New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 11:21 AM

Urdu Section ( 19 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miracles of the Quran Part14 اعجاز القرآن قسط چودہ

 

باب چہار دہم

خواجہ ازہر عباس

مکافات عمل : سابقہ باب میں آپ کے سامنے  یہ حقیقت نمایاں طور پر سامنے آگئی تھی کہ قرآن کریم کے مطابق اس دنیا میں ہر جگہ حق و باطل کی کشمکش جاری ہے ۔ واضح رہے کہ خارجی  کائنات  کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ پروگرام کے مطابق  از خود سر گرم عمل ہے ۔ خارجی کائنات میں ہر حرکت  کا نتیجہ از خود مرتب ہوتا جاتا ہے اور جو قوتیں یہ نتائج مرتب  کرتی ہیں  وہ ملائکہ  کہلاتی ہیں ۔ اسے قانون عِلّت  ومعلول بھی کہتے ہیں لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نےاختیار  کرنے کی صلاحیت  عطاء کی ہے ۔  جب انسان قانون خداوندی کے مطابق زندگی بسر کرتاہے تو اس سے تعمیری  نتائج  حاصل ہوتے ہیں لیکن  اس کے بر خلاف اگر وہ قانون خدا وندی کی حدود کو توڑ تا ہے اور اس کے خلاف عمل کرتاہے تو اس سے تخریبی  نتائج  بر آمد ہوتے ہیں لیکن  نتائج ہر حال میں بر آمد ہوں گے۔خارجی دنیا کے علاوہ انسانی دنیا میں بھی یہی صورت حال ہے ۔ جب کوئی انسان قانون خداوندی کے مطابق  عمل کرتاہے  تو اس کا اثر اس کی ذات پر بہت اچھا مرتب ہوتا ہے ( 17:7) اور اگر کوئی  انسان قانون خداوندی کے خلاف کوئی کام کرتاہے تو اس کی ذات پر بُرا اثر مرتب ہوتاہے ( 4:111،17:7) اور اس سے اس کی ذات میں اضمحلال مکافاتِ عمل ہے ۔ یہ خارجی دنیا میں بھی ہوتاہے اور انسانی دنیا  میں بھی اور ا س مکافات عمل کا اطلاق اقوال پر بھی ہوتاہے ۔ اگر کوئی قوم قانونِ خداوندی کے مطابق  اپنا معاشرہ  قائم کرے گی تو وہ نہایت بلندی کے مقام تک پہنچ جائے گی لیکن جو قوم قانونِ خداوندی کے خلاف اپنے امور  سر انجام دے گی تو وہ قوم قعر مذلت میں گرتی چلی جائے گی۔ انفرادی دنیا میں مکافاتِ عمل کا انداز ہ ذرا مشکل  سے ہوتا ہے لیکن اقوام کی صورت میں مکافاتِ عمل کا نتیجہ  نظر بظاہر معلوم ہوجاتاہے (11:93،6:35،39:39) جب وہ قوم ترقی کرتی چلی جاتی  ہے، یا تنزل کی طرف مائل ہوتی ہے ۔ یہ سب مکافاتِ عمل کا نتیجہ ہوتاہے ۔

جہاں تک انسان کی طبعی زندگی  کا تعلق ہے ،اس زندگی میں انسان اور دوسرے حیوانات پر ایک ہی طرح کے قوانین کا اطلاق  ہوتاہے ۔اگر کوئی انسان زہر کھا لیتا ہے یا کوئی حیوان تو دونوں پر با لکل ایک طرح کا اثر مرتب ہوتاہوگا۔ اسی طرح سردی اور گرمی کے اثرات  دونوں ایک طرح ہی ہوں گے۔ اس  طرح دونوں  پر مکافات عمل  کا نتیجہ  ایک جیسا  بر آمد ہوگا لیکن  جہاں تک انسان کی انسانیت کا تعلق ہے ۔ اس میں مکافاتِ  عمل کا دار و مدار  مستقل  انداز پر ہوتا ہے اور یہی  وہ مقام ہے جہاں انسان وحی الہٰی  کا محتاج  ہوتاہے ۔ جو شخص مستقل  اقدار  کےمطابق  عمل کرتا ہے اس کی ذات پر اچھا اثر مرتب ہوتاہے اور جو شخص مستقل  اقدار کی خلاف ورزی  کرتاہے اس سےاس شخص  کی ذات پر بُرا اثر مرتب ہوتاہے ۔ ہر انسان  عمل کرنے میں آزاد  ہے لیکن  اس کے جو اثرات  مرتب ہوتے ہیں  اس میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( 41:40) تم جس طرح جی چاہے عمل کرو لیکن یاد رکھو کہ اللہ کا قانون تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ عمل کا انتخاب  تمہارے اختیار میں ہے لیکن  اس کا نتیجہ  کیسا مرتب  ہوتاہے یہ تمہارے اختیار  میں نہیں ہے ۔ نہ تم اس کا نتیجہ  تبدیل کرسکتے ہو اور نہ تم  اس کے نتیجہ کی گرفت سے بچ سکتے ہو  إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ( 85:12) بے شک تیرے رب کے قانون مکافات کی گرفت بڑی مضبوط ہے۔

