ارشد عالم،
نیو ایج اسلام
28 اکتوبر 2022
ایسا لگتا
ہے کہ حکومت کے پاس ان اداروں کے حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے۔
اہم نکات:
· اب تک پورے یوپی میں
7000 غیر تسلیم شدہ مدارس کی اطلاعات ہیں
· اتنی کثیر تعداد میں
مدارس کے پیچھے نظریاتی اور افسر شاہی وجوہات ہیں۔
· زیادہ اہم سوال یہ
ہے کہ کیا اس طرح کے سروے کے پیچھے کوئی بڑا مقصد ہے؟
· حکومت کہتی ہے کہ وہ
مدارس کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتی ہے لیکن یہ نہیں بتاتی کہ مرکزی دھارے میں لانے
سے ان کی مراد کیا ہے۔
· یہ ایڈہاک ازم کا ہی
ایک اور عمل معلوم ہوتا ہے جس کا فائدہ صرف مذہبی پولرائزیشن کی سیاست کو ہوگا۔
------
کچھ ہفتے پہلے، اتر پردیش کے وزیر
اعلیٰ نے حکم دیا کہ ریاست کے تمام مدارس کا سروے کیا جائے۔ ضلع مجسٹریٹ کو سروے کا
انچارج بنایا گیا جس کی معاونت اقلیتی امور اور محکمہ تعلیم کے افسران کریں گے۔ اگر
خبروں کو صحیح مانا جائے تو وہ سروے اب ختم ہو چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ڈیٹا نومبر
میں کسی وقت دستیاب کر دیا جائے گا۔ میڈیا نے سنسنی خیز طور پر یہ اطلاع دی کہ اتر
پردیش میں تقریباً 7000 غیر تسلیم شدہ مدارس ہیں۔ انہوں نے اس معاملے کو اس طرح رپورٹ
کیا گویا یہ تمام 7000 ادارے غیر قانونی طور پر چل رہے ہوں، حالانکہ یہ حقیقت سے بعید
ہے۔ انتظامی کنٹرول اور اختیار کے لحاظ سے پورے ہندوستان میں مختلف قسم کے مدارس ہیں۔
اس معاملے میں غیر تسلیم شدہ ہونے کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ مدارس اتر پردیش کے مدرسہ
بورڈ میں رجسٹرڈ نہیں ہیں، حالانکہ ان کا رجسٹرڈ ادارہ ہونا ضروری ہے۔ غیر تسلیم شدہ
مدرسہ ہونے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ اسے ریاست سے مراعات نہیں ملتی ہیں، مثلاً سائنس/ریاضی
کے اساتذہ کی تنخواہ اور تعمیری امداد وغیرہ۔ مزید، اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اداروں
کے نصاب کی جانچ پڑتال کو ریاستی حکومت نہیں کرے گی۔ اور یہ ادارے اپنی پسند کے مضامین
پڑھانے اور جس طرح چاہیں تعلیم دینے کے لیے آزاد ہوں گے۔ مختصر یہ کہ ان مدارس پر حکومت
کی کوئی نگرانی نہیں ہے۔
سات ہزار ایک کافی بڑی تعداد ہے۔
اتنے سارے مدارس کے غیر رجسٹرڈ/غیر تسلیم شدہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
2011 سے، جب مایاوتی وزیر اعلیٰ تھیں، یوپی مدرسہ بورڈ نے نئے مدارس کو تسلیم کرنا
بند کر دیا ہے۔ یہی پالیسی اکھلیش یادو کے دور حکومت میں 2017 تک بھی جاری رہی۔ اس
لیے یہ فطری بات ہے کہ ریاست کے وہ تمام مدارس جو 2011 کے بعد سے قائم ہوئے ہیں غیر
تسلیم شدہ ہوں گے۔ مزید برآں، تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ جب سے یوگی حکومت اقتدار
میں آئی ہے، مدارس کے منتظمین کے اندر ان کی نیت کو لے کر ایک خاص بے چینی پائی جاتی
ہے۔ جس کے نتیجے میں وہ خود ریاست سے کسی قسم کی کوئی الحاق نہیں چاہتے۔
File
Photo
-----
لیکن اس کی ایک نظریاتی وجہ بھی
ہے جس کی وضاحت دیوبند مدرسہ کے ایک اہم بیان میں کر دی گئی ہے۔ اس مدرسہ کا ایک اصول
یہ تھا کہ ادارہ حکومت سے کسی قسم کی مالی یا دوسری امداد حاصل کرنے سے باز رہے۔ وجہ
یہ ہے کہ چونکہ مدرسہ بنیادی طور پر دینی تعلیم دینے کے لیے ہے۔ اس لیے اس میں کسی
بھی غیر اسلامی ذریعہ سے پیسہ لینا قابلِ جرم ہوگا۔ دیوبند نے نہ صرف استعماری حکومت
بلکہ آزادی کے بعد حکومت ہند سے بھی امداد حاصل کرنے سے گریز کیا۔ ایسے بہت سے مدارس
ہیں جو دیوبند کے اس نقش قدم کی پیروی کرتے ہیں، خاص طور پر مغربی یوپی میں، اور اس
لیے وہ نظریاتی طور پر کسی بھی طرح سے ریاست کے قریب ہونے سے محتاط رہیں گے۔ ایک مضبوط
وجہ یہ ہے کہ حکومت مدارس کی جانچ پڑتال اور آڈیٹنگ کے بعد ہی کوئی بھی امداد دیتی
ہے۔ چونکہ زیادہ تر مدارس نجی جاگیر کے طور پر چلائے جاتے ہیں، اس لیے کوئی بھی اپنا
کنٹرول اور اختیار ریاست کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔
اصل سوال یہ نہیں ہے کہ کتنے مدارس
غیر تسلیم شدہ ہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتی
ہے۔ ظاہر ہے، مقصد ان مدارس کے اندر تعلیم کے معیار کو بلند کرنا ہے۔ دانش آزاد انصاری،
جو یوپی کابینہ میں واحد مسلم وزیر ہیں، ان کی یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مدارس کو مرکزی
دھارے میں لانا، انہیں سرکاری اسکولوں کے برابر کرنا ہے۔ وہ شاید درست کہہ رہے ہیں
کہ مسلمان موجودہ حکومت کے ارادے پر حد سے زیادہ ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں۔ سروے کے
سوالات پر ایک نظر ڈالنے سے ہی ہمیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حکومت بنیادی طور پر ان
مدارس کے مختلف پہلوؤں پر ڈیٹا اکٹھا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے، جس میں یقیناً ان کی
فنڈنگ کے ذرائع بھی شامل ہیں۔ کسی بھی حکومت کی تنقید محض اس لیے نہیں کی جا سکتی کہ
وہ کسی مذہبی یا تعلیمی ادارے سے ایسے سوالات کر رہی ہے۔ مسلمانوں کو، صرف اس ملک کے
شہری ہونے کی وجہ سے، ایک برسر اقتدار حکومت کو یہ معلومات فراہم کرنے میں کوئی عار
نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، کیا مدارس خود ان معلومات کو محفوظ رکھتے ہیں، یہ ایک کھلا
سوال ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر ادارے قوم کے عطیات سے ہی چلتے ہیں جس میں ریکارڈ
رکھنے کے معاملے میں بہت کم شفافیت ہوتی ہے۔
لیکن کسی کو اس بات پر زیادہ یقین
نہیں ہے کہ آیا حکومت اپنا من بنا چکی ہے کہ وہ ان مدارس کو کس طرح مرکزی دھارے میں
لانا چاہتی ہے۔ اس تناظر میں مرکزی دھارے سے مراد کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ
ان مدارس کے نصاب میں جدید مضامین کو شامل کیا جائے؟ کیا حکومت مدارس کی تعلیم کے لیے
ایسے وسائل مہیاء کرنے کو تیار ہے، اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ وہ اقلیت مخالف رویوں
کا مظاہرہ کرتی ہے؟ اس کے علاوہ، یہ سابقہ کانگریس حکومت کے ذریعہ چلائے گئے جدید کاری
