New Age Islam
Fri Jan 24 2025, 03:49 PM

Urdu Section ( 17 Nov 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miracles of the Quran Part- 20 اعجاز القرآن ۔ قسط بیس

 

خواجہ ازہر عباس ، فاضل درس نظامی

گزشتہ ابواب میں ہم قرآن کریم کو وحی الہٰی ثابت کرنے کے دلائل پیش کرتے چلے آرہے ہیں اس سلسلے  میں ہم نے مختلف ابواب قائم کئے ہیں ان ابواب  کا تعلق  مختلف علوم ہے اگر چہ ہم نے اپنی  استطاعت کے مطابق دلائل پیش کئے ہیں لیکن سچ یہ ہے ان ابواب کا حق وہ حضرات ادا کرسکتے ہیں جو ان متعلقہ علوم کے ماہر ہوں ۔ البتہ  ہم نے اس بارے میں پہل کردی  ہے کہ قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کے دلائل ان خطوط پر پیش کئے جاسکتے ہیں۔ اردو  میں اس مختصر رسالہ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی کا ہے جو انہوں نے ہندوؤں کے ایک فرقہ آریوں سے مناظرے کے دوران تحریر فرمایا تھا۔ یہ رسالہ تقریباً 140 سال پیشتر تحریر کیا گیا ہے۔ دوسری  کتاب جناب محترم علامہ تمنا عمادی رحمۃ اللہ علیہ  کی ہے۔ یہ دونوں کتابیں مذہبی و روایتی نظر سے تحریر کی گئی ہیں۔ اگر چہ ان  دونوں کتابوں کے مصنفین بڑے بالغ نظر عالم تھے ۔ لیکن یہ دونوں کتابیں موجودہ دور کے ذہن کو مطمئن نہیں کرتیں خاص طور پر مغربی علوم سے متاثر حضرات کے ذہن کو اس دور میں ضرورت اس بات  کی ہے کہ ایک شخص صرف ایک ہی علم میں مہارت تامہ حاصل کرے۔ وہ اس علم کے نقائض اور غلط تنائج کی نشاندہی کرے، اس کے بعد اپنا انتقاد پیش کرے ۔ اور آخر میں قرآن کریم کا محاکمہ تفصیل سے بیان کرے ۔ اس مفکر کو یہ بات بتانی چاہئے کہ اس کے متعلقہ علم میں ذہن انسانی  اس مقام تک پہنچ چکا ہے اور قرآن کریم  اس کو یہاں تک لانا چاہتا ہے ۔ جب مختلف علوم کے ماہرین اس طریقہ سے قرآن کی حقانیت ثابت کریں گے تو پھر قرآن کو وحی الہٰی نہ ماننے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہے گا۔ دوسری ضروری بات یہ ہے کہ قرآن خالصتاً دین کی حیثیت  سے پیش کیا  جائے ۔ قرآن کا دعویٰ کہ قرآن کی کسی آیت کامثل نہیں بنایا جاسکتا ، اس کی عملی صورت  یہی ہے کہ قرآن کو  اپنا Constitution  قرار دیا جائے اور پھر ثابت کیا جائے کہ قرآن کے جس قدرArticles,  ہیں ، ان Articlese  میں سے کسی ایک کا مثل نہیں بنایا جاسکتا قرآن  کریم کو عملی صورت میں پیش کیا جائے کہ ا س کے پیش کردہ نظام سے بہتر  او رکوئی نظام نہیں ہوسکتا ۔

انسانیت موجودہ سیاسی، معاشی ، معاشرتی ، قانونی ، ایک ایک مسئلہ اور ایک ایک پرابلم کی نشاندہی کی جائے اور جو مختلف علوم  کے مفکرین او رماہرین قرآن کریم  کی رو سے ان مسائل کا حل پیش کریں خاص طور پر وہ شخص جو اس دور کی مختلف اقوام کے فقہ پر تنقید ی نگاہ ڈال کر قرآن کے اصول  فقہ کی  حقانیت  ثابت کرے گا وہ اس دور کا بڑا محسن انسانیت  ہوگا۔ مثلاً قرآن کریم نے فرمایا : وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (2:179) اے صاحبان عقل، قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم یہ ثابت  کریں کہ جرائم کی روک تھام صرف بدنی سزاؤں سے ہوسکتی ہے ہمارا یہ مشاہدہ ہے کہ موجودہ  دور میں ہمارے اکثر سیاسی  لیڈر لیٹرے اور بد دیانت ہیں۔ اور متواتر اربوں روپے لوٹ رہے ہیں ۔ لیکن قید کی سزا بالکل کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ قید کی سزا بھگتنے کے بعد بھی وہ جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں ۔ جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان لٹیروں کی جیل خانہ میں سب  سہولیات فراہم کی جاتی ہیں،  اگر ان ہی سیاسی لٹیروں  کو بدنی سزا ملتی تو ان کے ہوش ٹھکانے آجاتے۔ پھر قرآن نے فرمایا کہ سزا دینے    میں نرمی نہ کی جائے ارشاد باری تعالیٰ ہے  وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (24:2) اور نہ آئے تم کو ان پر ترس ، اللہ کے حکم چلانے میں، اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر،  قرآن کریم کے دس پروڈلس ( اصل فقہ) کےمتعلق  سینکڑوں نکات ہیں جن کو عقلی طورپر ثابت کرنا ہمارا فرض ہے پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرستش کے نظریہ سے بالکل  اجتناب کیا جائے دین میں پرستش کا کوئی دخل نہیں ہوتا مذہب میں پرستش اللہ کی ہوتی ہے اور اطاعت انسانوں کے وضع کردہ نظام کی ، دین  میں نظام خداوندی  کی اطاعت  ہوتی ہے  اس میں پرستش کسی کی نہیں  ہوتی وہ تمام  آیات  جن کو بالکل غلط طور پر مذہبی  نقطہ نظر سے سمجھا یا گیا ہے اور جن کو قیامت  سےمنسلک کیا گیا ہے ان کا صحیح اور درست دینی مفہوم  بیان کیا جائے تو بیشک قرآن کی حقانیت خوب واضح ہوگی۔

ہم اس کی مثال میں صرف دو تین آیتیں پیش کریں گے تاکہ ہمارا مدّعا  واضح ہوجائے ۔ قرآن کریم میں  ارشاد ہوتا ہے ۔وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ( 2:143)یہ آیت اپنا مفہوم خود بیان کررہی ہے۔ اس کے سمجھنے  میں کسی شان نزول روایت کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس آیت  کا مفہوم ہے ( اے جماعت مؤمنین قرآن کا مقصد یہ ہے کہ تمہیں ایک ایسی قوم بنا دیا جائے کہ تمام دنیا میں بین الاقوامی پوزیشن حاصل ہو، جس سے دنیا کی ہر قوم یکساں فاصلے پر ہو، وہ نہ کسی کی طرف جھکی ہوئی ہو ، نہ کسی سے کھینچی  ہوئی، اور اس کا فریضہ زندگی یہ ہو کہ  وہ تمام اقوام کی محاسب و نگران  ہو، اور ان کے اپنے اعمال کا نگران  ان کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو، جسے اس نظام میں مرکزی  حیثیت حاصل ہے۔

آیت کا مفہوم آپ نے ملاحظہ فرمایا، یہ مفہوم کتنا واضح  اور مبنی  بر عقل Rationel  ۔ ہے آپ اس کا مذہبی و روایتی  مفہوم ملاحظہ فرمائیں، جو تھوڑے بہت ردو بدل کے ساتھ تمام تفاسیر میں تحریر ہے۔ لیکن یہ مفہوم غلط ہے،افسوس یہ ہے کہ تمام علماء نے یہی لکھا ہے : جیسا کے احادیث میں وارد ہے کہ جب پہلی  امتوں کے کافر اپنے پیغمبروں کے دعویٰ کی تکذیب کریں گے اور کہیں گے کہ ہم کو تو کسی نےبھی  دنیا میں ہدایت نہیں کی اس وقت آپ کی امت انبیاء کے دعویٰ کی صداقت پر گواہی دیں گے اور رسول اللہ  جو اپنے امتیوں کے حالات سے پورے واقف ہیں ان کی صداقت  و عدالت پر گواہ ہوں کے اس وقت وہ امتیں کہیں گی  کہ انہوں نے تو ہمارا زمانہ پایا نہیں نہ ہم کو دیکھا پھرگواہی کیسے مقبول ہوسکتی ہے۔ اس وقت آپ کی امت جواب دے گی کہ ہم کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بتانے سے اس امر کا علم یقینی  ہوا۔ اس کی وجہ سے ہم گواہی  دیتے ہیں  ( حواشی عثمانی) آپ ملاحظہ فرمائیں  جو آیت دین  کے قیام پر حجت  قاطعہ  رکھتی ہے اس کو مذہبی  نقطۂ نگاہ سے بیان کر کے ناقابل فہم بنا دیا ۔

اسی طرح قرآن میں ارشاد ہوتا ہے ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا (17:79) ( ترجمہ) او رکچھ رات قرآن کے ساتھ جاگتا رہ یہ اضافہ صرف تمہارے لئے ہے۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں مقام محمود پر فائز کردے اس آیت کا بالکل واضح مفہوم یہ ہے ( قیام نظام خداوندی کے لئے ) اگر حالات کا تقاضہ اس سے بھی زیادہ کوشش کا ہو، تو تم رات کے کچھ حصہ اس مقصد کے لئے جاگتے رہو اور معاملات پر مزید غور کرو اور ( کوشش میں ) یہ اضافہ خصوصیت کے تمہارے لئے ہے ( کاس لئے کہ قائد کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے) اگر تم نے اس نظام کے لئے اس طرح کوشش کی تو وہ وقت دور نہیں کہ تم اس مقام پر فائز ہوجاؤ کہ دنیا بلا ساختہ پکار اٹھے کہ نظام کی طرف دعوت دینے  والے کا مقام فی الواقعہ ایسا ہی مقام محمود و ستائش ہونا چاہئے ۔ اب آپ اس کا مولویانہ مفہوم   ملاحظہ فرمائیں ۔ ارشاد ہوتا ہے : مقام محمود ، شفاعت عظمیٰ کا مقام ہے۔ جب کوئی پیغمبر نہ بول سکے گا تب آنحضرت اللہ تعالیٰ سے عرض کرکے خلقت کو تکلیف سے بچائیں اور چھڑائیں گے اس وقت ہر شخص کی زبان پر آپ کی حمد ( تعریف) ہوگی اور حق تعالیٰ  بھی آپ کی تعریف کرے گا گویا شان محمدیت  کا پورا پورا ظہور  اس وقت ہوگا۔ ( تنبیہ) مقام محمود کی  یہ بات صحیح حدیثوں میں آئی ہے، اور بخاری مسلم اور دیگر کتب حدیث میں شفاعت کبریٰ کا مستقل بیان موجود ہے شارحین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دس قسم کی شفاعتیں ثابت کی ہیں فتح الباری میں ملاحظہ کیا جائے ۔ ( حواشی عثمانی  کا اقتباس  ختم ہوا)

دین کے قیام میں رسول اللہ او رمؤمنین جو کوشش کاوشیں کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی نسبت اپنی طرف کرتاہے چنانچہ جنگ بدر کے بارے میں ارشاد ہوا، فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ (8:17) ان مخالفین کو میدان جنگ میں تم نے از خود قتل نہیں کیا بلکہ درحقیقت اللہ نے قتل کیا اور جو تیر اندازی تم نے کی وہ بھی تم نے  از خود نہیں کی بلکہ اللہ ہی نے کی ۔ اس جنگ  میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے جان کی پروا کئے بغیر نہایت بہادری اور جوانمردی سے کام لیا اور بالآخر فتح حاصل کر ہی لی۔ لیکن مفسرین  اس کے بارے میں فرماتے ہیں : جب جنگ میں شدت ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکر یاں  لشکر کفار کی طرف پھینکی اور تین مرتبہ : شاھتَ الوجوہْ: فرمایا ۔ خدا کی قدت کہ کنکریوں کے ریزے ہر کافر کے آنکھ میں پڑے وہ سب آنکھ ملنے لگے۔ اس طرف سے مسلمانوں نے فواً دھاوا بول دیا۔ آخر بہت سے کفار  کو شکست ہوئی ۔ اسی کو فرماتے ہیں گو کنکریاں بظاہر آپ نے پھینکی تھیں لیکن کسی بشر کا فعل عادۃً ایسا نہیں ہوسکتا کہ مٹھی بھر کنکریاں ہر سپاہی کی آنکھ  پر پڑکر ایک بڑے لشکر کی ہزیمت کا سبب بن  جائے ۔ یہ صرف خدائی ہاتھ تھا جس نے مٹھی  بھر کنکریوں  سے فوجوں کے منہ پھیر دئے ۔ قرآن فہمی کے لئے اس قسم کی تفاسیر سے ہمیشہ اجتناب کرناچاہئے ۔ اس قسم کی تفاسیر قاری کو قرآن کے قریب نہیں بلکہ اور دور کردیتی ہیں۔

اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم اب آپ کے سامنے وہ چند آیات پیش کرتے ہیں جن سے قرآن  کریم کا وحی الٰہی  ہونا ثابت ہوتاہے اس وقت کی فکر انسانی ایسی آیات پیش نہیں کرسکتی ۔

قرآن کریم نے موت اور نیند کو Define بھی کیاہے اور دونوں میں باہمی  فرق بھی بیان کیا ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم میں دو مرتبہ ( ایک مرتبہ سورۃ انعام اور دوسری مرتبہ سورۃ الزمر میں ) بیان کیا گیا ہے ۔ ہم دونوں آیات تحریر کرتے ہیں تاکہ بات سمجھنے  میں سہولت ہو۔ سورۃ الاانعام میں ارشاد ہے۔:

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُم بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُم بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُّسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (6:60) ترجمہ : وہی وہ ذات ہے جو تمہاری روح کو رات کے وقت لے لیتا ہے اور جو تم نے دن میں کسب کیا ہے وہ اس سے باخبر ہے۔ پھر وہ دن میں تمہیں نیند سے اٹھانا ہے ( اور یہ کیفیت ہمیشہ جاری رہتی  ہے) یہاں  تک کہ معینہ  گھڑی  آپہنچے ۔ اس کے بعد تمہاری  باز گشت  اس کی طرف ہوگی اور جو تم عمل کرتے ہو وہ اس کی  تمہیں خبر دے گا۔

 سورۃ الزمر میں ارشاد  ہوتا ہے  اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى (39:42) خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں اپنی  طرف کھینچتا ہے اور جو لوگ نہیں مرے( ان کی روحیں) ان کی نیند میں کھینچ لی جاتی ہیں ۔ پس جن کے بارے میں خدا موت کا حکم دے چکا ہے ان کی روحوں کو روک رکھتا ہے اور باقی ( سونے والوں کی روحوں) کو پھر ایک مقرر وقت تک کے واسطے بھیج دیتا ہے۔

پہلے تو آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کہ یہ آیت دو مختلف  سورتوں میں آئی ہے ہمارے ہاں آیات  کے نزول کا وقت تاریخ و روایات  سے مقرر کیا گیا ہے کہ کون سی سورۃ مکہ میں نازل ہوئی اور کون سی مدنی ہے لیکن آیات کے نزول کے اوقات ظنی  ہیں۔اس وقت یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ کون سی آیت کب اور کہاں  نازل ہوئی ۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان دونوں آیات کے نزول کے درمیان  کتنا عرصہ تھا ۔بہر حال یہ دونوں آیات دو الگ الگ اوقات میں نازل ہوئیں ۔ لیکن دونوں آیات کا مفہوم  ایک ہی ہے۔ رسول اللہ نےاپنے پاس کوئی ڈائری یا ریکارڈ رکھا ہوا نہیں  تھا کہ وہ آیات کےمفہوم میں تضاد نہ آنے دیں ۔ اتنی  مشکل آیات میں کوئی تضاد  نہیں ۔ یہ خود قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ اگرچہ ان آیات میں ہم حد درجہ آسانی کرکے  ان کا مفہوم تحریر کرتے ہیں ۔

ارشاد یہ ہوتا ہے کہ موت کی اور نیند کی حالت میں ہم انسانی  نفس کو روک لیتے ہیں ۔ نیند کی صورت میں تو بیدار ہونے کی  صورت میں ہم اس کے نفس کو واپس کر دیتے ہیں ۔ یہ نفس مرتا نہیں  یہ نفس معدوم نہیں ہوتا ۔ وہ زندہ رہتا ہے۔ نیند کی حالت میں اس کو وقتی  طور پر روک لیا جاتا ہے ۔ البتہ موت کی صورت میں وہ اس دنیا میں واپس  نہیں آتا  اس کو روک لیا جاتاہے ۔ چیز موت کی  حالت میں روک لی جاتی ہے ہم نہیں سمجھتے کہ وہ کیا چیز ہے۔ لیکن  نیند کی حالت ہم روزانہ دیکھتے ہیں  جس چیز کو ہم جان کہتے ہیں وہ نیند کی حالت  میں برقرار رہتی ہے انسان زندہ ہوتاہے ۔ اس کے سارے اعضاء کام کرتے ہیں ۔ وہ سانس لیتا رہتا ہے ۔ اس لئے جو چیز نیند  کی حالت میں روک لی جاتی ہے وہ اس کی جان نہیں ہوتی وہ نیند کی حالت میں برقرار رہتی ہے۔ البتہ نیند کی حالت میں جو چیز نہیں ہوتی  وہ اس کا شعور ہے۔

انسان بیدار ہوتا ہے تو وہ واپس آجاتا ہے موت کی حالت میں  وہ واپس نہیں آتا ۔ وہ چیز جس کی روسے انسانی ذات کام کرتی تھی  وہ چیز نیند کی حالت میں کام نہیں کرتی ۔ اسے روک لیا جاتا ہے ۔ نیند اور موت انسان   کی حالت ایک سی ہوتی ہے ۔ نیند کی حالت میں جسم انسانی کو زندہ رکھا جاتا ہے تاکہ شعور جب واپس آئے تو وہ اس طرح کار فرما ہوجائے جیسا کہ بیداری  کی  حالت میں ہوتا ہے ۔ جسم انسانی زندہ ہوتاہے لیکن شعور کچھ وقت کے لئے معطل ہوجاتا ہے ۔ جب انسان بیدار ہوتا ہے ، تو چونکہ جسم تو پہلے  ہی سے زندہ ہوتا ہے شعور پھر کام کرنے لگ جاتا ہے ۔

موت کی حالت میں جسم زندہ نہیں ہوتا ۔ قرآن کہتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اصل چیز تو انسان کا شعور ہے وہ کسی حالت میں نہیں مرتا وہ صرف معطل ( In active) ہوجاتا ہے ۔ قیامت کے دن پھر فعال ہوجائے گا اور اس کو جسم جیسا کوئی اور  Vehicle دیا جائے گا جس کے ذریعے شعور اپنے ارادوں کو پورا کرے گا۔

ان دونوں  آیات میں نفس کا لفظ استعمال  کیا گیا ہے لغات القرآن میں اس کی خوب وضاحت  موجود ہے آپ وہ ملاحظہ فرمائیں ۔ سورۃ الزمر  کی آیت کے تحت تحریر   ہے ( آپ بھی وہ آیت مستحضر کرلیں)

سوال یہ ہے کہ اس آیت میں ( نفس) سے کیا مطلب ہے جسے موت اور نیند دونوں حالتوں میں موقوف کیا جاتا ہے اور جب انسان جاگ اٹھتاہے وہ اسے واپس کردیا جاتا ہے لیکن بصورت موت اسے واپس نہیں  کیا جاتا ۔ جہاں تک نیند کا تعلق ہے ہم جانتےہیں کہ اس میں انسان کا سب کچھ  موجود ہوتاہے ۔ بجز شعور ( Conciosness) کے ( حتیٰ کہ اس میں تحت الشعور بھی باقی  رہتا ہے) اس لئے ظاہر ہے اس آیت میں ‘ نفس ’ سے مراد اس کی  شعوری حالت ہے۔ یعنی نیند  اور موت دونوں حالتوں میں انسان کا شعور باقی نہیں رہتا ۔ سونے والا جب جاگتا ہے تو اس کا شعور  پھر سے روبہ عمل ہوجاتا ہے ۔ لیکن موت کی صورت میں شعور کا تعلق اس کے جسم کے ساتھ ختم ہوجاتا ہے ۔ موت کے بعد شعور کے روبہ عمل ہونے کو حیات  بعد الحمات  کہتے ہیں ۔ اس زندگی میں شعور ( یا نفس) کس  طور پر روبہ عمل ہونے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ ہے ہمارا مادی جسم، ہم اس وقت جسم کے توسط کے بغیر شعور کی کار فرمائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔قرآن کریم نے یہ نہیں بتایا کہ حیات بعد الحمات میں شعور کی کارفرمائی کا ذریعہ  ہوگا، نہ ہی اس کے بتانے سے کوئی فائدہ تھا ۔ اس لئے کہ جس بات کو اپنے شعور کی موجودہ سطح پر سمجھ نہیں سکتے اس کے بتانے سے حاصل کیا ہوسکتا ہے ۔ لیکن مرنے کے بعد نفس کی کارفرمائی کو قرآن کریم ایک حقیقت ثابتہ کے طور پر بیان کرتا ہے اس پر ہمارا ایمان  ہے اور یہی دین کی اصل بنیاد ہے۔

اس اقتباس کو غور سے  ملا حظہ فرمائیں اور انصاف سے فرمائیں کہ یہ آیت انسانی  ذہن بیان کرسکتا ہے۔ موت اور نیند کا فرق بیان کرنا خالص سائیکولوجی  کا کام ہے  دونوں آیات ا س قدر جامع ہیں کہ ایک لفظ ان میں کم یا زیادہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کم سے کم الفاظ میں اتنی بڑی بات بتادی ۔ یہ آیات اپنی زبان اور مضمون ، دونوں  اعتبار سے قرآن کا وحی الہٰی  ہونا ثابت کرتی ہیں ۔

یہ بات غور کرنے کی ہے کہ اگر رسول اللہ خدانخواستہ  جان بوجھ کر جھوٹا دعویٰ کررہے تھے اور صرف لیڈر اور راہ نما بننا انکا مقصد تھا تو انہیں تو بہت محتاط رہنا چاہئے تھا اور  To be on the safe side صرف دو باتیں  کہنی چاہئے  تھیں جن میں غلطی اور اعتراض کی گنجائش نہ ہو ۔ ایسے علمی مسائل بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی صرف پرستش کے سابقہ طریقوں میں کچھ رد و بدل کردیتے تو یہی کافی ہوتا ۔ نیز یہ بات بھی غور کرنے کی ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ جھوٹا تھا تو اس کا نتیجہ  یہ نکلتا  ہے کہ سابقہ سارے انبیاء کرام  حضرت نوح علیہ السلام  سے لیکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء معاذ اللہ معاذ اللہ جھوٹے تھے اور اتنے طویل عرصہ کے دوران یہ تمام حضرات انسانیت کو دھوکا دیتے رہے حالانکہ  ہمارے نزدیک یہ تمام حضرات انسانیت کے گل سر سبد تھے ۔ یہ تمام حضرات اپنےاپنے دور کی بہترین شخصیات تھیں ۔

(2) ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ ( 15:21) ترجمہ ۔ تمام چیزوں کے خزانے  ہمارے ہاں موجود ہیں لیکن انہیں ایک معین  انداز سے باہر لاتے ہیں۔

یہ اللہ کی رحمت اور اس کی شفقت کا تقاضا  تھا کہ اس نے تمام نوع انسانی کے لئے رزق کے ذرائع مہیا فرمائے ۔ اس زمین میں رزق فراہم کرنے کی بے انتہا  قوت ہے۔ تا ہم اس زمین سے فطرت کے قوانین کے مطابق ہی رزق حاصل ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ زمین روز اوّل ہی اپنے  خزانے باہر بکھیر دیتی تو ہمارے دور کی نسلیں رزق سے محروم رہتیں ۔ یہ بھی ممکن  تھا کہ طاقتور لوگ سارا رزق  خود نکال کر دوسروں کو با لکل محروم کردیتے ۔ لیکن اللہ نےزمین سے زرق  حاصل کرنے      کے قوانین مقرر فرما ئے ۔ ان قوانین  کو قرآن  کریم نے ( بقدر معلوم) کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ان قوانین کے علم میں جس قدر اضافہ  ہوگا اسی نسبت سے ہم زمین سے زیادہ  سے زیادہ رزق حاصل کرسکیں گے ۔ سو سال پیشتر ہم زمین سے کم رزق حاصل کرسکتے تھے ۔ اب مختلف مشینوں اور Tractor  کے ذریعے ہم ان ہی قوانین کے معلوم ہونے سے زیادہ سے زیادہ رزق حاصل کرنے لگے ہیں ۔ قرآن نے اس کو : بقدر معلوم : سے تعبیر کیا ہے۔

(3) ارشاد گرامی قدر ہے۔إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ۔ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( 3:190:191) ترجمہ : بیشک زمین اور آسمان کی تخلیق میں اور رات و دن کے آنے جانے میں صاحبان عقل  کے لئے روشن نشانیاں ہیں ۔ وہ لوگ خدا کو اٹھتے بیٹھتے اور اس وقت جب وہ پہلو کےبل لیٹےہوں یا د کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی پیدائش کے اسرار پر غور کرتے ہیں او رکہتے ہیں اے خدا تو نےہمیں فضول پیدا نہیں کیا ۔ تو پاک ہے ہمیں آگ سے بچاء ۔ مؤمنین کا فریضہ  یہ ہے کہ  فطرت کے قوانین پر غور کریں اور ایک ایک چیز کے لئے ثابت  کریں کہ اس کی تخلیق  بیکار نہیں  ہے۔ نزول قرآن کے وقت ساری دنیا کا یہ عقیدہ  تھا کہ کائنات کا اپنا کوئی  وجود نہیں ہے۔ یہ خارج میں موجود ہی نہیں ہے۔ ہمارا فارسی کا سارا لٹریچر اس نظریہ سےبھرا پڑا ہے۔ غالب نے کہا :

کھائیوں مت فریب ہستی

ہر چند کہیں کہ  ہے نہیں ہے

ہستی  کے فریب مت آجائیو اسد

عالم تمام حلقہ دام خیال ہے

لیکن قرآن کریم نے ساری دنیا کے علی الرغم کہا کہ کائنات فی الواقع خارج میں موجود ہے۔ اس کی ایک ایک چیز حق ہے۔ اس کی کوئی ایک چیز بھی باطل  نہیں ہے۔ آپ دنیا کی ایک ایک چیز کےلئے ثابت کرتے جائیے کہ بیکار تخلیق  نہیں کی گئی ہے بلکہ وہ فائدہ مند ہے،  اس طرح قرآن کا وحی الہٰی  ثابت ہوتا چلاجائے گا۔

(4) وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ ( 42:29) ترجمہ: اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان اور زمین کی خلقت اور ان کے اندر چلنے والی مخلوق بھی ہے کہ جسے اس نے پھیلا یا ، اور جب بھی چاہے انہیں اکٹھا کرنے پر قادر ہے۔ آج سائنسدان سالوں سے اس کوشش  میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ ان کرّوں کے احوال معلوم کرلیں ۔ بہت محنت شاقہ اور رقم صرف کرنے کے بعد اب وہ چاند تک پہنچے ہیں اور وہاں انہوں نے دیکھ لیا کہ چاند میں زندگی کی استطاعت نہیں ہے۔ لیکن ان سائنسدانوں کی تحقیق کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کرّوں میں زندگی  کا امکان ہے ۔ وہ  رفتہ رفتہ نئے کرّے بھی تلاش کررہے ہیں ۔ کہ جن کے اندر ان کو زندگی ملے ۔ قرآن کریم نے اس دور  میں کرّوں کے اندر زندگی کا پتہ دیا ہے ۔ اگرچہ اتنی بات بتانا بھی بہت بڑی چیز ہے کہ ان کروں میں زندگی ہے۔ان  میں دابے ہیں۔ اس  پر مزید یہ ارشاد  فرمایا کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کا تقاضا ہوگا وہ ان کرّوں کے درمیان رسل و رسائل اور آمد و رفت کے ذرائع پیدا کردے گا یہ صرف اس کی اپنی مشیت پر منحصر ہے۔ نزول قرآن کے وقت یہ باتیں بیان کرنا وحی  الہٰی کاہی کام ہوسکتا ہے اس وقت کی عقل انسانی  ان چیزوں کی نشاندہی نہیں کرسکتی تھی ۔

(5) سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ( 41:53) ترجمہ: ہم جلد ہی انہیں کائنات کی اطراف اور ان کے اپنے نفوس میں اپنی نشانیاں دکھادیں گے تاکہ واضح ہوجائے کہ وہ حق ہے۔ اس قسم کا پرزور دعویٰ کرناخود قرآن کو وحی ثابت کرتاہے ورنہ جس شخص کو آئندہ واقعات کا علم نہ ہو وہ اس قدر بڑا کا دعویٰ کرسکتا ہے ۔ اب یہ بات واضح ہے کہ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور کو چودہ سو سال  کا عرصہ گذر گیاہے ۔ قرآن نے کتنے کتنے دعوے کئے اور کتنے  حقائق  بیان کئے ۔ اگر وہ سب درست ثابت ہورہے ہیں تو یقیناً قرآن حق ہے۔ ابھی اوپر عرض کیا ہے کہ قرآن نے شورۃ شوریٰ میں بیان  کیا تھا کہ کرّوں میں آبادیاں ہیں اسی طرح قرآن کی ایک ایک آیت درست ثابت ہوگئی ۔ اسی طرح قرآن نے فرمایا  أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ( 21:30) تر جمہ : اور کیا کافروں نےیہ نہیں دیکھا کہ زمین اور آسمان ایک ہی تھا ۔ پھر ہم نے ان کو پھاڑ اہے۔

 اب  big band theory  ردِ زبانِ عالم ہے او ر قرآن کریم کی ایک نشانی کی تصدیق کررہی ہے (وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ) (21:30) اور ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی عنایت فرمائی اب سب سائنسدانوں کا اس بات پر اتفاق  ہے کہ زندگی کے لئے پانی کاہو نا لازمی ہے ۔ جہاں پانی نہیں  آپ فوراً سمجھ لیں کہ یہاں زندگی کے آثار نہیں ہیں قرآن نے فرمایا  وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ ( 21:33) وہی ہے جس نے رات دن اور سورج چاند بنائے ۔ سب اپنے اپنے مدار  میں گھومتے ہیں ۔ یہ ایسی نشانی ہے جس کی آج کی سائنس نے تصدیق کی ہے۔ اس طرح قرآن میں سینکڑوں کی تعداد میں نشانیاں  ہیں جو اب درست ثابت ہورہی ہیں ۔ آفاق کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں  انفسھم  کا لفظ بھی آیا ہے ۔یعنی تمہاری نفوس میں  بھی نشانیاں دکھاتے جائیں گے۔ اس موجودہ دور کا سائیکولوجی کا سارا  علم نفوس بھی وہی نشانیاں دکھا رہا ہے جن کی پیشنگوئی  اس وقت قرآن نے کردی تھی  انفسھم : کا لفظ خالص وحی کی عطا ء ہے۔ ذہن انسانی ا س وقت نفوس کا کوئی تصور  نہیں رکھتا تھا ۔

(6) ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَىٰ وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ ۖ وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ ۔ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ ( 13:8:9) ترجمہ: اللہ ان تمام جننے سے آگاہ ہے جن کو ہر مادہ انسان اور ہر مادہ جانور حامل ہے۔ اور جسے رحم کم کرتے ہیں  اور مدت سےپہلے جتنے ہیں ۔ اور جسے زیادہ کرتے ہیں اور ان  کی ہر چیز کی مقدار معین ہے  ۔ وہ غیب و شہود سے آگاہ ہے اور بزرگ و متعال ہے۔

اس آیت میں جو : عندہ بمقدار: آیا ہے یہ بڑی اہم بات فرمائی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جن امور کےمتعلق  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ان کا علم اللہ کو ہے تو کیا اس سے یہ  مراد ہے کہ ان کا علم خدا کے علاوہ کسی او رکو نہیں ہے یا انسان بھی اس  کا علم حاصل کرسکتا ہے اس بارے میں عرض ہے کہ جن امور کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قوانین مقرر کردیئے  ہیں ان کا علم  انسان بھی  حاصل کرسکتا ہے ۔ وہ امور جو فطری قوانین کے تابع نہیں آتے ان کا علم انسان حاصل نہیں کرسکتا آیۃ کریمہ میں جو ارشاد  ہے : وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ: تو اس سے وہی امورمراد ہیں جن  کے قوانین مقرر کر دیئے گئے ہیں ۔ ہر چیز کی ایک حد اور ایک مقدار ہے۔ قرآن کریم کی مختلف آیات میں ہے کہ ہر چیز کی ایک حد ہے جس سے تجاوز نہیں کرنا ہے ۔ ارشاد  عالی ہے ۔ ( قد جعل اللہ لکلِ شئی قدرا) دوسری جگہ  ارشاد ہے۔وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (15:21) ترجمہ: ہر چیز کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں او رہم ایک مقرر مقدار کے سوا نازل نہیں کرتے زیر بحث آیت  وَكُلُّ شَيْءٍ عِندَهُ بِمِقْدَارٍ (13:8) اور تمام چیزوں کی اس کے ہاں مقدار ہے۔ یہ سب آیات اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہیں کہ اس دنیا کی کوئی چیز حساب و کتاب کےبغیر نہیں  ہے۔ یہاں تک کہ طبعی دنیا میں جن موجودات کو ہم بغیر حساب کتاب کے سمجھتے ہیں وہ سب حساب رکھتی  ہیں ۔ اور خدا  کے حکیم ہونے کا بھی یہی مفہوم ہے۔

(7) ارشاد حق ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ( 13:11) ترجمہ: خدا کسی  قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ قوم اپنی حالت خود نہیں بدلتی مولانا حالی کامشہور شعر ہے۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال خود اپنی  حالت کے بدلنے کا

یہ ایک ہی آیت اس قدر معنی خیز ہے ، کہ اگر اور بھی ساتھ نہ ہوتیں تب بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ وحی الہٰی ہے۔ اس مفہوم کی آیت قرآن میں دو دیگر مقامات پر مختصر فرق کے ساتھ آئی ہے ۔ ان میں ایک عمومی او رکلّی قانون بیان کیا گیا ہے ۔ یہ ایک حیات ساز انقلاب آفرین اور خبردار اور ہوشیار کرنے والا قانون ہے۔ یہ قانون بہت بڑا تاریخ دان  کہ جس نے بہت سی تہذیبوں کا مطالعہ کیا ہو۔ اور جس کی نگاہ قوموں کے عروج و زوال کے قوانین پر ہو، وہی بیان کرسکتا ہے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں  قوموں کے عروج و زوال پر کوئی غور ہوتا ہی نہیں تھا اس آیت سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ لاریب یہ وحی  الہٰی ہے۔

(8) ارشاد عالی ہے۔ هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ (2:187) ترجمہ: وہ ( بیویاں) تمہارے لباس  اور تم ان کے لباس ہو۔ عرب کی اس سوسائٹی کو پیش نگاہ رکھ کر آیت کےمفہوم پر غور رفرمائیں ان کے ہاں لڑکی کی پیدائش کو ہی برا سمجھا جاتا تھا عورتوں کے کسی قسم کے حقوق کا تصور بھی نہیں  ہوتا تھا  ہر شخص اپنے ماحول سے متاثر ہوتا تھا اور ا سکے آگے نہیں  سوچ سکتا تھا  اس دور میں ارشاد  ہوتا ہےکہ جس  طرح لباس اور جسم کے درمیان پردہ نہیں   ہوتا اسی طرح شوہر اور اس کے زوجہ کا تعلق محبت  ومووّت کا ہوتا ہے۔ (30:21)

(9) نزول قرآن  کے وقت مختلف اقوام اپنے اپنے ملک میں زندگی بسر کررہی تھیں ۔ میل  جول اور رسل رسائل کے ذرائع بہت محدود تھے اس لئے ساری انسانیت  کے ایک ہونے کا تصورنہیں تھا ۔ قرآن کریم نے ایک انسانیت کے تصور کو روشناس کرایا اور اکثر مقامات پر  یا ایھا الناس : سے انسانیت کو متعارف کروایا اللہ کے نزدیک ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے  او راپنی  مخلوق میں کسی قسم کی تقسیم و تفریق  گوار انہیں کرتا ۔ اس کی مشیت یہی ہے انسانوں کے اندر کوئی تقسیم نہ ہو۔ انسانیت کا یہ تصور صرف قرآن ہی دے سکتا ہے او ریہ اس کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت  ہے۔ ارشاد ہوا۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ (2:213) سب لوگ امت واحد تھے پھر اللہ نے خوشخبری سنانے  اور ڈرانے والے پیغمبر بھیجے  اور ان کے ساتھ کتاب نازل کی کہ لوگوں میں جو اختلاف ہوں وہ اس کتاب سے اس کا فیصلہ کردے ۔ چونکہ یہ اختلاف خود عقل  انسانی کے پیدا کردہ ہوتے ہیں، اس لئے عقل انسانی اس کو حل نہیں کرسکتی ۔ اس لئے وحی الہٰی نازل کی گئی کہ اس کے ذریعے عوام کے اختلافات کو دور کیا جائے ۔

(10) چو نکہ انسانی علوم ترقی کررہےہیں اس لئے قرآن کریم کی صداقت کے دلائل میں بھی اضافہ   ہوتا جارہا ہے۔ اس موجودہ دور میں سائیکولوجی کے علم نے بہت ترقی کی ہے۔اس مضمون  میں قرآن کی صداقت کے بے شمار دلائل میں مشکل یہ ہے کہ سارا مواد ایک توفنی اصطلاحوں میں ہے ۔ اور اس  کا سمجھنا ہم جیسے  lymen کے لئے مشکل ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس مضمون کا  طالب علم نہیں ہے۔ اس مضمون کے فراہم  کردہ دلائل صحیح طور پر  وہ شخص بیان کرسکتا ہے جو اس مضمون کا ماہر ہو۔ ان خامیوں کے باوجود آپ اس ایک  آیت پر غور فرمائیں کہ یہ کس طرح قرآن کو وحی ثابت کرتی ہے۔ ارشاد عالی ہے :يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَن نَّفْسِهَا (16:111) ترجمہ : جس دن ہر جی اپنے نفس سے جھگڑتا ہوا آئیگا ۔ اس آیت میں نفس کا لفظ دو مرتبہ استعمال کیا گیا ہے ۔ ان میں سے ایک جگہ مراد نفس شعور اور دوسری جگہ نفس غیر شعور ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کا کوئی او ر مطلب  ہو ہی نہیں سکتا ۔ جو حضرات Psychology کے ماہر ہیں ان کے لئے صرف یہ ایک آیت حجت قاطعہ کا درجہ رکھتی ہے یہ ہمارا قصور اور عجز ہے کہ ہم اس آیت کی گرفت نہیں کرسکتے ۔ ( جاری ہے)

اکتوبر، 2014  بشکریہ صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-20/d/100040

 

Loading..

Loading..