ایم عامر سرفراز
17 دسمبر، 2018
مسلمان صدیوں سے بعض اماموں کی اختراع کردہ ان مذہبی معتقدات کو اپنائے ہوئے ہیں جن کا تعین ابتدائی مسلم تاریخ کے وسیع تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ حیلے اور تدبیروں کی جو بھی گنجائشیں موجود تھی غزالی، ابن تیمیہ ، مودودی اور خمینی جیسی نامور ہستیوں نے ان کا استعمال کر کے اسلامی نظام کے اندر سے ہی اس کی مذہبی حیثیت کو کمزور کرنے کی ناکام کوشش کی ہیں۔ ایک درمیانی راہ تلاش کرنے کے لئے ان کی زندگیوں میں (اور کچھ حد تک اس کے بعد بھی) ان کی خوب واہ واہی بھی ہوئی۔ تو کیا یہ صرف ایک اتفاق ہے کہ ان کی انتھک کوششوں کے باوجود علمی و فکری، اخلاقی، سماجی اور اقتصادی سطح پر مسلمانوں کو زوال کا منھ دیکھنا پڑا؟
اب یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ زوال مسلم اسلامی تہذیب کی مذہبی شبیہ کے ساتھ متوازن ہے۔ دراصل قومیں اپنے نظریات کی بنیاد پر عروج و زوال کا منھ دیکھتی ہیں۔فتح و کامرانی اس وقت مسلمانوں کا مقدر تھی جب انہوں نے قرآن کے سادہ اور منطقی پیغام کو اپنایا اور اسے پوری دنیا میں عام بھی کیا۔ میں نے تفصیل کے ساتھ اس امر کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح مسلمان اپنے دشمنوں کی سازشوں اور خود اپنی احمقانہ رویوں کی وجہ سے قرآن کریم سے دور ہو گئے۔ مسلمان ان کی پیروی کرتے رہے جو پہلے سے ہی راہ بھٹک چکے تھے؛ باوجود اس کے کہ اپنی سماجی حیثیت اور اپنی جان و مال کو داؤں پر لگا ایک متبادل روایات ان کے سامنے پیش کرنے والے متعدد جرأت مند دانشور اور اہل علم موجود تھے۔
ہم بار بار اسی دائرے کے گرد چکر کاٹتے میں رہتے ہیں کیونکہ مسلسل ایک ہی غلطی کا ارتکاب کرتے ہوئے مختلف نتائج کی توقع کرنے کا نام ہی بیوقوفی ہے۔
جنہوں نے اس دور جدید میں اس زوال کا سد باب کرنے کی کوشش کی ان میں محمد عبدہ (1905-1849 عیسوی) کا نام سب سے نمایاں ہے۔ وہ الازہر یونیورسٹی میں جمال الدین افغانی کے طالب علم تھے ۔ انہوں نے جدید علوم اور دینی علوم کا ایک سنگم پیش کیا اور تعلیم کے ذریعہ مصری معاشرے کے تمام پہلوؤں کی اصلاح کی بات کی۔ انہیں ان کے نظریات کی بنا پر جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ مغرب میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بعد میں وہ مصر واپس لوٹے جہاں انہیں بحیثیت جج مقرر کیاگیا۔ اس وقت انہوں نے کہا تھا کہ، "میں مغرب گیا اور وہاں اسلام دیکھا لیکن کوئی مسلمان نہیں پایا۔ اس کے بعد میں مشرق واپس آیا جہاں مجھے مسلمانوں تو ملے لیکن اسلام کہیں نظر نہ آیا۔ " انہوں نے نئے نئے فیصلے دئے ؛ مثال کے طور پر انہوں نے غیر مسلموں کا ذبیحہ حلال قرار دیا اور بینک کے قرض پر سود کو بھی جائز کہا۔ انہیں 1899 میں مفتی اعظم کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ قرون وسطی کے علماء کی پیش کردہ قرآن مجید کی تفاسیر پر انحصار کرنے کے بجائے مسلمانوں کو قرآنی آیات کی تعبیر و تشریح کے لئے اپنی عقل اور استدلالی قوت کا استعمال کرنا چاہیے۔ انہوں نے مذہبی ہم آہنگی اور خواتین کے لئے مساوات جیسے نظریات کو فروغ دیا، اور وہ تعدد ازدواج کے بھی خلاف تھے۔ ان کی وفات کے بعد اگلے مفتی اعظم نے ان کی تمام تر اصلاحی کوششوں کو پلٹ کر رکھ دیا۔
اس کی اگلی کڑی حسین ناسوشن (1998-1919) تھے۔ وہ انڈونیشیا کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے روایتی اور جدید تعلیم حاصل کرنے کے لئے مکہ، مصر اور کینیڈا کا سفر کیا اور اپنی زندگی کے ابتدائی ایام ملک کے باہر ہی بسر کئے۔ انہوں نے میک گیل یونیورسٹی سے محمد عبدہ کے فقہی نظریہ پر اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے سب سے پہلے یہ کہا کہ مسلم دنیا کی سائنسی اور اقتصادی زوال کی جزوی وجہ ان کا اشعری مکتبہ فکر کو قبول کرنا ہے ، جسے وہ خود قدریہ (تقدیر پر یقین رکھنے والا) قرار دیتے ہیں۔ اپنے ملک سے باہر وہ بہت کم مشہور ہوئے لیکن نرچولش مدجد Nurcholish Madjid سمیت معاصر اہل علم و فکر کو انہوں نے متاثر کیا۔ محمد آرکون اور ابو زید جیسے مفکرین بھی ان سے کافی متاثر تھے۔
خود ہمارے فضل الرحمان ملک (1988-1919) ایک معروف اہل علم تھے۔ ان کا تعلق ہزارا سے ہے اور انہوں نے پنجاب اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس قوم کی روزمرہ کی زندگی میں اسلامی قدروں کو شامل کرنے کی خاطر سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کی سربراہی کرنے کے لئے صدر ایوب خان کی درخواست پر پاکستان آنے سے پہلے وہ کینیڈا اور برطانیہ میں معلم رہ چکے تھے۔
نصر حمید ابو زید (2010-1943) ایک مصری عالم تھے جنہوں نے مین اسٹریم مذہبی اقدار و نظریات کو چیلنج کیا۔ انہوں نے روایتی اور جدید تعلیم حاصل کی اور قاہرہ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی پر اپنی تعلیمی سفر کا اختتام کیا۔ زید کا ماننا تھا کہ قرآن کو ساتویں صدی کی عرب زبان اور ثقافت کے تناظر میں سمجھنے اور اس کی تعبیر و تفسیر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لئے مذہب کے استعمال کی بھی تنقید کی۔ 1995 ء میں مصر کی ایک شرعی عدالت نے انہیں مرتد قرار دیا کیونکہ انہوں نے جِن، باندیوں اور جزیہ کے مروجہ تصورات پر سولات کھڑے کئے ۔ انہیں موت کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کا نکاح فسخ قرار دیا گیا، جس کی وجہ سے وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ انہوں نے اپنی باقی پوری زندگی یورپ کے اندر لکھنے اور پڑھنے پڑھانے میں بسر کی۔ وہ اپنی موت سے قبل خاموشی سے مصر واپس آئے اور اپنے مولد میں دفن کئے گئے۔
خود ہمارے فضل الرحمان ملک (1988-1919) ایک معروف اہل علم تھے۔ ان کا تعلق ہزارا سے اور انہوں نے پنجاب اور آکسفورڈ جیسے یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ اس قوم کی روزمرہ کی زندگی میں اسلامی قدروں کو شامل کرنے کی خاطر سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کی سربراہی کرنے کے لئے صدر ایوب خان کی درخواست پر پاکستان آنے سے قبل وہ کینیڈا اور برطانیہ میں معلم رہ چکے تھے۔ ایوب خان کی حکومت کے زوال کے بعدمولویوں نے ان کی تعبیرات سے اختلاف کیا، ان کے نظریات کا تعاقب کیا، انہیں مرتد قرار دیا اور انکی موت کا مطالبہ کیا۔ 1968 میں وہ ملک چھوڑ کر روانہ ہو گئے اور اپنی باقی پوری زندگی امریکہ میں تعلیم دیتے ہوئے بسر کی، اس دوران انہوں نے کئی کتابیں بھی لکھیں۔ فضل الرحمان ملک کا ماننا تھا کہ اسلام کااحیا تبھی ممکن ہے جب اسلام کی علمی روایت میں آزادانہ فکر کو بحال کیا جائے۔ انہوں نے قرآن مجید کی روشنی میں ایک متوازن نقطہ نظر قائم کرنے میں ناکامی کے لئے مسلم فقہاء کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا جس کے لئے مسلسل دین کی ایک نئی تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے ربا کا مسئلہ حل کیا اور امام مالک کے حوالے سے یہ کہا کہ اسے اسلام سے قبل عرب میں مال اندوزی کی روایت کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے، جدید بینکاری کے نظام سے اس کا موازنہ نہیں کیا جانا چاہئے۔
آخر میں بات جاوید غامدی کی جو کہ میرے دوست ہیں۔ انہیں اس بات سے اتفاق کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہو گی کہ عقل و استدلال کا استعمال کرنے کے باوجود وہ ایک 'عقلیت پسند' نہیں ہیں۔ ان کا ماضی جماعت اسلامی سے جڑا ہوا ہے اور ان کی تربیت امین احسن اصلاحی کی آغوش میں ہوئی ہے۔ انہوں نے گزشتہ 30 سالوں میں صحیح راہ (قرآن) پر سفر کیا ہے، لیکن بہت آہستہ آہستہ۔ انہوں نے بھی توازن کا وہی معیار اپنایا ہے جو شاہ ولی اللہ اور مودودی نے اپنانے کی کوشش کی تھی؛ جو کہ بنیادی طور پر کچھ جدید وضع قطع کے ساتھ اسی ناکام اشعری مکتبہ فکر کا تسلسل ہے ۔
ماخذ:
dailytimes.com.pk/334216/early-history-of-muslims-needs-fresh-appraisal-xi/
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-history/m-aamer-sarfraz/muslims-have-embraced-religious-dogma-instituted-by-some-imams--early-history-of-muslims-needs-fresh-appraisal-—-xi/d/117304
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/early-history-muslims-needs-fresh-xi/d/117467
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism