محبوب خان
25 جون 2012
(انگریزی سے ترجمہ : نیو ایج اسلام)
اسلامی انتہا پسندی کی موجودہ لہر ،ایک نظریہ کی شکل اختیار کر گئی ہے،جسے وہابیت کے طور پر جانا جاتا ۔ القاعدہ، سلفی ، طالبان اور دیگر انتہا پسند جماعتیں خودکش بم دھماکے کروا رہی ہیں، اور سیاسی بیانات جاری کرنے کے لئے معصوم شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں ۔ عراق، پاکستان اور دیگر مقامات پر وہ جماعتیں ہر اس شخص کو قتل کر رہی ہیں، جن کے بارے میں انہیں لگتا ہے کہ یہ ان کے خلاف، اپوزیشن کا ایک حصہ ہے ، خاص طور پر، صوفی اور اعتدال پسند شیعوں کو جو روایتی طور پر، امن سے محبت کرنے والے مسلمان ہیں۔
تصوف کا ایک جائزہ، موجودہ صورت حال پر کچھ روشنی ڈال سکتا ہے ۔ امیہ کے دور حکومت میں، جب مسلم معاشرے میں فرقہ بندی ، خونریزی اور تعصب زوروں پر تھے- نیک صحابہ کی ایک جماعت، اہل صفہّ کی طرح ،جو کہ (صفہّ) بینچوں پر بیٹھتے تھے ،اور وہ ، ان کی تارک الدنیا زندگی کے لئے مشہور تھے، شہروں کے سیاسی ماحول کی وجہ سے ،منتقل ہو کر دیہی علاقوں میں جانے کا فیصلہ کیا، تاکہ وہ خود کو اللہ اور اسلام کے لئے وقف کر سکیں ۔ وہ ابتدائی صوفی تھے لیکن انہوں نے خود کو ابھی تک صوفی نہیں کہا ۔ ان میں امام حسن بصری، رابعہ بصری، امام جعفر الصادق ، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام مالک،(رضی اللہ عنہم اجمعین) ہیں۔ وہ روایتی اسلام کے نظریہ سازبھی تھے، جیسا کہ درجہ میں بالا میں ابو حنیفہ کا ذکر کیا گیا ۔
ان لوگوں کی انتہائی قابل ذکر خصوصیات میں سے کچھ نے ، ان کے معاصروں میں، نسل یا مذہب سے قطع نظر، محبت، انسانیت اور عاجزی کا رویہ شامل کیا ،جو زاہدانہ ززدگی گذارتے ،اور اپنازیادہ وقت نماز، ذکر، (قرآن کی تلاوت، خدا کی تسبیح) اور مراقبے میں صرف کرتے ۔ اور وہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے ،ان کے مشہور خاندان، ان کےصحابہ اور ان کے درمیان اولیاء سےانتہائی محبت کرتے تھے ۔ ان سے عظیم روحانیت سیکھی اور ایک صوفی شیخ (یا فارسی / ہندوستانی زبانوں میں پیر) کو اپنی خیر خواہی دی ۔ اس طرح، وہ شہر کے لوگ کے برعکس جو ریشم پہنتے تھے ، موٹے اونی لباس پہنتے تھے ۔ اس شائستہ اور خاکسار لباس اور مستغرق اور متفکر عمل، کے بعد، جلد ہی، انہیں ان کا مخصوص نام، صوفی،دے دیا گیا، جوعربی میں تصوف یا انگریزی میں صوفی ازم ہے۔
تصوف امام ابو حامد الغزالی کی آمد کے ساتھ ہی ایک مروجہ سلامی معمول بن گیا۔ ان کے وسیع سفر، مراقبہ ، اور صوفیوں کے ساتھ روحانی تجربہ کے بعد، انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ صرف صوفی ہی صحیح اور محفوظ ترین راستے پر ہے، جو کہ اللہ کی طرف لے جاتا ہے، اور انسان کوایک حقیقی اسلامی زندگی گذارنے کی اجازت دیتا ہے۔ جب وہ واپس آئے، تو انہوں نے اپنی زندگی کو اپنی دریافت کو لکھنے اور راسخ الاعتقاد ،اور دانشورانہ زندگی گذارنے کے طریقوں کو مرتب کرنے کے لئے وقف کردیا ۔ انہوں نے نہ صرف اہل سنت والجماعت کے روایتی اسلام کی تائید کی ، بلکہ اس کو مضبوط کیا۔ ان کا اثر و رسوخ اتنا وسیع اور دیرپا تھا کہ اس دن تک یہ کہا جاتا ہے کہ ہم اب بھی غزالی کے دور میں ہے۔
اس طرح اسلامی زمینوں پر منگول کے حملے کے بعد، کلاسیکی اسلامی دور کے اختتام کے بعد بھی، تصوف نے اسلام کو، نجی اور عوامی دونوں شعبوں میں متاثرکیا ۔ یہ تاریخی حقیقت سے واضح ہے کہ، بعد کے اسلامی دنیا کے تین شاندار سلطنتوں کی ساخت تصوف ہی تھی، مغل ہندوستان، سفاوید فارس، اور ترکی، مشرق وسطی، اور یورپ میں عثمانی خلافت: ۔
