New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 03:26 PM

Urdu Section ( 6 Aug 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Fanaticism is a Problem of Arrogant Self-Belief Not of Faith مذہبی تعصب مذہب کا نہیں بلکہ تکبر پر مبنی خود ساختہ معتقدات کا مسئلہ ہے

 

  

لوئے فتوحی

04 اگست، 2015

اس مضمون کو مصنف کے بلاگ سے ان کی اجازت کے ساتھ نیو ایج اسلام پر شائع کیا جا رہا ہے

اس بات کا پختہ عقیدہ رکھنے کا مطلب کہ فلاں کا مذہب ایک حتمی حقیقت ہے، عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے مقابلے میں فلاں کا مذہب زیادہ سچا ہے۔ اس طرح کے عقیدے کو اکثر، اگر مکمل طور پر نہیں تو کم از کم مذہبی تعصب اور عدم برداشت کا ایک اہم ذریعہ مانا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ اس تجربے کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ ان کا اپنا دین سب سے اچھا ہے۔ اگر چہ یہ تجربہ سچائی پر مبنی ہے، لیکن مذہبی تعصب کو اپنے مذہب پر کسی کے ایمان کی پختگی اور مضبوطی سے منسلک کرنا ایک سطحی بات ہے۔ اس سے حقیقی اور مزید بنیادی وجہ کا انکشاف نہیں ہو پاتا۔

کسی کا یہ عقیدہ کہ اس کا مذہب ایک سچا مذہب ہے کسی کے اندر مذہبی تعصب نہیں پیدا کرتا ہے۔ بلکہ اس کی وجہ اس کا یہ قطعی اور خود ساختہ تصور ہے کہ وہی ایک سچا مومن اور اس مذہب کا نمائندہ ہے۔ اصل مسئلہ کسی کا اپنے دین و مذہب پر مضبوط اور مستحکم ایمان رکھنا نہیں ہے، بلکہ کسی کا اپنے بارے میں سب سے اچھا مومن ہونے کا بے بنیاد عقیدہ رکھنا ہے۔ تین قسم کے تجربات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اول، یہ عقیدہ رکھنے والوں کی، کہ ان کا مذہب سب سے اچھا اور اعلیٰ ہے، غالب اکثریت روادار ہے اور دوسروں کے مذاہب کا احترام کرتی ہے، اور خوشی سے ان کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرتی ہے۔ دوم، مذہبی متعصب نہ صرف یہ کہ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے تئیں عدم رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ وہ خود اپنے ہی مذہب کےایسے پیروکاروں کے ساتھ بھی عدم روادار ہیں جنہیں وہ اچھا مومن نہیں مانتے، لہٰذا، اب یہ بات ثابت ہوگئی کہ عدم رواداری خود کو اپنے ہی مذہب کے دوسرے پیروکاروں سے بہتر سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ سوم، مذہبی تعصب کا اظہار خدا کے ساتھ لوگوں کے تعلقات میں نہیں ہوتا بلکہ مذہبی تعصب کا اظہار دوسروں کے ساتھ لوگوں کے تعلقات میں ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی ذہنی کیفیت نہیں ہے کہ جس سے کسی کے اندرونی حالات کا پتہ چلے، بلکہ یہ ایک ایسی ذہنیت ہے جس کا اظہار دوسروں کے ساتھ معاملات کرنے میں ہوتا ہے۔

ناجائز خود اعتمادی کی یہ انتہائی شکل سراسر تکبر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ شیطان کے اس بے جا فخر کی مثل ہے جس کا اظہار اس نے اپنی اس دلیل میں کیا ہے کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے اسی لیے اس نے ان کے سامنے سجدہ نہیں کیا:

‘‘اور بیشک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورت گری کی ، پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا (7:11)۔ ارشاد ہوا: (اے ابلیس!) تجھے کس (بات) نے روکا تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا، اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو تو نے مٹی سے بنایا ہے۔ "(7:12)

شیطان نے اپنے ایک مفروضہ کی بنیاد پر خود کو آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھا۔ مذہبی متعصب بھی خود کو دوسروں سے بہتر سمجھتے ہیں گو کہ خود خدا نے اسے اس پر مطلع کیا ہو۔ اس معاملے میں اس آیت کا مطالعہ مفید ہو گا:

‘‘اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے) سفر پر نکلو تو تحقیق کر لیا کرو اور اس کو جو تمہیں سلام کرے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے، تم (ایک مسلمان کو کافر کہہ کر مارنے کے بعد مالِ غنیمت کی صورت میں) دنیوی زندگی کا سامان تلاش کرتے ہو تو (یقین کرو) اللہ کے پاس بہت اَموالِ غنیمت ہیں۔ اس سے پیشتر تم (بھی) توایسے ہی تھے پھر اللہ نے تم پر احسان کیا (اور تم مسلمان ہوگئے) پس (دوسروں کے بارے میں بھی) تحقیق کر لیا کرو۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔ (4:94)

میں نے قرآن میں جہاد پر اپنی کتاب میں "مسلح جہاد کے غلط استعمال کے خلاف قرآن کی تنبیہ" کے تحت اس پر مزید شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، اس مقام پر اللہ نے خود کو کفار سے برتر و بہتر سمجھنے سے مومنوں کو خبردار کیا ہے، اور اللہ نے مسلمانوں کو اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ وہ بھی پہلے کافر تھے اور وہ خدا کی رحمت اور اس کی نعمت کی وجہ سے اب مسلمان ہیں۔ اللہ کے اس بیان کی بنیاد پر اس شخص کے اندر سے فخر کا احساس ختم ہو جانا چاہیے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان ہونا ایک ذاتی کامیابی ہے،اور اس کے اندر سے دوسروں پر برتری کا ہر احساس ختم ہو جانا چاہئے۔

آیت 4:94 میں کسی کے اسلام قبول کرنے کو خدا کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے حالت ایمان میں رہنے کو خدا کی ایک مستقل مہربانی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اگر چہ کوئی کامل مومن ہی کیوں نہ ہو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ اسلام سے نہیں پھرے گا۔ خدا سے ڈرنے اور اس سے حقیقی محبت کرنے والوں کے خشوع و خصوع کی ایک سب سے اچھی اور عاجزانہ مثال اس کے ایک انعام یافتہ بندے کی دعا میں ملتی ہے:

‘‘اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے’’۔ (12:101)

یوسف علیہ السلام نے جس وقت یہ دعا کی اس وقت وہ ایک صاحب معجزہ نبی تھے اور اس وقت تک ان پر خدا کی جانب سے متعدد حیرت انگیز نعمتوں کا ظہور بھی ہو چکا تھا۔ اور ان تمام نعمتوں اور رحمتوں کے باوجود ان کی عاجزی اور انکساری پر کوئی اثر نہیں پڑا اور انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہیں مسلمان رہنے کے لیے خدا کی مسلسل مدد کی ضرورت ہے۔ تکبر، بلا جواز خود اعتمادی یا خود پسندی کا ایک ہلکا سا بھی اشارہ نہیں ہے۔

عظیم صوفی اور شاعر جلال الدین رومی (1273-1207)نے بھی اللہ سے بہکے ہوئے لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسی طرح اپنی عاجزی و انکساری کا اظہار کیا ہے:

تم جو کوئی بھی ہو آو، آو۔

آوارہ، مشرک، آتش پرست،

آؤ اگر چہ تم نے اپنے عہد کو ہزار بار توڑ دیا ہو،

آو، اور جلدی آؤ۔

ہمارا قافلہ مایوسی کا قافلہ نہیں ہے۔

مذہبی متعصبوں کے اندر عاجزی کی کمی ہے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ سچ جاننا اور سچائی کے راستے پر ہونا ایک جیسا نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خدا ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کو کافروں سے زیادہ بڑا گنہگار قرار دیتا ہے، انہیں "منافق" کہتا ہے اور انہیں "دوزخ کے سب سے نچلے درجے " میں عذاب کی وعیدیں سناتا ہے (4:145)۔

غرور و تکبر نے نسل انسانی کو اس کے روز اول سے ہی تباہی و بربادی کے راستے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اس روحانی بیماری کی ناجائز پیداوار مذہبی تعصب صرف ایک مذہب تک ہی محدود نہیں ہے۔ لوگوں کے اندر مذہبی تعصب کسی بھی عقیدے کے تئیں پیدا ہو سکتا ہے، اس لیے کہ مذہبی تعصب خود سری اور خود پسندی کے ایک انتہائی مبالغہ آمیز احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ قیادت کے عہدوں پر فائز لوگوں کے اندر تعصب کا احساس زیادہ ہوتا ہے،قیادت اس شخص کے اندر مشن کا ایک ایسا احساس پیدا کر دیتی ہے جو کہ آسانی کے ساتھ انانیت اور خود پسندی میں بدل سکتا ہے۔ ایک متعصب سیاست دان کی سب سے بہترین مثال سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر ہیں۔ جس طرح انہوں نے عراق کے خلاف تباہ کن جنگ کا جواز پیش کرنے کے لئے برطانوی لوگوں، دوسرے سیاستدانوں، اور دیگر ممالک کو گمراہ کیا وہ اس بات کی ایک واضح مثال ہے کہ ایک متعصب کاطرز عمل اور برتاؤ کیسا ہوتا ہے۔ وہ اپنے دعووں کے خلاف مضبوط ترین ثبوت کی موجودگی کے باوجود جنگ کے لئے اپنے مطالبے پر نظر ثانی نہی کر سکے۔ عراق کے خلاف جنگ پر ان کی دلیلیں بدلتی رہیں، اس لیے کہ ان کے خلاف حقائق اجاگر ہو رہے تھے۔ جو تبدیل نہیں ہوا وہ حق پر ہونے ان کا گمان باطل تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ، ٹونی بلیئر نے ہمیشہ مسلم مذہبی تعصب سے دنیا کو خبردار کیا ہے!

غرور و تکبر ایک تباہ کن بیماری ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس کی مذمت فرمائی ہے (مثلا 31:18)۔ تعصب تکبر کی ایک علامت ہے۔ دوسری طرف عاجزی و انکساری اس کی ایک شاندار دوا ہے۔ انسانوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ان کے لیے منکسر المزاج ہونے کے بجائے مغرور و متکبر ہونا آسان ہے۔

ماخذ

http://www.louayfatoohi.com/2013/06/religion/fanaticism-is-a-problem-of-arrogant-self-belief-not-of-faith

Copyright © 2013 Louay Fatoohi

URL for English article:  https://newageislam.com/spiritual-meditations/fanaticism-problem-arrogant-self-belief/d/104158

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/fanaticism-problem-arrogant-self-belief/d/104178

 

Loading..

Loading..