سائنس سے استشہاد باب یا زدہم
خواجہ ازہر عباس، فاضل درس نظامی
زیر نظر کتاب کا موضوع اعجاز القرآن ہے اور ہماری یہ کوشش رہے گی کہ قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے جوبھی دلائل ہماری دسترس میں آئیں ہم انہیں آپ کی خدمت میں پیش کردیں ۔ قرآن کریم سائنس کی کتاب نہیں ہے اس کااصل موضوع بہترین معاشرہ کی تعمیر و تشکیل ہے ۔ ایسا معاشرہ جس میں انسان کی حکومت انسان پر حرام ہوتی ہے ۔ جس میں ہر انسان براہِ راست احکامات الہٰی کے ماتحت زندگی بسر کرتاہے ۔ مسلمان کے یا کسی بھی مسلم ملک کے آزاد ہونے کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک کا Constitution صرف قرآن ہو اور انسانیت براہِ راست اللہ تعالیٰ کے احکام کی محکوم ہو ۔ ایسے معاشرے میں انسانوں کی صلاحیتیں بھر پو ر طریقہ پر بیدار ہوجاتی ہیں ۔ اور انسانیت اپنے ارتقا ء کا سفر جاری رکھتی ہے ۔ ایسے معاشرہ کے قیام پر قرآن کا اصرار ہے کیونکہ اس معاشرہ کے قیام سے اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے بھی پورے ہوتےہیں جو اس نے قرآن میں انسانیت سے کئے ہیں ۔ اس معاشرے کے ذریعے اللہ کے وعدوں کا پورا ہونا ہی قرآن کے وحی الہٰی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اللہ کی ذات پر ہر متنفس کے رزق کی ذمہ داری ہے (17:31، 6:151، 11:6)اللہ کا یہ وعدہ اس کے نظام کے ذریعے پورا ہوتا ہے ۔ آپ اسلام نظام قائم کریں اور رزق کی تقسیم قانون الہٰی کے مطابق کریں ، تو اس نظام میں ہر متنفس کو رزق ملے گا تو یہ اللہ کاوعدہ پورا ہو جائے گا ۔
وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ، اللہ تعالیٰ کے جتنے وعدے بھی ہماری آنکھوں کے سامنے پورے ہوتے جائیں گے ۔ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کے ثبوت جمع ہوتے جائیں گے اور یہی طریقہ قرآن کو وحی الہٰی ثابت کرنے کا بہترین طریقہ ہے ۔ لیکن قرآن کا نظام قائم کرنا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔ اس لئے اس طاغوتی دور میں ہم قرآن کی حقانیت کے وہ ثبوت تو پیش نہیں کر سکتے البتہ قرآن کریم نے جہاں تخلیق کائنات ، زندگی کی ابتداء مسئلہ ارتقاء علم افلاک ، کُرّوں کے اندر زندگی ، طبقات الارض ، تولیدی نظام، جنین کے مراحل اور بے شمار دیگر عنوات پر روشنی ڈالی ہے جن کا براہِ راست سائنس سے تعلق ہے ۔ قرآن کریم کے ان اشاروں کی موجودہ سائنس تصدیق کرتی ہے ۔
(1) سائنس کی پہلی صدیق :۔
سائنس کی موجودہ تحقیق کے مطابق سمندر کی سطح کے نیچے پانی ساکن نہیں ہوتا اور نہ ہی سارا پانی ایک جیسا ہے بلکہ اس میں واضح تمہیں موجود ہیں ۔ ان میں سے ہر تہہ کے اندر نمک کی مقدار ، اور درجہ حرارت اور حیوانات اور نباتات کی قسمیں الگ الگ ہیں ۔پانی کی ان تہوں کے اندر بڑی تیز رو لہریں ( Currents) گزرتی ہیں ۔ ان میں سے بعض سینکڑوں میل لمبی اور تقریباً 100 میل کے قریب چوڑی ہوتی یں ۔ ان لہروں کا دنیا کے موسموں پر اثر پڑتا ہے کیونکہ لہر کے رُخ کی تبدیلی زمین کے موسم پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ زمین کے گرم خطوں میں پانی گرم سے ہلکا ہوکر سطح کی طرف ابھرتا ہے اور قطبین کے قریب سرد پانی نیچے کی طرف ڈوبتا ہے اسی طرح پانی کے ایک رہنے او ر دوسری طرف اوپر ابھر نے کی وجہ سے خطِ استویٰ اور قطبین کے درمیان زبردست متوازی لہریں چلتی ہیں ۔علاوہ ازیں پانی کے دو ایسے خطے جن میں نمک کی مقدار میں بڑا فرق ہو ، جب آپس میں ملتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے میں مدغم نہیں ہوتے بلکہ اوپر نیچے تہہ بہ تہہ ہوجاتے ہیں ۔ زیادہ نمک والا بھاری پانی نیچے او رکم نمک والا پانی اوپر رہ جاتاہے اور دونوں تہوں کے درمیان ایک مضبوط حد فاصل ہوتی ہے جو دونوں پانیوں کو آپس میں ملنے نہیں دیتی ۔ اسی طرح جب سخت سرد پانی ، گرم پانی سے ٹکرا تا ہے تو اوپر نیچے ہوکر ان کی تہیں بن جاتی ہیں ۔ اس کی مثال Gulf Stream اور Ladrador Currents کا آپس میں ٹکراؤ ہے ( نوٹ ، قطب شمالی سے برفانی پانی کی لہریں جو شمالی امریکہ کے مشر قی ساحل کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف آتی ہیں اسے Ladrador Current کہتے ہیں اور اسی طرح گرم پانی کی جو لہر گلف میکسیکو سے اٹھ کر ، امریکی مشرقی ساحل کے ساتھ ساتھ نیو فونڈ لینڈ کی طرف جاتی ہے ، اُسے گلف سٹریم کہتے ہیں جب یہ دونوں پانی آپس میں ٹکراتے ہیں تو شمالی سرد پانی نچلی تہہ میں چلا جاتا ہے او رجنوبی گرم پانی اس کے اوپر تہہ بنا دیتا ہے اور دونوں کے درمیان ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک لوہے کی دیوار بن گئی ہو۔ اسے Cold Wall کا نام دیا جاتا ہے ۔ اب آپ قرآن کریم کی وہ آیات ملاحظہ فرمائیں جن میں یہ تفصیل دی گئی ہے۔
(1) بھاری نمکین پانی اور ہلکے پانی کے درمیان اس دیوار کو قرآن کریم نے برزخ یعنی اوٹ کہا ہے چنانچہ ارشاد عالی ہے ۔وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا (25:53) (ترجمہ ) اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری چھاتی جلانے والا۔ اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی ۔
(2) أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا ۗ أَإِلَٰهٌ مَّعَ اللَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (27:61)( ترجمہ)، ( پھر ان سے پوچھو کہ ) وہ کون ہے جس نے زمین کو ( باوجود اس قدر تیز گردش کے ایسا بنادیا جس پر ہر چیز عمدگی سے ٹھہر سکتی ہے اور اس کے بیچ نہر یں بنادیں اور بلند پہاڑ کھڑے کردیئے اور پانی کے دو بڑے ٹکڑوں کے درمیان روک کھڑی کردی ۔ اب بتاؤ کہ کوئی اور ایسی ہستی ہے اس کا اقتدار اس کا تمام نظم و نسق میں شریک ہو۔ جب کوئی ایسا شریک نہیں تو اللہ کے ساتھ اور الہٰ کیسے ہوسکتا ہے لیکن یہ لوگ علم و بصیرت سے کام نہیں لیتے ( مظاہر فطرت P-168)
ان آیات کی تصدیق جو سائنس نے کی ہے وہ پہلے لکھی جا چکی ہے ۔ آپ غور فرمائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ساری عمر کبھی کوئی سمندر دیکھا بھی نہیں تھا ۔ جو کچھ اوپر سائنس کی تصدیق تحریر کی گئی ہے ۔ آپ اس کو نظر انداز کر دیں اور خود سمندر کی کیفیات کو بہ نظر خود ملاحظہ فرمالیں اگر قرآن کے بیانات کی تصدیق ہوجائے تو وہ یقیناً وحی الہٰی ہے۔
(2) دوسرا مقام ۔ صنف کی حقیقت :۔ عام طور پر سمجھا جاتاہے کہ صنف افزائش نسل کے لئے ہوتی ہے ۔ گو حیوانات اور نباتات میں عام طور پر صنف اور افزائش نسل ایک ساتھ پائے جاتے ہیں لیکن در حقیقت صنف ماحول کا مقابلہ کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے ۔ بے شمار چھوٹے درجہ کی زندہ اشیا ء ایسی ہیں جن میں افزائش نسل ایک ساتھ پائے جاتے ہیں لیکن درحقیقت صنف ماحول کامقابلہ کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے ۔ بے شمار چھوٹے درجہ کی زندہ اشیا ء ایسی ہیں جن میں افزائش نسل تو ہوتی ہے لیکن ان میں صنف موجود نہیں ہے ۔ اس نکتہ کو ایک مثال سے سمجھئے ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک جو ہڑ میں پانی دیر تک کھڑا رہے تو اس پر سبز رنگ کی کائی جم جاتی ہے ۔ کائی دراصل ایک ابتدائی قسم کا پودا ہوتا ہے ۔ کائی کے ایک تنکے میں خلیوں Cell کی قطار ہوتی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کے تنکا بناتے ہیں ۔
گرمی کے موسم میں ہر خلیے (Cell) ایک سے دو ، دو سے چار ، چار سے آٹھ کر بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن سخت سردی میں نشو و نما رُک جاتی ہے اور پودے مرُجھا نے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ زندگی کی حفاظت کےلئے اور پودے کی نسل کو مستقبل میں جاری رکھنے کے لئے دو تنکے آپس میں زوج بن کر ایک دوسرے کے پہلو میں آجاتے ہیں ۔ ایک تنکہ کا ایک خلیہ (Cell)دوسرے تنکے کے ایک خلیے میں ملاپ پیدا کرتا ہے اور اس کا سارا مادہ اس زوج میں منتقل ہوجاتا ہے اور ا سکی سردی سے حفاظت کرتا ہے ۔ چنانچہ سردی کے موسم میں دونوں پودے مردہ ہوجاتے ہیں ۔ صرف Cyst باقی رہ جاتا ہے ۔ جب موسم بہار آتا ہے تو اس Cyst سے پودا پھوٹ کر باہر آجاتا ہے او رنئی زندگی کا آغاز ہوجاتاہے ۔ گویا جب انفرادی طور پر دو پودے ماحول کامقابلہ نہ کرسکیں تو دونوں نے مل کر اس کا مقابلہ کیا ۔ قرآن کریم صنفی عمل کو اپنے مخصوص انداز میں فرماتا ہے ۔
وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْهَارًا وَمِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ (13:3) ( ترجمہ) ( اس نے زمین کو گول ہونے کے باوجود ) اس کو اس طرح پھیلا دیا ( کہ تم ا س پر آسانی سے چل سکو) اور اس پر پہاڑ بنا دیئے اور ا س سے دریاؤں کا سلسلہ جاری کردیا اور میں ہر پھل کے ( زوجین ) جوڑے ( الگ الگ قسم کے ) پیدا کر دیئے ۔
(3) پھر ارشاد ہوا ، وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ (31:10) ( ترجمہ) وہ بادلوں سے زمین پر مینہ برساتا ہے جس کے ذریعے ہر قسم کے اعلیٰ زوج ( جوڑے) اُگتے ہیں ۔
(4) ارشاد ہوا ۔أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ ( 26:7) ( ترجمہ )کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں ہر قسم کی کتنی نفیس زوج (جوڑے) اُگائے۔پہلی آیات زمین سے اُگنے والی نباتات کے اندر زوجین کا ذکر ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جوڑے صرف حیوانات اور نباتات ہی کے اندر نہیں ہیں ۔ یہ ایسی چیزوں کے اندر بھی موجود ہیں جن کاتمہیں علم نہیں ۔ ظاہر ہے کہ بے شمار اشیا ء ایسی ہیں جن کا انسان کو علم نہیں ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوا ۔ خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ (36:36) وہ اللہ بہت بلند ہے جس نے زمین کی نباتات اور خودان کے ( یعنی انسانو ں کے ) اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں، سب کے ازواج بنائے ۔
ہمارا موضوع اس وقت زندہ اشیا ء کے اندر Sex صنف کا پیدا ہونا ہے ۔ ورنہ قرآن کریم تو اس سے بھی آگے جاتاہے اور کہتاہے کہ زوج تمام اشیاء کے اندر، جاندار ہوں یا بے جان، سب میں موجود ہوتے ہیں ۔ وَمِن كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ( 51:49) اور ہر چیز کے ہم نے زوجین بنائے تاکہ تمہیں یاد رہے ۔
یعنی ہر شے کے ساتھ دوسرے شے اس طرح پیدا کی کہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث بنتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بے جان چیزوں کے اندر بھی جوڑے ہیں ۔ سارے کیمیائی عمل کا انحصار اسی پر ہے ۔ مفردات کے باہمی تعامل سے مرکبات بنتے جاتے ہیں ۔ مثلاً سوڈیم کا ایٹم اور کلورین کا ایٹم جب آمنے سامنے ہوتےہیں تو ایک دوسرے کا زوج بن جاتے ہیں اور دونوں مفردات کے باہمی ملاپ سے سوڈیم کلو رائیڈ ( نمک) بن جاتاہے جو کہ مرکب ہے ۔
(3) تیسرا مقام :۔
ارشاد ہوتا ہے ۔وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( 51:47) ( ترجمہ) ہم نے آسمان کو ہاتھوں ( قوت، قدرت) سے بنایا ہے او ر ہم اس کو وسعت دیتے رہتے ہیں ۔
کائنات اس کی وسعت و انتہا ء کیا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں لیکن جس حد تک سائنسدانوں نے اس کے ایک حصہ کو اب تک دریافت کیا ہے اس کا فاصلہ روشنی کی رفتار سے چھ ملین Light Years میں طے ہوتا ہے ۔ سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ کائنات باہر کی طرف پھیل رہی ہے اور کہکشائیں جو کہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں بڑی تیز رفتار سے باہر کی طرف دوڑ رہی ہیں ۔
موجودہ سائنس قرآن کریم کی اس بات کی تصدیق کرتی ہے تفسیر نمونہ میں تحریر ہے، قابل توجہ بات یہ ہے کہ ‘‘انا لموسعون ’’ ‘‘ہم وسعت دینے والے ہیں کہ تعبیر جملہ اسمیہ اور اسم فاعل کے جملہ سے استفادہ کرتےہوئے، اس موضوع کے ہمیشہ ہمیشہ ہوتے رہنے کی دلیل ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یہ ہمیشہ سے تھی اور اسی طرح جاری رہے گی اور یہ ٹھیک وہی چیز ہے جس تک موجودہ زمانے میں ( سائنسدان) پہنچے ہیں کہ تمام کُرّاتِ آسمانی اورکہکشائیں ابتدا ء میں ایک ہی مرکز میں جمع تھیں ۔ اس کے بعد ایک انتہائی وحشت ناک اور عظیم الفجا رواقع ہوا ( یعنی یہ مرکز پھٹ گیا ) اور اس کے ساتھ ہی اس جہاں کے اجزا ء ایک دوسرے سے جدا ہوکر بکھر گئے اور انہوں نے کُرّوں کی صورت اختیار کرلی اور وہ بڑی سرعت کے ساتھ پیچھے ہٹے اور پھیلتے جارہے ہیں ۔ ( جلد 12، صفحہ 606)
( 4) چوتھا مقام :۔
ریڑھ کی ہڈی کا آخری حصہ جسے Sacrum ( سیکرم) کہتے ہیں ۔ قرآن اُسے صلب کہتا ہے او رکولھے کی دونوں ہڈیاں یا پیڑو کی ہڈیاں سیکرم کے ساتھ مل کر پیڑو کا حلقہ بنا تی ہیں ۔کولھے کی ہڈیوں کو قرآن نے ترائب کہا ہے ۔ ترائب کے معنی دو بالکل ایک جیسی چیزیں ہیں ۔ چنانچہ مرد کا مادہ منویہ پیڑو کے حلقہ میں سے گزر کر باہر نکلتا ہے ۔ پچھلی طرف صلب Sacrum اور اگلی طرف ترائب پیڑو کی ہڈیاں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَنظُرِ الْإِنسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِن مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِن بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبِ (86:5،6،7) تو انسان کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کاہے سے پیدا ہوا، اور اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا ہوا جو پیٹھ اور پیڑو کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے ۔ میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ نر نسبتی خلیے خصیوں کے اندر بنتے ہیں پھر سپر میٹک ڈکٹ میں داخل ہوتے ہیں جو ایک پرُ پیچ راستے سے گزرتی ہے۔ پھر غدہ قوامیہ یا پروسٹیٹ Prostate غدود میں سے گزر کر پیشاب کی نالی میں جا کھلتی ہے ۔ اب غور کیجئے کہ کتنے لوگ ہیں جو مادہ منویہ کے باہر نکلنے کے اس راستے سے واقف ہیں؟ سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے انا ٹومی Anatomy (علم تشریح الابدان ) پڑھا ہو لیکن ایک اُمی لقب، اللہ کا رسول آج سے چودہ سو سال پہلے آپ کو یہ نکتہ بتارہا ہے ۔ کیا اس کے بعد بھی قرآن کے وحی ہونے میں کوئی شک رہتا ہے (مظاہر فطرف ص 264)
(5) پانچواں مقام :۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم نے ہر اس عمل کو جو کائنات میں زندہ اشیا ء کے اختیار و ارادہ کے بغیر ہوتاہے، قانونِ مشیت کہا ہے اور اس میں اس کا قانون انتخاب طبعی Law of Natural Selection بھی شامل ہے ۔ چنانچہ قرآنی نقطہ نظر سے Natural Selection کامطلب یہ ہے کہ ارتقائی عمل میں انتخاب اللہ کے قوانین کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ افراد کے اختیار و ارادہ کے مطابق ۔ یہ حیران کن بات ہے کہ قرآن کریم نے آج سے چودہ سو سال پہلے کس خوبصورت انداز سے اس بنیادی حقیقیت کو بیان کردیا جب کہ طبعی انتخاب کا تصور تک انسان کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا ۔ چنانچہ فرمایا ۔وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ ( 28:68) ( ترجمہ) تخلیق اور انتخاب تمہارے رب کے قانون کے مطابق ہوتا ہے ۔ ان کا ( یعنی زندہ اشیاء کا ) اس میں کوئی اختیار نہیں ہے ۔ یہ جو اللہ کے شریک بناتے ہیں اللہ ان سے بہت بلند و بالا تر ہے ( مظاہر فطرت ، صفحہ 304)
(6) چھٹا مقام :۔
قرآن کریم کے وحی الٰہی ہونے کے بعض مقامات ایسے سامنے آتےہیں ۔ جہاں اس دعویٰ کا ایک ٹھوس طبعی ثبوت مہیا ہوجاتا ہے ۔ اب ایسا ہی ایک ثبوت پیش خدمت عالی کیا جاتاہے ۔ ارشاد جناب باری تعالیٰ ہوتا ہے ۔أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ ( 21:30) ( ترجمہ) کیا کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے اور ہم نے انہیں ایک دوسرے جدا کیا اور ہم نے ہر زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا، کیا وہ ایمان نہیں لاتے ۔
قرآن کریم نے اپنے وحی الہٰی ہونے کا معاوضہ اپنی زبان اور اپنے مطالب دونوں جہتوں سے کیا ہے ۔ یہ آیہ کریمہ دونوں جہتوں کی حامل ہے ۔ یہاں قرآن نے صیغہ واحد استعمال نہیں کیا ۔ یہاں ایک ہی لفظ نے سارا مفہوم ادا کردیا کہ زمین و آسمان دو الگ الگ تو دے نہیں تھے ۔ اسی لیے مفسرین کی پوری ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ ابتدا ء ساری کائنات ایک ہی تو دہ تھی ۔ پھر ہوائی فضا پیدا کر کے انہیں جدا جدا کیا گیا ۔ قال ابن عباس والحسن وعطا ء والضحاک وقتادہ ، انھا کانت شیئاً واحد ملتز قتین فصل اللہ بینھما ۔ حضرت ابن عباس ، ضحاک ، عطا ء اور قتادہ نے کہا ہے کہ آسمان و زمین سب باہم چسپا ں اور ایک تھے پھر اللہ نے انہیں الگ الگ کردیا ۔ تفسیر مظہری میں ہے کہ کعب نے کہا کہ اللہ نے آسمان و زمین کو اوپر تلے ( تہ بہ تہ) بنایا تھا پھر ہوا پیدا کر کے ، ا س کو دونوں میں داخل کر کے ، دونوں کو کھول دیا یعنی الگ الگ کر دیا ۔
اب آپ اس آیہ کریمہ کی وہ تصدیق ملا حظہ فرمائیں جو موجودہ سائنس نے کی ہے اور یہ بہت بڑی اور اہم چیز ہے ۔
مورخہ 19 جولائی 1976 کے پاکستان ٹائمز میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ روسی سائنسداں جب چاند پر گئے تھے تو وہ واپسی پر اپنے ساتھ چاند کی تھوڑی سے مٹی بھی لے کر آئے ہیں ۔ ان سائنسدانوں نے اس مٹی پر بڑی تحقیق جاری رکھی جس کے نتیجہ میں وہ اس بات پر پہنچے ہیں کہ مریخ ، مرکری اور دورے سیارے ( PLANET) سب ایک ہی ہیولیٰ تھا ۔ اب آپ پاکستان ٹائمز کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں ۔ All the planets of the solid system emerged out of a proto. Planetry cloud several thousand years ago. یہ بات خیال میں رکھیں کہ یہ جدید ترین تحقیق ہے جو روس کے سائنسدان اس موجودہ دور میں کررہے ہیں ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے ‘‘ اجرام فلکی کا یہ سارا سلسلہ کائنات ابتداء میں ایک ہیولیٰ Nebula اور گیسوں کی شکل میں تھا ’’ ۔ یہ تو ہوئی پہلی بات ، اس کے بعد اس رپورٹ میں کہا گیا ہے ۔
This is the conclusion soviet scentish come after they compared the chemical composition of substances on planets, Earth, Moon and Mercury, said a Russian paper.
روس سے شائع ہونے والے ایک اخبار میں کہا گیا ہے ‘‘ یہ زمین ، عطا رد، چاند اور مریخ کی ہیئت ترکیبی (Composition) کا تجزیہ کرنے کے بعد یہ سائنسدان ا س نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ تمام کے تمام پہلے ہیولیٰ تھے اور وہ ہیولیٰ ٹھوس سخت مادے کا نہیں تھا ۔ گیسز Gases کا تھا ’’ ۔ قارئین محترم سے گزارش ہے کہ اگر چہ مضمون ذرا مفصل ہوتا جارہا ہے لیکن ہماری درخواست ہے کہ آپ اس کو توجہ ملا حظہ فرماتے رہیں ۔ مضمون کے آخر میں بہت خوشی محسوس کریں گے اور قرآن کریم کو دل کی رغبت کے ساتھ وحی تسلیم کریں گے ۔ اس وقت آپ Gases اور Clouds کے الفاظ ذہن میں رکھیں ۔ ان کے حوالے قرآن کریم میں آگے آئیں گے جو اسی اخبار میں مذکور ہیں اس سے آگے تحریر ہے۔
According to the USSR press statement, “ the samples of the Lunar rock brought to the Earth by soviet astronomers are composed of the same substances, shich are found on the Earth, they do not go in different proportion’’‘‘ یہ ( سائنسدان) جو مٹی چاند سے لے کر آئے ہیں، اس کا تجزیہ کیا تو دیکھا زمین کی مٹی کے جو اجزاء ہیں ۔ یہ وہاں پائے جارہے ہیں اور اسی نسبت میں ہیں ’’ ۔ چونکہ یہ رپورٹ چونکا دینے والی ہے اور قرآن کریم کی حقانیت کے لئے ایک حجت قاطعہ ہے ، اس لئے ہم صرف ترجمہ پر اکتفا ء نہیں کررہے ہیں، بلکہ انگریزی زبان کے اصل الفاظ پیش خدمت عالی کررہے ہیں تاکہ قارئین کرام کو کوئی اشتباہ باقی نہ رہے ۔ رپوٹ میں آگے تحریر ہے ۔Scientists believe that the Moon and the Earth on similar crust had similar crust several thsousand million years ago” ( ترجمہ) کروڑوں اربوں سال پہلے کی بات ہے کہ چاند اور زمین کا مرکب (Compound ) کم از کم جن چیزوں سے یہ آج بنا ہوا ملا ہے ۔ وہ اس وقت بھی وہی تھیں، وہ ایک ہی تھیں ۔ وہ الگ الگ Different نہیں تھیں ’’ ۔ رپورٹ میں مزید تحریر ہے The difference are developed later on and are explained by the loss of many volatile elements due to the absence of atmosphere on the Moon” ( ترجمہ) چونکہ چاند کے اوپر یہ فضائی تہ نہیں ہے جسے ہم فضا ء Atmosphere کہتے ہیں یہ تبدیلیاں اس سے پیدا ہوئیں ۔ آگے چل کر یہ بات سامنے آئے گی کہ قرآن اس کے متعلق کیا کہہ رہا ہے جسے فضا ء Atmosphere کانہ ہونا ہے ۔ اس کے بعد لکھا ہے “ The surface of the Mercury not protected by the atmosphere is believe to have much in common with that of the Moon” کے اوپر بھی یہ Atmosphere نہیں ہے ۔ اس لئے اور عطا رد کی جو سطح اور ان کے جو اجزاء ہیں وہ کم و بیش ایک جیسے ہیں ۔ پھر مزید تحریر ہے “ The planet Mars has a ractified atmosphere within a lot of carbonic acid gas and probably little water ( ترجمہ) اس کے مقابلہ میں سیارہ مریخ پر ذرا سا لطیف سا little water Atmosphere ہے ا سلئے وہ اور زمین کے اجزاء کم وبیش ملتے جلتے نظر آتے ہیں اور اندازہ یہ ہے کہ شاید وہاں پانی ہے ۔ اس کے بعد تحریر ہے This also had an effect on the surface rock اس کی وجہ سے اس کی سطح پر کچھ تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے On the whole the planet looks very much like Earth, Moon and the Mercury ( ترجمہ) یہ ہیئت مجموعی وہ بھی ان کُرّوں یعنی زمین، چاند اور عطارد ہی جیسا نظر آتا ہے اور حقیقت میں یہ شروع میں ایک ہی تھے ۔ اب چونکہ سائنسدان مریخ کی بھی مٹی لے آئے ہیں اور اس کا تجزیہ بھی ہوگیا ہے کہ ان ( زمین سمیت) تمام اجرام فلکی کی مٹی کے اجزا ء بالکل ایک ہیں اور ان سب میں تناسب بھی ایک جیسا ہے۔
ہم جب روسی سائنسداں کے اقتباسات پیش کررہے تھے ۔ جن میں تحریر تھا کہ یہ سارا سلسلہ کائنات شروع میں ہیولیٰ Nebula تھا اور Gases کی شکل میں تھا تو ہم نے گزارش کی تھی کہ Gases کا لفظ ذہن میں محفوظ رکھیں کیونکہ اس کا حوالہ قرآن کریم میں آگے آئے گا ۔ اب ہم اس آیت کو پیش کرتے ہیں جس میں مذکور شدہ Gases کا حوالہ آتا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ (41:11) اللہ نے اپنی توجہ دیگر اجرام فلکی کی طرف منعطف فرمائی ۔ اس وقت وہ بالکل دھوئیں اور Gases کی شکل میں تھا ۔ قرآن فرماتا ہے کہ خارجی کائنات کے یہ سارے اتنے بڑے کُرّے اور خود ہماری یہ زمین Gases تھیں قرآن فرماتا ہے کہ یہ سارے فضائی کُرّے جسے سائنسدان فضائی کائنات کہہ رہے ہیں اور جسے قرآن کریم ‘‘ سماء’’ کہتاہے یہ وہی دُخان تھے Gases تھے یعنی دُخان کی شکل کا ایک ہیولیٰ تھا ۔ قرآن کریم یہ سب کچھ اس وقت کہہ رہا تھا جب عرب کے معاشرے میں کوئی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ ایک بسا معاشرہ تھا جس میں کائنات کی پیدائش جیسے مسائل سامنے آتے ہی نہیں تھے ۔ ان کے ہاں نثر کی کوئی کتاب نہیں تھی ۔ ان کی ساری شاعری میں دور دور تک ایسے مسائل کا اشارہ تک نہیں ملتا ہے جب کہ قرآن کریم کی ایک پوری سورہ کا نام ‘‘ الدخان’’ ہے ۔ اس تاریک دور اور اس جاہلانہ ماحول میں حضور یہ بات خود نہیں کہہ سکتے تھے ۔ صرف وحی الہٰی ہی یہ علم دے سکتی تھی ۔ ہماری طرف سے یہ ساتواں مقام پیش خدمت عالی کیا گیا ہے ۔(8) آٹھوا ں مقام :۔ علمائے یونانِ افلاطون کا یہ نظریہ تھا کہ کائنات ایک سراب ہے ۔ اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے اور دنیائے محسوسات درحقیقت اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ اس کے نزدیک حقیقی دنیا عالم امثال کی دنیا ہے جو کہیں عالم بالا میں واقع ہے اور کرّئی کائنات اس دنیا کا محض ایک سایہ ہے ۔ ہر واقع اصل میں اس عالم امثال میں وجود پذیر ہوتا ہے ۔ افلاطون کا یہ نظریہ بندوں کے تصوف کی روح قرار پایا ۔ اس تصوف کی رو سے پراکرتی ( مادی دنیا ) فریب محض ہے اور یہ ساری کائنات اللہ کا ایک خواب ہے ۔ جس دن اللہ تعالیٰ کی آنکھ کھل گئی یہ تمام خواب ختم ہو جائے گا ۔ یہ کائنات ایشور کی لیلا ہے ،یعنی ایک ناٹک ہے جس میں کوئی چیز اپنے حقیقی رنگ میں سامنے نہیں آتی بلکہ حقیقت کی محض ایک تمثیل ہوتی ہے ۔
ہم مسلمانوں میں ہماری ساری فارسی اور اردو کی شاعری اسی نظریہ پر قائم ہے ۔ عربی شاعری میں ابن الفارض نے اس نظریہ کو بہت ہوادی لیکن یہ نظریہ عام نہیں ہوسکا ۔ قرآن کریم نے اس باطل نظریہ کی بڑی شدت سے تردید کر کے اس کی مذمت کی ہے کیونکہ اس باطل نظریہ کی وجہ سے قوم کےسامنے کائنات اور اس میں سائنسی تحقیقات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور قوم بالکل ذلیل و خوار ہوجاتی ہے ۔ اس نظریہ کے اختیار کرنے کے بعد کائنات کی طرف بڑا تنفر کارویہ ( Negative Attitude ) ہوجاتاہے ۔ قرآن کریم نے اس نظریہ کے علی الرغم فرمایا کہ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۚ ذَٰلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُو (38:27) زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے انہیں باطل پیدا نہیں کیا ۔ یہ فی الحقیقت موجود ہیں اور ایک بڑے مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ۔ جو لوگ انہیں ایک فریب قرار دے رہے ہیں وہ کافر ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک حقیقت کا انکار کررہے ہیں ۔
دوسرے مقام پر اسی بات کو دہرایا اور فرمایا ۔ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ (29:44) خدا نے خارجی کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے ۔ اس میں صاحبان ایمان کے لئے حقیقت تک پہنچنے کے لئے عظیم نشانیاں ہیں ۔ ان آیات میں قرآن کریم نے علمائے یونان اور ہندوؤں کے اس عقیدہ کی تردید کردی کہ کائنات ایشور کی رچائی ہوئی لیلا یعنی ایک تماشہ ہے ۔ ایک دیگر مقام پر ارشاد ہوتا ہے ۔وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (44:38،39) ہم نے اس محسوس کائنات کو کھیل تماشہ کے طور پر پیدا نہیں کیا ۔ ہم نے انہیں با لحق پیدا کیا ہے اور اس کے خلاف عقیدہ رکھنا لوگوں کا ظن و قیاس ہے جو لوگ علم و حقیقت سے بے خبر ہیں ۔ ہم قارئین محترم سے عرض کریں گے کہ اس دور کی عرب سوسائٹی میں علم و فکر او رمذاہب کی ساری دنیا کو چیلنج کرتے ہوئے قرآن کا یہ دعویٰ کرنا کہ کائنات بالحق پیدا کی گئی ہے ساری دنیا کے لئے ایک چیلنج تھا ۔ اس وقت ساری دنیا میں ایک شخص بھی اس عقیدہ کو Second کرنے والا نہیں تھا اور یہ قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل ہے ۔ آپ ساری دنیا کےاہل مذاہب اور اہل فکر کو دعوے کر کے یہ کہہ دیں کہ ان کے ہاں کسی لٹریچر میں کہیں بھی یہ بات آتی ہے کہ یہ کائنات وہم خیال نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت میں Exit کرتی ہے حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے سارے لٹریچر میں یہ بات کہیں نہیں آئی ہے سوائے قرآن کریم کے ۔
(9) نواں مقام :۔
سورہ شوریٰ میں ارشاد عالی ہے ۔وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ (42:29) ( ترجمہ) اس نشانیوں میں سے ہے یہ زمین اور آسمان کی پیدائش اور یہ چاند او رمخلوق جو اس نے دونوں جگہ پھیلا رکھی ہے ۔ حواشئی عثمانی میں اس آیت کے حاشیہ میں تحریر ہے ۔ ‘‘ آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی طرح آسمانوں پر بھی جانداروں کی قسم سے کوئی مخلوق پائی جاتی ہے ۔ ’’ مولانا عثمانی ایک عظیم مذہبی اسکالر تھے ۔ ان کا جدید علوم خصوصاً سائنس سے کوئی رابطہ نہیں تھا اور یہ حاشیہ بھی تقریباً سوا سو 125 سال پیشتر کا تحریر کردہ ہے ۔ اس وقت تک سائنسی تحقیقات بھی زیادہ نہیں ہوئی تھیں ۔ اس لئے حضرت اقدس اس آیت کی تہ تک نہیں پہنچ سکے لیکن آیت اس درجہ واضح ہے کہ حضرت اقدس بھی اس بات پر مجبور ہوگئے کہ کرّوں میں آبادیوں کے وجود کو تسلیم کریں ۔ موجودہ دور کی تفسیر تفہیم القرآن میں یہ تصور زیادہ واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے اس میں تحریر ہے ‘‘ یعنی زمین میں بھی اور آسمانوں میں بھی ۔ یہ کھلا اشارہ ہے اس طرح کہ زندگی صرف زمین پر ہی نہیں پائی جاتی بلکہ دوسرے سیاروں میں بھی جاندار مخلوقات موجود ہیں ’’۔یہ بہت بڑی بات ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پیشتر بیان کی ہے ، اُس دور میں یہ بات وحی الٰہی کے علاوہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا ۔ آیت کا اگلا حصہ تو ایسا ہے کہ اس پر غور کرنے سے تو حیرت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔هُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ (42:29) اور وہ اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ وہ ان مخلوقات میں رابطہ پیدا کردے۔
سبحان العظیم ، رابطہ کا ہی امکان ظاہر نہیں کیا بلکہ فرمایا علی جَمْعِهِمْ، یعنی جب چاہے وہ ان کو جمع کر سکتا ہے ۔ ہماری دنیا کے سائنسداں دوسرے سیاروں میں جانے کی کوشش کررہے ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ایک رات سوئیں اور صبح کو جب ہم بیدار ہوں تو TV پر یہ نشر ہو رہا ہو کہ فلاں سیارے کے لوگ ہماری دنیا میں آگئے ہیں ۔ ہمیں سب سے پہلے تو یہ اشتیاق ہوگا کہ یہ معلوم کریں کہ وہ مخلوق کس قسم کی ہے ۔ پھر یہ دعا ہوگی کہ خدا کرے کہ وہ مخلوق مسلمان ہوتا کہ وہ ہماری مدد کرے ۔ بہر حال قرآن کا یہ وعدہ ہے کہ کُرّوں میں جو مخلوق موجود ہے وہ ضرور ایک دوسرے سے ملتی جلتی رہے گی اور جس دن اس مخلوق نے آپس میں ملنا جلنا شروع کردیا، یہ متشا بہ آیت محکم بن جائے گی اور قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا واضح ثبوت مل جائے گا۔
(10) دسواں مقام :۔
ارشاد عالی ہے۔ سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ( 41:53) ( ترجمہ) ہم عنقریب اپنی نشانیاں اطراف عالم میں اور خود ان کی ذات میں دکھادیں گے ، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ وہی ( قرآن ) حق ہے آپ آیہ کریمہ کو ملاحظہ فرمائیں اور ا س کے بعد پورے قرآن کریم کامطالعہ فرمائیں قرآن اپنے دعاویٰ کی صداقت میں یہ فرماتا ہے کہ کائنات کے پوشیدہ حقائق میں سے جس حقیقت پر سے بھی پردہ اٹھے گا، اس کے بعد جو بات سامنے آئے گی وہ بات قرآن کے کسی نہ کسی دعویٰ کا ثبوت ہوگی ۔ قرآن نے یہ بہت بڑا دعویٰ کیا ہے ۔اتنابڑا دعویٰ کوئی فرد ، خواہ وہ کتنا ہی بڑا سائنسدان ہو، کبھی نہیں کرسکتا اور یہ حقیقت کہ واقعی قرآن وحی الہٰی ہے اس کے ثبوت میں فرمایا کہ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (41:53) (ترجمہ) ہم عنقریب اپنی نشانیاں اطراف عالم میں اور خود ان کی ذات میں دکھادیں گے ، یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی ( قرآن ) حق ہے آپ اس آیہ کریمہ کو ملا حظہ فرمائیں اور اس کے بعد پورے قرآن کریم کا مطالعہ فرمائیں قرآن اپنے دعا ویٰ کی صداقت میں یہ فرماتا ہے کہ کائنات کے پوشیدہ حقائق میں سے جس حقیقت پر سے بھی پردہ اٹھے گا ، اس کے بعد جو بات سامنے آئے گی وہ بات قرآن کے کسی نہ کسی دعویٰ کا ثبوت ہوگی ۔ قرآن نے یہ بہت بڑا دعویٰ کیا ہے ۔ اتنابڑا دعویٰ کوئی فرد، خواہ وہ کتنا ہی بڑا سائنسداں ہو ، کبھی نہیں کر سکتا اور یہ حقیقت کہ واقعی قرآن و حی الہٰی ہے اس کے ثبوت میں فرمایا کہ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ (41:53) ۔ کیا تمہارا پروردگار تمام چیزوں پر نگران نہیں ہے ۔
قرآن نے ثبوت کے طور پر خدا کی یہ صفت بتائی ہے کہ ہر شے اس کی نگاہوں کے سامنے ہے فرما یا کہ جس کی نگاہوں کے سامنے تمام اشیاء ہوں ۔ کیا کوئی چیز اس سے مخفی رہ سکتی ہے ۔ ہر گز نہیں رہ سکتی ۔ غور فرمائیں کہ قرآن نے کسی مُسکت دلیل دی ہے ۔ تم اس حقیقت کو اس لئے نہیں جانتے تھے کہ یہ تمہارے سامنے ظاہر نہیں تھی ۔ جس کی نگاہ سے کائنات کی کوئی شے مخفی نہیں ہے، وہ تو ایسی بات بھی کہہ دے گا جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہے وہ پوشیدہ تو ہماری نگاہوں سے ہے، اللہ کی نگاہ سے تو پوشیدہ کوئی شے نہیں ، جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کُرّوں کے اندر مخلوق موجود ہے ، تو یہ بات خدا نے خود دیکھ کر کہی تھی ۔ یہ ہے شہد اور یہ ہے صفت اللہ کی شہادت کی ۔ جس کا مطلب ہے کسی چیز کا سامنے موجود ہونا ۔ کہا کہ جس خدا کے سامنے یہ موجود تھا کہ ان کُرّوں میں مخلوق ہے۔ قرآن میں جب تم نے پڑھا کہ کُرّوں میں مخلوق موجود ہے او ربعد میں سائنس نے بھی کہا کہ کُرّوں میں مخلوق موجود ہے تو یہ اس چیز کی صداقت کی دلیل بن گئی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ کُرّوں میں آبادی موجود ہے ۔ حالانکہ یہ بات ہماری نگاہ سے پوشیدہ تھی اور اللہ تعالیٰ واقعتاً اس کو دیکھ رہاتھا اور اس نے اسی وقت اس کا انکشاف قرآن میں کر دیا تھا ۔
جنوری، فروری، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part11-/d/87609