اٹھارہویں صدی میں، اعتدال پسند اسلام میں وہابیت کے ذریعہ مداخلت کی گئی تھی ۔ نجد کے ایک عبد الوہاب نامی شخص نے ، جدید سعودی عرب میں اس بات کی تبلیغ شروع کی کہ اسلام کو، صدیوں سے تحریروں اور اسلامی علما کی، اسلام کی مختلف روایتی تشریح کے ذریعہ خواہ وہ سنی ہو یا شیعہ ، خراب کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ لوگوں اس زمانے میں، جو اخلاقی اور مذہبی غفلت کے لئے بدنام زمانہ تھے ، وہ غلط عقائد رکھتے تھے ۔ مثال کے طور پر، انہیں یہ یقین تھا کہ کچھ مخصوص کھجور کے درختوں میں مخفی طاقت ہے ، اور ان کی اسی جہالت کی بنا پر ، وہ ان کی عبادت کرتے تھے۔ انہوں نے اسے،اولیاء کی تعظیم کے صوفی معمول سے منسلک کر دیا ۔
لہٰذا، عبد الوہاب نے اصلاحات کی تحریک کا آغاز کیا، بیکار چیز کو زائل کرتے ہوئے اچھی چیز کو برباد کر دینےکی مثل ، اس نے اور ان کے پیروکاروں نے نہ صرف توہم پرست نجد کے معمولات کی بیخ کنی کرنی چاہی، بلکہ،انہوں نے مکمل طور پر تصوف کو بھی ختم کرنا چاہا۔ انہوں نے صوفی اور شیعہ پرشرک(ایک سے زیادہ خدا ماننا یا لوگوں کے ساتھ خدا کو منسلک کرنا ) کے ارتکاب کرنے کا الزام لگایا - اسلام میں سب سے خراب گناہ، اور اسی وجہ سے انہوں نے انہیں مرتد سمجھا۔ انہوں نے تمام صوفی، شیعہ، اور غیر مسلموں کے خلاف ، پوری طاقت کے ساتھ، جنگ کا اعلان کر دیا، جب تک کہ وہ ان کے عقائد کو قبول نہ کر لیں۔ ہزاروں معصوم روایتی شیعہ اور سنی، دونوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا، ان کے گاؤں جلا دئے گئے ، اور خوف زدہ مسلمان غارت گر وہابیوں سے فرار ہو گئے۔ خلافت عثمانیہ کو ان کے قتل عام، اور متعلقہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے فوج بھیجنا تھا۔ وہابیت نے یہ بھی سوچا کہ عثمانی خلافت غیر مومن ہے، اس لئے کہ وہ تصوف پر عمل کرتے ہیں ۔ تاہم، خلیفہ بالآخر ان پر غلبہ حاصل کرنے کے قابل تھا لیکن ہزاروں افراد کی ہلاکت، ان کی مساجد، قبروں اور کنبوں کی غارت گری سے پہلے نہیں ۔ ان کے مظالم کی تفصیل عثمانی حکام اور جرنیلوں کے ذریعہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اکثر مسلم علما اور عبد الوہاب کے والد اور بیٹے سمیت عام لوگوں نے اس کی تعلیمات کو مسترد کر دیا ۔ یہ وہابیوں کے ذریعہ ہر اس عالم کو جان سے مارنے کی وجہ بنی جو ان کے ساتھ اختلاف کرے۔ صرف ایک ہی تشریح بچی، اور وہ ان کی ہے۔ ان سے پہلے بارہویں صدی کے دوران کی تمام روایتی تحریروں کو جلا دیا گیا تھا۔
عثمانی مداخلت کی بدولت، وہابی محدود جماعت رہی، لیکن جلد ہی انہوں نے با ہمی مناکحت کے ذریعے آل سعود خاندان کی طرح، طاقتور قبائل کے ساتھ اتحاد بنا لیا۔ عثمانی خلافت کے زوال کے بعد، السعود نے نجد اور حجاز پر قبضہ کر لیا جہاں مکہ اور مدینہ واقع ہے، اور جہاں ابھی سعودی عرب قائم ہے۔ وہابیت کو سعودی عرب میں سرکاری منظوری مل گئی ۔
وقت گزرنے کے ساتھ اور خاص طور پر گزشتہ صدی سے، بری شہرت حاصل کرنے کی وجہ سے، وہابیوں نے ان کی تنظیموں کو، اپنے درپردہ ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے، مختلف نام دیا ہے ۔ وہابیوں کے ذریعہ اختیار کردہ نئے نام، سلفی، محدثون، اہل حدیث، وغیرہ ہیں، قانونی جواز حاصل کرنے اور دنیا بھر میں تنظیمیں قائم کرنے کے لئے۔ وہ سعودی مراعات حاصل کرتے ہیں۔
ان نظریات کے حامیوں کو لفظ پرست کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ اسلام کی لفظی تشریح کر تے ہیں،اور اسلام اور شریعت کی مناسب اور روایتی تشریح کی، غیر مناسب اور اس سے متصادم تشریح پیش کرتے ہیں ۔ روایتی اسلام، جو امام ابو حنیفہ سے شروع ہوا، اس بات پر زور دیتا ہے کہ صرف جانا مانا اسلامی قانون دان، اور علماء کرام کا اجماع ہی قرآن اور اسلام کی تشریح کر سکتا ہے۔ لیکن جماعت اسلامی اور اخوان المسلمون کے سید قطب اور ابو الاعلی مودودی جیسے لفظ پرست رہنما، ان تحریکوں کے مذہبی علماء بن گئے ۔
جبکہ القاعدہ اور طالبان ان کے قول وعمل میں صاف طور پر بنیاد پرست ہیں، جو لفظ پرست کی طرح سخت نہیں ، لیکن ان کے مقصد میں بنیادی طور پر ایک ہی ہیں۔ جب ٹھوکر لگتی ہے، وہ نام نہاد معتدل اسلام پسند کارنامے انجام دیں گے - کوئی پابندی نہیں ہوگی ۔ حالیہ تاریخ چاہے وہ 1970 کا بنگلہ دیش یا 1980 شام اور مصر ہو ،اس بات کو ثابت کرتی ہے۔
اب، کس طرح تصوف، دہشت گردی کے شکار اسلامی دنیا میں، اعتدال پسند انتہا پسندی کی مدد کر سکتے ہیں؟ اگر ہم اسلامی دنیا کے سیاسی منظر نامے کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہم ایک جاری طرز عمل محسوس کر سکتے ہیں: دنیا کے تمام تشدد اور دہشت گردی میں، عملی صوفی واضح طور پر غائب ہیں۔ یہ جواز، تصوف کی حوصلہ افزائی اور صوفی اداروں کی کفالت کرنے کے لئے کافی ہے۔
لفظ پرستوں کے برعکس- صوفیاء اسلام کے روحانی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں یقین کرتے ہوئے اور شریعت پر عمل کرتے ہوئے ،وہ ان کی انانیت کو کنٹرول کرکے دل کی صفائی پر کام کرتے ہیں۔ ایک استاد کی پیروی کرنا، اور ذکر (مشتغرق ہو کر اللہ کا نام جپنا) جیسے مختلف روحانی معمولات پر عمل کرناصوفیاء کی شناخت ہے۔ اسلامی کی پوری تاریخ میں، صوفیوں نے لاکھوں بادشاہوں اور فقیروں کو اسلام کا راستہ دکھایا ، جیسا کہ انہوں نے اسلام کا رودار اور جامع پیغام پہنچا کر ، بنگلہ دیش میں کیا ۔ نقشبندی جیسے کچھ صوفی سلسلوں نے اسلامی نقطہ نظر کو اسلام اور شریعت کے مطابق لانے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، جیسا کہ مغل ہندوستان تھا ۔
بنگلہ دیش میں۔ تصوف کے معمولات کی بدولت مذہبی رواداری کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔ اب اگر ان لفظ پرستوں کو پنپنے کی اجازت دی جاتی ہے، تو یہ روایت درہم بر ہم ہو جائے گی۔ جیسا کہ ہم پاکستان میں اس طرح کی جماعتوں کو، سیاست میں شریک ہونے کی اجازت دینے ایک نتیجہ کے طور پر دھماکے دیکھتے ہیں۔ یہ انتباہ کے لئے کافی ہے۔ اظہار رائے کی آزادی ایک چیز ہے، لیکن ممکنہ انتہا پسند نظریات کو جڑیں پکڑنے کے لئے اجازت دینا ایک الگ بات ہے۔ بنگلہ دیش کے تصوف کی طویل روایت میں مذہبی انتہا پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر ایک مرتبہ صوفی مخالف نظریات بنگلہ دیش کے معاشرے میں سرایت کر گیا، تو یہ لہر پرسکون اور برد بار اسلام پر، غالب آ جائے گی ،اور یہ زمین دہشت گردی کی ایک تماشا گا بن جائے گی ۔ اس انتباہ پر فوری طور پر توجہ دی جانی چاہئے،اس معاملے کو سنگین ہونے سے پہلے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے۔
محبوب خان بنگلہ دیشی نژاد ہیں اور امریکہ میں رہتے ہیں۔ وہ ایک انجینئر اور ریاضی داں ہیں، اور اسلام پر تحقیق کر رہے ہیں۔
ماخذ: http://www.thefinancialexpress-bd.com/more.php?news_id=134247&date=2012-06-25
URL https://newageislam.com/islamic-ideology/sufism-antidote-islamic-extremism/d/7765
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/sufism-antidote-islamic-extremism-/d/13096