ایم عامر سرفراز
15 نومبر، 2018
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حر بن عبد الرحمان کو اسپین کا گورنر مقرر کیا تھا ۔ انہیں کے دور حکومت میں مسلم فوجیں جنوبی فرانس تک داخل ہو چکی تھیں۔ وہ عربی زبان میں اہم واقعات پر مشتمل ایک جریدہ لکھا کرتے تھے۔ 920 عیسوی کے قریب ان کی ایک ڈائری خستہ حالت میں ایک ہسپانوی افسر سمون اشبیلیا کے ہاتھ لگی جس کا ترجمہ انہوں ہسپانوی زبان میں کیا۔ 1910 میں ایک برطانوی محقق ڈینس مونٹگومری نے کافی احتیاط کے ساتھ اس کی جانچ بین کی اور انگریزی میں اس کا ترجمہ کیا کیونکہ اس میں 100 ہجری میں پیش آنے والے اہم واقعات کا ذکر تھا۔ اس ڈائری کے مشمولات سے حسین کاظمزادے عبدالقادر موسووی اور ساتھ ہی ساتھ عبدالجبار فاطمی کی تحریروں کی بھی تائید ہوتی ہے جو استنبول آرکائیو میں محفوظ ہیں۔
بن عبد رحمان نے لکھا ہے کہ کس طرح پہلی چند دہائیوں کے دوران زرتشتیوں کی سازشوں نے عراق میں فتنہ و فساد برپا کر رکھا تھا، اور وہ اب بھی وقتاً فوقتاً شرانگیزی کرتے رہتے ہیں۔ عراق کے گورنرز کے طور پر حضرت علی اور حضرت حسین نے اس سر زمین کو جنت نشان بنا دیا تھا لیکن جمشید خراسانی اور جبان بن ہرمزان نامی دو مجوسیوں نے انہیں شہید کر دیا۔ لیکن حضرت علی اور حضرت حسین کا خون ضائع نہیں گیا کیونکہ 100ہجری میں اس وقت کوفہ اور بصرہ میں سیریا اور مصر سے زیادہ امن اور خوشحالی تھی۔ اور یہ کہنے کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں کہ اس میں سانحہ کربلا کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ اس ڈائری کا اختتام 116 ھ (732 عیسوی) کے قریب پیش آنے والے ایک اہم واقعہ کے ذکر کے ساتھ ہوتا ہے جب مسلم افواج نے عبد الرحمن غافقی کی قیادت میں فرانس پر چڑھائی کیں جہاں عبد الرحمٰن شہید ہونے سے قبل پوری ہمت و جوانمردی کے ساتھ لڑے ۔ اگر مسلمان یہ جنگ جیت گئے ہوتے تو یورپ اور باقی دنیا کی تاریخ ہی مختلف ہوتی۔
قارئین کے دل میں ضرور یہ خیال پیدا ہوتا ہوگا کہ تاریخ کا یہ پہلو گمنام کیوں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل دستاویز عباسی دور سلطنت میں منظم طریقے سے تباہ کر دئے گئے تھے اور اس کے بعد سے صدیوں تک سرکاری تاریخ ہی ہر جگہ چلتی رہی جسے ہمارے علماء کی زبردست حمایت حاصل ہے۔ جب 1248 عیسوی میں سقوط بغداد ہوا تو (مجوسی نژاد) نصیر الدین طوسی (حملہ کرنے والے) ہلاکو خان کا مشیر تھا اور ایک خفیہ مجوسی ابن علقمی (حقیقی نام نصر نوشیر علقمی) (مفتوح) خلیفہ معتصم باللہ کا وزیر اعظم تھا۔ جب علقمی کی خفیہ دعوت پر ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے ہوں گے آپ اس کا تصور کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے پہلے علقمی نے اس بات کو یقینی کر لیا تھا کہ فوج ٹکڑیوں میں بٹی رہے اور مسلمانوں دعاؤں میں اور حلال و حرام پر بحث کرنے میں مصروف رہیں۔ سامنے جو بھی آیا منگولوں نے ان تمام کو قتل کر دیا (اور آخر میں علقمی کو بھی مار دیا) اور مجوسیوں نے علقمی کی نگرانی میں دنیا کی سب سے بڑی لائبریری کی تمام کتابیں تباہ کر دیں۔
جو تاریخ مجوسیوں اور ان کے اتحادیوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی وہ زبردست تضادات کا پلندہ ہے۔ میں یہاں ایک دلچسپ لیکن غیر معروف مثال پیش کرنا چاہتا ہوں
جب 642 عیسوی میں فارس فتح ہوا تو جنگی قیدی مدینہ لائے گئے ۔ ان میں فارس کے بادشاہ یزدگرد -III کی تین بیٹیاں بھی شامل تھیں۔ حضرت عمر نے ان تینوں کی شادی حضرت حسین ،حضرت محمد بن ابی بکر اور حضرت عبد اللہ بن عمر سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے پیچھے خیال یہ تھا کہ دریادلی کے اس مظاہرے سے دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات پیدا ہوں گے۔ جبکہ دوسری روایت کے مطابق یزدگرد کی دو بیٹیاں تھیں جن میں ایک کی شادی حضرت حسن اور دوسری کی شادی حضرت حسین سے ہوئی۔ تاریخ کی ان دو رروایتوں میں سے درست جو بھی ہو لیکن ایک ہی واقعے کی دو تاریخی روایتیں ہضم کرنا مشکل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب یزدگرد تخت نشین ہوا تو اس کی عمر 21-12 سال تھی اور اس کے تخت نشین ہونے کے چند سالوں بعد فارس اس کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اتنے کم عرصے میں شادی کی عمر کی اس کی 3-2 بیٹیاں کیسے ہوسکتی ہیں؟ دوسری بات یہ ہے کہ حضرت حسین کی پیدائش 4-5 ہجری میں ہوئی اور 16 ہجری میں اس واقعہ کے وقت ان کی عمر 12-11 سال تھی۔ اس صورت میں یہ شادی کیسے ہو سکتی ہے؟ اگر یہ بات آپ کی سمجھ سے باہر ہے تو میں اور دو مثالیں پیش کرتا ہوں جن کے مطابق یہ لڑکیاں یزدگرد کی بہنیں تھیں اور یزدگرد کے بھائی کی بیٹیاں تھیں۔
میں ایسے ہی بے شمار تضادات بیان کر سکتا ہوں لیکن میں یہاں صرف ان بدعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مجوسیوں کی سازش کے نتیجے میں اسلام کے اندر داخل ہو گئیں: خلیفہ زمین پر خدا کا سایہ بن گیا، نوروز (زرتشتی / فارسی نیا سال) سرکاری طور پر منایا جانے لگا ، شب برات (زرتشتی تصور ) کو ایک مذہبی رنگ روپ دے دیا گیا، مذہبی قوانین عوامی قوانین سے علیحدہ ہو گئے جس کے نتیجے میں (علماء بمقابلہ حکومت) کے دو متوازی ادارے وجود میں آ گئے، تقدیر کے عقیدے میں ایک نئی جان ڈال دی گئی، تصوف (روحانی مجاہدات کے ذریعے خدا کے ساتھ کلام) کے تصور کو فروغ حاصل ہوا، زکات میں صرف 2.5 فیصد رقم مختص کر کے سرمایہ داری کو فروغ دیا گیا اور جہاد کا صحیح تصور مندمل ہو گیا۔ مختصر یہ کہ علامہ اقبال کے مطابق بدقسمتی سے فارس کی فتح کے نتیجے میں اسلام پر مجوسیت غالب ہو گئی نہ کہ اس کا برعکس۔
اسلام کوئی نیا مذہب نہیں ہے۔ اسلام اس لئے نہیں بھیجا گیا کیونکہ لوگ نمازیں ادا نہیں کرتے تھے، روزے نہیں رکھتے تھے یا صدقات و خیرات نہیں دیتے تھے۔ بلکہ اسلام انسانی فکر و شعور میں ارتقاء کی وجہ سے معمولی اضافہ کے ساتھ اللہ کے سابقہ رسولوں کے ذریعہ لائے گئے پیغامات کی ہی تجدید و احیاء کرنے کے لئے آیا ہے۔ اس کا مقصد مساوات اور انصاف قائم کرنا، دولت کی منصفانہ تقسیم اور خدا اور بندوں کے درمیان (قرآن کے ذریعہ) براہ راست تعلق قائم کرنا ہے۔ تاہم، اسلام کا یہ تصور سیاسی اور مذہبی حلقوں کو راس نہیں آیا کیونکہ وہ عوام کو محکوم رکھنا اور خود کو اللہ اور بندے کے درمیان خودساختہ ثالثی بنانا چاہتے تھے۔ وہ عباسیوں کی جانب سے قائم کی گئی اس مذہبی فضا کو برقرار رکھنے کے لئے اب بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کو ایسی روایتوں میں مصروف کر دیا ہے جن کے معانی بدل گئے ہیں اور ایسے تنازعات ان کے درمیان پیدا کر دئے ہیں جو کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں۔
ماخذ:
dailytimes.com.pk/322214/early-muslim-history-needs-fresh-appraisal-v/
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-history/m-aamer-sarfraz/muslim-history-which-has-reached-us-through-magians-and-their-allies-has-bizarre-contradictions--early-muslim-history-needs-fresh-appraisal-—-v/d/116960
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/early-muslim-history-needs-fresh-v/d/117323
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism