New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 11:14 PM

Urdu Section ( 13 Feb 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Leadership Qualities of Prophet Muhammad پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں

  

لؤی فتوحی

1 جنوری 2014

پورے قرآن میں ایسی بے شمار آیتیں ہیں جن سے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتوں اور خوبیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:

‘‘اے حبیب!) آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لئے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) اﷲ کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور اﷲ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے’’۔ (3.159)

اس آیت میں واضح طور پر ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہتے تھےاور انہیں چھوڑ سکتے تھے۔ جو لوگ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب رہتے تھے انہیں تکنیکی طور پر صحابہ کہا جا تا ہے۔ اس آیت میں سب سے پہلے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مہربانی اور رحمت و شفت بھرے رویہ کا ذکر کیا گیا ہے جو انہوں نے اپنے صحابیوں کے ساتھ پیش کیا تھا۔ عام طور پر مؤمنوں کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت و شفقت کو بیان کیا گیا ہے جہاں ان کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے، ‘‘(اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں’’ (9.128) اور ‘‘اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے رحمت ہیں’’ (9:61)۔ لیکن انہیں تمام جہانوں کے لیے بھی رحمت بتایا گیا ہے ‘‘اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر’’ (21.107) صرف مؤمنوں کے لیے ہی نہیں۔

آیت 3.159 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت رحمت کو ان کے مشن کی کامیابی کے لیےسختی اور درشتی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر وہ رحمت و شفقت کا رویہ نہیں اپناتے تو ان کے اپنے قریبی صحابہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیتے۔

جیسے جیسے قرآن ہمیں ان مختلف سیاق و سباق کے بارے میں بتاتا ہے جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر عمل کرنا تھا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خوبصورت صفت اور بھی زیادہ مؤثر نظر آتی ہے، اس لیے کہ ان آیات میں ‘‘انہیں معاف کرنے’’ اور ‘‘ان کے لیے بخشش طلب کرنے’’ کا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ امر عیاں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی صورت حال میں بھی ان کے ساتھ رحمت و شفقت کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ جب ان کے صحابیوں سے کوئی ایسی خطا سرزد ہو جائےجس کے لیے اللہ کی بخشش اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی معافی درکار ہو۔

اس کے بعد اس آیت میں جب بھی کوئی فیصلہ لینے کی ضرورت پیش آنے پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ سے درپیش مسئلہ میں مشورہ کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم ایمان کی ان بنیادوں کے بارے میں فیصلہ کرنے پر نہیں ہے جن کا تعین اللہ نے خود کیا ہے اور ان کا ذکر قرآن میں بھی کر دیا ہے، بلکہ یہ حکم مسلم معاشرے کے قلیل مدتی اور طویل مدتی مسائل سے اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کے نظم و نسق سے متعلق فیصلوں کے بارے میں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ سے مشورہ کرنے کا حکم دینے کے پیچھے دو مقاصد کار فرما تھے: پہلا تو یہ کہ درپیش مسئلہ کے تعلق سے مختلف نظریات سامنے آ سکیں تاکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو موجودہ راستوں کے بارے میں بخوبی علم ہو سکے۔ دوسرا مقصد اپنے فیصلے پر صحابہ کی اتفاق رائے حاصل کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقی مشاورتی عمل ہے جس میں صحابہ شریک کار کی حیثیت سے شامل ہوتے ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اس میں ایک قطعی فیصل کی ہوتی ہے۔

قیادت کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشاورتی نقطہ نظر کی ایک شاندار مثال غزوہ خندق میں قائم ہوئی تھی۔ اس جنگ کا ذکر قرآن کی سورۃ ‘‘الاحزاب’’ میں ہے اور یہ جنگ مدینہ کے مسلمانوں پر عرب اور یہودی قبائل کی متحدہ فوج کے حملے کے بعد وقوع پذیر ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی فوج کے خلاف دفاع کے بارے میں مشورہ کیا جو کہ تعداد میں ان سے 3-4 گنا زیادہ تھی۔ اس معاملے میں سلمان فارسی نے یہ مشورہ دیا کہ مدینے کے ارد گرد خندق کھود دی جائے تاکہ دشمن کے گھوڑے، اونٹ اور ان کے گھڑ سوار دستے اس میں گر کر بے اثر ہو جائیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس رائے سے اتفاق کیا جو کہ آخر کار کامیاب ہو کر رہی۔

اسلامی قیادت میں مشورہ کی بنیادی حیثیت کو ان دوسری جگہوں پر بھی تسلیم کیا گیا ہے جہاں مؤمنوں کی قابل تعریف صفات کا ذکر ہوا ہے:

‘‘اور جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصّہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں’’۔ (42.37)

‘‘جو لوگ اپنے رب کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور اُن کا فیصلہ باہمی مشورہ سے ہوتا ہے اور اس مال میں سے جو ہم نے انہیں عطا کیا ہے خرچ کرتے ہیں’’۔ (42.38)

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور نمایا صفت جمیلہ یہ ہے کہ جہاں وہ ایک حاکم اور فرمانروا ہیں وہیں وہ رحمت و شفقت کا پیکر بھی ہیں۔ صفات حسنہ کی اس جامعیت کا حصول ایک مشکل ترین امر ہے، اس لیے کہ جو لوگ صفات رحمت کے حامل ہیں عین ممکن ہے کہ وہ ثابت قدمی اور فیصلہ سازی میں ماہر نہ ہونے کی وجہ سے ایک لیڈر بننے میں ناکام ہو جائیں۔ جبکہ دوسری طرف جو لوگ مسند اقتدار پر ہیں ان کے لیے رحمت و شفقت کا برتاؤکرناانتہائی مشکل امر ہےاس لیے کہ وہ اپنی طاقت اور اختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔

یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ جن قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر قرآن نے کیا ہے آج کے مسلمانوں میں ان کا فقدان ہی فقدان نظر آتا ہے۔ مشاورت کو ڈکٹیٹرشپ کا متبادل بنایا گیا ہے۔ جبکہ رحمت، احسان اور بخشش کی جگہ سختی اور سنگدلی کو فوقیت دے دیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ قیادت کے جس تصور کو قرآن فروغ دیتا ہے ان کا انطباق صرف سیاست ہی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ اور عائلی زندگی سمیت مختلف شعبہائے حیات میں کیا جا سکتا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)

ماخذ: http://www.louayfatoohi.com/2014/01/islam/leadership-qualities-of-prophet-muhammad

URL:

https://newageislam.com/islamic-personalities/leadership-qualities-prophet-muhammad/d/35350

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/leadership-qualities-prophet-muhammad-/d/35733

 

Loading..

Loading..