ایم عامر سرفراز
11 دسمبر، 2018
علامہ اقبال کا ماننا تھا کہ علماء کا وجود اسلام کے لئے نقصاندہ ہے۔ لہذا، ابو الاعلی مودودی (موجودہ خلف = سراج الحق)، حسین احمد مدنی (موجودہ خلف = مولانا فاضل الرحمان ) اور شبیر احمد عثانی (موجودہ خلف = تقی عثمانی یا خادم حسین رضوی) وغیرہ ایک ہی سکے کے مختلف پہلو ہیں۔ ان کے لئے صرف دو قسم کا اسلام ہی قابل قبول ہے: ایک وہ اسلام جس کو بنیاد بنا کر وہ حکمرانی کرتے ہیں (تھیوروکریسی) اور دوسرا وہ اسلام جسے بنیاد بنا کر وہ مسلم پرسنل لاء کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اقبال (اور جناح) ایک الگ ہی نقطہ نظر رکھتے تھے جس کے مطابق حکومت لوگوں کے منتخب کردہ نمائندوں کی ہوگی اور وہی مذہبی اقلیتوں کا لحاظ کرتے ہوئے قرآنی ہدایات کے مطابق قوانین بنائین گے، اور ریاست کی تشکیل مدینہ ماڈل پر ہوگی۔ خوش قسمتی سے جناح اور اقبال مولویوں کے خلاف اس جنگ کو جیتنے میں کامیاب ہو گئے ؛ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اس وقت کچھ منحوس لوگ یہاں بڑی بے شرمی سے در آئے اور تب سے ہی انہوں نے پاکستان کو یرغمال بنار کھا ہے۔
مدنی ، آزاد، مودودی اور ان کے اَخلاف قدرے اختلاف کے ساتھ ایک ہی طرح کے اسلامی نظرات کے حامل ہیں۔ اس میں تعجب کی اس لئےکوئی بات نہیں ہے کیونکہ ان تمام کو ایک ہی طرح کے روایتی مدرسوں کی تعلیم و تربیت حاصل ہوئی ہے۔ مودی کچھ زیادہ روشن خیال واقع ہوئے کیوں کہ انہوں نے باضابطہ طور پر کسی مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی اور ایک عرصے تک سر سید کے ساتھ جڑے رہے اور ان کی ادبی خدمات سے بھی متاثر تھے (بشمول اپنی اہلیہ کے)۔ پہلے وہ اسی اسلام کے پیروکار تھے جسے میں نے عجمی اسلام کہا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صدیوں پرانے اسی درس نظامی کے تعلیم یافتہ تھے جس کی بنیاد سولہویں صدی میں نظام الدین سہالوی نے رکھی تھی ، جس کے سرخیل غزالی اور طوسی جیسے لوگ تھے۔ یہ نصاب جہاں طالبعلموں کو علم حدیث سمیت فضول منطق اور فلسفہ کی تعلیم فراہم کرتا ہے وہیں اس نصاب کے تحت قرآن مجید کی صرف چند سورتیں ہی پڑھائی جاتی ہیں وہ بھی احادیث کی روشنی میں۔ اسی لئے اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ پرنٹنگ پریس جیسی سائنسی ایجادات کو حرام قرار دینے کی ان علماء کی ایک تاریخ رہی ہے جس نے مسلمانوں کو صدیوں تک پسماندگی کا غلام بنائے رکھا۔
علامہ اقبال نے اسلام کے متعلق اپنا نقطہ نظر براہ راست قرآن سے حاصل کیاہے۔ اور یہی حال سر سيد کا بھی ہے جو کہ پاکستان کے حقیقی معمار ہیں۔ سر سید نے 1857 میں آزادی کی جنگ ہار جانے کے بعد نہ صرف یہ کہ برٹش حکومت کے قہر و غضب سے مسلمانوں کو بچایا بلکہ انہوں نے شاہی تحفظ کے تحت سرگرم عمل مستشرقین (Orientalists) اور عیسائی مشنریوں کے خلاف اسلام کا دفاع بھی کیا ۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایک تفسیر بھی لکھی اور یہ اجاگر کیا کہ کس طرح مروجہ تفاسیر و تراجم تعصب و تنگ نظری کا پلندہ ہیں، اور ان کا قرآن کے اصل معانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ابی داؤد کی کتاب المصاحف کے بعد شاید سرسید ہی پہلے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اس امر کو آشکار کیا کہ کس طرح شاہ ولی اللہ سمیت روایتی مفسرین نے اپنی تفسیروں میں حقائق اور عقل و استدلال کو نظر انداز کر کے قرآن کے پیغامات کو مسخ کیا ہے۔ قرآن کریم کی تفہیم اور اس کی از سر نو تعبیر و تفسیر کے حوالے سے ان کی بصیرت انگیز کوششوں کی وجہ سے اکثر ان کا تقابل سینٹ تھامس اکیناس (St. Thomas Aquinas) اور عالم عیسائیت کے لئے ان کی خدمات سے کیا جاتا ہے۔
