سہیل ارشد، نیو ایج اسلام
2 مئی 2025
ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے مدرسوں سے مولویوں کے ہاتھوں دین کے ننھے اور معصوم طلبہ کی دلخراش پٹائی کے واقعات اکثر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے عام ہونے کے بعد اب فیس بک اور یوٹیوب پر بھی ان واقعات کی ویڈیو پوسٹ کی جاتی ہے جن سے ان دینی اساتذہ کی سنگدلی اور شقی القلبی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان واقعات کو دیکھ کر شیطان بھی شرماجاتا ہے اور ناظرین بیچین ہوجاتے ہیں۔
ہندوستان کے مغربی بنگال کے ایک مدرسے سےبھی معصوم طلبہ پر ایک ٹیچر کے ظلم وستم کی خبر سامنے آئی ہے۔ ضلع چوبیس پرگنہ کے دے گنگا کے ایک مدرسے سے فرار ہونے والے تین بارہ برس کے طلبہ نے پولیس کو اپنی آپ بیتی سنائی۔ یہ تینوں طلبہ کلکتہ کے سیالدہ ریلوے اسٹیشن پر گھومتے ہوئے ریلوے پولیس کی نظر میں آئے۔ پولیس نے انہیں حراست میں لے کر جب ان سے پوچھ تاچھ کی تو انہوں نے مدرسہ میں ایک ٹیچر کے ہاتھوں ہونے والے ظلم و ستم۔ کی داستان سنائی۔ اس ٹیچر کو تینوں طلبہ حضور کہتے تھے۔
تینوں طلبہ کے مطانق ان کے حضور انہیں چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بہت بے رحمی سے پیٹتے تھے اور سخت سزائیں دیتے تھے۔ روز روز کے ظلم سے تنگ آکر ان تینوں نے مدرسے سے فرار ہوکر کسی دوسرے شہر چلے جانے کا فیصلہ لیا اور ایک دن منہ اندھیرے کسی طرح مدرسے سے نکل گئے اور سیالدہ ریلوے اسٹیشن آگئے۔ چونکہ کم عمری کی وجہ سے انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے اور کس شہر کی ٹرین پکڑنی ہے اس لئے وہ تذبذب کی حالت میں ادھر سے ادھر گھوم رہے تھے۔ انہیں اس طرح گھومتے دیکھ کر ریلوے پولیس کو ان پر شک ہوا اور اس طرح ان کی کہانی دنیا کے سامنے آئی۔
ان تینوں طلبہ کی کہانی کوئی استثنائی کہانی نہیں ہے بلکہ اس طرح کی کہانیاں اس سے قبل بھی اخبارات اور سوشل میڈیا پر آچکی ہیں جن سے یہ پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ چھوٹے چھوٹے غیر منظور شدہ مدرسوں میں بچوں کے ساتھ سزا کے طور پر مارپیٹ کرنا عام بات ہے ۔ والدین بھی اس بات کو مدرسے کے تعلیمی نظام کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرچکے ہیں اور اس طرح کے واقعات سامنے آنے کے باوجود احتجاج نہیں کرتے۔ ان چھوٹے اور غیر منظرشدہ مدرسوں میں غریب گھروں کے طلبہ پڑھتے ہیں۔ ان کےوالدین غریب اور زیادہ تر کم خواندہ ہوتے ہیں اس لئے وہ بچوں کے حقوق اور ان سے متعلق قوانین سے واقف نہیں ہوتے۔ مدرسوں میں پڑھنے والے بہت سارے بچے یتیم بھی ہوتے ہیں
بچوں کے ساتھ مدرسوں میں سنگدلی سے مارپیٹ کے واقعات صرف ہندوستان ہی نہیں بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی عام طور پر رونما ہوتے ہیں اور مدرسوں سے بچوں کے فرار ہونے کی خبریں بھی آتی ہیں۔ اور یہ سب سیکولر اسکولوں میں نہیں بلکہ دینی تعلیم کےمراکز مدرسوں میں ہوتا ہے۔ اسلام میں بچوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ کئی احادیث میں بچوں کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ دینی تعلیم کے ان مراکز میں ہی بچوں کے ساتھ نہ صرف سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے بلکہ ان کے ساتھ مارپیٹ بھی کی جاتی ہے۔ بعض اوقات تو ان کو اتنی بے رحمی سے زدوکوب کیا جاتا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی ویڈیو دیھ کر ناظرین کا دل دہل جاتا ہے۔ انہیں دوسرے طلبہ کے سامنے ہی بے رحمی سے زدوکوب کیا جاتا ہے۔اس طرح بچپن سے ہی مدرسوں کے طلبہ کو شقی القلب بنایا جاتا ہے اور وہ مارپیٹ کو تعلیم۔اور زندگی کا ایک حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔
مدرسوں میں کم سن طلبہ کے ساتھ اس غیر شرعی سلوک اور اتنی سنگدلی کا کوئی شرعی جواز نہیں لیکن ایک اخبار میں کسی مدرسے کے مولوی کا ایک بیان پڑھ کر حیرت بھی ہوئی تھی اور بے حد افسوس بھی ہوا تھا ۔ اس مولوی نے بچوں کو بے رحمی سے پیٹنے کا یہ جواز دیا تھا کہ شیطان بچوں کو تعلیم میں دلچسپی نہیں لینے دیتا اور اس کی وجہ سے ہی بچے پڑھنے میں دل نہیں لگاتے اور سبق یاد نہیں کرتے ہیں ۔ وہ شیطان کی وجہ سے ہی دوسری شرارتیں کرتے ہیں ۔ اس لئے بچوں کو نہیں اس کے اندر کے شیطان کو پیٹا جاتا ہے۔ اس مولوی کے اس بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ دراصل۔ان جیسے ٹیچروں کو ہی شیطان نے یہ تھیوری سمجھائی ہے تاکہ اس بنا پر وہ بچوں کے ساتھ سخت رویہ اپنائیں اور ان کے ساتھ سنگدلی کے ساتھ مارپیٹ کریں اور اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دیں اور رسول ﷺ کی ناراضی مول لیں ۔۔دراصل ان جیسے ٹیچروں کے اندر سے ہی ایسے شیطانی نظریات کو نکالنے کی ضرورت ہے جن کا جواز نہ قرآن میں ہے اور نہ حدیث میں۔
اب پوری دنیا میں اسکولوں میں طلبہ کے ساتھ مارپیٹ کرنا ممنوع قرار دیا جاچکا ہے ۔ لیکن مدرسوں میں اب بھی بچوں کے ساتھ مارپیٹ کو تعلیمی نظام کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے اکثر بچے مدرسے کی تعلیم چھوڑ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے فرار ہوکر اس لئے گھر نہیں جاتے کہ والدین یا سرپرست انہیں دوبارہ مدرسے میں پہنچادیں گے اور حضور سے یہ کہہ کر چلے آئیں گے کہ حضور اس کی چمڑی آپ رکھ لیجئے اور ہڈی۔مجھے دے دیجئے۔ جس معاشرے میں بچوں کے تعلق سے والدین اور اساتذہ کا یہ رویہ ہو کہ بچوں کو صرف چمڑی اور ہڈیوں کا مرکب سمجھا جاتا ہو ان کے دلی جذبات ، نفسیات اور تکلیف کا خیال کون رکھے گا۔ مدرسوں کے ارباب حل وعقد کو چاہئے کہ بچوں کے ساتھ مارپیٹ کو یکسر ممنوع قرار دیں اور بچوں کے ساتھ شفقت اور محبت کے نبوی طریقے کو مدرسوں میں نافذ کریں۔
---------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/madrasa-maulvis-ruthless-children/d/135403
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism