ایم خان
پاکستان کا المیہ صرف یہی
نہیں ہے کہ دہشت گرد تنظیموں نے ہر طرف سےاس ملک کو گھیر رکھا ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ
یہ ہے کہ سماجی سطح پر مذہبی انتہا پسندی کچھ
اس طور پر پھیل چکی ہے کہ پاکستانی معاشرے سےرواداری کا عنصر غائب ہی ہوتا جارہا ہے۔
اس کا لازمی نتیجہ یہ سامنے آرہا ہے کے لاقانونیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ گویا اس ملک
میں لاقانونیت ہی اصل قانون بن کر رہ گئی ہے۔ حال ہی میں اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنے
ایک اداریے میں بہت سخت لفظوں میں اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ دہشت گرد پوری آزادی
سے جس طرح سرگرم ہیں اور اپنی مرضی سےجہاں چاہتے ہیں حملہ کرتے ہیں اس کی بنیادی وجہ
یہ ہےکہ بیشتر دہشت گرد تنظیموں کو خود پاکستانی فوج نے قائم کیا اور پروان چڑھا یا
ہے۔ آج بھی ان کی پشت پناہی فوج ہی کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو قانون کی
گرفت میں آنے کا کوئی خوف ہی نہیں ہے۔ اخبار ڈیلی ٹائمز نے اپنا اداریہ اس پس منظر
میں لکھا تھا کہ انٹلی جنس ایجنسیوں کو یہ خبر ملی ہے کہ ممنوعہ دہشت گرد تنظیموں نے پابندی عائد کئے جانے کے بعد نئے
ناموں سے بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ کھولے ہیں اورانہیں پاکستانی او رغیر ممالک سے فنڈ
مہیا کرایا جارہا ہے ۔ ڈیلی ٹائمز نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ان تنظیموں پر
پابندی عائد کی گئی ہے یا یہ محض ایک دکھاوا ہے؟ مثلاً لشکر طیبہ نے اپنا نام جماعت
الدعوۃ رکھ لیا ہے لیکن اس کی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
اسی طرح سپاہ صحابہ پاکستان کا
نیا نام اہل سنت و الجماعت ہے لیکن اس کی انتہا پسندانہ سرگرمیاں ویسی ہی ہیں جیسے
پہلے تھی۔ ایک طرف حافظ سعید نے دوسری دہشت گرد تنظیموں کے اشتراک سے ہندوستان کے خلاف زہر افشانی کے لیے ایک محاذ
کھول رکھا ہے تو دوسری طرف سپاہ صحابہ اورلشکرجھنگوی جیسی مسلکی انتہا پسندی تنظیموں
نے شیعہ مسلمانوں کے خلاف ایک مہم سی چھیڑ رکھی ہے۔یہ تنظیمیں کھلم کھلا یہ اعلان کرتی
ہے کہ وہ ایک شیعہ کو بھی پاکستان میں رہنے نہیں دینگے ۔ حالیہ مہینوں میں بلوچستان
کے ہزار انسلی کے شیعوں کو چن چن کر ہلاک کیا گیا۔ کراچی سمیت پورے پاکستان میں شیعہ
مخالف مہم تیز ہوگئی ہے ۔ ایک رجحان یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ شیعہ فرقہ کے ڈاکٹروں
،انجینئر وں اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو بطور خاص نشانہ بنایا جارہا
ہے۔ چند برس پہلے بھی شیعوں کو اسی انداز سے مارا جارہا ہے جس کے نتیجہ میں متعدد مشہور
ڈاکٹروں نے پاکستان کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا ہے۔
ان تمام سرگرمیوں سے قطع نظر
سیاسی پارٹیاں دہشت اور لاقانونیت پھیلانے والے حلقوں کے خلاف ایک لفظ بھی بولنا نہیں
چاہتیں ۔سابق کرکٹ کپتان عمران خان بھی اپنے بیانات کے ذریعے بالواسطہ دہشت گرد تنظیموں
کی حوصلہ افزائی ہی کررہے ہیں ۔ سننے میں یہ آرہا ہے کہ حوصلہ افزائی فوج اور ایجنسیوں
کے لوگ کررہے ہیں۔ یہ بات قرین قیاس بھی ہے کیونکہ عمران خان کی ریلیوں میں جو بھیڑ
نظر آتی ہے ، وہ انہی حلقوں کی ہوتی ہے جو دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے تئیں
ہمدردی رکھتے ہیں۔ پاکستان کے بعض اخباروں نے یہ اشارہ بھی کیا ہے کے عمران خان کی
ریلیوں میں بھیڑ اکٹھا کرنے میں درپردہ خفیہ ایجنسیاں بھر پور تعاون کرتی ہیں۔ عمران
خان یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ اگر وہ برسر اقتدار آگئے تو دہشت گردی کا نام ونشان
مٹ جائے گا ۔ ان کی بڑی سیدھی سی لیکن عجیب منطق یہ ہے کہ ‘‘ڈرون حملے بند ہوجائیں
یا دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ سے پاکستان الگ ہوجائے
تو دہشت گردی خود بخود بند ہوجائے گی۔
عمران خان ہی پر موقوف نہیں
ہے۔ دوسری بڑی پارٹیاں بھی دہشت گردوں کے خلاف کسی طرح کا بیان دینے یا ان کی مذمت
کرنے سے کتراتی ہیں اور جب کہیں دہشت گردانہ واقعہ پیش آتا ہے تو یہ کہہ دیتی ہیں
کہ یہ سب کچھ صرف اس لئے ہورہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا
اتحادی ہے صوبہ پنجاب میں صورتحال کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ آج کل جماعت الدعوۃ اور دوسری
دہشت گرد تنظیموں کی ریلیاں بڑے تواتر سے ہورہی ہیں اور ان ریلیوں میں حافظ سعید سمیت
دوسرے انتہا پسند لیڈر ہندوستان کے خلاف خوب زہر افشانی کررہی ہیں۔ ان تنظیموں کو ہندوستان
کے خلاف زہر اگلنے کے لیے ایک نیا بہانہ یہ مل گیاہے کہ چند ماہ قبل حکومت پاکستان
نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ باہمی تجارت کو فروغ دینے کیلئے ہندوستان کو انتہائی پسندیدہ
ملک یعنی ایم ایف این کا درجہ دیا جائے گا۔ اس فیصلہ کے خلاف حافظ سعید بطور خاص بہت
سرگرم ہوگئے ہیں اور پاکستان کی موجودہ حکومت کے خلاف باقاعدہ مورچہ کھول لیاہے۔
‘‘دفاع پاکستان’’ کے نام پر ہندوستان کے خلاف خوب اشتعال انگیزی ہورہی
ہے اور تمام سیاسی پارٹیاں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ سنجیدہ مبصرین کا خیال ہے کہ
بلاشبہ دہشت گرد تنظیموں کو فوج اورایجنسیوں کی حمایت او رپشت پناہی حاصل ہے لیکن سیاسی
پارٹیوں کی مصلحت آمیز خاموشی بھی کچھ کم خطرنا ک نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں پنجاب میں
جو ریلیاں ہوئی ہیں ان کے بارے میں وفاقی حکومت کاکہنا ہے کہ حکومت پنجاب دہشت گرد
تنظیموں کے تئیں نرم رویہ اختیار کرتی ہے۔ یہ بات درست بھی ہے کیونکہ بیشتر دہشت گرد
تنظیمیں اسی صوبہ میں سرگرم ہیں اور ان کے اڈے بھی یہی ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ نواز
شریف کی مسلم لیگ نے اکثر انتخابات میں لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں سے
سمجھوتے بھی کئے ہیں لیکن حال ہی میں پنجاب
جیسی ریلی کراچی میں بھی ہوئی تھی اور انتہا پسندوں نے ایسی مزید ریلیوں کے انعقاد
کا اعلان بھی کیا ہے۔ جبکہ صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور وہ بھی
دہشت گردوں کے سامنے خود کو اتنا ہی بے بس پاتی ہے جتنی پنجاب کی حکومت ،بعض اخباروں
نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو صورتحال کے بگڑنے کاذمہ دار قرار دیتی ہیں
لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر سیاسی پارٹیاں مصلحتاً خاموش رہتی ہیں۔
دہشت گرد ی اور مذہبی انتہا
پسندی کے سوال پر پاکستانی عدلیہ کا رول بھی سنجیدہ حلقوں میں تنقید کا نشانہ بن رہا
ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے سامنے صرف ایک ایجنڈا
ہے کہ ہر معاملہ میں موجود ہ حکومت کی گرفت کی جائے ۔ بعض ماہرین قانون نے تو یہ تک
کہا ہے کہ عدلیہ موجودہ حکومت کے خلاف انتقامی کارروائی کرنے میں مصروف ہے اور ضمن
میں ماہرین قانون اس بات کا حوالہ بطور خاص دے رہے ہیں کہ صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان
تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو جب ایک عدالت نے پھانسی کی سزا سنائی تو اس جج کا جینا
حرام کردیا گیا ۔ حتیٰ کہ اس جج کو بھاگ کر دوسرے ملک میں پناہ لینا پڑا ۔ حیرت انگیز
بات یہ تھی کہ اس جج کے خلاف خود بعض وکلا نے محاذ قائم کیا اور اس کے دفتر پر حملے
بھی کئے لیکن ان تمام غیر قانونی کارروائیوں کے باوجود پاکستان کی سپریم کورٹ بالکل
خاموش رہی اور از خود کسی طرح کا نوٹس نہیں
لیا۔ حالانکہ بعض وکلا کی سرگرمیاں باقاعدہ توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں۔ غرض
یہ کہ دہشت گرد تنظیموں اور انتہا پسند مذہبی حلقوں سے نمٹنے میں کوئی بھی حلقہ سنجیدہ
نظر نہیں آتا ۔فوج تو خیر ان تنظیموں کی حامی اور سرپرست ہے ہی لیکن سیاسی پارٹیاں
عدلیہ اور نفاذ قانون کی ایجنسیاں بھی اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اب تک کوئی ایسا موثر قانون
نہ بن سکا جس کے تحت دہشت گردی کے روک تھام ہوسکے۔
انسداد دہشت گردی سے متعلق
جو موجودہ قانون ہے اس میں کچھ اتنا جھوٹ ہے کہ قاتل صاف بچ نکلتے ہیں ۔ اس کا ایک
تازہ ترین ثبوت یہ ہے کہ دہشت گردی کے بھیانک واقعات میں ملوث مشتبہ افراد کو لاہور
کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ‘‘ثبوت کے فقدان ’’ کے باعث رہا کردیا۔ اخبار ایکسپریس
ٹریبیون نے سرکاری آنکڑوں کے حوالے سےاپنی ایک رپوٹ میں کہا ہے کہ 2011میں انتہائی
بھیانک واقعات میں ملوت دہشت گردوں کے کلیدی لیڈر عدالت سے بڑی کردیئے گئے۔رہا ہونے
والوں میں ممنوعہ تنظیموں مثلاً لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ تحریک طالبان پاکستان اور حرکت
المجاہدین کے رنگ لیڈر شامل ہیں پنجاب پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (تفتیش برانچ)
محمد اسلم ترین نے اس صورتحال پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اس طرح کے خطرناک
واقعات میں قانون میں تھوڑی سی ترمیم کی جائے تو دہشت گردی سے نمٹنے میں کسی حد تک
کامیابی مل سکتی ہے ۔ انہوں نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ جو ملزم پولیس کے سامنے بیان دیتے ہیں اس بیان کو عدالت
کے روبرو دیئے گئے بیان کے مترادف سمجھا جائے ۔ یہ ایک معقول تجویز ہے لیکن سیاسی عزائم
کی کمی کے باعث کیو نکہ یہ امید کی جاسکتی
ہے کہ ایسی ترمیم ممکن ہوگی؟
بشکریہ۔ جدید میل ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-midst-religious-extremism-/d/6760