New Age Islam
Fri Jan 17 2025, 05:00 PM

Urdu Section ( 15 Jul 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Lavish Spending and Dowry: The Cause of Social Ills اسراف و جہیز معاشرے میں بگاڑ کا سبب

 

سائرہ افتخار

25 جون، 2013

جہیز عربی زبان کے  لفظ ‘‘ جہاز’’ سےلیا گیا ہے جس کے معنی اس سازو سامان کے ہیں جس کی کسی بھی مسافر کو سفر کے  دوران ضرورت ہوتی ہے یا دلہن کو گھر بسانے کے لئے ضرورت ہوتی ہے یا اس سےمراد ایسا سامان  ہے جو میت  کو قبر تک پہنچا نے کےلئے استعمال ہوتا ہے۔

جہیز کی رسم ہندوانہ ہے۔ اسلام میں نکاح  کے وقت کھجور یا شیر ینی تقسیم کرنا اور نکاح کے بعد توفیق کے مطابق دعوت ولیمہ  اسلامی رسمیں  ہیں۔ جہاں تک جہیز کا تعلق ہے اسلام میں اس کا کوئی تصور نہیں ملتا غیر مسلم معاشروں میں شادی  کے وقت لڑکی کو جہیز دیا جاتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی ہندوؤں کی اس رسم بد کو اپنا لیا ہے اور اب ہم بھی اس بدرسم کی سزا بھگت رہےہیں۔ اگر قرآن پاک کا مطالعہ کریں تو جہیز  کاکئی تصور نہیں ملتا ۔ اسی طرح  حدیث  شریف میں بھی جہیز کا کوئی تصور نہیں ۔ صحاح ستہ اور دیگر مکتب  اور فقہ  کی کتابوں میں ہمیں جہیز کا کوئی تصور نہیں ملتا ۔

اسلام کے عائلی قوانین میں تفصیلاً ان  موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے ۔(1) شادی  (2) طلاق (3) نان نفقہ (4) جائیداد میں حصہ (5) حق مہر اور عورت کے دیگر حقوق اسلام کے عائلی قوانین  میں جہیز  کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

‘‘ تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے  ہو وہاں  ان (طلاق والی ) عورتوں کو رکھو اور انہیں  تنگ کرنے کے لئے تکلیف  نہ پہنچاؤ اور اگر وہ حمل سے ہوں لیکن  جب تک بچہ پیدا  ہولے انہیں خرچ دیتے رہا کرو۔ پھر  اگر تمہارے کنبے سے وہی دودھ پلائیں تو تم انہیں ان کی اجرت دو’’۔

عورت کی بنیادی  ضروریات کو پورا کرنا مرد پر فرض ہےاور یہی بنیادی ضرورتیں جہیز کی شکل میں مرد پوری کرتا ہے۔ دور جدید کے معر وفقیہہ امام محمد ابو زہرہ ‘‘ مقاع البیت ’’ میں لکھتے ہیں ۔‘‘گھر یلو ساز و سامان کی تیاری خاوند پر واجب ہے ۔ حق مہر جہیز  کا عوض نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ صرف اور صرف عطیہ  ہے جیسا کہ قرآن حکیم نے اس کا نام نحلۃ ( عطیہ ) رکھا ۔ ‘‘ علاقہ سید سابق ’’ تحریر کرتے ہیں ۔ ‘‘ گھر کی شرعی  تیاری اور گھر کے لئے ہر اس سامان کا مہیا کرنا جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے مثلاً سامان ، بستر اور برتن  وغیرہ  یہ خاوند  کے ذمہ  ہے۔’’

شادی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ یہ ایک مقدس او رپاکیزہ بندھن ہے ۔ یہ نہ صرف لڑکے او رلڑکی کو رشتہ  از دواج  سے منسلک کرتی ہے بلکہ دو خاندانوں  کے ملاپ  کا بھی ذریعہ  ہے۔ اسلام نے رشتہ  ازدواج کو ایک آسان عمل بنایا ہے ۔ اسراف  اور جہیز  کی اسلام میں قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ ہمارے پیارے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری زندگی اسلام کا عملی نمونہ تھی ۔ آپ نے اپنے عمل سےجہیز  جیسی رسم کو غلط قرار دیا۔

سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی یاللہ عنہ کو جہیز دیا؟ کیا آپ نے اپنی دوسری بیٹیوں  حضرت زینب رضی اللہ عنہ، حضرت رقبہ رضی اللہ عنہ ، حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ  کو بھی جہیز دیا ؟ حضرت زینب  رضی اللہ عنہ کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاس بن ربیع  بن لقیط  سےہوئی ۔ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ  کا انتقال ہوا تو ربیع الاول میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرام کلثوم رضی اللہ عنہ  کے ساتھ  نکاح کرلیا ۔ حافظ  محمد سعد اللہ اپنے  مقالہ ‘‘ جہیز کی شرعی حیثیت ’’ میں رقمطراز ہیں کہ ‘‘  دوری نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سوائے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ  کی شادی  کے مواقع کےکوئی  ایسی شادی نظر نہیں آتی  کہ عین شادی کے موقع پر بیوی  کی طرف سےسامان جہیز دیا گیا ہو۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ  کے سامان جہیز کی تیاری کی پیشگی  ضرورت بھی صرف اس لئے پیش آئی کہ حضرت علی رضی  اللہ عنہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زیر کفالت تھے اور ا ن کا الگ مکان  یا گھریلو ساز وسامان نہ تھا ۔ ورنہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی تینوں بنات طاہرات کی شادیوں کے موقع پر ایسا نہیں  ہوا اور نہ ہی آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی از دواج مطہرات  کے نکاح کے موقع پر کسی قسم کا جہیز  دیا گیا ہے’’ ۔(صفحات  149)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ جن کو اللہ تعالیٰ  نے جنت کی عورتوں کی سردار ہونے کی خوشخبری  سنائی تھی  کی شادی  کےموقع پر ایک جائے نماز ، ایک  تکیہ او رمٹی کے چند برتن دئے تھے ۔ لیکن یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی زرہ  کی رقم سے دئے گئے تھے ۔ اسلام نے شادی کو ایک آسان عمل بنایا ہے ۔ بے جا اسراف اور جہیز  کی اسلام  میں قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ آج شادی ایک مسئلہ اور ایک کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ والدین لڑکے کی پرورش اور تعلیم و تر بیت خرچ کی گئی رقم کو جہیز کی صورت میں کیش کراتے ہیں ۔ ان کے نزدیک یہ ان کا حق ہے کہ انہیں  ان کی خدمات کا معاوضہ  ملے اور والدین جو بڑی مشکل سے اور محنت  سےاپنی بچیوں کو پڑھاتے لکھاتے  ہیں  ان کی بہترین تربیت  کرتے ہیں اور ضروریات  کو پورا کرتے ہیں شادی کے وقت اپنی جان سے پیار ی بیٹی کونہ صرف خود سے عمر بھر کےلئےجدا کرتے ہیں بلکہ انہیں اس جدائی کی قیمت بھی  ادا کرنی ہوتی ہے بلکہ بعض بد قسمت والدین شادی کے بعد بھی لڑ کے والوں کے مطالبات  کو پورا کرتے ہیں ۔

25 جون، 2013  بشکریہ : روز نامہ قومی سلامتی ، نئی دہلی 

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/lavish-spending-dowry-cause-social/d/12596 

Loading..

Loading..