پروگرام سے کس طرح مختلف ہوگا؟ اور اگر ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو پھر اس مدرسہ
سروے کا مقصد کیا ہے؟
مزید یہ کہ کیا انہوں نے یہ کبھی
سوچا ہے کہ مسلم برادری اس پر کیا ردعمل ظاہر کرے گی اور وہ اس ردعمل سے کیسے نمٹیں
گے؟ کانگریس حکومت نے ایک آل انڈیا مدرسہ بورڈ کے قیام کی تجویز پیش کی تھی جس سے الحاق
کے مسائل حل ہو جاتے۔ تاہم، علمائے کرام کا ردعمل اس قدر شدید تھا کہ اس تجویز کو فوراً
ہی موقوف کر دیا گیا۔ آخر کار، ان میں سے زیادہ تر مدارس خاص طور پر فرقہ وارانہ نصاب
پڑھانے کے لیے بنائے گئے ہیں اور انہیں جدید علوم کی تعلیم دینے میں کوئی دلچسپی نہیں
ہے۔ حکومت دیوبندی اور بریلوی جیسے متحارب دھڑوں کو متحد ہونے کی تجویز کیسے پیش کر
رہی ہے؟ یہ کچھ ایسے سوالات ہیں جو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا حکومت نے واقعی
اس مسئلے پر غور و فکر کیا ہے یا محض یہ ایک اور سیاسی چال ہے؟
لیکن فرض کریں کہ مدارس کو مرکزی
دھارے میں لانے پر سبھی متفق ہو چکے ہیں۔ پھر کیا؟ کیا ہم طلباء کو بیک وقت اسلامی
اور سیکولر طرح کے مضامین پڑھائیں گے؟ کیا اس کا تعلیمی اعتبار سے کوئی معنی بنتا ہے؟
قرآن کے درس میں انہیں یہ بتایا جائے گا کہ سورج ہر شام ایک گندے تالاب میں ڈوب جاتا
ہے جبکہ سائنس کے درس میں انہیں کچھ اور بتایا جائے گا۔ وہ دینیات اور تاریخ میں فرق
کیسے برقرار رکھیں گے؟ اس سے شاید ہمارے وزیر اعظم کی خواہش کے مطابق ایک ماڈل تیار
ہو جائے گا: ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کمپیوٹر۔ لیکن کیا یہی ہر مسئلے کی جڑ
نہیں ہے؟ قرآن اور کمپیوٹر کے اس امتزاج کی سب سے بڑی مثال اسامہ بن لادن تھا۔ کیا
ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس کی تقلید کریں؟ یا کیا ہمیں انہیں ایسی تعلیم نہیں دینی
چاہئے جو انہیں سائنس اور آرٹ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دے اور وہ مذہبی
عقیدوں سے کم از کم متاثر ہوں؟
مسلمانوں کے ردعمل کے بارے میں
جتنا کم کہا جائے اتنا ہی بہتر ہے۔ مسٹر اویسی نے اس سروے کو منی این آر سی کہا ہے،
محض اس لیے کہ مدارس سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ گویا ان اداروں کی اپنی خودمختاری
ہے اور یہ ملک کے قانون سے بالاتر ہیں۔ بدقسمتی سے، مسلمانوں کو وہ نقصان نظر نہیں
آتا جو مدرسہ کی تعلیم سے ہوتا ہے۔ اگر اسے تعلیم مانا جائے تب۔ ایسے کسی بھی تعلیمی
نظام سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جس میں بچوں کو یہ سیکھایا جائے کہ زمین مسطح ہے۔
جو نظام اپنے بچوں کو قوم و دنیا کا شعور نہ دے اس سے بھلا کیا حاصل ہو سکتا ہے؟ یقیناً
مسٹر اویسی جیسے لوگ برطانیہ میں قانون کی ڈگریاں حاصل کر سکتے ہیں لیکن مدرسوں میں
پڑھنے والے غریب مسلمانوں کا خیال کون رکھتا ہے۔ انہیں صرف مسلم رہنماؤں کے سیاسی کیریئر
کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے۔
English
Article: What Does the Uttar Pradesh Madrasa Survey Want to
Achieve?
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism