مسئلہ حلال و حرام ، باب ہشتم
خواجہ ازہر عباس، فاضل درس نظامی
قرآن کریم نے انسانی غذاؤں میں حلا ل و حرام کی جو تقسیم کی ہے اور اس تقسیم کے جو واضح اصول اور نشانیاں بیان فرمائی ہیں وہ فکر انسانی کی وضع کردہ نہیں ہوسکتیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرب سے باہر بہت کم گئے تھے ۔ تاریخ میں صرف ایک یا دو سفر کا تذکرہ آتا ہے لیکن اس دنیا میں افریقہ، امریکہ، آسٹریلیا، چین، جاپان اور دیگر ممالک میں ہزاروں طرح کے جانور موجود ہیں ۔ قرآن کریم نے حلال و حرام کی جو نشانیاں بیان فرمائی ہیں آپ دنیاکے کسی خطے میں چلے جائیں آپ ان نشانیوں کے ذریعے نہایت آسانی سے حرام و حلال کی تقسیم کرسکتے ہیں افریقہ کے مختلف ممالک میں ایسے ایسے جانور موجود ہیں جن کا عربوں کو تو کیا علم ہوتا ، اس موجودہ دور میں مختلف ممالک تک میں ان کا کوئی علم نہیں ہے۔ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب نے اپنے احبار ورہبان کے فتاویٰ کے مطابق مویشیوں کی تقسیم کی ہوئی تھی ۔ جس تقسیم کے متعلق ان کے پاس خدا کی کوئی سند موجود نہیں تھی ۔ جہاں تک مشرکین و کفار عرب کا تعلق ہے ان کے ہاں حلال و حرام کی بہت کچھ باتیں ان کے بزرگوں سے وراثتاً چلی آرہی تھیں ۔ وہ ان روایات کے مطابق عمل کرتے تھے ۔ ان کے ہاں چونکہ تو ہم پرستی بہت عروج پر تھی اس لئے کچھ مویشیوں کی حلّت و حرمت کا دارو مدار ان کی تو ہم پرستی پر تھا ۔مویشیوں میں فلاں مویشی حرام ہے۔ کھیتی و زراعت میں بھی کچھ حصے حرام تھے ۔سواری کے جانور وں میں بھی کچھ پر سواری جائز تھی اور کچھ جانوروں پر سواری کرنا ناجائز تھا ۔ ( 139۔6)کچھ چیزیں مردوں کے لئے حلال تھیں اور عورتوں کے لئے حرام تھیں (140۔6)اوٹنی اس قسم کا بچہ دے تو وہ حرام ہے ۔ گائے کے کئی قسم کے بچے حرام تھے ( 144۔6) قرآن کریم نے اس تقسیم کے متعلق فرمایا کہ یہ تقسیم اپنی وضع کردہ ہے اللہ کی طرف سے اس کی کوئی سند موجود نہیں ہے۔
قُلْ هَلْ عِندَكُم مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَاإِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ ( 148۔6) ( ترجمہ) تو کہہ کہ اگر تمہیں حلال و حرام کا کوئی علم ہے تو اس کو ہمارے سامنے پیش کرو تم تو محض اٹکل پر چل رہے ہو او رمحض اندازے اور تخمینے کررہے ہو اور تم ان کے حلال و حرام ہونے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف خود ہی کررہے ہو ۔ اس کے بعد قرآن کریم نے ان کو تحدی فرمائی ہے کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو کہ یہ خدا کی طرف سے حلال و حرام کردہ ہیں ۔ تو اس دعویٰ کے ثبوت میں کوئی گواہ لاؤ ( 151۔6)
یہ بات بھی واضح رہے کہ قرآن کریم نے جو حلال و حرام کی تقسیم کی ہے اس کا دارو مدار جانور کے جسم کی صحت و بیماری یا کسی جانور کے گوشت کا زیادہ یا کم Nutritive یا Wholesome ہونے پر نہیں ہے،ان جانوروں کےحلال و حرام کامعیار طبی وجوہات نہیں ہیں بلکہ قرآن نے اس کے حِلّت و حرمت کا مداراخلاق پر رکھا ہے کہ کس جانور کے گوشت کا اثر انسان کے اخلاق پر کیسا پڑتا ہے ۔ قرآن کریم نے جن مویشیوں کو حرام کہا ہے ان کی حرمت کی وجہ یہ ہے کے کھانے سے انسان کے اخلاق پر برُا اثر پڑتا ہے لیکن یہ بات کہ ان پر کھانے سے ہماری اخلاقی صفات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ہم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔ اخلاق ناپنے کے ذرائع ہمارے پاس نہیں ہیں ۔ یہ وہ اثرات و نتائج ہیں جو ملائکہ ، یعنی کائنات کی قوتیں اور انسانی جذبات مرتب کرتے ہیں ۔ قرآن نے ان اثرات کو اسی وجہ سے بیان نہیں فرمایا کہ ہم ان کو سمجھ نہیں سکتے تھے ۔ حلال و حرام کی پابندی صرف وہ شخص ہی کرے گا جو قرآن کو وحی الہٰی تسلیم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو علیم و حکیم سمجھتا ہے کیونکہ اس سے ذہبی آسودگی حاصل ہوجاتی ہے ویسے بھی ہر سوسائٹی او رمعاشرہ کے کچھ اساسی اصول ہوتےہیں ، جو شخص بھی کسی معاشرہ میں رہنا چاہتا ہے اسے اس معاشرہ کے اصولوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ حلا ل وحرام اسلامی معاشرہ کے بنیادی اصول ہیں ۔ جو شخص بھی مسلم معاشرہ میں رہے گا اسے قرآن کریم کی حلت و حرمت کا امتیاز پیش نظر رکھناہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام بھی نہ سمجھے اور اس معاشرہ کا جزو بھی بنارہے اس سے معاشرہ میں انارکی پیدا ہوسکتی ہے۔
دنیا میں جس قدر بھی جانور ہیں قرآن نے انہیں دو صنفوں میں تقسیم کیا ہے ۔ ایک صنف تو وہ ہے جو شکار کرتی ہے اور گوشت کھاتی ہے۔ قرآن کریم نے انہیں جوارح کہا ہے ۔ ( 4۔5) جانوروں کی دوسری صنف وہ ہے جس کا شکار کیا جاتاہے اور وہ گوشت کا ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتی اور جو صرف گھاس کھاتی ہے ۔ ان جانوروں کو قرآن نے انعام کہا ہے محض سمجھنے کی خاطر از راہ تفنن، ان کو ہندو مسلمان بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ دونوں اصناف بالکل الگ الگ ہیں ۔ الجوارح الانعام میں شامل نہیں ، نہ الانعام الجوارح میں شامل، منطق بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یہ دونوں الگ الگ کلّیان ہیں،جن میں تبایں کی نسبت پائی جاتی ہے۔
الجوارح سب حرام ہیں ۔ ان میں سے کوئی حلال نہیں ۔ اس طرح الانعام باقی رہ جاتے ہیں ۔ جہاں تک ان الانعام کا تعلق ہے ان کے لئے ارشاد ہوتا ہے ۔يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِأُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ ( 1۔5) اے ایمان والوں اپنے عہدے کو پورا کرو اور تمہارے لئے مویشی چوپائے حلال ہیں ۔ دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔ وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ( 142۔6) (مفہوم) گھاس کھانے والے چو پایوں میں سے کچھ بوجھ اٹھانے والے ہیں او رکچھ زمین سے لگے ہوئے ہیں ۔اللہ نے جو تمہیں چرنے والے چوپائے عطا کئے ہیں ان میں سے آٹھ قسمیں کھایا کرو ۔ بھیڑ، نر و مادہ، بکری نر و مادہ، اورگائے نر و مادہ ۔ آپ غور فرمائیں کہ پہلی بھیمۃ الانعام کو حلال قرار دیا ہے اور دوسری آیت میں جانوروں کی آٹھ قسمیں بھیڑ ، بکری، اونٹ اور گائے کے نر ومادہ کو کھانے کا حکم دیا ہے ۔ پس یہ آٹھوں قسمیں بھیمۃ الانعام میں شامل ہیں ۔ ان بھیمۃ الانعام میں جگالی کرنا مشترک صنف ہے۔
آیہ کریمہ ۔كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ( 54۔20) سے ثابت ہے کہ گھاس کھانے والے سب چار پائے الانعام میں شامل ہیں لیکن ( 1۔5) کے مطابق انعام میں صرف بھیمۃ الانعام حلال ہیں، گھوڑا، گدھا ، خچر چونکہ گھاس کھاتے ہیں ، اس لئے الانعام میں تو شامل ہیں مگر حلال نہیں ہیں کیونکہ (79۔40) میں فرمایا کہ :‘‘ تمہارے لئے اللہ نے الانعام پیدا کئے جن میں سے بعض سواری کے لئے ہیں او ربعض کھانے، نیز ( 8۔16) ہیں ۔ فرمایا کہ گھوڑے ، خچر اور گدھے سواری کے لئے ہیں ۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تینوں اصناف ، گھوڑے، گدھے اور خچر سواری کے لیے حلال ہیں او ر کھانے کے لیے حرام ہیں ۔
یہاں تک جو کچھ پیش خدمت عالی کیا گیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتا ہے کہ بھیڑ ، بکری، اونٹ اور گائے ،کھانا حلال ہیں اور گھوڑا ، گدھا اور خچر سواری کے لئے تو حلال ہیں مگر یہ کھانے کے لئے حرام ہیں ۔ بس قرآن کی رُو سے چو پایوں کا تمیزی نشانی جگالی ہے، جو بھیڑ ، بکری، گائے اور اونٹ میں مشترک طور پر پائی جاتی ہے اور گھوڑے ، گدھے ، خچر میں مشترک طور پر جگالی نہیں پائی جاتی ۔ حلال جانوروں کا یہ امتیاز ی نشان، یعنی جگالی ایک ایسا نشان ہے کہ آپ اس کا اطلاق ساری دنیا کے جانوروں پر کرسکتے ہیں ، یہ اصول کبھی نہیں ٹوٹ سکتا ۔
حلال جانور وں کا دوسرا نشان یہ ہے کہ ان جانوروں کے اوپر کے آگے کے دو دانت نہیں ہوتے ۔ حلال جانور وں کی ایک امتیازی نشانی یہ بھی ہے کہ حلال جانوروں کے دو معدے ہوتے ہیں اور حرام جانوروں کا صرف ایک معدہ ہوتا ہے ۔
اسی طرح پرندوں کی پہچان بھی یہی ہے کہ جن پرندوں کے دو پوٹے ہوتے ہیں وہ سب حلال ہیں اور جن کے ایک پوٹا ہوتاہے وہ حرام ہیں پرندوں کا حلق والا پوٹہ لٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ جب پرندہ دانے چگنے لگتا ہے تو اس کے حلق کے ساتھ کا بیرونی پوٹہ تھیلی کی طرح لٹک جاتا ہے ۔
جہاں تک آبی جانوروں کی حِلّت و حرمت کا مسئلہ ہے اس لئے قرآن نے فرمایا وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا ( 14۔16) اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے سمندر کو مُسخر کیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ ۔ قرآن کریم نے لحما طریا تازہ گوشت کی اصطلاح استعمال فرمائی ہے ۔ جس کا اطلاق ایسے آبی جانور پر ہوتا ہے جس کی رگوں میں خون موجود ہی نہیں ہوتا یعنی جس میں خون موجود نہ ہو جو ذبح کے وقت بھیڑ بکری کے گلے سے نکلتا ہے ۔ آبی جانور وں میں صرف مچھلی ہی ایسا جانور ہے جس میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا ۔ مچھلی کے گلپھڑے قدرتی طور پر پھٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس لئے مچھلی کے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اگر اس کو ذبح کیا جائے تو اس سے خون نہیں نکلتا ۔
قرآن کریم کے پیش کردہ حِلّت و حرمت کے اصول اس قدر مستحکم اور عالم گیر ہیں ، جو کسی جگہ دھوکہ نہیں دیتے اور ہر خطے کے جانور وں پر ان کا اطلاق ایک جیسے ہی ہوتا ہے ، اور یہی قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے کیونکہ حضور نے دنیا کے مختلف خطوں کا کبھی سفر نہیں کیا تھا ۔
دسمبر ، 2013 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-8-/d/87592