خواجہ طارق خسرو
2 نومبر 2015
میں نے یہ تصویر گزشتہ ماہ لاہور، پاکستان میں لی ہے۔ میں اس جگہ سے اچھی طرح واقف ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ 28 مئی، 2010 کو یہاں کیا ہوا تھا۔ در اصل اس عمارت کے سامنے کھڑے ہونے اور اس کی ناقابل تردید حقیقت کو یاد کرنے پر چند لمحوں کے لیے میرا پورا جسم لرزہ بر اندام ہو گیا تھا۔ یہ عمارت ایک عبادت گاہ ہے؛ یہاں لوگ ایک دن میں پانچ مرتبہ امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں کسی دوسری مسجد کی طرح اس جگہ کو مسجد نہیں کہا جاتا۔ اس کا نام "دارالذکر" ہے جس کا مطلب "خدا کو یاد کرنے کا گھر" ہے۔
ذرا صبر کریں، میں دارالذکر کی مزید تفصیلات پیش کرتا ہوں ۔
پاکستان، 1953: احمدی کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں سب سے زیادہ شرح خواندگی ان کی ہے، سماجی خدمات کے شعبے میں وہ نمایاں ہیں استاذ، سائنسدان اور فوجی افسران کی حیثیت سے وہ ماہر ہیں۔ پاکستان کے وزیر خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان ہیں جنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے ایک مسلم ریاست کے قیام کے مطالبہ میں پاکستان کی قرارداد کا مشہور 1940 اعلامیہ کا مسودہ تیار کیا ہے۔
تاہم، تمام لوگ احمدیہ کی کامیابیوں سے خوش نہیں ہیں۔
ملاؤں نے اپنی چال پوری عقلمندی کے ساتھ چلی۔
تکثیریت پسندی پر مبنی ایک پر امن اسلام کی حمایت کرنے والے تعلیم یافتہ احمدیوں کا عروج کچھ لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ ملاؤں کی طاقت اپنے مذہب کے لیے اپنی جان دینے کے لئے تیار رہنے والے لوگوں کی اشتعال انگیزی پر منحصر ہے۔ ان کے لیے ایک ایسا مذہب افضل ہے جس میں ان کے "صحیح" اسلام کی حفاظت کرنے کے لیے ملاؤں کی ضرورت ہو ۔ اس لیے کہ اس کے بعد جب لوگ اسلام کے لئے مرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے تو وہ ان ملاؤں کے لیے بھی مرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔
پاکستانی ملا ایک کتاب لکھتے ہیں۔ (جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ) احمدیوں کا وجود ایک مسئلہ ہے؛ وہ مذہب میں فساد پیدا کر رہے ہیں اور وہ غیر احمدی مسلمانوں کے مقابلے میں برطانویوں کے زیادہ وفادار ہیں۔ انہوں نے تمام غیر احمدی مسلمانوں کو ملحد قرار دیا۔ ان کے ایسے سماجی اور سیاسی عزائم ہیں جو پاکستان میں حقیقی اسلامی معمولات کو تباہ کر دیں گے۔ ان سب کا واحد حل انہیں اسلام سے خارج کرنے میں ہے۔
ملاؤں نے سیاسی رہنماؤں کی جماعت کو جمع کیا اور حکومت سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے اور سر ظفر اللہ خان سمیت تمام احمدیوں کو اہم سرکاری عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے انکار کر دیا اس پر ملاؤں نے اپنے پیروکاروں کو سڑکوں پر نکل آنے کا حکم دیا۔ سینکڑوں احمدیوں کو ہلاک کر دیا گیا اور ان کی دکانوں، گھروں اور عبادت گاہوں کو خاکستر کر دیا گیا۔ ملا کو گرفتار کر کے اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ دو ماہ بعد اس کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔ دو سال کے بعد ملا کو معاف کر دیا گیا جبکہ ملا نے نہ تو کبھی معافی کی درخواست دی اور نہ ہی کبھی اس نے اپنے ظلم و ستم کو قبول کیا۔ اس کے پیروکاروں نے اسے اس کی تائید و توثیق مان لیا اور اس کی مقبولیت پہلے سے زیادہ ہو گئی۔
ملا موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔
پاکستان، 1974: ربوہ (احمدیوں کے ہیڈکوارٹر) میں ملا کی سیاسی جماعت کے ارکان پر حملہ کے بہانے ملا پھر سڑکوں پر احتجاج میں نکل پڑے۔ اب بھی ان کا مطالبہ یہی ہےکہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ حکومت تھوڑی مزاحمت کرتی ہے اور اس کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوان ایسے بل پاس کر تے ہیں کہ جس سے دوسری ترمیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن جاتی ہے۔ ملا کی جیت ہوتی ہے اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جاتا ہے۔
پاکستان 1979: لاہور میں ملا کے جنازے کے لئے ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہوتا ہے۔ اسے مذہب کا ایک سچا سپاہی اور جہاد پر ایک حتمی سند کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ پوری قوم روتی ہے۔
لیکن اب بھی احمدیوں سے نہ تو ملاؤں کا دل بھرتا ہے اور نہ ریاست پاکستان کا۔
پاکستان 1984: جنرل ضیاء الحق قانونی آرڈیننس 20 کو متعارف کرتے ہیں، اس کے مطابق اب کوئی بھی احمدی خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتا۔ وہ مسلمانوں کی طرح سلام نہیں کر سکتے، وہ قرآن یا احادیث کا حوالہ نہیں پیش کر سکتے اور ان کی عبادت گاہوں کو اب مسجد نہیں مانا جائے گا۔ اب دائرہ اسلام سے ان کا خروج مکمل ہو گیا۔
پاکستان 2010: دو احمدی عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے۔ جس میں چورانوے افراد ہلاک ہوئے اور ایک سو بیس زخمی۔ پاکستانی طالبان نے ذمہ داری قبول کی۔ انہیں میں سے ایک مقام دارالذکر ہے۔
تو اب ہم دارالذکر کی بات کرتے ہیں۔
پاکستان 2012: اس پر حملے اور اس کے مکینوں کو مار دیے جانے کے دو سالوں کے بعد دارالذکر کی انتظامیہ کو جج نے عمارت کے سامنے کندہ کلمہ شہادت کو ہٹا دینے کا حکم دیا، جسے پڑھ کر ایک انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے۔ اور دارالذکر پر تحریر کردہ کلمہ شہادت پر سیاہی پھیر دی گئی۔
گویا کہ سیاہ رنگ خدا کی سورج کی روشنی سے احمدی لوگوں کے ایمان کو چھپا سکتا ہے۔
یہاں ریت کے ذرے ذرے میں عدم برداشت رچی اور بسی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ کوئی بے درد اور بے حس قاتل بھی ان لوگوں کے لیے کافی نہیں ہو سکتا جو عقیدے کی تصدیق دوسروں کو اس سے محروم رکھ کر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب اس سخت ظلم و ستم کا خاتمہ کرنے کا وقت آ چکا ہے جس کا کوئی جواز نہ تو قرآن پاک میں ہے اور نہ ہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی روایت میں موجود ہے۔
اب دارالذکر کو مسجد دارالذکر بننے اور احمدیہ کو احمدیہ مسلم بننے کا وقت آ چکا ہے۔
اسلام پر سے ملا کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے اور ہمارے عظیم دین کا دروازہ تمام لوگوں کے لیے کھول دیا جانا چاہیے۔ قرآن کریم کی سورہ احزاب میں ہے کہ:
وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔ (22:40)
اب ہمیں وہ ذریعہ بننا چاہیے کہ جس کے ذریعہ اللہ خود اسی کے نام پر اس کے گھروں کو ڈھانے والوں کی راہیں مسدود کرتا ہے۔
جب تک مسلمان کے طور پر احمدیوں کی شناخت کے حق کو غیر مشروط طور پر تسلیم نہیں کر لیا جاتا، تب تک پاکستانی ریاست رواداری یا انصاف کا کوئی سچا دعوی نہیں کر سکتی۔
ماخذ:
goo.gl/tfX7xH
URL for English article: https://newageislam.com/islam-sectarianism/ahmadiyya-apartheid-quest-tolerance/d/105152
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/ahmadiyya-apartheid-quest-tolerance-/d/105233