آپ اگر ذرا گہرائی  میں جاکر غور فرمائیں گے تو آپ کو اس  بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ مکافاتِ عمل کا قانون ہر جگہ جاری و ساری ہے خواہ وہ خارجی  کائنات  ہو یا انسان  کی انفرادی  و اجتماعی  زندگی  ہو ۔ قانونِ  مکافات کےاثرات  انسانی  معاشرہ  پر بھی مرتب ہوتے ہیں ، اس لئے قرآن  نے اس کو بار بار بیان  کر کے ، اس کی وضاحت  فرمائی ہے ۔

انسان جو قوانین بھی وضع کرتے ہیں ان میں یہ سقُم باقی رہ جاتا ہے کہ مجرم اس کی سزا سے اپنے کو محفوظ رکھ سکتاہے ایک شخص چوری کرتاہے لیکن وہ اس طرح چوری کرتاہے کہ اس کی چوری  کاکسی کو علم نہیں ہوتا ۔ یہ صورت بھی ہوسکتی ہے کہ وہ پولیس افسران سے ساز باز کر کے سزا سے بچ جاتے ہیں ۔ بعض اوقات یہ بھی ممکن  ہوتا  ہے کہ قانون بنانے والے ، قانون ہی ایسے وضع  کرتے ہیں جو چوروں او رلٹیرو ں کو تحفظ دے دیں لیکن قانون مکافات  میں ایسی کوئی صورت نہیں ہوسکتی  انسانی نظم و نسق  کے ماتحت ،  متعدد صورتیں  ایسی وضع  کی جاسکتی ہیں اور ایسی تراکیب بنائی جاسکتی ہیں، جن میں مجرم  با لکل محفوظ  رہ جاتاہے لیکن خدائی  نظم و نسق میں قانونِ  مکافات  میں اس قسم  کی کوئی خامی نہیں ہوتی  جو شخص  چوری کرے گا، اس کے برُے اثرات  اس کی ذات  پر یقیناً  مرتب ہوں گے ۔ جن سے وہ شخص  کسی طرح پیچھا  نہیں چھُرا سکتا ۔طبعی دنیا میں یہی صورت ہے ۔ جو شخص  اپنی انگلی آگ میں ڈالے گا، اس کی انگلی یقیناً جلے گی اور وہ اس کی جلن محسوس کرے گا۔ خود کُشی ایک جرُم ہے ۔ اگر حکومت کے علم میں یہ بات آجائے کہ فلاں شخص خود کشی  کرنے کا ارادہ کررہا ہے تو پولیس  اس کو پکڑے گی لیکن  اگر کوئی تنہائی  میں زہر کھا لیتا ہے ، اسے نہ پولیس  پکڑسکتی ہے ، نہ کوئی عدالت اس کو کوئی سزا دے سکتی ہے لیکن زہر  کا اثر اس پر یقیناً  مرتب ہوگا ۔ قرآن نے اس بات پر بڑا  زور دیا ہے کہ کوئی  عمل بغیر نتیجے  کے نہیں رہ سکتا  ارشاد ہوتا ہے وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ أَسَاءُوا بِمَا عَمِلُوا وَيَجْزِيَ الَّذِينَ أَحْسَنُوا بِالْحُسْنَى ( 53:31) زمین آسمان  میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اللہ  کےپروگرام  کے مطابق  کام کر رہا ہے تاکہ غلط کاروں کو ان کے کاموں  کا بدلہ مل  جائے اور جو لوگ  اچھے کام کر رہےہیں  انہیں  اس کا اچھا  بدلہ  ملے ۔ نیز ارشاد  ہوتا ہے  إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا ( 17:7)اگر تم نے بھلائی کی،تو اپنے  لئے بھلائی  کی اور اگر بُرائی  کی تو بھی اپنے لئے  ہی کی ۔

مکافات عمل  کے عقیدہ  کا جو اثر  معاشرہ  کی تعمیر  پر پڑتا ہے اس کی ایک  مثال  پیش خدمت کی جاچکی ہے ۔اس کی مزید  وضاحت کے بارے میں عرض ہے کہ حیوانی  سطح کی زندگی  میں مستقل  اقدار  کاکوئی تعلق  نہیں ہوتا ۔ اس سطح زندگی  میں قانون فطرت کی عملداری  ہوتی ہے ۔ مستقل  اقدار کا تعلق  تو انسانی زندگی  سے ہوتا ہے ۔ قرآن کریم  انسانی زندگی  کا قائل ہے اور اس کا مطمح نگاہ اس کی تربیت  و نشو و نما ہوتی ہے  جو ایک معاشرے کے اندر ہی  ہوسکتی ہے ۔ آج  کل کے مغربی  معاشرے  چونکہ انسانی ذات  کے قائل  ہی نہیں  ہیں اس لئے  ان معاشروں  کی تعمیر  فطرت  کے قوانین  کے مطابق  فکر انسانی کرتی ہے ان معاشروں  کے قوانین  میں سقم ہوتاہے کہ اس میں، طاقتور لوگ، اور با اثر حضرات فائدہ  اٹھاتے ہیں ۔ جو مظلوم  طبقہ  ہوتا ہے وہ مصائب  کا شکار رہتا ہے اور اس میں مجرم  سزا  سے بچ سکتاہے  لیکن  قرآنی معاشرہ جو انسانی ذات کا قائل ہوتا ہے اور مستقل  اقدار پر یقین  رکھتا ہے  وہ جرم  سے اجتناب  کرے گا۔ وہ چوری صرف  اس لئے نہیں  کرے گا کہ ملک کا قانون  اس کو پکڑ لے گا بلکہ  وہ چوری اس لئے  نہیں کرے گا کہ چوری  کرنے سے اس کی ذات پر برا اثر مرتب ہوتا ہے ۔ جو شخص ہر وقت  اپنی ذات  کی پرورش  کرنے کو پیش نگاہ رکھے گا وہ کسی طرح کا جرم  نہیں کرسکتا اور چونکہ ملکی قوانین  سے تو مجرم  کسی نہ کسی  طرح جان چھڑا سکتا ہے ، اس لئے  اس کے لئے جرم  کرنے میں کوئی  رکاوٹ  نہیں ہوتی لیکن ایک  مسلمان  اس لئے جرم نہیں کرسکتا  کہ اس کو یقین  ہے کہ اگرچہ  وہ ملکی  قوانین  کی گرفت  سے بچ سکتا ہے لیکن  عمل مکافات  سے وہ کسی  طرح بچ  نہیں سکتا ، اس طرح عقیدہ  عمل مکافات  معاشرے کو از خود  جرائم  سے محفوظ  رکھتا ہے ۔

اس دور میں مسلمان اس لئے جرائم کرتے ہیں کہ انہیں عمل مکافات پر پوری طرح یقین نہیں  رہا ۔ اگر کسی شخص  کو اس بات کا یقین  ہوجائے کہ حرام کی کمائی  کھانے کے نفس انسانی پر اسی  طرح اثرات مرتب ہوتے ہیں جس طرح  زہر کھانے کےاثرات ہوتے ہیں ۔ اگر اُسے یقین ہو کہ جس طرح زہر کھانے سے جسم کی موت واقع ہوجاتی ہے اسی طرح  حرام کھانے سے نفس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو وہ کبھی حرام نہیں  کھائے گا ۔اس دور میں مسلمان  اس لئے برباد ہورہے ہیں کہ انہیں عمل  مکافات پر یقین نہیں رہا ۔

ہمارے پیشوائیت  صرف حدود نافذ کرنے پراصرار کرتی ہے یا زیادہ سے زیادہ شریعت کا مطالبہ کرتی ہے اور اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ سوسائٹی میں جرائم کم ہوجائیں گے ۔ ان کا سارا زور اسی بات پر ہوتا ہےکہ شریعت کے قوانین کی پابندی  کرنے سے ملک  میں امن و امان قائم ہوتا اور ملک  کا نظام بہتر ہوجائے گا ۔ ان  کے نزدیک قرآنی نظام کا مقصود صرف اتنا ہے یہ بات بیشک درست ہے کہ اس سے نظام بہتر ہوجائے گا لیکن یہ قرآنی  نظام کی انتہا نہیں ہے ۔ قرآنی نظام کا اصل  مقصود انسانی ذات کی نشو و نما اور اس کی تربیت ہے ۔ جس سے یہ شرف انسانیت  کی منازل طے کرتی چلتی  ہے ۔ قرآنی نظام کا اصل مقصود تو یہ ہےلیکن  چونکہ اس میں ہر شخص کے سامنے ہر وقت اپنی ذات کی نشو نما  ہوتی ہے اس لئے وہ جرائم  سے اجتناب  کرتےہیں اور اس طرح  معاشرہ  از خود بہتر سے بہتر ہوتا چلا جاتاہے اور یہ صرف عقیدہ مکافات کا نتیجہ  ہوتا ہے ۔ عقیدہ مکافاتِ عمل کے انکار کے بعد معاشرے کو درست کرنے کی اساس ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔

عقیدہ مکافات عمل ایک  نہایت جامع اور نتیجہ خیز عقیدہ ہے ۔ اس پر علماء مفسرین  نے بڑی  طویل  بحثیں  تحریر کی ہیں ۔ ہم نے تو یہاں اس عقیدہ  کا صرف تعارف کرایا ہے اور اس سے مقصد یہ ہے کہ نزول قرآن کے زمانہ  میں اس قدر علمی  اور جامع  نظریہ کسی انسان کے ذہن  اور از خود نہیں آسکتا تھا ۔ ہمہ گیر نظریہ حضور کے اپنے فہم کا نتیجہ  نہیں ہوسکتا  ، لاریب  کہ یہ وحی الٰہی کا پیش کردہ ہے ۔ قرآن کریم میں تقریباً  ایک سو سے زیادہ آیات  اس موضوع کے بارے میں  آئی ہیں۔ اگر چہ یہ بات  با لکل مختلف  مقامات  اور مختلف سورتوں میں درج ہیں لیکن ان میں کسی  قسم کا تضاد یا تناقص نہیں ہے۔ ہم ان آیات  با لکل مختلف مقامات  او ر مختلف سورتوں میں درج ہیں لیکن ان میں کسی  قسم کا تضاد یا تناقص نہیں ہے ۔ ہم ان آیات  کریمات  میں سے چند  آیات  کا حوالہ دے رہے ہیں ۔ آپ خود قرآن کریم کے اپنے نسخے سے ان حوالہ  جات کو نکال کر ان کا مطالعہ  فرمالیں ۔ البتہ اس مطالعہ  کے دوران  یہ غور فرماتے  رہیں کہ کیا یہ نظریات اور ان کی تفاصیل  ایک اُمّی  شخص، اس دور میں سمجھ سکتا تھا اور یہ بھی ملاحظہ  فرمائیں  کہ ہر آیت  کے الفاظ  کس درجہ نپے تلے  اور کس درجہ  پرُ معنی  ہیں ۔ زمانہ  کے ساتھ ساتھ  ، اور علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ ، ان آیات  پر سے پرت  اتارتے چلے جائیے اور نئے نئے  مفاہیم  ان سے از خود نمودار ہوتے چلے جائیں گے اور موجودہ علوم ان آیات  کے ایک ایک نکتے  کی تصدیق  کرتے چلے جائیں گے ۔

(1)  خدا تخلیق کی ابتداء کرتا ہے پھر اسے گردش دیتا ہے تاکہ ہر ایک کو اس کے اعمال  کا بدلہ مل سکے ( 10:4)

(2) سلسلہ کائنات با لحق پیدا کیا گیا، تاکہ  ہر شخص کو اعمال کی جزاء مل سکے ۔ (45:22،44:35،38:27،23:115،21:11،14:19،13:2،11:7)

(3) اعمال کی باز پرس ضرور ہوگی (16:93)

(4) خدا سے باز پرس نہیں ہوگی ۔ انسانوں سے سب سےہوگی (21:23)

(5) سماعت ، بصارت فواد ہر ایک سے باز پرس ہوگی ( 17:36)

(6) نیک کام کا اجر تمہارے لئے ( 41:46،35:18،29:6،2:272)

(7) بُرا کام انسان خود اپنی ذات کے خلاف کرتا ہے ( 41:46،29:40،18:35،6:124،4:111)

(8) تباہی  اپنے اعمال  ہی کی وجہ سے آتی ہے (29:55،6:70)

(9) رسول کی ازواج اپنے اعمال  کے مواخذہ  سے نہیں بچ سکتی ( 29:33)

(10) بلکہ دُگنی سزا ملے گی ( 33:30)

مارچ، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part14-/d/87631

 

Loading..

Loading..