محمود عالم صدیقی
8 جولائی، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
میں نازیہ جسیم کے "ظالم انسان ہے، اسلام نہیں ہے" (ہندو،
اوپن پیج، 27 مئی، 2012) سےاتفاق رکھتا ہوں۔ در اصل یہ اسلام ہے جس نے خواتین کو
پدرانہ معاشرے کے ظلم اور ظالمانہ رسوم
و رواج ،جس نے ان کے زندہ رہنے کے لئے ضروری اور بنیادی حقوق چھین
لئے تھے، کے طوق سے آزاد کرایا ۔ یہ اسلام
ہے جس نے انہیں کئی حقوق فراہم کئے- حق وراثت،
جائداد رکھنے کا حق، حق تعلیم، حق تجارت
اور کاروبار، آزادانہ طور پر شوہر کے انتخاب
کا حق، شوہر کے انتقال ہو جانے پر دوبارہ شادی کرنے کا حق اور طلاق کا
حق۔
یہ اسلام ہے جس نے خواتین
کو بلندمرتبہ عطا کیا جب ان کو ملکیت مان کراسی طرح کا برتائو کیا جاتا تھا اور
انہیں پیدا ہونے کے بعد زندہ دفن کر دیا جاتا
تھا۔ یہ اسلام ہے جس نے انہیں خدا کی ایک نعمت
کے طور پر شمار کیا اور انہیں بیویوں کی صورت میں مردوں کے برابر شریک کار بنایا اور
ماؤں کے پیروں کے نیچے جنت رکھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ اپنا چہرہ ڈھانپے بغیر اپنے وقار
اور عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے حجاب پہنیں اور مردوں کو ان کا احترام کرنے
اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم
دیا۔ جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم نے واضح طور پر اعلان کیا ہے،'' تم میں
سے بہترین انسان وہ ہے جو اپنے خاندان کی خواتین
ارکان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور
تمہارے درمیان وہ انسان برا ہے جو اپنے خاندان
کی خواتین ارکان کے ساتھ بد سلوکی کرتا ہے۔"(بخاری)
تاہم، افسوس کی بات یہ ہے
کہ مسلمانوں کے ایک حصے نے خواتین کو ان کے ضروری اور بنیادی حقوق بشمول حق تعلیم اور آزادانہ طور پر اپنی پسند کا شوہر چننے کی آزادی اور ان حقوق کو بھی جوانہیں اسلام نے عطا کئے ہیں اور وہ بھی جو
اسلامی پردہ یا حجاب کے نام پر دیا ہے ، سے محروم کیا ہے۔ مسلمانوں کے اس طبقے نے عورتوں کو سب سے پہلے اسلامی پردے کے بارے میںمردانہ تشریحات
کے تحت ان کے چہروں کو ڈھانپ کر محروم کیا، پھر ان کے بنیادی حقوق چھین لئے، یہاں تک
کہ انہیں نماز پڑھنے سے بھی روک دیا گیا۔ موجودہ وقت میں زمین پر اسلام ایسا واحد مذہب ہے جو اپنی مردانہ
تشریحات کے سبب مومن عورتوں کومسجد میں آنے
سے روکتا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف مسلم خواتین
کو مسجد میں آنے کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ مسلمان مردوں کو ہدایت کی ہے کہ ، ' انہیں اپنی بیویوں کو مسجد میں نماز کے لئے جانے
سے نہیں روکنا چاہئے۔" (بخاری)۔ اس قسم
کےمردانہ نظریے کے نتیجے میں پردے کے بارے
میں مسخ شدہ اسلامی تعلیمات سامنے آئیں
اور جس کا شکار خود نازیہ جسیم بنیں
اوراس بات کی وکالت کی کہ پردہ (چہرہ ڈھانپنے کے لئے) عورتوں کو غلام بنانے کے لئے مردوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔بلاشبہ اس
بات نے مجھے یہ مختصر وضاحت لکھنے کی ترغیب
دی۔
اصل میں، چہرہ پردہ میں شامل
نہیں ہے، کیونکہ بڑی تعداد میں قرآنی آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ہیں جن سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں چہرہ
چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک
کا فرمان ہے: " آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور
اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بیشک اللہ ان کاموں
سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں، اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی)
اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و
زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے"
(24:30-31)۔
یہ آیت واضح طور پر اشارہ کرتی
ہے کہ چہرے کا پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ورنہ نظریں نیچی رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟ دوسری اور اہم بات کہ ، قرون وسطی اور جدید ادوار کے قرآن
پاک کے زیادہ تر مستند مبصرین نے اس آیت کے مندرجہ ذیل حصے " اور اپنی آرائش
و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے
" سے مراد چہرہ اور پائوں لیا ہے۔ ان
میں سے سب سے زیادہ ممتاز تشریح میں
"تفسیر جلالین،" جو دیوبند
کے نصاب میں شامل ہے اور دیوبند کے شبیر عثمانی
کے ذریعہ لکھی گئی "تفسیر عثمان" اس میں شامل ہے۔
پردہ کی اس تشریح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث سے بھی حمایت حاصل ہے۔ ان کے مطابق، "ایک مرتبہ ان
کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ان کے گھر
آئیں ، انہوں نے بہت مہین کپڑا پہنا ہوا تھا
جس سے ان کا جسم نظر آ رہا تھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو ، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے کا رخ دوسری جانب موڑ لیا اور فرمایا: "اے اسماء جب ایک عورت بالغ ہو جاتی ہے، تو
اسے سوائے چہرہ اور پاؤں کے اپنے جسم کو ڈھانپنا چاہئے۔"
مختصر یہ کہ، چہرے کو حجاب
سے ڈھاپنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ چوتھی صدی
میں اسلامی متن کی مردانہ تشریح کے بعد شامل کیا گیا جس نے خواتین کو ان کے اپنے فرائض کو انجام دینے سے روک دیا۔ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا معاشرہ ایک مشترکہ معاشرہ تھا جس میں مرد اور خواتین
اپنے معمول کے کام میں، میدان جنگ میں، مساجد میں نمازیں پڑھنے میں، تعلیم حاصل کرنے
میں اور تعلیم اور علم کے شعبے میں
اپنا قیمتی تعاون دینے میں پارٹنر
تھے۔ جب اسلام ہم سے چہرہ ڈھانپنے کا مطالبہ نہیں کرتا ہے، تو ہم اس کے بارے میں اس قدر
سخت کیوں ہیں؟
محمود عالم صدیقی، سینٹر آف
عریبک اینڈ افریقن اسٹڈیز، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی کےاسسٹنٹ پروفیسر (مہمان)
ہیں۔
URL
for English article: http://newageislam.com/islam,-women-and-feminism/mahmood-alam-siddiqui/the-veil-was-not-meant-for-the-face/d/7865
URL: