New Age Islam
Mon Mar 27 2023, 01:17 PM

Urdu Section ( 23 Jan 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Thy Freedom Is Divine, My Freedom Is Vice! !آپ کی آزادی آزادی ہے اور ہماری آزادی کچھ نہیں

 

 

نیو ایج اسلام کے لئے محمد برہان الدین قاسمی

19 جنوری، 2014

تقریر یا اظہار رائے کی آزادی ایسے جملے ہیں جو حالیہ ہفتوں سے پوری دنیا کے لیے موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ لوگ صرف ایک واحد چیز کے لئے گلیوں، بازاروں پر اور نیوز روم میں گا رہے ہیں، رو رہے ہیں اور ناچ رہے ہیں؛ اور وہ اظہار رائے کی آزادی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ان کی 'جمہوری قدر' ہے جبکہ کچھ لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ان کی 'لائف لائن' ہے۔ یہ تمام لوگوں کے لیے بہتر ہے اور وہ جو کہتے ہیں بالکل درست ہے۔

اس کے برعکس، کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بالکل اسی جملے کی وجہ سے اپنی جانیں گنواں رہے ہیں۔ آج ہم اپنے چاروں طرف آزادی اظہار رائے کے نام پر جنگ، خون خرابہ، آتش زنی اور لوٹ مار کا منظر دیکھیں اور ان سب کو یا تو جرم یا غیر مہذب قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس میں سب کے لئے بھلائی ہے تو پھر کیوں اس کی وجہ سے ہمارے درمیان تشدد، لا قانونیت اور فسادات اپنے پاؤں پسار رہے ہیں؟ یا یہ بنیادی طور پر کوئی برائی ہے کہ کچھ برے لوگ ہمیں جہنم کی طرف گھسیٹ رہے ہیں؟ آخر یہ اظہار رائے کی آزادی ہے کیاچیز!

ستم ظریفی یہ ہے مشرق میں بھی کچھ لوگ اس ناقابل علاج ذہنی فساد کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی مطلق ہے۔ آپ کسی بھی وقت، کہیں بھی، کسی بھی طرح اور کسی کے بھی خلاف کچھ بھی بول سکتے ہیں؛ واقعی کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی کی بھی توہین و تذلیل کر سکتے ہیں، جھوٹ بول سکتے ہیں، خواہ وہ کوئی فرد ہو، کوئی معاشرہ ہو یا کوئی اہم ہستی ہو؛ خواہ کوئی حکومت ہو، کوئی مقدس بزرگ ہستی ہو، کوئی بھی انسان کچھ بھی کہنے کے لیے بالکل آزاد ہے! کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ہی ملک اور اپنے ہی مذہب کی برائی کر سکتا ہے، اپنے والدین کی بے عزتی کر سکتا ہے جنہوں نے پوری توجہ کے ساتھ ان کی پرورش و پرداخت کی ہے یا وہ اپنے اس خدا کی توہین کر سکتا ہے جس نے اسے پانی کی ایک بوند سے پیدا کیا ہے! کچھ لوگوں کے لئے اس کا جواب ہاں ہو سکتا ہے، اس لیے کہ ان کےلیے آزادئ اظہار رائے 'مطلق' ہے، یعنی اس کی کوئی حدبندی نہیں ہے اور اس پر کوئی گرفت بھی نہیں لہٰذا یہ 'الہی' ہے، کیا واقعی ایسا ہے؟

ہماری آزادئ اظہار رائے محدود ہے اور ہم ایک مقررہ حدود کے اندر رہ کر ہی کچھ کہہ سکتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ ہم صرف انسان ہیں خدا نہیں جو کچھ بھی کر سکتا ہے، اور نہ ہی ہم حیوان ہیں جو حکمت کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہمارے پاس جنگل کےعلاوہ اور ایسی کوئی جگہ نہیں ہے جہاں ہم 'بالکل آزادی کے ساتھ ' کچھ بھی کہیں یا کچھ بھی کریں۔

آزادئ اظہار رائے کے اس تصور سے ہمیں یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ ایک ایسا سیاسی حق ہے جس کے ذریعہ لوگ جسمانی ذرائع کا استعمال کر سامع سے گفتگو کرتے ہیں۔ دنیا میں ہر حکومت ایک خاص حد میں آزادئ اظہار رائے کو محدود رکھتی ہے۔

عام طور پر آزادئ اظہار رائے پر جو پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اس کا دائرہ توہین آمیز تحریر، بُہتان ، تہمت، بد اخلاقی، فُحش نِگاری، سَر کَشی، اشتعال انگیزی، دشنام طرازی، جھگڑالو الفاظ، خفیہ معلومات، حق اشاعت کی خلاف ورزی، تجارتی راز، غیر انکشافی معاہدے، حق رازداری، درگزر کیے جانے کاحق، عوام کی حفاظت، امن عامہ، اور عوامی پریشانی اور مشکلات تک وسیع ہے۔

اس میں اصطلاح (offense principle) کو خاص طور پر اظہار رائے کی آزادی کے حدود کی توسیع کے لیے شامل کیا گیا تھا تاکہ اظہار رائے کی آزادی کی ایسی شکلوں کو ممنوع قرار دیا جائے جو کسی معاشرے، کسی جماعت یا کسی فراد کے مفاد کے لیے نقصاندہ ثابت ہوتی ہوں۔ مثال کے طور پر، بہت سے علاقوں میں اظہار رائے کی آزادی پر مذہبی قانونی نظام، مذہبی دل آزاری، یا نسلی یا فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے قوانین کے ذریعہ وسیع پیمانے پر مختلف سطحوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

تاہم، اظہار رائے کی آزادی کی بات تو چھڑ ہی دیں آزادی کہیں بھی مطلق نہیں ہے، نہیں یہاں تک کہ امریکہ میں بھی اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے جہاں یہودی مخالف قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ فرانس میں بھی اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے جہاں ایک برقعہ پوش مسلم عورت کو اس کی 'سیکولر جمہوری' ساخت کے لیے ایک 'حقیقی' خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ میں بھی اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے جہاں کسی مسجد کے میناروں کو اس کے 'جمہوری اقدار' کے خلاف ایک میزائل سمجھا جاتا ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ 'اظہار رائے کی آزادی کی علامت' خود چارلی ہیبڈو میگزین میں بھی اظہار رائے کی آزادی مطلق نہیں ہے جس نے اپنے ہی کارٹونسٹ کو برخاست کر دیا تھا جس نے 2009  میں اپنے کارٹون کے ذریعے پیسے کے لئے یہودیت قبول کرنے والے سابق صدر سرکوزی کے بیٹے کا مذاق اڑایا تھا۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حق اظہار رائے کی آزادی کو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے آرٹیکل 19 کے تحت ایک انسانی حق کے طور پر تسلیم کیا اور شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی عہد (ICCPR) کے تحت بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں بھی اسے تسلیم کیا گیا ہے۔ ICCPR کے آرٹیکل 19 میں ہے کہ "ہر انسان کو کسی بھی مداخلت کے بغیر اپنی رائے قائم کرنے کا حق حاصل ہوگا"، "ہر انسان کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہوگی ۔۔۔"

آرٹیکل 19 میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کے ان حقوق کے استعمال میں "خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں" بھی شامل ہیں اور "اسی وجہ سے جب ضروری ہو تو اس میں سے کچھ پابندیاں بھی شامل" کی جا سکتی ہیں تا کہ " دوسروں کی شہرت یا حقوق کے احترام" یا "قومی سلامتی کے تحفظ، عوامی صحت، اخلاقیات اور امن عامہ" کی حفاظت کی جا سکے۔

یہ ہماری آزادئ اظہار رائے ہے اور یہ مطلق نہیں ہے۔ اس میں کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں اور اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اور ہم1.7 ارب مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کرنے کے لیے چارلی ہیبڈو کی حمایت نہ تو کرتے ہیں اور نہ ہی کرنا چاہتے ہیں۔

ایم برہان الدین قاسمی Eastern Crescent کے ایڈیٹر اور مرکز المعارف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ سنٹر،ممبئی کے ڈائریکٹر ہیں۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-terrorism-jihad/thy-freedom-divine,-freedom-vice!/d/101106

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/thy-freedom-divine,-freedom-vice!/d/101178

 

Loading..

Loading..