محمود عالم صدیقی
اسلام ایک مکمل ِضابطہ حیات
ہے جس میں اقتصادی نظام کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو جہاں ایک
طرف حلال کمائی کی ترغیب دیتا ہے تو وہیں دوسری طرف حرام کمائی سے روکتا بھی ہے۔
اسلام روئے زمین میں واحد مذہب ہے جس نے نہ صرف مساوات کی دعوت دی ہے بلکہ اقتصادی
برابری کے اصول وجوہات بھی مرتب کیے ہیں۔ اسلام نے مال ودولت پر کسی ایک قوم یا
طبقہ کی اجارہ داری قائم نہیں کی بلکہ مال کو تقسیم یعنی Circulation کے ذریعے غریب،
نادار اور مفلس لوگوں تک پہنچانے کے اصول وضوابطہ بھی نافذ کیے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ صدقہ،خیرات وغیرہ فرض ونفل قرار دیے ہیں۔تاکہ یہ
اموال مالدار وں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کردیے جائیں، جو کے مابین سماجی نا
ہمواری کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوں۔
اسلامی دور حکومت میں
اسلامی اقتصادی نظام کے لیے اسلام نے سب سے پہلے جو اہم قدم اٹھایا وہ بیت اللہ کی
تاسیس ہے۔ جہاں خراج، عشرہ،جزیہ،زکوٰۃ اورمال غنیمت وغیرہ جمع کیا جاتاتھا۔ پھر یہاں
سے یہ اموال قاضی، ولی، حاکم، عامل وغیرہ کی تنخواہ اور حاجت مندو ں کی ضروریات پر
خرچ کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ اسلام نے عملی طور پر اقتصادی برابری کے لیے قدم
اٹھاتے ہوئے ”ربا“ یعنی سود کو حرام قرار دیا۔ اسلام کایہ بہترین اقتصادی نظام دور
عباس میں فقہاء اور مسلم دانشوران کے ہاتھوں پروان چڑھا اور فقہ کی اکثر کتابوں ں
میں شراء کے اصول و ضوابط مرتب کیے گئے اور اسلامی معاشیات کی مختلف قسمیں جیسے
مضاریہ، مشارکہ،مراہحہ وغیرہ کی آبیاری کی گئی،تو وہیں ربا جیسی سماجی برائیوں سے
رکنے کی بھر پور تلقین کی گئی۔ مگر جب مادی انقلاب رونما ہوا جس کے نتیجے میں تمام
عالم اور سودی نظام کا رواج ہوا جس نظام نے مغربی بینک کاری کوپھلنے پھولنے میں
بہت اہم رول ادا کیا۔ ایسے وقت میں بعض مسلم دانشوران سامنے آئے،جنہوں نے اسلامی
اقتصادی نظام کی تشکیل نو کی۔ ان میں سے بعض نے مغربی بینک کے Interest یعنی منافع کو حرام قرار دیا تو وہیں کچھ نے اسے
حلال قرار دیا۔ یہ بحث مصر کی سر زمین پر زیادہ گرم رہی۔ کیونکہ مسلم ممالک کے بین
عصری وہ سرزمین ہے جہاں سب سے پہلے عصر حاضر میں علم کی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔جس نشاۃ
ثانیہ میں حاکم مصر محمد علی (1848۔1805) کی گراں مایہ خدمات ہیں تو وہیں رفاعہ
رافع طہطاوی (1873۔1838)،شیخ محمد افغانی (1897۔1838) شیخ محمد عبدہ(1905۔1849)،عبد الرحمن الکواکبی (1902۔1854)عبد الحمید بن بادیس المغربی (1940۔1889) قاسم امین (1908۔1863) شیخ رشید رضا (1935۔1865)وغیرہ کے نام بھی قابل
ذکر ہیں۔محمد عبدہپہلے عالم دین ہیں جنہوں نے بینک کے Interest یعنی منافع کو جائز ٹھہرایا او راسے ربا ماننے
سے انکار کردیا۔
مسلم مصلحین اور دانشوران
کی اقتصادی نظام کی تشکیل نو کے نتیجے میں 1963 میں مصر کے شہر Mit.Ghamr میں اسلامی اقتصادی
اصول پر مبنی ایک Interest Free Saving Bank کی بنیاد رکھی گئی۔
جس کی 1967 تک ملک بھر میں مزید نو شاخیں قائم ہوئیں۔ یہ واضح رہے کہ اپنے آپ کو انتہا
پسندی کے الزام سے دور رکھنے کے لیے اس بینک نے اپنے نام کے ساتھ اسلام کا لفظ نہیں
جوڑا کیونکہ یہ الزام اس بینک کے لیے مالی، واقتصادی نقصان کا سبب ہوسکتا
تھا۔چنانچہ یہ بینک مسلسل ترقی کرتارہا حالانکہ 1975 میں اس بینک کواسلامک ڈپولیمنٹ
بینکنگ میں مدغم کردیا گیا۔ جس بینک نے اسلامک ڈپولپمنٹ بینک گروپ یعنی IDBI کو فروغ دینے میں
اہم رول ادا کیا۔
اسلامک ڈپولیمنٹ بینک
گروپ ایک متعدد مالیاتی ترقیاتی ادارہ ہے جو پانچ یونٹوں پر مشتمل ہے۔پہلا یونٹ Islamic
Development Bankd (IDBI) ہے جسے جدہ میں دسمبر 1973 میں مسلم ممالک کے وزرائے مالیات کی
کانفرنس کی ایک قرار داد کے ذریعے منظوری دی گئی اور IDBI نے رسمی طور پر اپنا
کام 20اکتوبر 1975 سے شروع کیا۔ IDBI کااہم مقصد اسلامی،
اقتصادی کام کو موڈرن زمانے کے بینکنگ سسٹم کے ذریعے جو سود فری بینک کاری پر
مشتمل ہو۔فروغ دینا ہے۔ اس کے علاوہ IDBI کے ممبر ممالک وغیر
ممبر ممالک او رمسلم کمیونٹی کی سود فری نظام کے ذریعے اقتصادی و سماجی و تعلیمی
ترقی کرنا ہے۔اس طرح فقرو فاقہ کے خاتمہ کے لیے مثبت لائحہ عمل پیش کرنا بھی ہے۔
دوسرا یونٹ Islamic
Research and Training Instituto (IRTI) ہے۔ اس کی بنیاد 1981 میں اسلامی اقتصادیات و مالیات او راسلامی
بینک کاری کے موضوع پر معلومات ریسرچ اور ٹریننگ کی نشوونما کے مقصد سے یہ ادارہ
رکھی گئی تھی۔اس مقصد کے حصول کی غرض سے یہ ادارہ علاقائی،وطنی اور عالمی آرگنائزیشن
و اداروں کے اشتراک سے مختلف مضامین پر سیمینار،کانفرنس او رسمپوزیم،منعقد کرتا
ہے۔ اس طرح اس ادارے کایہ بھی کام ہے کہ حقیقی اور بنیادی ریسرچ کی نشر و اشاعت
کرے جو بینک کاری،معاشیات،اقتصادیات پر اسلامی شریعت کی تلبیق میں معاون ثابت ہو۔
اس کے علاوہ اس ادارے کا کام اسلامی بینک کے لیے ملازمین کو تیار کرنا بھی ہے۔
اسلامی بینک کاری و معاشیات سے متعلق جتنے بھی سیمینار سمپوزیم یہ ادارہ منعقد
کرتاہے ان میں پڑھے جانے والے مقالات کو اسلامی مالیات کی نشر واشاعت کے لیے اپنے
ششماہی رسالے میں شائع بھی کرتاہے۔
تیسرا یونٹ Islamic
Corporation for the Insurance of Investment and Export (ICIEC) ہے۔ اس کی بنیاد یکم
اگست 1994 میں رکھی گئی۔ یہ ادارہ تجارتی معاملات اور Investment
Contracts یعنی اشتماری معاہدہ کے ممبر وغیر ممبر ممالک کے درمیان وسیع پیمانے پر
پھیلانے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔اس غرض سے یہ ادارہ اسلامی قانون کی حدود میں
رہتے ہوئے ایکسپورٹ کریڈٹ انشورینس Export Credit
Insurance
اور رمی انشورینس کی خدمات پیش کرتا ہے تاکہ Payment ادا نہ کرنے کی صورت
میں جو پریشانی لاحق ہوسکتی ہے اس کا ازالہ ممکن ہو۔
چوتھا یونٹ Islamic
Corporation for the Development of the Private Sector (ICD) ہے۔ اس کی بنیاد1999 میں رکھی گئی۔ اس ادارے کا اہم مقصد پرائیویٹ
سیکٹر میں مواقع یعنی Oportunities کی معلومات حاصل کرنا ہے۔ جس سے مالی ترقی میں فائدہ کے امکانات
روشن ہوں۔ اس غرض سے یہ ادارہ مختلف مالی خدمات انجام دیتا ہے۔ جس میں سے ایک پرائیویٹ
سیکٹر میں اضافی جگہوں کو پرُکرنا ہے۔ اسی طرح اسے ادارے کا کام پرائیویٹ سیکٹر میں
اسلامی قانون کی پیروی کرتے ہوئے مالیات کی ترقی میں بھی اہم رول ادا کرتا ہے۔
پانچواں یونٹ Intomational
Islamic Trade Finance Corporation (ITEC) ہے۔ اس کی بنیاد 2007 میں رکھی گئی۔ اس ادارہ کا مقصد اسلامی
کانفرنس کے ممبرممالک کے درمیان اسلامی شریعت کے مالی وتجارتی نظام پر عمل کرتے
ہوئے باہمی تجارت و فروغ دینا ہے۔
مختصر یہ کہ IDB گروپ ایک منفرد و
مختلف المقاصد مالیاتی ترقیاتی ادارہ ہے جو شریعت کے مطابق مالیاتی پروگرام اور
اسکیم بناتاہے تاکہ ممبر و غیر ممبر ممالک اور مسلم کمیونٹی کی سودفری اقتصادی
نظام کے تحت ترقی ممکن ہوسکے۔ اس کے اہم کاموں میں اضافی وسائل کی ترقی کے ذریعے
فقرو فاقہ کو ختم کرنا،ممبرممالک کے درمیان اقتصادی تعاون،تجارت اور Investment یعنی اشتمار کو فروغ دینا ہے تاکہ اسلامی مالیات،اہتمامی
و اقتصادی ترقی کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کرسکے۔ اس کے علاوہ بینک اسلامی
سوسائٹی کی مدد کے لیے ریلیف فنڈبھی مہیا کرتاہے اور ریسرچ،اسلامی مالیات، اقتصادیات
اور ٹکنالوجی کے میدان میں مسلم طلباء کو مالی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔
IDB کا ہیڈ کواٹرسعودی عربیہ کے شہر جدہ میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ اس
کے چار علاقائی دفاتر ہیں۔ ان میں سے ایک Morocco یعنی مغرب کے شہر رباط میں واقع ہے۔ دوسرا ملیشیا
کے شہر کوالالامپور،تیسرا قزاقستان کے شہر الماتی Almaty میں اور چوتھا ڈکار Dakar میں واقع ہے۔ اس
اسلامی گروپ کی دفتری زبان عربی،انگریزی اور فرانسیسی ہے۔ IDB گروپ بہت تیزی سے
ترقی کررہا ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس کے 1975 میں 22ممالک کے ممبر
تھے۔ 2007 تک اس کے ممبروں کی تعداد 56 تک پہنچ چکی تھی۔ جس میں پاکستان اور بنگلہ
دیش بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی جڑیں ہندوستان میں بھی بہت تیزی سے پھیل رہی
ہیں۔
واضح رہے کہ مساجد و
مکاتب کے تعلیمی نظام نے اسلام کے ابتدائی زمانے میں اسلامی اقتصادیات کو پروان
چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ائمہ اربعہ اور دیگر حضرات اور ان کے قصذ اسی
نظام تعلیم کی پیداوار ہیں۔ جنہوں نے اسلامی معاشیات کو ایک نئی سمت عطا کی۔ یہ
سلسلہ یونہی چلتا رہا تاکہ چوتھی صدی کے نصف آخر میں نیساپور میں مدارس کا قیام
عمل میں آیا۔جو پچاس سال کے بعد سلجوقی سلطنت کے وزیر نظام الملک طوسی کے ہاتھوں
پانچویں صدی نصف کے آخر میں تمام عالم اسلام میں پھیل گیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ
ان مدارس میں جو فقہ ہا اسلامی معاشیات کی تعلیم اس وقت دی جاتی تھی وہ اس مسائل
پر مشتمل تھی جنہیں ائمہ اربعہ ودیگر اسلامی فقہا ء نے اپنے زمانے کی ضروریات کے پیش
نظر استنباط کیا تھا۔ جن کا اس وقت کے موجودہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ناہی
ان مسائل کو اس وقت کے موجودہ مسائل سے کسی طرح تطبیق دی جاتی تھی۔ اور اس جیسی دیگر
وجوہات کی وجہ سے عالم اسلام الہٰی تنزلی کا شکار ہوا اور یہ تنزلی کا دور تقریباً
پانچ صدی تک قائم رہا یہاں تک کہ مصر پر نپولین کے 1798 کے حملہ کے بعد سے علمی و
ادبی نشاۃ ثانیہ ہوئی۔
1798 کے بعد اسلامی دنیا میں علمی بیداری آنی شروع ہوئی۔ اس سلسلے
میں علمی عبور کو ختم کرنے میں اس وقت کے بڑے بڑے مصلحین نے نمایاں خدمات انجام دیں۔
ان میں رفاعہ رافع طہطاوی ہیں،جنہوں نے ”تخليص الإبريز في تلخيص باريز“ مرشد الامین للبنات والبنین“ جیسی کتابیں تصنیف فرمائیں۔ دوسرے جمال الدین افغانی اوران کا فکری
و علمی مدرسہ قابل ذکر ہے۔ جس مدرسہ کی اہم شخصیات میں شیخ محمد عبدہ
(1905۔1849)،عبدالرحمن انگواہی (1902۔1854) عبدالرحمن بن باویس المغربی
(1940۔1889)،قاسم امین (1908۔1863)وغیرہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑی شخصیت شیخ محمد
عبدہ کو ماناجاتاہے۔ شیخ محمد عبدہ موڈرن زمانے کے پہلے مصلح ہیں جنہوں نے اجتہادی
کا دروازہ کھولا اور فقہ اسلامی یا اسلامی معاشیات کو موجودہ دور کے تناظر میں
پڑھنے کی دعوت دی۔ا س ضمن میں ان کا وہ فتویٰ سب سے زیادہ قابل ذکر ہے جس کے بموجب
بینک کا Intorest یعنی منافع سود کے زمرد میں شامل نہیں ہے۔محمد
عبدہ اور ان کے شاگردوں کے ان روشن خیالات کی وجہ سے فکر اسلامی کی تکمیل نو ہوئی۔
اس تشکیل نو کے مطابق مدارس اسلامیہ بالخصوص جامعہ ازہر کانصاب تعلیم مرتب کیا گیا۔
ان حضرات کی ان اسلامی خدمات کی وجہ سے 1963 میں جو Mit-Ghamt میں سیونگ بینک
اسلامی اصول کی بنیاد پرقائم ہوا تھا آج وہ بینک ایک اسلامی بینک کی حیثیت سے تمام
عالم میں اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔ جس میں ہمارا ملک ہندوستان بھی شامل ہے۔
ہندوستان میں اسلامک بینکنگ
سسٹم کی آمد سے ہندوستانی مدارس اسلامیہ کی اہمیت ومقبولیت میں اضافہ ہونے کی امیدیں
پیدا ہورہی ہیں۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ کردینا نہایت ہی ضروری ہے کہ مسلم دور
حکومت میں قاضی، قاضی القضاۃ،منتظمین اور دیگر ملازمین انہی مدارس کی پیداوار
ہواکرتے تھے۔مگر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد سے پہلے 1862 میں اسلامک کرمنل لاء ختم
کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں قاضی اور قاضی القضاۃ کے منصب ختم کردیے گئے۔ اس سے
قبل فارسی زبان جو حکومت کی او رہندوستانی دانشوروں کی زبان تھی۔ 1837 میں ختم
کرکے اس کی جگہ انگلش اور دیگر ہندوستانی زبانوں کو سرکاری زبان قرار دے دیاگیا
تھا۔اس کے علاوہ برطانیہ نے مسلمانوں کو 1857 کی جنگ آزادی کا مجرم قرار دیتے ہوئے
ان کے لیے بالعموم اور علماء کے لیے بالخصوص سرکاری ملازمت کے دروازے بند کردیے۔ یہ
سلسلہ آزادی کے بعد سے آج تک قائم ہے او رمدارس اسلامیہ کو ان کے جائز حقوق سے
لگارتار محروم کیا جارہا ہے۔ جس میں کچھ حد تک مدارس بھی ذمہ دارہیں اور حکومت بھی۔
حکومت کے اس امتیازی سلوک کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت ریاستی
بورڈ کے تحت چلنے والے مدارس کے اساتذہ منتظمین کے ساتھ آج بھی امتیازی سلوک روا
رکھے ہوئے ہے۔ جنہیں اسکول کے اساتذہ کے مقابلے نہایت ہی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔
مختصراً یہ کہ مدارس
اسلامیہ ہندوستان میں قومی دھارا (main-stream) سے ہٹ کر زندگی
گزار رہے ہیں۔ ان کے فارغین کو بلاواسطہ سرکاری ملازمتیں نہیں ملتی۔ ایسے میں
اسلامی بینک کاری کی ہندوستان میں آمد مدارس کے طلباء کے لیے ایک خوش آئندبات ہے۔
کیونکہ یہ اسلامی بینک کاری طلبا ء کو ملازمتیں فراہم کرسکتی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ
ہندوستان کے مدارس 1857 کے بعد سے فقہ اور اسلامی معاشیات کی جو تعلیم دیتے آرہے ہیں
ان میں سے بیشتر مسائل کاموجودہ زمانے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جیسے آج بھی فقہ کی
کتابوں میں بہت سے ایسے مسائل پڑھائے جاتے ہیں جن کا تعلق عہدوسطی سے تھا۔ اس دور
میں وہ مسائل تقریباً ناپید ہوچکے ہیں۔بلکہ ان کی جگہ موجودہ زمانے کے دیگر مسائل
نے لے لی ہے۔ جو ایک خطرناک وحشی جانور کی طرح ہمارے سامنے موجود ہیں۔ لیکن آج کے
ہندوستانی علماء ان کا سامنا کرنے یا انہیں سلجھانے کی قابلیت نہیں رکھتے۔انہی
مسائل میں موجود ہ دور کی مغربی بینک کاری نظام کے مسائل ہیں جس کے متبادل کے طور
پر اسلامی بینکنگ سسٹم او رمعاشیات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
لہٰذا ایسے وقت میں مدارس
اسلامیہ اور مسلم دانشوران کی ذمہ داری ہے کہ سب سے پہلے اسلامی مالیات یا فقہ کی
تشکیل نوکریں۔پھر اس کے بعد اسی مناسبت سے مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں اصلاح
و ترمیم کریں تو مدارس اسلامیہ اسلامک بینک کاری کو ہندوستان میں پھیلا نے میں اہم
رول ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے طلبا ء کو اقتصادی اعتبار سے بھی مضبوط وتو بنا
سکتے ہیں۔
اسلامی معاشیات کی تعلیم
کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ عربی اول سے عالیہ رابعہ حمینی عالمیت تک
مدارس اسلامیہ کے نصاب میں اسلامی معاشیات کی نشو ونما موجودہ مغربی بینک کاری
نظام اور اس کے مصلحات اس کے ساتھ حساب اور انگریزی مضامین کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
یہ بات منکرات میں سے نہیں ہے بلکہ اسی نظام تعلیم کے تحت عرب ممالک میں جدید
اسلامک بینک کاری کی تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ عربی اول سے عالمیت تک کی
کلاسوں میں اسلامی بینک کاری کی تعلیمات کے بعد مدارس اپنے یہاں IDB گروپ کی یونٹ اسلامک
ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI) اور دیگر اسلامک ریسرچ
و ٹریننگ آرگنائزیشن کے اشتراک سے دوسالہ ڈپلومہ کا آغاز کریں۔جس میں مغربی اور
اسلامی معاشیات کی تعلیم دی جائے۔ تیسری یہ کہ بعض اسلامک ممالک جیسے ملیشیا وغیرہ
میں اسلامک بینک کاری کی تعلیم کا معقول انتظا م ہے وہیں مدارس اپنے طلبا ء کو بھیجیں۔
اس کے علاوہ اس مسلم یونیورسٹیوں میں جہاں اسلامک ڈپارٹمنٹ قائم ہیں، اسلامک معاشیات
پر مشتمل بیچلر و ڈپلومہ کورسس بھی شروع کیے جائیں او روہاں مدارس کے طلبا کا خیر
مقدم کیا جائے۔
حال ہی میں اسلامک ریسرچ
اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (IRTI) نے اسلامک فقہ اکیڈمی
یعنی IFA او رانسٹی ٹیوٹ آف آشیکٹیو اسٹڈیز یعنی IOS کے اشتراک سے
25۔26اپریل 2009 کو ایک دروازہ ورکشاپ بعنوان ”ہندوستانی مدارس میں اسلامی مالیات
و اقتصادیات کی تعلیم“ پر ہمدرد سینٹر جامعہ ہمدرد میں منعقد کیا۔ جس میں ہندوستانی
مدارس میں اسلامی مالیات و اقتصادیات اور اسلامی بینک کاری کی تعلیم سے متعلق چند
قرار دادیں منظور کی گئیں۔ان تجاویز کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے ایک کمیٹی بھی
تشکیل دی گئی ہے جس میں ڈاکٹر منظور عالم ڈاکٹر اوصاف احمد، مولانا خالد سیف اللہ
رحمانی،مولاناعتیق احمد بستوی اور جناب امین عثمانی کو شامل کیاگیا ہے۔ اب دیکھنایہ
ہے کہ ہندوستانی علماء اسلامی فقہ یا اسلامی معاشیات کی تشکیل نو کے بعد مدارس
اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں موجودہ اسلامی بینک کاری کے تناظر میں اصلاح و ترمیم کی
کیاصورتیں نکالتے ہیں؟ اگر مذکورہ کمیٹی اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اسلامی
بینک کاری کے تناظر میں اسلامی ومغربی بینک کاری کے نظام،حساب اور انگریزی جیسے
مضامین کو مدارس اسلامیہ کے نصاب کا حصہ قرار دیتی ہے تو یقینا یہ مدارس اسلامیہ
اور ان کے طلباء کے لیے ترقی کی طرف ایک مثبت قدم ہوگا۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/islamic-madrasas-islamic-banking-/d/1677