اقبال اور جناح کو علی گڑھ یونیورسٹی سے کافی لگاؤ تھا۔ علامہ اسلم جئے راجپوری سمیت متعدد اہل علم و دانش کے ساتھ اقبال کے قریبی تعلقات تھے، جو دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی قیادت کرنے کے لئے عربی زبان اور اسلامی تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے قبل از وقت ہی ریٹائرمنٹ لے چکے تھے۔ اقبال کی درخواست پر علامہ اسلم جئے راجپوری قرآن کی ایک ایسی مستند لغت تیار کرنے کے لئے راضی ہو گئے جو نزول قرآن کے زمانے کی شاعری کی زبان اور قابل اعتماد عربی لغات سے مصدق و مؤید ہو۔ اقبال کے شاگرد چوہدری غلام احمد پرویز 31-1930میں دہلی کے اندر ایک سرکاری ملازم کے طور پر کام کرنا شروع کر چکے تھے۔ وہ قرآنی نظریات پر بحث و تمحیص کرنے اور عربی ادب کے بعض پہلوؤں پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے علامہ اسلم جئے راجپوری سے ملنے گئے۔ مشترکہ دلچسپیوں (قرآن، ادب، اقبال ، سر سید اور مسلمانوں کی حالت زار) کی وجہ سے وہ جلدی ایک دوسرے کے جگری دوست بن گئے اور جب وہ دہلی میں ہوتے تو ایک دوسرے کو دیکھے کے بغیر شاید ان کا ایک دن بھی نہیں گزرتا۔ علامہ اسلم جئے راجپوری قرآن کریم اور عربی زبان و ادب میں اس 27 سالہ پرویز کی گہری دلچسپی سے کافی متاثر تھے۔ انہوں نے جلد ہی قرآنی موضوعات کے حوالے سے سوالات کے لئے اپنے شاگردوں اور علماء سے مراجعت کرنے کے بجائے غلام احمد پرویز سے رجوع کرنا شروع کر دیا۔
علامہ اسلم جئے راجپوری اور پرویز کی یہ نزدیکیاں اسی طرح جاری رہیں حتی کہ پرویز 1947 میں کراچی منتقل ہوگئے۔ دریں اثناء انہوں نے علامہ اقبال سے ملنے کے لئے ایک ساتھ لاہور کے کئی اسفار بھی کئے۔ اس دوران پرویز نے 1935 میں علامہ اسلم جئے راجپوری کے ساتھ چھ ماہ گزارے تاکہ وہ ہر ہر پہلو سے عربی زبان میں اپنی مہارت کو خوب نکھار سنوار لیں۔ ساتھ ہی ساتھ دونوں کو یہ احساس بھی ہوا کہ ضعیف العمری اور مصروفیت کی وجہ سے علامہ اسلم جئے راجپوری کے لئے قرآن کریم کی لغت تیار کرنے کی ذمہ داری شاید ان کی سکت سے زیادہ بھاری ہے۔ لہذا، پرویز نے اپنی نوکری کے علاوہ اس عظیم مشن کا بوجھ بھی اپنے کندھوں پر لے لیا اور پاکستان کے لئے جناح کی نوکری سے سبکدوش ہو گئے۔ انہوں نے (سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے) پریس میں ایک فرضی نام کا استعمال کرتے ہوئے قوم پرست (Nationalist) اور پاکستان مخالف مولویوں کی تردید بھی کی۔ اس وقت ان کی یہ قیمتی تحریریں شائع بھی ہوئیں جو کہ آج مؤرخوں کے لئے حوالہ جات کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ جناح پرویز کے اس کام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ وہ صرف دو ایسے افراد میں سے ایک تھے جنہیں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے جناح سے ملنے کی اجازت تھی۔
علامہ پرویز (قرآن اور پاکستان) کے اپنے اس مشن کو تن تنہاء ہی لیکر آگے بڑھتے رہے حتی کہ 1985 میں انہوں نے اپنی آخری سانسیں لیں۔ جب پرویز کی معارف القرآن کی پہلی جلد 1939 میں شائع ہوئی تو اس وقت سب سے زیادہ خوشی علامہ اسلم جئے راجپوری کو ہوئی۔ اس کے بعد 1960 میں لغات القرآن شائع ہوئی اور مفہوم القرآن 1961 میں منظر عام پر آئی ۔ پرویز قرآن اور پاکستان کی خاطر اپنی پوری زندگی ہر کسی سے ٹکراتے رہے، حتی کہ انہوں اپنے پرانے دوست مودودی کا بھی اس معاملے میں کوئی لحاظ نہیں کیا ، اور اس کے لئے انہوں نے اپنی زندگی، صحت اور دولت سب کچھ داؤں پر لگا دی تھی۔
ماخذ:
dailytimes.com.pk/332129/early-history-of-islam-needs-fresh-appraisal-x/
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-history/m-aamer-sarfraz/madani,-azad,-maududi-and-their-posterity-have-the-same-vision-of-islam--early-history-of-islam-needs-fresh-appraisal-—-x/d/117198
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/early-history-islam-needs-fresh-x/d/117412
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism