لوئے فتوحی
23 مارچ، 2014
تیسری صدی ہجری کے علماء کا یہ کہنا ہے کہ مندرجہ ذیل آیت جسے"تلوار والی آیت" کے طور پر بھی جانا جاتا ہے منسوخ ہو چکی ہیں:-
پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ (9:5)
ان روایتوں کی اہمیت و افادیت یہ ہے کہ ان میں مبینہ طور پر ان آیات کو منسوخ قرار دیا گیا ہے۔ مؤخر الذکر میں وہ آیتیں میں شامل ہیں جن میں رواداری، بخشش، صبر اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تئیں ان مثبت اخلاقی صفات کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جن کی بنیاد پر مسلمان 14 سو سالوں سے مختلف مذہبی گروہوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ تاہم، اکثر علماء کرام نے آیت 9:5 کی تنسیخ کو مسترد کر دیا ہے، اور یہ آیت مسلم دہشت گرد گروہوں اور ان افراد کے درمیان بہت مقبول ہو چکی ہے جو اپنے مظالم کا جواز پیش کرنے کے لئے اس کا استعمال کرتے ہیں۔
اس آیت کی تنسیخ کے سلسلے میں بے شمار بنیادی مسائل ہیں جن کا میں اس تحریر میں اختصار کے ساتھ جائزہ لوں گا۔ لیکن جو لوگ بنیادی مصادر و ماخذ اور دیگر حوالہ جات کے ساتھ اس مسئلہ کے مزید مفصل تجزیہ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ان کے لیے میری کتاب ‘‘Abrogation in the Qur’an and Islamic Law’’ میں ایک باب اسی کے لیے مخصوص ہے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آیت 9:5 کو مکمل طور پر سیاق و سباق سے ہٹا کر یہ دعوی کیا سکتا ہے کہ وہ آیات منسوخ ہو چکی ہے جس میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے تئیں رواداری کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ آیت 9:5 کو کتنی صراحت کے ساتھ مسخ کیا گیا ہے، میں نے اس آیت کو اس کی آس پاس والی آیتوں کے ساتھ پیش کیا ہے۔
(9:3) یہ آیات) اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جانب سے تمام لوگوں کی طرف حجِ اکبر کے دن اعلانِ (عام) ہے کہ اللہ مشرکوں سے بے زار ہے اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (ان سے بری الذمّہ ہے)، پس (اے مشرکو!) اگر تم توبہ کر لو تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر تم نے روگردانی کی تو جان لو کہ تم ہرگز اللہ کو عاجز نہ کر سکو گے، اور (اے حبیب!) آپ کافروں کو دردناک عذاب کی خبر سنا دیں، (4) سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ (اپنے عہد کو پورا کرنے میں) کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلہ پر کسی کی مدد (یا پشت پناہی) کی سو تم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پورا کرو، بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے، (5) پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو تم (حسبِ اعلان) مشرکوں کو قتل کر دو جہاں کہیں بھی تم ان کو پاؤ اور انہیں گرفتار کر لو اور انہیں قید کر دو اور انہیں (پکڑنے اور گھیرنے کے لئے) ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھو، پس اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے، (6) اور اگر مشرکوں میں سے کوئی بھی آپ سے پناہ کا خواست گار ہو تو اسے پناہ دے دیں تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر آپ اسے اس کی جائے امن تک پہنچا دیں، یہ اس لئے کہ وہ لوگ (حق کا) علم نہیں رکھتے، (7) (بھلا) مشرکوں کے لئے اللہ کے ہاں اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاں کوئی عہد کیوں کر ہو سکتا ہے؟ سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے مسجدِ حرام کے پاس (حدیبیہ میں) معاہدہ کیا ہے سو جب تک وہ تمہارے ساتھ (عہد پر) قائم رہیں تم ان کے ساتھ قائم رہو۔ بیشک اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے، (8) (بھلا ان سے عہد کی پاسداری کی توقع) کیونکر ہو، ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تم پر غلبہ پا جائیں تو نہ تمہارے حق میں کسی قرابت کا لحاظ کریں اور نہ کسی عہد کا، وہ تمہیں اپنے مونہہ سے تو راضی رکھتے ہیں اور ان کے دل (ان باتوں سے) انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر عہد شکن ہیں، (9) انہوں نے آیاتِ الٰہی کے بدلے (دنیوی مفاد کی) تھوڑی سی قیمت حاصل کر لی پھر اس (کے دین) کی راہ سے (لوگوں کو) روکنے لگے، بیشک بہت ہی برا کام ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں، (10) نہ وہ کسی مسلمان کے حق میں قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا، اور وہی لوگ (سرکشی میں) حد سے بڑھنے والے ہیں، (11)پھر (بھی) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں، اور ہم (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم و دانش رکھتے ہیں، (12) اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قََسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں، (13) کیا تم ایسی قوم سے جنگ نہیں کرو گے جنہوں نے اپنی قََسمیں توڑ ڈالیں اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ پہلی مرتبہ انہوں نے تم سے (عہد شکنی اور جنگ کی) ابتداء کی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو بشرطیکہ تم مومن ہو۔
میں نے اپنی کتاب (Jihad in the Qur’an) ترجمہ:- [قرآن میں جہاد] میں ان آیات کا تجزیہ کیا ہے۔ آیت 9:5 سے پہلی والی آیت میں مسلمانوں کو ان امن معاہدوں کا احترام کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو انہوں نے کافروں کے ساتھ کیا ہے۔ پھر اس کے بعد آیت 9:6 میں اس بات کی صراحت ہے کہ اسلام ایک امن پسند کافر کو اپنا دشمن نہیں سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مشرک کو تحفظ دینے کا حکم دیتا ہے جو ان سے مدد مانگتا ہو۔
آیت 9:7 میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا احترام اس وقت تک کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ اس کا احترام کرتے ہوں۔ خدا اسے ایک تقوی کا عمل مانتا ہے: "خدا پرہیزگاروں سے محبت کرتا ہے۔" آیت 10-9:8 میں مسلمانوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ مشرکوں کو جب بھی یہ محسوس ہوتا کہ وہ مسلمانوں پر بھاری ہیں تو وہ اپنے امن معاہدوں کو توڑ دیتے ہیں اور اسی طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اللہ نے اس آیت میں مزید اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مشرکین صرف اپنی زبان سے صلح کا اقرار کرتے ہیں اور اسے دل سے قبول نہیں کرتے۔
اگر مشرکین امن کا احترام کرتے ہیں تو قرآن مسلمانوں کو انہیں معاف کرنے اور امن کے ساتھ رہنے کا حکم دیتا ہے، اور جب وہ اسلام قبول کر لیں تو انہیں معاف کرنے اور انہیں اپنا بھائی سمجھنے کا بھی حکم دیا گیا ہے (9:11)۔ اس کے بعد آیت(9:12) میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ سرداران کفار کے خلاف جنگ کا مقصد انہیں شر سے باز رکھنا اور امن قائم کرنا ہے۔
آخر میں آیت 9:13 میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ ان کے متنازعہ پس منظر یاد دلاتے ہوئے جارحیت کا مقابلہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے مشرکوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیے گئے اپنے معاہدوں کو توڑا تھا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور کرنے والے مشرکین مکہ کی طرح، مشرکین مدینہ نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ سے نکالنے کی کوشش کی تھی۔ اور سب سے پہلے مسلمانوں پر حملہ کرنے والے مشرکین ہی تھے۔
ثانیاً، قرآن میں دوسرے مقامات پر ایسی بھی آیات ہیں جن میں مسلمانوں کو ان جماعتوں کے ساتھ امن قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو امن چاہتے ہیں (مثلا 4:90، 8:72)۔ یہاں تک کہ قرآن میں اس بات کا بھی واضح حوالہ موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکین کے ساتھ بھی مسلسل امن معاہدے کیے جو بار بار مسلمانوں کے ساتھ اپنے امن معاہدوں کی خلاف ورزی کرنے والےتھے:-
(8:55) بیشک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے (بھی) بدتر وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا پھر وہ ایمان نہیں لاتے، (56)یہ (وہ) لوگ ہیں جن سے آپ نے (بارہا) عہد لیا پھر وہ ہر بار اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں اور وہ (اللہ سے) نہیں ڈرتے، (57)سو اگر آپ انہیں (میدانِ) جنگ میں پالیں تو ان کے عبرت ناک قتل کے ذریعے ان کے پچھلوں کو (بھی) بھگا دیں تاکہ انہیں نصیحت حاصل ہو، (58)اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بیشک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا، (59)اور کافر لوگ اس گمان میں ہرگز نہ رہیں کہ وہ (بچ کر) نکل گئے۔ بیشک وہ (ہمیں) عاجز نہیں کر سکتے، (60)اور (اے مسلمانو!) ان کے (مقابلے کے) لئے تم سے جس قدر ہو سکے (ہتھیاروں اور آلاتِ جنگ کی) قوت مہیا کر رکھو اور بندھے ہوئے گھوڑوں کی (کھیپ بھی) اس (دفاعی تیاری) سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو ڈراتے رہو اور ان کے سوا دوسروں کو بھی جن (کی چھپی دشمنی) کو تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور تم جو کچھ (بھی) اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم سے ناانصافی نہ کی جائے گی، (61)اور اگر وہ (کفار) صلح کے لئے جھکیں تو آپ بھی اس کی طرف مائل ہوجائیں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا جاننے والا ہے، (62) اور اگر وہ چاہیں کہ آپ کو دھوکہ دیں تو بیشک آپ کے لئے اللہ کافی ہے، وہی ہے جس نے آپ کو اپنی مدد کے ذریعے اور اہلِ ایمان کے ذریعے طاقت بخشی،
سوئم، آیت 9:5 کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہےکہ یہ منسوخ ہو چکی ہے، جس میں بالعموم مسلمانوں کو مشرکین یا اپنے دشمنوں کے ساتھ معاملات کرنے میں صبرکا مظاہرہ کرنے کا حکم دیا ہے! اس سے اس آیت کے متعلق بالعموم تنسیخ کے دعوے کا بطلان ثابت ہو جاتا ہے۔
چہارم، جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آیت 9:5 میں دوسری آیات کو منسوخ کرنے کی طاقت ہے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اس آیت میں مشرکین کی بعض جماعتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، اور وہ اس آیت کا اطلاق تمام مشرکین پر کرتے ہیں۔ وہ یہ دعویٰ کر کے اور بھی بڑی غلطی کرتے ہیں کہ اس آیت کا اطلاق یہودیوں اور عیسائیوں سمیت تمام غیر مسلموں پر ہوتا ہے۔ جبکہ اس آیت میں لفظ ‘‘مشرکین’’ مذکور ہے جو کہ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے قرآن مشرکین عرب کے لیے استعمال کرتا ہے، جبکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے قرآن میں "اہل کتاب" کا لفظ وارد ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اسی سورت کی آیت نمبر 29 میں ان یہودیوں اور عیسائیوں کو بھی اہل کتاب ہی کہا گیا ہے جن کے اعمال "مشرکین" جیسے ہیں۔
پنجم، اس حقیقت کے علاوہ کہ علماء کے درمیان اس امر پر اختلاف ہے کہ آیت 9:5 نے کتنی آیتوں کو منسوخ کیا ہے، آیت 9:5 کے ذریعہ منسوخ ہونے والی آیتوں کی تعداد میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ دعویٰ بنی صلی اللہ علیہ وسلم یا ان کے صحابہ سے متعلق کسی مصدر و ماخذ پر نہیں بلکہ بعد کے کچھ علماء کرام کی رائے پر مبنی ہے۔
ششم، اگر واقعی آیت 9:5 نے کافروں کے لیے رواداری اور معافی کے تصور کو منسوخ کر دیا ہے، تو اس آیت نے اس طرح کے تصورات کو فروغ دینے والی بہت سی دیگر تمام آیات کو بھی منسوخ کر دیا ہو گا۔ ان تمام آیتوں کو نظر میں رکھنے کے باوجود جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہیں آیت 9:5 نے منسوخ کر دیا ہے ایسی بہت سی دیگر آیات اب بھی موجود ہیں جن میں مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اب یہ امر واضح ہو جانا چاہئے کہ ، یہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں منسوخ آیتوں کی تو بات چھوڑ دیں آیت 9:5 نے ان کے علاوہ دوسری آیتوں کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ ان آیتوں کو "تلوار والی آیت" کا نام دیا جانا بھی بعد کی اختراع ہے۔ جبکہ "آیت زکوة" کو یہ نام علماء نے دیا ہے اس لیے کہ اس میں صدقہ دینےکا حکم وارد ہوا ہے، اور دوسری آیات کوبھی دیگر ناموں کے ساتھ تبھی موسوم کیا گیا جب ان میں وہ الفاظ وارد ہوئے ہیں، جبکہ "تلوار والی آیت" میں تو تلوار کا ذکر ہے ہی نہیں ہے، اسی وجہ سے اس آیت کو یہ نام دیا جانا باطل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں ہے!
Copyright © Louay Fatoohi
ماخذ:
http://www.quranicstudies.com/law/myths-about-the-verse-of-the-sword/
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-ideology/myths-‘the-verse-sword’/d/103801
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/myths-‘the-verse-sword’-/d/104532