ڈاکٹر اسرار احمد
(دوسرا حصّہ)
25 جون 2021
کامیابی اور ناکامی کا
قرآنی معیار
دوسری بات جو اِس سورۂ
مبارکہ پر معمولی سے غور و فکر کے نتیجے میں سامنے آتی ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہ
ہو گا کہ اس جامِ حقیقت نما سے از خود چھلک رہی ہے، یہ ہے کہ اس میں انسان کی
کامیابی اور ناکامی کا ایک معیار وارد ہوا ہے۔ ہر شخص جو اِس دنیا میں زندگی بسر
کر رہا ہے، بھاگ دوڑ، سعی و جُہد اور محنت و مشقت کر رہا ہے، کامیابی کا کوئی نہ
کوئی معیار اس کے سامنے ہے اور اگر ہم
تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اکثر و بیشتر دنیا میں کسی انسان کی کامیابی کے جو
معیارات معروف ہیں ان میں دولت و ثروت ہے، حیثیت ووجاہت ہے، شہرت و ناموری ہے یا
کاروبار و جائیداد ہے۔ ان چیزوں سے بالعموم کسی انسان کی کامیابی یا ناکامی کو
ناپا جاتا ہے۔ لیکن اس سورۂ مبارکہ میں اس کے بالکل برعکس تصور سامنے آتا ہے کہ
انسان کی کامیابی نہ دولت و ثروت سے ہے، نہ شہرت و ناموری سے ہے، نہ حیثیت و وجاہت سے ہے، نہ دُنیوی اقتدار و غلبے سے، بلکہ
انسان کی کامیابی کے چار لوازم ہیں: ایمان
، عمل صالح، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر!
گویا اگر کسی انسان کے
پاس نہ دو وقت پیٹ بھرنے کے لئے کچھ موجود ہو، نہ تن ڈھانپنے کے لئے مناسب لباس
اسے میسر ہو، اور نہ سر چھپانے کے لئے کوئی چھت اسے حاصل ہو، لیکن ایمان کی دولت،
عمل صالح کی پونجی اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے اس کا دامن بھرا ہوا ہو تو
وہ انسان ازروئے قرآن و از روئے سورۃ العصر ایک کامیاب انسان قرار پائے گا ۔ اسکے
برعکس کسی کے پاس خواہ نمرود اور فرعون کی سی بادشاہی ہو، قارون کا سا خزانہ ہویا دنیا
کی دوسری تمام نعمتیں انتہائی کثرت اور بہتات کے ساتھ جمع ہو گئی ہوں، لیکن اگر وہ
دولتِ ایمان سے محروم ہے، اعمالِ صالحہ کی پونجی سے تہی دامن ہے، تواصی بالحق اور
تواصی بالصبر سے عاری ہے تو وہ شخص ازروئے سورۃ العصر ناکام ہے، خائب و خاسر اور
نامراد ہے۔
اس حقیقت کو جان لینا
شاید اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اس پر دل کا جم جانا دشوار ہے۔ اس لئے کہ انسان اس
دنیا میں اپنے گرد و پیش سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اگر کسی وقت کوئی
چمکیلی شوخ رنگ کی نئے ماڈل کی کار کسی کے پاس سے زنّاٹے کے ساتھ گزر جاتی ہے تو
واقعہ یہ ہے کہ اعصاب میں ایک ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی عالی
شان محل کے سامنے سے گزر ہو جس میں زندگی کی تمام آسائشیں فراہم ہوں تو نفسِ
انسانی اس سے تاثر قبول کرتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی
چمک دمک اور رونقوں سے متاثر ہونا انسان کی خِلقی (پیدائشی، فطری) کمزوریوں میں سے
ایک ہے، لہٰذا ضرورت ہے کہ کامیابی و ناکامی کے اس قرآنی معیار کو ایک دفعہ مان
لینے کے بعد اس کا بار بار اعادہ کیا جاتا رہے، اس حقیقت کی طرف وقفے وقفے سے ذہن
کو منتقل کیا جاتا رہے اور اس کی بکثرت یاد دہانی ہوتی رہے۔ یہی وہ بات ہے جو
صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز ِ عمل سے سامنے آتی ہے اور اس سوال
کا واضح جواب ہمارے سامنے آتا ہے کہ آخر وہ کیوں ہر ملاقات کے موقع پر ایک دوسرے
کو سورۃ العصر سنایا کرتے تھے! اسی لئے کہ یہ حقیقت ذہن میں مستحضر رہے کہ انسان کی
کامیابی دولت و جائیداد، دنیاوی اقتدار اور شہرت و ناموری سے نہیں بلکہ کامیابی کے
لوازم بالکل دوسرے ہیں، یعنی ایمان، اعمالِ صالحہ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر۔
نجات کی کم از کم شرائط
کا بیان
تیسری بات جو اِس سورۂ
مبارکہ پر معمولی سے غور و فکر سے واضح ہو جاتی ہے ، یہ ہے کہ اس سورۃ میں انسان
کی کامیابی کے اعلیٰ مراتب کا ذکر نہیں ہے، بلکہ یہاں محض ادنیٰ درجے میں کامیابی کا بیان ہے۔ اس میں محض خسارے
اور گھاٹے سے بچ جانے کی شرائط کو بیان کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ کم از کم
لوازمِ نجات ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ انسان کی کامیابی کی کم سے کم شرائط ہیں
جن سے کم تر پر نجات کا کوئی تصور نہیں! اس لئے کہ اگر یوں کہا گیاہوتا کہ ان
لوگوں کو بڑے اعلیٰ مراتب نصیب ہوں گے جن میں مذکورہ بالا چاروں صفات موجود ہوں گی
تو پھر امکانی طور پر یہ خیال ذہن میں آ سکتا ہے کہ کامیابی ٔمحض کے حصول اور
ناکامی سے بچنے کے لئے اس سے کم تر پر قناعت کی جا سکتی ہے۔ یعنی چار کے بجائے دو
شرائط کو پورا کرنے پر بھی ہلکے درجے کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن یہاں
جو اُسلوب اختیار کیا گیا اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ انسان کی کامیابی کا
کم سے کم تقاضا اور اس کی فوز و فلاح کے کم سے کم لوازم ہیں جو اس سورۂ مبارکہ
میں بیان ہوئے۔
چاروں شرطیں لازمی ہیں
چوتھی، آخری اور اہم
ترین بات جو اِس سورۂ مبارکہ پر غور و فکر سے انسان کے سامنے آتی ہے، یہ ہے کہ
یہاں جو لوازمِ نجات بیان ہو رہے ہیں اور جن سے انسان کی کامیابی کو مشروط قرار
دیا گیا ہے وہ سب کے سب ناگزیر ہیں، ان میں سے کسی ایک کو بھی ساقط کرنے کا کسی کو
کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے کہ یہ کلامِ الٰہی ہے۔ اس کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا
جا سکتا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) کہ ؏ ’’بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیبِ
داستاں کے لئے‘‘ والا کوئی معاملہ اس میں کیا گیا ہویا محض ردیف اور قافیے کی
ضرورت کے تحت کچھ اضافہ کر دیا گیا ہو۔ اس کا ایک ایک حرف اپنی جگہ اٹل ہے، اس میں
جو بات فرمائی گئی ہے وہ جوں کی توں حقیقت ہے، اس میں کسی قطع و برید اور کسی کمی
و بیشی کی کوئی گنجائش ہے نہ امکان! اس لئے کہ یہ کلام اللہ ہے۔
دیکھئے، اگر کوئی معالج
کسی مریض کو چار اجزاء پر مشتمل ایک نسخہ لکھ کر دے تو ظاہر ہے کہ وہ چاروں اجزاء
اس نسخہ کے لازمی اجزاء ہونگے۔ بلکہ بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک جزو میں اگر
کوئی مضرت بخش پہلو ہو تو دوسرا جزو اس میں مصلح کی حیثیت سے شامل ہوتا ہے، لہٰذا
اگر کوئی مریض اپنی مرضی سے اس نسخہ میں سے کسی جزو کو ساقط کر دے تو یہ بات طے
شدہ ہے کہ اب یہ نسخہ اس معالج یا حکیم کا نسخہ نہیں رہا ،بلکہ اب اس کی ذمہ داری
اُس شخص پر ہے جس نے اس میں قطع و برید یا کمی بیشی کی ہے۔ عین ممکن ہے کہ اب وہ
نسخہ نسخہ ٔ شفا نہ رہے بلکہ نسخہ ٔ ہلاکت بن جائے۔
ایک مغالطے کا ازالہ
قرآن مجید کی اس سورۂ
مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی نجات کو چار شرائط سے مشروط کیا ہے۔ ظاہر ہے
کہ یہ چاروں شرائط ناگزیر اور ضروری ہیں،
ان میں سے کسی ایک شرط کو بھی ساقط کرنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ یہ بات اس پہلو سے
بہت اہم ہے کہ اس وقت اُمت مسلمہ عملی اعتبار سے جس تنزّل اور انحطاط کا شکار ہے
اس کا ایک بڑا سبب بھی یہی ہے کہ ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ صرف ایمان ہی
نجات کیلئے کافی ہے، بلکہ ایمان کا بھی
صرف قانونی پہلو جو اقرار باللسان سے متعلق ہے،انسان کو جنت کا حقدار بنانے کیلئے
کافی ہے۔
یہ مغالطہ آج اُمت مسلمہ
کی ایک عظیم اکثریت کے ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ کلمہ گو بہرحال نجات پا جائے گا،
خواہ اس کلمے کیلئے جو اُسے وراثتاً مل گیا ہے، اس نے نہ تو کوئی محنت کی ہو، نہ
ترک و اختیار کے کسی مرحلہ سے اسے گزرنا پڑا ہو اور نہ ہی کلمے کے عملی تقاضوں کو
پورا کرنے کی جانب اس نے کبھی کوئی توجہ دی ہو۔جب انسان کے ذہن میں یہ بات بیٹھ
جائے کہ وہ تو بخشا بخشایا ہے اور نجات و کامیابی اس کا موروثی حق ہے اور اسے از
خود حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ پھر عملی کھکھیڑ مول لینے اور مشکلات اور دینی ذمہ
داریوں کا بوجھ سنبھالنے کی کوئی ضرورت اسے محسوس نہیں ہوتی۔ اسی مغالطے نے اُمت
مسلمہ کو عمل سے یکسر فارغ کر دیا۔بقول علامہ اقبال :
خبر نہیں کیا ہے نام اس
کا خدا فریبی کہ خود فریبی؟
عمل سے فارغ ہوا مسلماں
بنا کے تقدیر کا بہانہ!
جہاں تک تواصی بالحق اور
تواصی بالصبر کے حوالے سے عائد ہونے والی
ذمہ داریوں کا تعلق ہے، اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی انہیں یکسر فراموش کر چکی
ہے۔ دعوت الی اللہ، تبلیغ دین، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ،
شہادت علی الناس، یہ تمام فرائض تو گویا مسلمانوں کے تصورِ دین سے بالکل خارج ہو
چکے ہیں۔ان کے بارے میں تو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ شاید یہ صرف ایک مخصوص طبقہ کی
ذمہ داری ہے، عام مسلمان پر اس کا کوئی بوجھ ہے نہ وہ اس کیلئے مکلف ہے۔ ان تمام تصورات کی ایک بھرپور نفی اس
سورۂ مبارکہ کے چند الفاظ کے ذریعے کی گئی ہے، فرمایا:
یعنی ’’زمانہ اس پر گواہ
ہے کہ تمام انسان خسارے اور گھاٹے سے دوچار ہوں گے، ماسوائے ان کے کہ جو چار شرطیں
پوری ریں: ایمان، عمل صالح،تواصی بالحق اور تواصی بالصبر۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ امام رازیؒ
نے اپنی مشہورِ زمانہ تفسیر میں سورۃ العصر کے ضمن میں یہ جامع الفاظ تحریر فرمائے
ہیں :
’’جان لو کہ اس آیت میں بڑی شدید وعید وارد ہوئی ہے، اس لئے کہ
اللہ تعالیٰ نے خسارے، گھاٹے اور تباہی کا فیصلہ صادر فرما دیا ہے پوری نوعِ
انسانی کے لئے، سوائے اُن کے جو اِن چار چیزوں کا اہتمام کریں (ان چار شرائط کو
پورا کریں) یعنی ایمان،عمل صالح،تواصی بالحق اور تواصی بالصبر۔ چنانچہ اس سے اس
جانب رہنمائی ملتی ہے کہ نجات کا دار و مدار اِن چاروں چیزوں کے مجموعہ پرہے۔‘‘
معقولیت کا تقاضا
ان چار باتوں کے مابین جو
منطقی ربط ہے اس کو ایک عام مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس دنیا میں کسی بھی
اہم معاملے میں، جو کسی انسان کو پیش آئے، صحیح طرزِ عمل یہ ہو گا کہ انسان اس
معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے کہ حقیقت کیا ہے۔ پھر جب حقیقت اس پر منکشف
ہو جائے تو ایک معقول انسان کی روش یہ ہو گی کہ وہ اسے قبول کرے،تسلیم کرے۔اور اگر
اس کے قبول کرنے میں کسی کی ناراضگی مول بھی لینی پڑتی ہویا کچھ ذاتی نقصان برداشت
کرنا پڑتا ہو تب بھی اسے قبول کرنے سے نہ رکے،اس لئے کہ وہ حقیقت اس پر منکشف ہو
چکی ہے۔اس کے بعد اگلا قدم یہ ہو گا کہ جس
حق کو اس نے قبول کیا ہے اس کا اعلان بھی کرے، اس کی طرف لوگوں کو بلائے۔اور آخری
مرحلے کے طورپر اِس معاملہ میں خواہ اسے مخالفت کا سامنا ہو،خواہ اس کا تمسخر ہو
اور خواہ اس کو جان کے لالے پڑ جائیں وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اس کی طرف لوگوں
کو بلاتا رہے۔
سقراط کا واقعہ ہمیں
معلوم ہے کہ چند حقائق اس پر منکشف ہوئے۔ اس نے ان کو نہ صرف خود قبول کیا بلکہ ان
کا اعلان بھی کیا۔ اس راہ میں اسے زہر کا پیالہ بھی پینا پڑا۔ لیکن اس نے اعتراف و
اعلانِ حق سے منحرف ہونے کی بجائے اپنی زندگی کو قربان کر دینا مناسب سمجھا۔ ہر
معقول اور صاحب سیرت و کردار انسان کیلئے
یہی ایک روش ہے جو اسے اختیار کرنی چاہئے، جس مرحلہ پر بھی انسان اس معقول
روش کو چھوڑ کر اپنی سیرت و کردار کے بودے پن کامظاہرہ کرے گا تو وہ گویا اس بات
کا ثبوت دے گا کہ وہ محض صورتاً ایک انسان ہے، حقیقی انسانیت سے بہرہ ور نہیں ہے۔
تو یہ وہ چند حقیقتیں ہیں
کہ جو اِس سورۂ مبارکہ سے گویا از خود چھلک رہی ہیں۔ ذرا سے تامل اور غور وفکر سے
انسان اِن تک بآسانی رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ الغرض یہ اِس سورۂ مبارکہ کی وہ
بنیادی رہنمائی ہے جو بطریق تذکر ّ حاصل ہوتی ہے۔اس کے بعد ہمیں ذرا مزید گہرائی
میں اتر کر اس کے مضامین پر غور و فکر کرنا ہے۔
25 جون 2021 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
Related Article:
Essentials of Salvation in the Light of Surah Al-Asr
- Part 1 لوازمِ
نجات سورۃ العصر کی روشنی میں
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism