لغات القرآن
نسخ کے معنی ہیں ایک چیز کو مٹادینا اور اس جگہ دوسری چیز کو لے آنا۔ دوسری چیز کو اس کے قائم مقام کردینا ( ابن فارس)۔ نسخت الشمس الظل ۔ آفتاب نے سایہ کو ہٹا دیا اور اس کی جگہ روشنی لے آیا۔ یا کسی چیز میں تبدیلی کردینا ۔ نسخت الریح آثار الدیار ۔ ہوانے آبادی کے لحاظ آثار ( نشانات و علامات) کو تبدیل کردیا ( یعنی وہ کھنڈرات وغیرہ جن سے آبادی کاپتہ نشان ملتا تھا انہیں ریت سے ڈھانک کرد گر گوں کو کردیا)۔ نسخ الکتاب۔ ایک کتاب کو نقل کر کے اس جیسی دوسری کتاب مرتب کرلینا ۔ اسی سے النسخۃ منقول ( Copied) کتاب کو کہتے ہیں ( تاج ۔ محیط و راغب) ۔ قرآن کریم میں ہے ۔ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ ( 45:29) ‘‘ ہم لکھوالیتے تھے’’ ۔ مٹا دینے یا زائل کردینے کے معنوں میں یہ لفظ (22:52) میں آیا ہے ۔فَيَنسَخُ اللَّهُ ‘‘ اللہ مٹا دیتا ہے’’۔
لہٰذا نسخ کے بنیادی معنی ہیں ایک چیز کی جگہ دوسری چیز لےآنا۔ اس لفظ کی اہمیت اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں ناسخ و منسوخ کا عقیدہ چلا آرہا ہے اور اسے دین کے مہمات میں سے سمجھا جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ ہے بھی بہت اہم ۔ اس لئےکہ اس کا غلط مفہوم دین کو اس کی جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے اور اس کا صحیح مفہوم قرآن کو خدا کے دین کا آخری اور واحد ضابطہ ثابت کردیتا ہے۔
ناسخ و منسوخ کا مروجہ مفہوم یہ ہے کہ قرآن کریم میں متعدد آیات ایسی ہیں ( بعض کےنزدیک ان کی تعداد پانچ سو تک ہے) جو پڑھی تو جاتی ہیں لیکن جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ پھر سن لیجئے کہ ( اس عقیدہ کےمطابق) قرآن کریم میں پانچ سو کے قریب ایسی آیات ہیں جنہیں محض ‘‘ثواب’’کے غرض سے پڑھ لیا جاتا ہے لیکن ان میں جو احکام ہیں وہ سب منسوخ ہوچکے ہیں ۔ بعض احکام قرآن کریم کی دوسری آیات نے منسوخ کردیئے ہیں اور بعض احکام احادیث نے منسوخ کردیئے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی ہے کہ بعض آیات ایسی بھی ہیں جو قرآن کریم کے اندر موجود نہیں لیکن ان کا حکم موجود ہے ( مثلاً آیہ رجم ۔ یعنی زانی کو سنگسار کرنے کے حکم والی آیت) ۔ اس عقیدہ کی ر و سے قرآن کریم کی شکل یوں بنتی ہے کہ :
(1) قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جن کے احکام تو منسوخ ہوچکے ہیں لیکن جن کی تلاوت ہوتی رہتی ہے۔ اور
(2) ایسی آیات بھی ہیں جو قرآن کریم کے اندر تو نہیں لیکن ان کاحکم موجود ہے۔ دوسری قسم کی آیات کے لئے تو دلیل صرف روایات کی ہے۔ لیکن پہلی قسم کی آیات کے لئے خود قرآن کریم ہی کی ایک آیت سے دلیل لائی جاتی ہے ۔ اور وہ آیت یہ ہے۔
مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2:106)۔ اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے ۔
ہم جس آیت کو منسوخ کردیتے ہیں یا اسے فراموش کرادیتے ہیں تو اس سےبہتر یا اس جیسی اور آیت لے آتےہیں۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ شے پر قادر ہے۔
اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتاہے کہ خدانے قرآن کریم میں کسی بات کا حکم دیا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اس نے سوچا کہ اس حکم کو منسوخ کردینا چاہئے۔ چنانچہ اس نے ایک اور آیت نازل کردی جس سے وہ پہلا منسوخ ہوگیا۔ یہ حکم اس سے پہلے حکم سے بہتر ہوتا تھا ۔ واضح رہے کہ اس نئی آیت میں یہ کہیں نہیں بتایا جاتا تھاکہ اس سے فلاں آیت کو منسوخ سمجھا جائے۔ اس لئے قرآن کریم میں منسوخ آیات بھی اسی طرح سےموجود ہیں اور ناسخ آیات بھی ۔ اللہ نے ان کےمتعلق کہیں نہیں بتایا کہ فلاں آیت منسوخ ہے فلاں آیت ہے۔ یہ تعین بعد میں روایات کی رو سے یا مفسرین کےاپنے خیالات کی رو سے کیا گیا ۔ چنانچہ ان آیات کی تعداد ہمیشہ گھٹتی بڑھتی رہی ۔ حتیٰ کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی تعداد صرف پانچ ہے۔
باقی رہا ‘‘ فراموش کرادینے’’ کا سوال۔ سو اس کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ اللہ کی طرف سے آیا ت نازل ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( معاذ اللہ) انہیں بھول جاتے تھے۔ تو پھر انہی جیسی آیات اور نازل ہوجاتی تھیں۔ یہ مراد ہے اَوْنُنْسِھَا سے۔ اس کی دلیل میں یہ آیۃ پیش کی جاتی ہے۔سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ ۔ إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ .....( 87:6:7) جس کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہم تجھے پڑھائیں گے سو تو نہ بھولے گا، ہا ں مگر جو اللہ چاہتا ہے۔
اس عقیدہ کے رو سے آپ دیکھئے کہ خدا قرآن کریم اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کس قسم کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ خدا کا تصور اس قسم کا کہ وہ آج ایک حکم صادر کرتا ہے لیکن بعد کے حالات بتادیتے ہیں کہ وہ حکم ٹھیک نہیں تھا ا س لئے وہ قرآن کریم کے اس حکم کو منسوخ کر کے اس کی جگہ دوسرا حکم دے دیتا ہے ۔
قرآن کریم کے متعلق یہ کہ اس میں بے شمار آیات ایسی ہیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی تلاوت برابر ہو رہی ہے اور یہ کہیں نہیں بتایا گیا کہ کون سی آیات منسوخ ہے اور کون سی ناسخ۔ اسے لوگوں پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ خود اس کا فیصلہ کریں کہ کون سی آیت منسوخ ہے اور کون سی ناسخ ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ تصور کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی طرف سے نازل کردہ قرآنی آیات کو بھی بھول جایا کرتے تھے ۔ یا للعجب ! ناسخ و منسوخ کا صحیح مفہوم آگے آئے گا۔ سَنُقْرِ ئُکَ فَلاَ تَنْسٰٓی کے صحیح مفہوم کے لئے عنوان ن۔س۔ی دیکھئے جہاں اس کی تشریح کردی گئی ہے۔
اب دیکھئے اس آیت ( مَا نَنْسَخْ .......) کا صحیح مفہوم ۔ پیچھے سے سلسلۂ کلام یوں چلا آتاہے کہ اہل کتاب ( بالخصوص یہود) قرآن کریم اور رسالت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ پر مختلف اعتراضات کرتے ہیں ( قرآن کریم ان اعتراضات کا جواب دیتا ہے) ۔ اسی سلسلہ میں ان کا ایک اعتراض یہ بھی تھا ( اور یہ اعتراض بڑا اہم تھا) کہ جب خدا نے ابنیاء سابقین ( مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ) پراپنے احکام نازل کر دیئے تھے’ اور وہ احکام تو ریت وغیرہ میں موجود ہیں ۔ تو پھر ان کی موجودگی میں اس نئے کتاب کی ضرورت کیا تھی؟ اس آیت میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ ان سےکہا گیا ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خدا کی طرف سے سلسلۂ رشد و ہدایت حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سےمسلسل چلاآرہا ہے۔ لیکن اس کی صورت یہ رہی ہے کہ مختلف انبیاء کی وساطت سے جو وحی بھیجی جاتی تھی ان میں ایک حصہ ان احکامات پر مشتمل ہوتا تھا جو وقتی ہوتے تھے اور ان کا تعلق خاص اسی قوم سےہوتا تھا جس کی طرف وہ احکام بھیجے جاتے تھے اور انہیں انہی حالات میں نافذ العمل رہنا ہوتا تھا جو اس زمانے کے تقاضے سے پیدا ہو ئے تھے ۔ بعد میں جب وہ قوم نہ رہتی یا زمانے کے تقاضوں سے وہ حالات بدل جاتے تو ایک اور رسول آجاتا اور وہ ان احکام کی جگہ دوسرے احکام لے آتا ۔ اس طرح یہ جدید وحی اس سابقہ وحی کی قائم مقام ( ناسخ) بن جاتی ۔ یہ سلسلہ شروع ہی سے ایسا چلا آرہا ہے۔ چنانچہ تم خود دیکھ رہے ہو کہ توریت کے کتنے احکام ہیں جنہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آکر بدل دیا ( یہ بدلے ہوئے احکام انجیل میں موجود ہیں)۔
دوسری بات یہ ہے کہ انسانیت کے تقاضے اور اس کی ذہنی سطح بھی اپنے ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی اور اوپر کو اٹھتی چلی آرہی ہے۔ اس لئے ہر قوم کو اس کے حالات اور ارتقائی سطح کے مطابق ہی احکام دیئے جاتے تھے ۔ ان کی سطح سےبلند احکام و قوانین روک لئے جاتے تھے ۔ تا کہ ان کے بعد دوسری قوم آتی جو ارتقائی منزل میں ان سے آگے ہوتی ۔ تو وہ ‘‘ روکے ہوئے’’ احکام و قوانین اس وقت نازل کردیئے جاتے۔ تنزیل وحی میں یہ اصول بھی کار فرمارہاہے۔
نیز یہ شکل بھی ہوتی کہ ایک رسول کے چلے جانے کے بعد اس کی قوم اس کی وحی کے بعض حصوں کو ترک کردیتی ۔ بعض کو فراموش کردیتی۔ اس لئے ان ترک کردہ یا فراموش کردہ حصوں کو ( جن میں کسی تغیر و تبدل کی ضرورت نہ ہوتی) بعد میں آنے والے رسول کی وحی سے از سر نو تازہ کردیا جاتا۔
یہود سے کہا گیا کہ وحی کا سلسلہ اس طرح چلا آرہا ہے ۔اب وہ دور آگیا ہے جس میں انسانی شعور پختگی حاصل کرلے گا۔ لہٰذا اب انتظام یہ کیا گیا ہے کہ۔
(1) سابق انبیاء کی وحی کے وہ تمام احکام جو ان کی قوم کے حالات اور ان کے زمانے کے تقاضوں کے ساتھ مخصوص تھے منسوخ کرکے ان کی جگہ دوسرے احکام و قوانین بھیج دیئے جائیں اور چونکہ وحی کا یہ سلسلہ اب ختم ہورہا ہے اس لئے یہ احکام وقتی اور ہنگامی نہیں ہوں گے بلکہ ابدی طور پر انسانیت کاساتھ دینے والے ہوں گے ۔ اس لئے یہ احکام و قوانین سابقہ احکام سے بہتر ہوں گے۔
(2) وہ قوانین جنہیں پہلے روک لیا گیا تھا کیونکہ ہنوز انسانیت اس سطح پر نہیں پہنچ سکی تھی کہ انہیں سمجھ سکے یا اپنا سکے ، اب انہیں بھی نازل کردیا جاتاہے’ کیونکہ قرآن کریم انسانیت کی بلند ترین سطح تک اس کا ساتھ دے گا۔
(3) اور سابق انبیاء کی وحی کے وہ احکام و قوانین جنہیں ان کی قوموں نے ترک کردیا تھا۔ یا فراموش کردیا تھا ( یا جن میں انہوں نے تحریف کردی تھی) ان کی تجدید کردی گئی ہے ( ان کی مثل احکام دیئے گئے ہیں)۔
یہ ہے وہ ضرورت جس کے لئے ایک نئے رسول او رنئی کتاب کو بھیجا گیا ہے اور یہ ہے وہ وجہ کہ اب تمام سابقہ کتابوں کی جگہ اسی قرآن کریم پرایمان لانا اور اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ اب اس کے سواہد ایت کی کوئی او ر راہ نہیں ۔فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۖ وَّإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ( 2:137)۔ اگر یہ بھی اسی طریق پر ایمان لائیں جس طرح ( اے جماعت مومنین) تم ایمان لائے ہوتو پھر یہ لوگ ہدایت پاسکیں گے اور اگر اس راہ سے اعراض برتیں گے تو پھر خدا کے راستے کے مخالف سمت جائیں گے۔
یہ صحیح مفہوم مَا نَنْسَخْ مِنْ اَوْ نُنْسِھَا نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْمِثْلِھَا کا ۔ اب دیکھئے کہ ان الفاظ کے لغوی معنی کس طرح اس مفہوم کے آئینہ دار بنتے ہیں۔
نسخ کے معنی ہم نے اوپر دیکھ ہی لئے ہیں ۔ کسی چیز کی جگہ کسی دوسری چیز کو لے آنا۔ آیت کے معنی صرف قرآن کریم کی آیات نہیں ۔ قرآن کریم نے ہر رسول کی وحی کو آیات اللہ کہا ہے۔ مثلاً اسی سورۃ بقرہ میں قصۂ آدم میں ہے کہ آدم سے کہا گیا ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (2:38)۔ جب بھی میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے تو جو کوئی اس ہدایت کی اتباع کرے گا اسے کوئی خوف اور حزن نہیں ہوگا اور اس سے آگے ہے۔وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا.... ( 2:39) ان کے برعکس جو لوگ ہماری آیات کو تکذیب کریں گے اور ان سے انکار کریں گے..... یہا ں سے ظاہر ہے کہ جہاں اور جب بھی خدا کی طرف سے ہدایت آئی ہے اسے آیات اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ لہٰذا مَا نَنْسخْ مِنْ اٰیَۃٍ میں آیات سے مراد قرآن کریم کی آیات نہیں بلکہ اس سے مراد ہے کسی سابق وحی کی آیات کی تبدیلی بعد کی وحی کی آیات سے۔ جیسا کہ سورۃ نحل میں کہا گیا ہے۔وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ (16:101)۔ ‘‘ اور جب ہم ایک آیت کی جگہ دوسری آیت بدل دیتےہیں’’۔
اس کے بعد لفظ نُنْسِھَا ہے۔ یہ لفظ نسی سے ہے۔ نسی کے معنی کسی چیز کو ترک کر دینا ، یا فراموش کر دینا ’ آتے ہیں ۔ ( دیکھئے عنوان ن۔س۔ی) اس لفظ میں ساری حقیقت آجاتی ہے کہ سابقہ کتب آسمانی اپنی اصل حالت میں باقی نہیں رہتی تھیں ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے کہ جو رسول بھی آیا اس کے ساتھ یہی ہوا کہ اس کی وحی میں سرکش اور مفسد لوگوں نے اپنی طرف سے کچھ ملا دیا ۔ لیکن خدا کی طرف سے ایسا ہوتا رہا کہ ان کی اس آمیزش اور ملاوٹ کو الگ کردیا جاتا اور اس طرح اللہ اپنی آیات کو از سر نو محکم کردیتا ( 22:52) ۔ یا وہ اس وحی کے کچھ حصے کو ترک ہی کر دیتے تھے۔ اس حصہ کو خدا نئے رسول کی وحی میں پھر شامل کردیتا ۔ اس سے بھی ظاہر ہے کہ ایک آیت کی جگہ دوسری آیت ( یا اس کی مثل اس جیسی آیت) سے مراد سابق وحی کی آیات ہیں نہ کہ قرآن کریم کی ایک آیت کی جگہ دوسری آیت۔
نسی کے معنی کسی چیز کو علیٰ حالہ چھوڑ دینے کے بھی ہیں ۔اس اعتبار سے آیت نُنْسِھَا سےمفہوم یہ ہوگا کہ جن سابقہ احکام کے متعلق ہمارا فیصلہ یہ ہوتا کہ انہیں علیٰ حالہ رہنے دیا جائے انہیں ہم نئے رسول کی وحی میں اسی طرح شامل کردیتے ۔
اس اعتبار سے قرآن کریم ایک طرف تمام انبیاء سابقہ کی وحی کامھیمن ہے ( 5:48) یعنی اس کے اندر وہ تمام قوانین محفوظ ہوگئے ہیں اور دوسری طرف خدا کو جس قدر احکام نوع انسانی کے لئے دینے تھے، ان سب کی تکمیل ہوگئی ہے۔ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا (6:115) ۔ نہ خدا کی طرف سے اب کسی تبدیلی کی ضرورت باقی ہے اور نہ انسانوں میں سےکوئی ردو بدل کرسکے گا۔ کیونکہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود خدا نے لے رکھا ہے ( 15:9)۔
اس کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ خدا نے وحی کے سلسلہ کو اس طرح کیوں رکھا۔ تو اس کا جواب یہ کہہ کر دے دیاکہ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (2:106) ۔ خدا کے ہاں ہر بات کے اندازے مقرر ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ انسانوں کو کس زمانے میں کس قسم کے احکام ملنے چاہئیں اور وہ دور کب آئے جب انہیں مکمل ضابطۂ حیات دے دیا جائے۔ یہ سب کچھ ان اندازوں کے مطابق ہوتا ہے جن پر اسے پوری پوری مقدرت حاصل ہے۔
یہ ہے ناسخ و منسوخ کا صحیح مفہوم ۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس میں ایک لفظ بھی منسوخ نہیں ۔ اس کا ہر حکم اپنی جگہ محکم وغیر متبدل ہے۔ البتہ ہر حکم خاص حالات کے ماتحت نفاذ پذیر ہوتا ہے۔ جب حالات بد ل جائیں تو اس کی جگہ قرآن کا دوسرا حکم نافذ ہو جاتا ہے ۔ مثلاً صلوٰۃ کے لئے وضو کا حکم ہے۔ لیکن اگر پانی نہ ملے یا انسان مریض ہو تو وضو کی جگہ تیمّم کا حکم ہے ( 5:6) ۔ ان حالات میں وضو کا حکم پیچھے ہٹ جائے گا اور تیمّم کا حکم آگے آجائے گا۔ جب پانی مل جائے گا ( یا مریض جاتا رہے گا) تو پھر وضو کا حکم آگے آجائے گا اور تیمّم پیچھے چلا جائے گا۔
یا مثلاً قرآن کریم نے چور اور زانی (وغیرہ) کےلئے سزا مقرر کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی معاشرہ میں چوری اور زنا کی وارداتیں نہ ہوں تو قرآن کریم کے ( سزاؤں کے متعلق) احکام نافذ العمل نہیں ہوں گے۔ یا مثلاً اگر کسی معاشرہ میں مفلس محتاج گدا گرنہ رہیں تو خیرات وغیرہ سے متعلق احکام نافذ نہیں ہوں گے۔ یا مثلاً اگر کوئی شخص ترکہ چھوڑ کر نہ مرے تو وراثت کے احکام ا س پر نافذ نہیں ہوں گے ۔ اسی طرح اگر کوئی ایسا معاشرہ متشکل ہو جائے جس میں فالتو دولت یا جائداد کسی کے پاس نہ ہوتو وراثت کے احکام نافذ نہیں ہوں گے ۔ ظاہر ہے کہ ان امور کو ‘‘ ناسخ ومنسوخ’’ سے کچھ واسطہ نہیں ۔ یہ احکام اپنی جگہ موجود رہتےہیں۔ جب وہ حالات پھر پیدا ہوجائیں جن کے ماتحت انہیں نافذ ہونا تھا، تو وہ پھر نافذ ہوجاتے ہیں ۔ ‘‘ منسوخ’’ اسے کہتےہیں جو ہمیشہ کے لئے ساقط ہوجائے او رکبھی نافذ نہ ہوسکے ۔ قرآن کریم میں ایسا کوئی حکم نہیں ۔
مَا نَنْسَخْ والی آیت ( 2:106) ۔ یا سورۃ النحل کی آیت وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ (16:101) میں اگر آیۃ سے مراد کائناتی حوادث و وقائع لئے جائیں ( جنہیں قرآن کریم متعددمقامات پر ‘‘ آیات اللہ’’ کہہ کر پکارتاہے) تو ‘‘ نسخ آیت’’ سے مراد ہوگا نظام کائنات کے کسی ایک طریق یا مظہر کی جگہ کسی دوسرے طریق یا مظہر کا آجانا ۔ ارباب علم و تحقیق سے پوشیدہ نہیں کہ کائنات میں اس قسم کے تبدلات کس طرح آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔
لیکن چونکہ ہر دو مذکورہ بالا آیات کے سیاق و سباق کا تعلق وحی سےہے اس لئے ہم پہلے بیان کردہ مفہوم کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ دوسرے مفہوم کی رو سے معانی میں بڑی وسعت پیدا ہوجاتی ہے۔
اول الذ کر مفہوم ہو یا ثانی الذ کر یہ حقیقت اپنی جگہ رہتی ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نہیں جو منسوخ ہو ۔ اس غیر متبدل صحیفۂ آسمانی کا ایک ایک حرف اپنے مقام پر اٹل ہے اور اٹل رہے گا ۔ واللہ علیٰ مانقول شھید۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ طلوع اسلام، لاہور
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/to-reproduce-/d/100186