ایم عامر سرفراز
5 نومبر، 2018
بنو امیہ نے دوسروں کا حق غصب کیا اور سو سال جبر و استبداد کے پنجوں سے حکمرانی کی۔ ان کا تختہ بنو عباس نے پلٹا جنہیں حضرت علی اور ان آل کے نام پر اقتدار حاصل ہوئی تھی لیکن اپنے پورے پانچ سو سالہ دورِ حکمرانی میں عباسیوں نے انہیں نظر انداز کئے رکھا۔ سلطنت عباسیہ اور امیہ دونوں نے ایسی احادیث کی اخترع کو فروغ دیا جن سے ان کے مذہبی معتقدات کو عروج حاصل ہو اور حضرت علی کی اہمیت کم ہو۔ جس کا ردعمل یہ ہوا کہ ان سیاسی حالات میں حضرت علی کے لیے ہمدردی رکھنے والوں نے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لئے۔ غیرمسلموں اور خاص طور پر مجوسیوں نے اس کار بد میں پوری سرگرمی کے ساتھ حصہ لیا۔ اور ہزاروں ایسی حدیثیں سامنے آئیں جو متضاد ، مشکوک اور شرمسار کرنے والی تھیں۔
یہ بتایاجاتا ہے کہ جونابری ، ابن عکاشہ اور تمیم فاربی نے دس ہزار سے زیادہ حدیثیں وضع کیں۔ ابن ابی الوجہ نے پھانسی سے پہلے یہ اعتراف کیا کہ اس نے حلال اور حرم سے متعلق چار ہزار حدیثیں وضع کی ہیں۔ کچھ تاریخی کردار تو موجود ہی نہیں تھے، اور کچھ لوگوں نے ایسی کتابیں لکھنے کی جسارت کیں جو موضوع احادیث سے بھری ہوئی تھیں۔ جب یہ بھی ناکافی ہوا تو محمد ﷺ کے سو سال سے زیادہ عمر کے بعض صحابہ بھی ایجار کر لئے گئے۔ مثال کے طور پر، لوگوں نے ابو عبد اللہ ثقالی کے ساتھ پانچویں صدی میں ہاتھ ملائے کیوں کہ انہوں نے نبی ﷺ کا ہاتھ پکڑا تھا؛ اور بابا رتن ہندی (632 ہجری) حضرت فاطمه رضی اللہ عنہا کی شادی میں شرکت کرنے کے لئے مشہور تھے۔
اسلام بنیادی طور پر ایک اللہ، ایک نبی اور ایک کتاب کی تعلیم دیتا ہے۔حدیثوں نے نہ صرف یہ کہ قرآن کے بارے میں شکوک شبہات پیدا کیے بلکہ کئی لوگوں کو 'نبوت' کا دعویٰ کرنے کی بھی حوصلہ افزائی کی۔ قرآن کی جمع و ترتیب اور ہمیشہ کے لئے اس کی سالمیت کے بارے میں خود قرآنی شواہد موجود ہیں لیکن اس بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا کئے گئے کہ کیا اس کی تدوین و ترتیب حضرت ابو بکر نے کی یا حضرت عمر نے کی یا بالآخر حضرت عثمان نے یہ کام انجام دیا۔ حضرت عثمان نے صرف یہ کیا کہ انہوں نے اصل قرآنی دستاویز کی نقل کاپیاں بنوائیں اور ریاست کے مختلف گوشوں میں ضرورت کے مطابق اس کی نقل کاپیاں بنوانے کے لئے ارسال کیں۔ یہ بھی باتین پھیلائی گئیں کہ کچھ آیتیں کسی بکری کا لقمہ بن گئیں اور کچھ تدوین کے وقت جمع ہونے سے ہی رہ گئیں جس کے نتیجے میں مختلف علاقوں میں تلاوت قرآن کی مختلف روایتیں قائم ہوئیں۔ نتیجے کے طور پر قرآن مجید کو بھی ایسی ہی دیگر صحیفوں کی طرح سمجھا جانے لگا تھا جنہیں مسلمان غیر مستند سمجھتے تھے اور اس طرح اسلام پر غیر مسلموں نے ناجائر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
احادیث نے تخلیقی طور پر ان لوگوں کے لئے 'وحی خفی' کا دروازہ کھولا جو اللہ کے رسول نہیں تھے۔ دوسرے مذاہب کی طرح اس نے بھی بے شمار لوگوں کو صوفی سنت بننے اور کچھ کو 'نبوت' کا دعوی کرنے کا موقع فراہم کیا وہ بھی ایک ایسے وقت میں کہ جب امت مسلمہ کی تقدیر کشکولے کھا رہی تھی۔ اکثر مدعیان نبوت کے ساتھ متعلقہ حکام کا سلوک اچھا رہا لیکن کچھ لوگوں نے اپنے لئے نئے مذاہب کی بنیاد ڈالی اور اپنے پیروکار بنائے۔ چند سال قبل فیصلآباد میں ایک ایسے ہی مدعی نبوت سے میری ملاقات ہوئی جسے اعلی سیکورٹی قید خانے میں رکھا تھا۔ بلاشبہ وہ ذہنی طور پر بیمار تھا۔
جن احادیث کی قرآن کریم میں کوئی بنیاد نہیں تھی اور جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عمل نہیں کیا گیا تھا وہ دین میں بدعات کا ذریعہ بن گئیں۔ اس عمل نے مسلمانوں میں مستقل طور پر داخلی اختلافات کی بیج بو دی اور ہمیشہ کے لئے اسلامی عقائد اور ثقافت کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ امام طبری جیسے لوگوں نے بھی قرآن کی تفسیر لکھی اور قرآن مجید کی آیتو کے معانی کا تعین کرنے کے لئے شان نزول کے طور پر احادیث کا استعمال کیا۔ اس وقت سے یہ عمل ایک مضبوط عقیدے کی شکل اختیار کر چکا ہےجس کی وجہ سے اب کسی بھی عالم کے لئے آزادانہ طور پر قرآن کا ترجمہ یا اس کی تعبیر و تشریح کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔ اب تو کچھ معروف مذہبی شخصیات بھی یہ مانتی ہیں کہ اگر قرآن اور حدیث کے درمیان کوئی اختلافات ہو جائے تو ترجیح حدیث کو ہی دی جائے گی۔ اسے ہی علامہ اقبال نے عجمی اسلام قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ ‘‘حقیقت (قرآن) خرافات میں کھو گئی / یہ امت روایات (احادیث) میں کھو گئی’’۔
تاریخ کے کسی بھی موڑ پر اللہ نے کبھی بھی مسلمانوں کو بے اختیار نہیں چھوڑا۔ لیکن بدقسمتی سےوہ ابتدائی مسلم تاریخ کے بارے مین اپنی غلط سوجھ بوجھ کی بنیاد پر اس بدترین تاریخی جال کی وجہ سے ہمیشہ مصیبت میں ہی پھنسے رہے۔ اس ضمن میں بنیادی طور پر اس دو قسمیں بیان کی گئی ہیں اور باقی سب انہیں دونوں میں سے کسی ایک کی شاخیں ہیں۔ اور بغیر کسی قومی سرحد کے مسلمان عالمی سطح پر انہیں دو تقسیموں پر بٹے ہوئے ہیں۔ یہ تقسیم اتنی گہری اور مضبوط ہے کہ اسے ختم کرنے کی تاریخی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہ ہو سکی۔ ایسا اس لئے ہوا کہ علامات کے علاج سے بیماری ختم نہیں ہوتی، بیماری ختم کرنے کے لئے اس کی وجہ تک پہنچنا ضروری ہے۔
انسانی غلطی کی وجہ سے چند معمولی واقعات کے علاوہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت تک ابتدائی مسلم تاریخ کی پہلی قسم میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ آپ کی سخاوت اور کرم و بخشش والی فطرت کی وجہ سے آپ کے کچھ رشتہ دار اور خاص طور پر آپ کے سیکریٹری ابن حکم کافی تیزی کے ساتھ طاقتور ہوتا چلا گیا۔ جیسے جیسے حضرت عثمان غنی ضعیف اور کمزور ہوتے گئے بعض نامور مسلمانوں نے مال جمع کرنا شروع کردیا۔ ابن حکم نے نادانی اور لاعلمی کی بنیاد پر کچھ تباہ کن فیصلے لئے جسکے نتیجے میں خود مسلمانوں نے حضرت عثمان کا قتل کر دیا۔ امت مسلمہ کو اس حادثہ نے اس قدر جھنجھوڑ دیا کہ انہوں نے اس واقعہ کے بارے اپنی ایک الگ رائے قائم کر لی اور نتیجۃً نیک نیتی کے ساتھ انہوں نے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کیا ۔ لیکن بدقسمتی سے اس واقعے نے مسلمانوں کے درمیان مستقل طور پر ایک ایسی درار پیدا کر دی جو ہم تک بھی پہنچی۔
اور ابتدائی اسلامی تاریخ کی دوسری روایت یہ ہے کہ ابتدائی مسلمانوں میں منافقین بھی شامل تھے اور 10 ہجری میں فتح مکہ کے بعد راتوں رات قبول اسلام کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے پیغمبر اسلام ﷺ کی زندگی میں اور آپ کی حیات ظاہری کے بعد بھی صرف اپنے مفاد کے تحت کام کیا اور اسلام کے خلاف سازشیں رچیں۔ جب حضرت علی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو وہ کھل کر سامنے آ گئے۔ اس کے بعد اموی اور عباسی دور سلطنت میں حضرت علی کی اولاد اور ان کے اتحادیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ بھی توڑے گئے اور ان کی شہادتیں بھی ہوئیں۔
ابتدائی مسلم تاریخ کی یہ دونوں روایتیں مکمل طور پر غیر مربوط ، باہم متضاد اور غیر منطقی ہیں اور قرآنی پیغام سے متصادم بھی۔ اور حریف جماعتوں نے غیر مسلموں اور اپنے گروہ کی تسکین خاطر کے لئے خود اپنے اور مخالف کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ابتدائی مسلم تاریخ کے حوالے سے ان دونوں روایتوں کو ترک کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے درمیان تقسیم مزید گہری ہوئی اور آپسی عناد کو مزید فروغ حاصل ہوا اور قرآن مجید کے مطابق حلال ، حجاب ، جہاد اور تعدد اردواج جیسے مسائل گلے کا پھندا بن گئے۔
معتمد حوالہ جات کے ساتھ ابتدائی مسلم تاریخ کی ایک تیسری روایت بھی ہے جسے اکثر نظر انداز کیا گیا ہے ۔۔۔
ماخذ:
dailytimes.com.pk/318477/early-muslim-history-needs-fresh-appraisal-iii/
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-history/m-aamer-sarfraz/ahadith-which-had-no-basis-in-the-quran-became-a-source-of-innovations--early-muslim-history-needs-fresh-appraisal-—-iii/d/116893
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism