لیوس گراپ
22 جون، 2012
کولون، جرمنی ۔ دو سال
قبل سابق جرمن صدر کرسچیئن ولف نے جب یہ بیان دیا کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے تو ان
کی جماعت کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین کے زیادہ رجعت پسند حامیوں نے اس پر شوروغوغا کیا۔
تب جرمنی کے نئے صدر جوشم گاک نے معقولیت کو ملحوظ خاطر نہ رکھتے ہوئے رواں سال کے
شروع میں بیان دیا کہ مسلمان تو جرمنی کا حصہ ہیں لیکن وہ یہ نہیں کہیں گے کہ
اسلام بھی جرمنی کا حصہ تھا۔
لیکن 40 لاکھ سے زائد
مسلمانوں اور ملک کے دستور میں مذہبی آزادی کے اصول کی موجودگی میں کیسے اسلام
جرمنی کا حصہ نہیں ہو سکتا؟
اسلام کو جرمنی کا تکمیلی
حصہ بنانے کے لئے ادارہ جاتی سطح پر پس پردہ فیصلہ کن اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ دو
سال قبل جرمن کونسل برائے سائنس اور ہیومینٹیز نے تجویز دی کہ اماموں اور مذہبی
اساتذہ کی تربیت کے ساتھ جرمن جامعات میں دینیات پڑھائی جائے۔ یہ ایک مصدقہ جرمن
اسلام کی تخلیق کی جانب اس اظہار کے لئے ایک فیصلہ کن اقدام تھا کہ جرمن ثقافت اور
مسلمان شناخت باہم متصادم نہیں ہیں۔
ملک بھر میں نوجوان جرمن
مسلمان عملاً یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ کیسے اسلام پہلے ہی سے جرمنی کا حصہ ہے اور کیسے
یہ مستقبل میں یہی حیثیت برقرار رکھ سکتا ہے۔
مثال کے طور پر مراکشی
النسل جرمن خاتون زینب المصرار نے Gazelle کے نام سے مختلف
ثقافتی پس منظر کی حامل جرمن خواتین کے لئے ایک میگزین کی بنیاد رکھی ہے۔ ترکی
النسل جرمن خاتون نعمت سیکر نے حال ہی میں جرمنی میں مسلمانوں سے متعلق مسائل پر
دانشورانہ مباحثے کے لئے Horizonte نامی میگزین کا اجرا
کیا ہے۔ اور افغانستان میں پیدا ہونے والے فلسفی اور شاعر جرمن شہری احمد میلاد کریمی
کو قرآن پاک کے جرمن ترجمے پر بہت سراہا گیا ہے۔
2006 میں جرمن پالیسی
سازوں نے جرمن ریاست اور مسلمانوں کے مابین تعاون کے فروغ کے لئے جرمن اسلام
کانفرنس کی بنیاد رکھی۔ کانفرنس اس بات کا اظہار تھی کہ جرمن مسلمانوں کو بحیثیت
مسلمان اورجرمن دونوں حوالوں سے مطمئن رہنا چاہئے۔
مسلمان ثقافت، مذہب اور
شناخت کے حوالے سے نوجوان مسلمانوں میں بحث زوروں پر ہے اور اماموں کے لئے نیا تربیتی
پروگرام اس میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔
جامعہ اوسنابرک میں اسلامی
مذہبی تعلیم کے پروفیسر بلند عصر کہتے ہیں کہ "اس حقیقت کے پیش نظر کے مسلمان
یہاں 50 سالوں سے رہ رہے ہیں، یہ بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے"۔
1945 میں جرمنی میں
مسلمانوں کی تعداد 6000 تھی۔ آج یہ تعداد 40 لاکھ سے اوپر ہے اور ان میں سے دو
تہائی 1961 میں ترکی اور جرمنی میں "مہمان کارکن" کے نام سے ہونے والے
معاہدے کے باعث ترکی سے آئے ہیں یا ترکی النسل ہیں۔ جرمنی میں رہنے والے مسلمانوں
کی 55 فی صد تعداد کے پاس جرمن شہریت ہے۔
جرمنی میں فعال طور پر
مصروف کار 2000 اماموں میں سے 80 فی صد ترکی سے ہیں۔ کیونکہ ان اماموں کے پاس جرمن
زبان اور جرمن ثقافت سے متعلق علم کی کمی ہے اور ان کی بنیاد اسلام کی قدامت پسند
تفہیم پر ہے لہذا کمیونٹی میں ان کا کام اکثر مسلمانوں کے انضمام میں رکاوٹ ثابت
ہوتا ہے۔ جرمنی میں اچھی طرح آباد مسلمانوں کو درپیش مسائل کو سمجھنا ان اماموں کے
لئے مشکل ہے۔
عصر نے اپنی بات بڑھاتے
ہوئے یوں مکمل کی، "یہاں جرمنی میں مذہبی اساتذہ، ائمہ اور مسلمان ماہرین دینیات
کی تربیت کا یہ مناسب اور مطلوب ترین وقت ہے۔ اب جامعہ میں یہودی، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک
تعلیم کے کورسوں کی سطح پر اسلامیات پڑھائی جاتی ہے"۔
ان پروگراموں کے لئے سب سے
بڑا چیلنج اسلامی تعلیمات اور مغربی علمی اور تدریسی معیارات کو ملانا ہے۔ جرمنی میں
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دینیات کو جامعہ کی سطح کے مضامین کے طور پر پڑھانے نے مسیحی
مذہبی علوم میں اختراعیت اور خود تنقیدی کو نمو دی اور یہ عمل اسلامی دینی تعلیمات
کے لئے ایک مفید مطلب نمونہ فراہم کرتا ہے۔
شریعت پر جرمنی کے سب سے
معروف تعلیمی ماہر پروفیسر میتھیاس روہے جنہوں میں جامعہ میں اسلامی دینیات کے
پروگرام شروع کرنے میں مدد فراہم کی، کہتے ہیں، "میں یقین سے نہیں کہہ سکتا
کہ ہمیں اس کام پر آفاقی داد و تحسین ملے گی لیکن یہ یقیناً ایک بحث کو شروع کرنے
کا باعث بنے گا"۔ اسلامی سوچ اور دینیات کی ترقی کے لئے پیشہ وارانہ تدریسی
ماحول کی فراہمی جرمن مسلمانوں کو اسلام کے ماضی، حال اور مستقبل پر عالمی مباحثے
میں حصہ لینے کا نیا راستہ فراہم کرے گی۔
اسلامی دینیات پر کام کے
لئے نئے قائم کردہ چار اداروں میں طلبا جن
موضوعات پر بحث مباحثہ کرتے ہیں ان میں حقوق نسواں کے حوالے سے اسلامی تعلیمات،
قرون اولیٰ کے بھلا دیئے گئے ماہرین دینیات کی دریافت نو، قرآنی نسخوں کا تنقیدی
تاریخی مطالعہ یا قرآن کی تشریح میں زبان، رسم الخط اور دلیل کا کردار اور حضرت
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و اعمال شامل ہیں۔
نوجوان جرمن مسلمانوں کے
لئے ماضی میں مذہبی رہنما بننے کی تربیت میں حائل تعلیمی رکاوٹوں کے باوجود اب ملک
میں اپنے آپ پر اعتماد رکھنے والی، تربیت یافتہ مسلمان طلبا کی نئی نسل موجود ہے
جو روادار اور تکثیری تعلیمات اور سوچ کی دریافت نو اور
اس کے نتیجے میں اس بات کی وضاحت نو کے لئے مشتاق ہے کہ اکیسویں صدی کے یورپ میں
مسلمان ہونے کا کیا مطلب ہے۔
مزید برآں مساجد میں ائمہ،
سکولوں میں اساتذہ اور جامعات میں پروفیسروں کے طور پر جرمن عوام کو یہ آگاہی دے
کر کہ کیسے اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں، یہ نوجوان اس بات کا عملی
مظاہرہ کریں گے کہ اسلام درحقیقت جرمنی کا حصہ ہے۔
لیوس گراپ Qantara.de کے مدیر ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس ﴿سی جی نیوز﴾
کے لئے لکھا گیا۔
ماخذ: http://www.commongroundnews.org/article.php?id=31566&lan=en&sp=0
URL for English article: https://www.newageislam.com/interfaith-dialogue/lewis-gropp/new-imam-trainings-good-for-germany-and-for-islam/d/7711
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/new-training-imams-useful-germany/d/7717