئی پلیٹ فارم نہیں دیا جانی چاہئے۔
ماخذ:
saudigazette.com.sa/opinion/muslim-communities-and-islamophobia
URL for English article: https://newageislam.com/muslims-islamophobia/muslim-communities-islamophobia/d/105595
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/muslim-communities-islamophobia-/d/105658