خواجہ ازہر عباس ، فاضل درس نظامی
ہمیں اس بات کا علم ہےکہ کسی تصنیف میں تکرار ( Repetition) کتاب کا نقص اور اس کا عیب ہوتاہے لیکن بعض موضوعات اس درجہ اہم اور نادر ہوتے ہیں کہ ان کی تکرار فائدہ مند ہوتی ہے اور بات اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتی ہے ۔ اس کتاب کاموضوع اعجاز القرآن ہے اور ہماری حد درجہ یہ کوشش ہےکہ ہم قرآن کریم کو وحی ثابت کریں ۔ اس سلسلہ میں اس کتاب کا چھٹا باب بعنوان ‘‘الاسماء الحسنی’’ پیش خدمت عالی کیا جاچکا ہے۔ اس زیر نظر باب میں جو مواد پیش کیا جارہا ہے ۔ یہ تحریک طلوع اسلام کی ایک منفرد کاوش ہے نیز یہ کہ یہ امواد دین میں ہی پیش کیا جاسکتا ہے ، مذہب کو ایسے نظریہ سے کوئی علاقہ نہیں ۔ یہ مذہب کی Jurisdic’tion سےباہر ہے۔ انسانی ذات کی بنیادی صفات وہی ہیں جو صفات ذات الہٰی کی ہیں ۔ ان صفات عالیہ کی نشو و نما کرنا انسان کا فرض ہے اور ان کی نشو و نما اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب انسان صفات الٰہی کو بطور معیار اپنے سامنے رکھے اور ان کی اطاعت کرتے ہوئے ان صفات کواپنے جلوہ گر کرے۔ جن احکامات سے صفات الہٰی کی نشو و نما ہوتی ہے اس سے ذات کے تعارف کرایا ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے ناموں کی تسبیحیں پڑھتے رہیں یا اگر اس سے تسلّی نہیں ہوتی تو ‘‘ہزارہ’’ پڑھتے رہیں او رہر وقت اس کا ورد زبان پر رکھیں بلکہ قرآن کریم کا مقصود یہ ہے کہ ہم ان صفات الہٰی کو حتی الامکان اپنے میں پیدا کریں ۔ اللہ کے علم و دانش کا پرتو اس کی قدرت اور اس کی توانائی کا اظہار اس کی وسیع رحمت کا ایک ذرہ ہم ہیں اور ہمارے معاشرے میں عملی شکل اختیار کرے ۔ دوسرے لفظوں میں اس لفظوں میں اس جیسے اوصاف ہم خود میں پیدا کریں اور ا س کے اوصاف حسنیٰ کو اپنائیں اور انہیں مشعلِ راہ بنائیں تاکہ اس علم وقدرت اور اس کی عدالت اور رحمت کے سائے میں ہم اپنے آپ کو اور اس معاشرے کو جس میں ہم زندگی بسر کررہے ہیں دو زخیوں کی صف سے نکال لیں ۔ اصل مقصد تو قرآن کا یہ ہے کہ ہر مسلمان صفات پر ایمان لائے اور یہ کوشش کرے کہ اپنے وجود میں ان کے مفاہیم اور ان کے تقاضوں کو مدغم کرے او رہر وقت صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک ان کے مطابق عمل کرے یعنی جب اللہ تعالیٰ عالم ، قادر، رحمٰن ، رحیم، غفور، قوی، غنی، رزاق، قدیر ہے تو وہ ان صفات عالیہ کو اپنے میں منعکس کرے کہ وہ اس کی Second Nature بن جائیں ۔ جو معاشرہ اس قسم کے افراد پر مشتمل ہوگا، جن کی شخصیت متوازن ہوگی۔ وہ معاشرہ خود جس قدر متوازن ہوگا یہ بالکل ظاہر ہے اور ایسے معاشرہ کے وجود سے انسانیت جس قدر امن و سکون میں رہے گی، اس کے متعلق بھی بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ( 51:56) شہری انسان اور بدوی انسان، خواہ وہ مہذب شہری ہوں یا غیر مہذب قبائل ان کی تخلیق صرف اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اللہ کی محکومیت اختیار کریں جو اسلامی نظام کی اطاعت کرنے سے ہوسکتی ہے۔ اس اطاعت نظام الہٰی سے ان کی صلاحیتوں میں نشو و نما ہوتی ہے اور اس اسلامی نظام میں از خود تزکیہ نفس اور ربوبیت ہوتی چلی جاتی ہے ( اس تفصیل ذرا آگے آتی ہے)
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا اصل مقصد بھی یہی ہے اور اس کانصب العین حیات بھی یہی ہے کہ انسان اس زمین پر اللہ کی بادشاہت کا قیام عمل میں لائے۔انسان کو تمام مخلوق کا مخدوم پیداکیا گیا ہے۔ فطرت کی تمام قوتوں کو اس کے لئے مُسخّر کردیا گیا ہے اس کا فریضہ ہے کہ کائنات کی تمام قوتوں کو مُسخّر کر کے، خود اللہ تعالیٰ کے قوانین کے تابع رہے اور اس طرح اپنی ذات میں نشو و نما پیدا کر کے قوانین الہٰی کو ساری دنیا میں جاری کردے۔ اصل میں حقیقی معنوں میں مومن وہ ہیں جو ذات و صفات الہٰی قرآنی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں چونکہ یہ جماعت اتنا بڑا فریضہ ادا کرتی ہے اس لئے اس جماعت کے نفوس مُزکّی اور متوازن شخصیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ مُزکّی سے مراد یہ ہیں کہ انہوں نے بڑی پرستش کی ہوئی ہوتی ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کی نشو و نما ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ جماعت ۔ صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ( 2:138) کے رنگ میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر وہ مسلمان جو اتباع قرآنی سے اپنے اندر اس قسم کی صفات الہٰی کو پیدا کر لیتا ہے ۔ اُسے ہی ‘‘قُرب الہٰی’’ حاصل ہوتا ہے۔ قُرب الہٰی حاصل کردہ یہی وہ جماعت ہے جو حکومت الیٰہ قائم کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوتے ہیں ان کا اللہ رازق ہے۔ ان کے ایک ایک فرد میں صفت رزّ اقیت موجود ہوگی ان کا اللہ رحیم و کریم ہے یہ سب رحم وکرم کا رویہ اختیار کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ جبار و قہار ہے۔ یہ بھی اس مملکت میں جبر اور قہر کے ذریعہ ظلم و ستم کا استحصال کرتےرہیں گے۔ اسی طرح آپ ساری صفات الہٰی کا اجراء اور ان کا نفاذ خیال فرمالیں ۔ سارے معاشرے میں ظلم و ستم نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ عزیز ہے۔ حکومت الیٰہ تمام حکومتوں پر غالب اور قوت والی ہوگی۔ مومن ہر کام کی ابتداء اس نیت سے کرتاہے کہ اس کے اعمال سے اس کے معاشرے میں رحمانیت اور رحمیت عام ہوجائے ۔ اس سلسلہ میں آپ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کامفہوم ملاحظہ فرمائیں ۔ عربی زبان میں حرف ‘‘ب’’ سبب بیان کرنے کےلئے بھی آتاہے جو بائے سییہ کہلاتا ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ (3:11) پس اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا چونکہ اللہ تعالیٰ کا تعارف صفات کے ذریعے ہوتا ہے اس لئے صفات الہٰی کو اسماء الہٰی کہتے ہیں ۔ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ( 59:24) بسم اللہ میں اسم سے مراد صفتِ الہٰی ہے اس مختصر وضاحت کے بعد، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کامفہوم یہ ہوگا کہ میں اب جو کچھ کروں گا اس کامقصد اللہ تعالیٰ کی صفات رحمانیت و رحمیت کو عملاً بروئے کار لانا ہے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم تلاوت کرنے کامقصد صفات رحمانیت و رحمیت کو عام کرنا ہے۔ جب یہ مقدس الفاظ انسان کی زبان سے اداہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب میں یہ کام اس لئے سر انجام دے رہاہوں کہ اس سے اللہ کی ان صفات کا ظہور عام ہوجائے یعنی عقل انسانی تو ایسا نظام قائم نہیں کرسکتی لیکن اگر یہ شخص کی نیت بسم اللہ پر دل سے عمل کرنے کی ہو تو اس طریقہ سے اس قسم کامعاشرہ قائم ہوسکتا ہے جس میں تمام انسانوں کو رزق اور ضروریات زندگی مہیا ہورہی ہوں اور جس میں ذات کی صلاحیتوں کی بھی نشو و نما ہورہی ہوگی قرآن کریم نےرسول اللہ کے فرائض میں يُزَكِّيهِمْ ( 2:129) کو بھی شامل کیا ہے کہ رسول مومنین کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔ رسول اللہ مومنین کا تزکیہ فرد اً فرداً نہیں کرتے تھے نہ تزکیہ حاصل کرنے کےلئے ہر شخص کو رسول اللہ کے پاس جانے کی ضرورت پیش آتی تھی بلکہ انہوں نے ایسا نظام قائم فرما دیا تھا جس میں رہنے سے ہر شخص کی صلاحیتیں از خود نشو و نما پاتی چلی جاتی تھیں اور یہی تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ اسی مضمون کو قرآن نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ( 3:79) کسی شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اللہ کتاب ، حکم اور نبوت سے سرفراز کرے اور پھر وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ میری اطاعت کرو ( بلکہ اس کے شایان شان تو یہ ہے کہ وہ یہی کہے کہ ربوبیت الہٰی کو عام کرو جیسا کہ تم اس کتاب کی درس و تدریس کرتے ہو۔ اس معاشرہ کا ہر فرد دوسرے شخص کی ربوبیت کا کفیل ہوتا ہے۔
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو حقیقی آزادی سے قرآن ہی رُوشناس کراتا ہے اور اس کے نزدیک ایک انسان کی حکومت دوسرے انسانوں پر قطعاً حرام ہے۔ صرف حکومت الہٰی میں صحیح آزادی حاصل ہوتی ہے۔ انسانی فکر نے افراد کے احکام کی اطاعت کو محکومی قرار دیا لیکن اگر وہ آپس میں مل کر قوانین بنالیں تو ان کی اطاعت کو درست قرار دیا اور ان کی اطاعت کو آزادی قرار دیا۔یا دوسری قوم کے بنائے ہوئے قوانین کی اطاعت کو غلامی قرار دیا اور اپنی ہی قوم کے لیڈر قوانین بنالیں تو ان کی اطاعت کو آزادی قرار دیا خواہ وہ لیڈر کتنے ہی لٹیرے او ربے ایمان ہوں۔ یہ ایک کھلا ہوا Eyewest ہے اور عقل انسانی کی بڑی غلطی اور ساری انسانیت ا س کی مرتکب ہے۔ اس کی تردید صرف وحی الہٰی نے ہی کی ہے۔ گذشتہ ادوار و اعصار کی ساری حکومتیں باطل تھیں اور موجودہ دور کی ساری حکومتیں باطل ہیں کیونکہ ایسی حکومتوں میں نہ صفات الہٰی کے مطابق عمل ہوسکتا ہے او رنہ ہی انسانوں کی صلاحیتیں پوری طرح جلوہ گر ہوسکتی ہیں۔
آپ نے ملاحظہ فرمایاہوگا کہ قرآنِ کریم میں مختلف آیات کے بعد مختلف صفات الہٰی آتی ہیں ۔ بادی النظر میں بظاہر اس کی کوئی اہمیت Significaint معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ ایک بڑی گہری بات ہے۔ آیات کے بعد یہ صفات ان آیات کے مفہوم کی مطابقت سے آئی ہیں ۔ اگر آپ ان صفات کی گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ جس قسم کے احوال و واقعات کا ذکر ان آیات میں آیا ہے اسے مقام پر اس صفت کا ظہور ہوناچاہئے جو ان آیات کے آخر میں آتی ہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ کخوادث پر کون سی صفت کا ظہور ہوا تھا ۔ ایسے مواقع پر اسی طرح کی صفت کا ظہور ہم سے بھی ہونا چاہئے ۔ عدل کے مقام پر عدل اور رحم کے مقام پر رحم ۔
سارے قرآن کریم میں صفاتِ الہٰی کا آیات کےمفہوم سے ربط کے ساتھ آنا یہ قرآن کے وحی الہٰی ہونے کی دلیل ہے ۔ گذشتہ تمام مفسرین نے ان نکتہ کو سمجھا ہی نہیں او رنہ اپنی تفاسیر میں ان صفات کا آیات سے ربط دکھایا ہے۔ یہ نقطہ صرف تحریک طلوع اسلام نے Detect کیا اور اپنی پوری تفسیر میں اس کا خیال رکھا ۔ ایسی آیات میں ربط دکھاتے ہوئے مضمون لکھنا مشکل کام تھا ۔ حالانکہ یہ وحی الہٰی کے ثبوت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ یہ مضمون چونکہ محنت طلب تھا اور ہماری عمر اس کے لئے مانع تھی ۔ ہم نے اس کو ‘‘الا سمائے الحسنیٰ’’ کے باب میں چھوڑ دیا تھا ۔ اب ہم نے محنت کے بعد ایسی آیات جمع کرلی ہیں وہ آپ کی خدمت عالی میں پیش ہیں ۔ آپ بھی ان کو بغور مطالعہ فرمائیں ۔ یہ موضوع بڑا دلچسپ ہے قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا بڑا زبردست ثبوت ہے۔ اس موضوع پر قرآن کے کسی طالب علم کو ضرور کام کرناچاہئے ۔ اب ہم آیات کریمات پیش کرتے ہیں ۔
(1) إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ جَنَّاتُ النَّعِيمِ ، خَالِدِينَ فِيهَا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( 31:8:9) جو لوگ ایمان لائے او رانہوں نے اچھے اعمال کئے ان کے لئے نعمت کے باغات ہیں ۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے وہ زبردست او رحکمت والا ہے۔
یہ وعدہ کوئی لفظی ذہنی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جب عملی او رٹھوس حقیقت میں سامنے آئے گا تو حق بنے گا ۔ اس کو وعدہ حق ہی اس وقت کیا جائے گا جب وہ محسوس شکل میں سامنے آئے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح ہوگا۔ اس کا جواب دیا گیا کہ یہ اس لئے واقع ہوگا کہ وہ العزیز و الحکیم ہے۔ وہ صاحب غلبہ و قوت و اقتدار ہے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کا پورا پورا اختیار رکھتا ہے اور وعدہ کو وہی شخص پورا کرسکتا ہے جو قوت رکھتا ہو لیکن یہ صورت نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی قوت کے زور پر یہ کررہا ہے بلکہ وہ حکیم بھی ہے۔ وہ اس کائنات میں جو کچھ کررہا ہے، بر بنائے حکمت کررہاہے ۔ اس آیت کے ساتھ یہ دونوں صفات نہایت درنہ موزوں ہیں ۔ اس مقام پر ان کے بہتر او رکسی صنف کا انتخاب نہیں ہوسکتاتھا اور انسانوں کے لئے ان آیات کی تعلیم یہی ہے کہ انسان اس کائنات میں ہر کام قوت و اقتدار اور حکمت سے سر انجام دے ۔
(2) ارشاد حق ہے يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ (31:16) ( ترجمہ) بیٹا اگر رائی کے دانے کے برابر ( بیک یا بد عمل) ہو اور پتھر کے دل یا آسمان اور زمین کے گوشے میں قرار پائے جائے اللہ اسے لے آئے گا اور اللہ نہایت باریک بین و آگاہ ہے۔ یعنی کوئی خصلت یا کوئی جبر اچھی یا بُری اگر رائی کے دانے کے برابر چھوٹی ہو اور فرض کرو پتھر کی چٹان کے اندر یا آسمان کی بلندی پر یا زمین کی تاریک گہرائیوں میں رکھی ہو و ہ بھی اللہ سے پوشیدہ نہیں ہوسکتی جب وقت آئے گا وہیں سے لےکر حاضر کرے گا۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ کی صفت لطیف و خبیر بیان کی گئی ہے۔ جس سے زیادہ او رکوئی صفت مناسب نہیں تھی ۔
(3) فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صَالِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْمِئِذٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ ( 11:66) ( ترجمہ) جب اس قوم کی سزا کے بارے میں ہمارا حکم آپہنچا تو صالح او راس پر ایمان لانے والوں کو ہم نے اپنی رحمت کے ذریعے اس دن کو رسوائی سے نجات دی کیونکہ تیرا پروردگار قوی اور غلبہ والا ہے۔
اس سے پیشتر کی آیات میں اس قوم پر تین دن کی مدت ختم ہونے پر نزول عذاب کی کیفیت بیان کی گئی ہے۔ اس قوم پر عذاب کے بارے میں جب حکم آپہنچا تو صالح اور ا س پر ایمان والوں کو ہم نے اپنی رحمت کے زیر اثر نجات بخشی ۔ انہیں نہ صرف جسمانی و مادی عذاب سے نجات بخشی بلکہ رسوائی اور بے آبرو ئی سےبھی انہیں حفاظت عنایت فرمائی کہ جو بے آبروئی اس سرکش قوم کو دامن گیر تھی کیونکہ تیرا پروردگار ہر چیز پر قادر اور ہر کام پر مسلط ہے اس لئے اس کے لئے محال کچھ نہیں تھا اور اس کے ارادے کے سامنے کوئی کچھ مجال نہیں رکھتا ا س لئے کہ وہ قومی و عزیز ہے۔ یہ کام چونکہ قوت و غلبہ کا متقاضی تھا ۔ اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات رؤف ، رحیم ، کریم، ودود وغیرہ استعمال نہیں کی گئیں ۔
(4) فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ، وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ( 26:158:159) (ترجمہ) عذاب الہٰی نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ اس میں ایک نشانی ہے لیکن ان میں سے اکثر مومن نہیں تھے او رتمہارا پروردگار بڑاغلبہ والا اور رحیم ہے ۔ یہ بڑی معنی خیز آیت ہے ۔ انبیا ء کرام کی مخالف قوموں کے جس قدر عذاب کے واقعات قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ا س کے بعد اللہ تعالیٰ کی یہی صفت ( عزیز ) بیان کی گئی ہے۔
جب بھی کسی قوم کی تباہی آئی اس تباہی کے بعد اللہ کی ہی صفت دہرائی گئی ہے ۔ کیونکہ عذاب کا تعلق غلبہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہی صفت اس کے غلبہ کا اظہار کرتی ہے لیکن تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ رحیم کی صفت بھی ساتھ ساتھ شامل کی گئی ہے ۔ یہ دونوں صفات ایک دوسرے کی ضد ہیں اور حالانکہ یہا ں دونوں میں سے ایک کاظہور ہونا چاہئے تھا ۔ یہاں یہ موقع تھا کہ عذاب الہٰی سے صفت عزیز ہورہی تھی لیکن اللہ کی صفت رحمیت کا اظہار بھی یہاں اس لئے ضروری تھا کہ وہ مظلوم قوم یا اس قوم کا ایک حصہ ان ظالموں کی وجہ سے مصبیتوں میں پھنسا ہوا تھا ۔ اس لئے یہ عذاب الہٰی ان کے لئے رحمت ثابت ہوا ہوگا۔ یہ عذاب قوم کے ظالموں کے لئے عذاب او رباقی انسانیت کے لئے رحمت تھا ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ایک آیت میں اپنی دونوں صفات کا حوالہ دیا ہے۔ یہ اس طرح کی آیت ہے جس سے اعجاز القرآن خود بخود ظاہر ہوتا ہے ۔ اگر صرف عذاب نازل ہوتا اور باقی اقوام کاکوئی خیال نہ رکھا جاتا تو پھر صرف صفت عزیز ہی استعمال ہوتی ۔ رحیم کی صفت یہاں بیان نہیں ہوتی ۔ ہمیں بھی عام لوگوں سے برتاؤ کرتے وقت اس بات کا خیال کرنا چاہئے کہ اگر کسی کثیر تعداد کو سزابھگتنا پڑرہی ہو تو ہمیں اس کثیر تعداد سے ان لوگوں کو نکال لینا چاہئے جو بےقصور ہوں ۔ دوسرے قصور وار لوگوں کی وجہ سے بے قصور لوگوں کو سزا نہیں دیناچاہئے ۔
(5) ارشاد عالی ہے وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ ( 6:83) ( ترجمہ) یہ ہمارے دلائل ہیں جو ہم نے ابراہیم کو اس کی قوم کے مقابلے میں دیئے تھے ۔ ہم جس شخص کے درجات کو چاہتے ہیں اوپر لے جاتے ہیں ۔ تیرا پروردگار حکیم اور علیم ہے۔
آیہ کریمہ بالکل واضح ہے۔ کسی اشارے کی ضرورت نہیں ۔ آپ یہ غور فرمائیں کہ جب حضرت ابراہیم کو دلائل دینے کی بات آئی تو حکیم و علیم کی دو صفات بیک وقت استعمال کی گئی ہیں ۔ کیونکہ جہاں بھی قرآن میں عذاب نازل کرنے کا یا کہیں القلاب لانے کا ذکر ہوتا ہے وہاں عزیز کی صفت لازماً آتی ہے لیکن اس کے برخلاف یہاں حکیم و علیم کی صفات لائی گئی ہیں جن کا غلبہ سے کوئی تعلق نہیں ہے او رمسلمانوں کو بھی یہی حکم ہے کہ دین کی تبلیغ میں قوت کااستعمال نہ کریں بلکہ دلائل و براہن کے ذریعے دوسروں کو علمی طو ر پر متاثر کریں ۔
(6) ارشاد عالی ہے إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ، وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ( 26:67:68) ( ترجمہ) بیشک اس کے اندر بہت بڑی نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں اور بے شک تیرا رب عزیز و رحیم ہے۔ آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں کہ اس جگہ پھر عزیز اور رحیم لایا گیا ہے جو بالکل متضاد صفات ہیں۔ یہ آیات سورۂ الشعراء کی ہیں ۔ ان آیات میں بہت تفصیل سے بنو اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے اور آخر میں ان کے ڈوبنے کاذکر ہے ۔ ان آیات کے مخاطب چونکہ مشرکین و کافرین مکہ تھے ۔ اس لئے ان کا اطلاق ان پر بھی ہورہا ہے اور بنو اسرائیل پر بھی ۔ تدبر قرآن میں تحریر ہے ‘‘ یہ سر گذشت کے آخر میں وہی ترجیع ترجیحہے جس کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو نشانی ہی مطلوب ہے تو اس سر گزشت کے اندر سامان عبرت موجود ہے لیکن جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ نشانیوں ہی کے مطالبے کرتے رہتے ہیں ۔ بڑی سے بڑی نشانیاں دیکھنے کے بعد بھی فرعونیوں کی طرح ان کی اکثریت کو ایمان لانے کی توفیق نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ اس قسم کے سرکشوں کو جب چاہے پکڑ سکتا ہے ( ا س اعتبار) وہ عزیز ہے لیکن وہ ان کو توبہ و اصلاح کی مہلت دیتاہے ۔ اس لئے وہ رحیم ہے۔ ( جلد 5۔ ص 519)
اب آپ ان صفات کو بنو اسرائیل کے حوالہ سے ملاحظہ فرمائیں ۔ قرآن کریم نے فرعون کو جابر و ظالم گردانا ہے اور اس کو اور اس کی جماعت کو سمندر میں ڈبو دیا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ عزیز ہے اور وہ لوگ جو حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے تھے اور وہ ڈوبنے سے بچ گئے ان کے لئے اللہ تعالیٰ رحیم ہے ۔ یہاں اس آیہ کریمہ میں لھو العزیز الرحیم دونوں کے لئے آیا ہے ۔ آپ غور فرمائیں کہ جس طرح ایک سے موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف صفات کی جلوہ گری کی ہے اور کس طرح موقع کی مناسبت سے ان کو لایا گیا ہے ۔ آپ جس قدر بھی صفات الہٰی کے ہر موقع استعمال پر غور فرمائیں گے ۔ قرآن کریم کا اعجاز اسی طرح اُبھر تا چلا جائے گا۔
(7) ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ، أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ، إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( 3:86:87:89) ( ترجمہ) اللہ ان لوگوں کی کیوں کر ہدایت کرے جو ایمان لانے رسول کی حقانیت کی گواہی دینے اور ان کے لئے واضح نشانیاں آجانے کے بعد کفر کریں ۔ اللہ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ۔ اُن کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر اللہ، ملائکہ اور سب لوگوں کی لعنت ہے وہ ہمیشہ اس لعنت میں مبتلا ء رہیں گے ان کے عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی اور انہیں مہلت نہیں دی جائے گی ۔ مگر وہ لوگ جو بعد ازاں توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں اور گذشتہ گناہوں کی تلافی کریں کیونکہ اللہ غفور ورحیم ہے۔
اس ایمان کے بعد کفر کا نتیجہ یعنی دین الہٰی کو چھوڑ کر ، مذہب اختیار کرنے کا جو نیتجہ ہوتاہے اس کا عملی ثبوت تو خود ہم مسلمانوں نے دے ہی دیا اس ایک ہی آیت سے قرآن کے وحی ہونے کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ کس طرح قرآن نے آج سے اتنے عرصہ پیشتر یہ بات کہہ دی تھی یہ پیش گوئی، اس قدر اعتماد سے وحی الہٰی ہی کر سکتی ہے ۔ چونکہ اس آیت میں ہمیں اپنی شکل دکھائی دیتی ہے اس لئے دل نہیں مانتا کہ اس آیت کو سامنے لایا جائے اور اس پر گفتگو کی جائے ۔ اس آیہ کریمہ میں اللہ کی لعنت سے مراد اسلامی نظام کی سعادتوں اور ثمرات سے محرومی ہے۔ دین چھوڑ کر مذہب اختیار کرنے کے بعد قوم اسلامی نظام کی سعادتوں سے محروم ہوگئی ہے۔ دین چھوڑ کر مذہب پرست قوم پر ستش کو اپنا ہدف بنا لیتی ہے اور دنیا سے تنفر کر نے لگ جاتی ہے اس لئے وہ فطرت کی قوتوں کو مسخر نہیں کرتی اور ان کی تسخیر سے جو فوائد ملتے ہیں ان سے محروم ہوجاتی ہے ۔ یہ ملائکہ کی لعنت ہے۔ اس کے علاوہ ایک تعلیم یافتہ مہذب معاشرہ میں لوگ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ مذہبی معاشرہ چونکہ تو ہم پرست اور بے استعداد لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے اس لئے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاسکتے۔ اس کی واضح مثال شہر ی اور دیہاتی زندگی ہے۔ شہر میں لوگ دوسروں سے سینکڑوں باتیں سیکھتے ہیں ۔ گاؤں کے لوگ اس سے محروم ہوتے ہیں ۔ او ریہ لوگوں کی لعنت ہے۔ دین چھوڑ کر مذہب اختیار کرنے میں بے شمار نقصانات ہیں۔ قرآن نے یہاں صرف تین گنوائے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پھر اس قوم کو موقع دیتا ہے اور یہ صرف اس کے غفور اور رحیم ہونے کی بناء پر ہے کیونکہ دین قائم کر لینے کے بعد وہ پھر تباہی سے محفوظ ہوجائیں گے ۔ او رانہیں سامان نشو و نما ملنے لگے گا۔ اس لئے ان دونوں صفات کا اس موقع سے باہمی اور گہرا تعلق ہے۔
(8) ارشاد ہوتا ہے وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ( 6:17:18) انسان کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ قوانین الہٰی کے مطابق پہنچتا ہے اور اس کا ازالہ بھی قوانین الہٰی کے مطابق ہوتاہے یعنی اس کے اتباع سے ہی ہوسکتا ہے ۔ اس کا قانون ہر شخص کو گھیرے ہوئے ہے اس کو تکلیف پہنچنا، اس کا ازالہ ہونا اس کے ایسے قانون کے مطابق ہوتاہے جو قانون حکمت پر مبنی ہے اور وہ قانون ہر شے کو اپنے احاطہ میں کئے ہوئے ہے کسی شے سے ناواقف نہیں ہے ۔ دونوں صفات ، اللہ تعالیٰ کے قانون کی عظمت ظاہر کرنے کے لئے آئی ہیں ، جس کی یہاں ضرورت تھی ۔
( 9) ارشاد عالی ہے فَلِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( 45:36:37) ( ترجمہ) پس سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے آسمانوں او رزمین کا مالک (غَرض) سارے جہاں کامالک ہے اور سارے آسمانوں و زمین پر اسی کی حکمت ہے۔ وہی سب پر غالب ہے اور حکمت والا ہے۔ اس آیہ کریمہ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی حکومت اور غلبہ کاذکر آیا ہے اسی لئے اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کی صفت عزیز لائی گئی ہے چونکہ اس کے قوانین مبنی بر حکمت ہوتے ہیں اس لئے حکیم کی صفت بھی ساتھ ہی بیان فرما دی گئی ہے ۔ اس کی حکومت نہ دھونس دھاندلی پر منحصر ہے اور نہ لاقانونیت پر۔ اس کی حکومت صرف حکمت اور Rationlality پر قائم ہے۔
(10) فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ( 14:47) ( ترجمہ) یہ گمان نہ کرنا کہ اللہ ان وعدوں کی خلاف ورزی کرے گا کہ جو اس نے اپنے رسولوں سے کئے ہیں کیونکہ وہ غالب او ربدلہ لینے والا ہے۔
ہمارے ہاں لفظ انتقام بُرے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اس میں تفرت اور عداوت کے جذبات مخفی ہوتے ہیں جو قابل تعریف خصائص نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے جذبات مخفی ہوتے ۔ جب کوئی شخص اس کو نقصان ہی نہیں پہنچا سکتا تو وہ بدلہ کس بات کالے گا ۔ قرآن کریم نے جب اس لفظ کو اللہ کی طرف منسوب کر کے استعمال کیا تو اس سے اللہ کا مکافاتِ عمل مقصود ہوتا ہے ۔ اس آیت میں عزیز کا جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ خود اس بات کی وضاحت کرتا ہے۔ فلہٰذا انتقام الہٰی سے مراد اس کے قانون مکافات کی رُوسے ، غلط اعمال کا تباہ کن نیتحہ ہے ۔ اس آیہ کریمہ میں عزیز و ذوانتقام کی صفات عالیہ لانے سے یہ بتانا پیش نظر ہے کہ صفات الہٰی کو اپنے اندر منعکس کرنے والے بند گان اللہ کا انتقام بھی نظام انسانیت کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے۔ اس میں ذاتی جذبات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا کیونکہ قوانین الہٰی کو نافذ کرنے والے یہ بندگانِ اللہ، و حدودِ الہٰی کے اندر اندر انتقام الہٰی کا ہی نفاذ کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنا کوئی ذاتی انتقام نہیں لیں گے ۔ بُرائی کو روکنے کی قوت و طاقت ایک نشو و نما یا فتہ ذات کی بنیادی خصوصیت ہے۔ یہی اس کا انتقام ہے۔ آپ غور فرمائیں کہ ان بندگان اللہ نے کس طرح قریش اور مشرکین سے ‘‘ انتقام’’ لیا تھا اس سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے۔
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ( 14:48) ۔ ( اے رسول ان سے کہہ دو کہ میری دعوت ایسا انقلاب لائے گی کہ) یہ زمین دوسری زمین بن جائے گی ۔ آسمان دوسرا آسمان ہوجائے گا۔ یہ زمین و آسمان بدل جائیں گے۔ موجودہ معاشرہ کی جگہ ایک نیا معاشرہ میں آجائے گا او ر تمام لوگ اللہ کے سامنے آجائیں گے جس کے قانون کے سامنے اور کسی کا قانون نہیں چل سکتا۔ اور جو بڑی قوتوں اور غلبہ کا مالک ہے اس سے مراد وہ انقلاب ہے جو حضور کے ہاتھوں برپاہوا تھا اور جس نے سب کچھ تہ و بالا کرکے رکھ دیا تھا اسی لئے اس کی صفات الواھد القھار آیت کے آخر میں استعمال کی گئی ہے۔
(11) ارشاد ہوتا ہے كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ، لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ( 42:3:4) ( اے رسول ) خداوند عزیز و حکیم تیری طرف اور جو پیغمبر تجھ سے پہلے ہو گزرے ہیں اسی طرح وحی کرتا ہے ۔ جو کچھ آسمانوں میں ہے وہ بھی اور جو کچھ زمین میں ہے وہ بھی سب اللہ کے لئے ہے اور وہ بلند مرتبہ اور صاحب عظمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کیف ذات کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے ۔ ہم تو صرف اس کی صفات کے متعلق جان سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات قرآنی نظام کے اجزاء ہوتےہیں یہ اُس کے عمود ہوتے ہیں ۔ اس آیت میں عزیز و حکیم دونوں صفات استعمال کی گئی ہیں ۔ جو بھی اسلامی مملکت ہوگی وہ یقیناً دوسروں پر غالب ہوگی اور اس کے تمام قوانین مبنی برحکمت ہوں گے۔ خواہ یہ مملکت رسول اللہ کے دور میں تھی یا ان سے پیشتر تھی یا ان کے بعد واقع ہوگی ۔ شرف یہ ہے کہ وحی الہٰی اس کی اساس ہو۔ عزیز اور حکیم یہ ہر اسلامی مملکت کے دو عمود ہو ں گے ۔ پھر دوسری صفاتِ الہٰی دُہرائی گئیں کہ وہ العلی اور العظیم بھی ہوگی۔ یہ اسلامی مملکت کے اجزاء ہیں اس لئے یہ مملکت عظمت او ربلندی کی حامل ہوگی۔ اگر اسلامی نظام کو پرکھنا اور جانچنا ہو کہ وہ واقعی اسلامی نظام ہے یا نہیں تو اس میں ان صفات کو دیکھنا ہوگا ۔ قرار داد مقاصد پاس کر کے کوئی مملکت اسلامی نہیں بن سکتی ۔ مملکت اسلامی ، ایمان او راعمال صالح کے ذریعہ قائم ہوتی ہے ( 24:55) اگر آپ ایک سو مرتبہ بھی قرار داد مقاصد پاس کرلیں تو بھی وہ مملکت اسلامی نہیں بن سکتی ۔ ان صفات الہٰی کے مطابق آپ اپنے حالات کے تقاضوں کے پیش نظر Article بناتے جائیے۔ قرآن کریم میں قوانین Article Wise نہیں آئے ہیں ۔
( 12) ارشاد ہوتا ہے اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ ( 42:19) ( ترجمہ) اللہ اپنے بندوں کے لئے صاف لطف و کرم ہے ۔ جسے چاہتاہے رزق عطا کر تاہے اور وہ طاقتوں اور ناقابل تسخیر ہے۔
اللہ کا قانون ربوبیت ہمہ گیر اور غیر جانبدار ہوتا ہے وہ مومن او رکافر میں کوئی امتیاز نہیں کرتا ۔ بعض لوگوں کے دل میں یہ بات آتی ہے کہ جوقومیں اللہ تعالیٰ کی مخالفت کرتی ہیں اور اس کی نافرمان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کا رزق تنگ کرکے ان کو زوال پذیر کیوں نہیں کرتا لیکن وہ فرماتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ لطیف ہے یعنی وہ اس معاملہ میں سنگدل نہیں ہے بہت رقیق القلب ہے اور اس کا قانون بڑا باریک بین ہے اور وہ قومی و عزیز ہے جو ذاتِ مبارک قوی اور عزیز ہوگی وہ ہی اپنی مرضی کے مطابق رزق تقسیم کرسکتی ہے۔ جو ذات کمزور ہوگی وہ اپنی مرضی کے مطابق رزق تقسیم کرسکتی ہے۔
ہم نے وہ آیات جن کے بعد کوئی ایک صفت یا صفات لائی گئی ہیں اور جن کا ربط آیت سے ہوتا ہے ۔ ان میں سے چند تحریر کی ہیں جن سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ سارے قرآن میں اس طرح بارابطہ صفات تحریر کرنا عقل انسانی کا کام نہیں ہوسکتا ۔صفاتِ الہٰی کا تنوع خود قرآن کو وحی ثابت کرتا ہے ۔ عقل انسانی اتنی صفات سوچ ہی نہیں سکتی ۔ ہم اپنے موقف کو مزید موکدہ موئق کرنے کے لئے اسماء حُسنیٰ کی مزید وضاحت اور ان کی اہمیت بیان کرتے ہیں ۔ یہ بہت ہی اہم اور غور طلب موضوع ہے او رہم نے بھی بہت محنت کر کے اس کو تحریر کیا ہے ۔ قارئین کرام سے گذارش ہے کہ وہ بھی اس کو غور و توجہ سے مطالعہ فرمائیں ۔
اللہ تعالیٰ کی ہر صفت ہمارے دل سے ایک خاص مطالبہ کرتی ہے ۔ اگر ہم یہ تمام مطالبے ٹھیک ٹھیک پورے کردیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق ٹھیک طو رپر قائم کرلیا ہے ۔ قرآن میں بیشتر مقامات پر احکامات اور ہدایات دینے کے بعد،اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کا جو حوالہ آتا ہے وہ اصل میں اس بات کو واضح کرنے کے لئے آتا ہے کہ یہ مطالبہ یا یہ حکم اللہ کی فلاں صفت کاتقاضہ ہے۔ قرآنِ کریم کی آیات کے ساتھ صفات کا حوالہ آتا ہے ۔ کہیں ایک حکم ہوگا اور اس کے ساتھ آئے گا کہ اللہ علیم و حکیم ہے ۔ کہیں دوسرا حکم ہوگا اور اس کے ساتھ ہوگا کہ اللہ علیم و خبیر ہے۔ کبھی کسی چیز سے منع کیا گیا ہوگا تو یہ ہوگا کہ اللہ قوی و عزیز ہے۔ان صفات کو لانے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تمام دین اور قرآن کی ساری تعلیم در حقیقت اللہ کی صفات کا مظاہرہ ہیں ۔ نیز یہ بات بھی پیش نظر ہے کہ اللہ کے احکام پر عمل کرنے کا حقیقی مزہ بھی صرف اس شخص کو آتا ہے جو قرآن کے احکام کے اندر الہٰی صفات کو دیکھ رہا ہو ۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی صفات کے اس مشاہدے کو نہیں دیکھتے ، ان کو اطاعت صرف میکانکی اطاعت ہوتی ہے ۔ اللہ کے ہر حکم کے اندر اللہ کی ایک صفت کاعکس ہوتا ہے اس حکم پر عمل کرتے وقت اس صفت کو پیش نظر رکھنانہایت ضروری ہوتاہے۔ قرآن میں حکم ہوتا ہے اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ (5:8)
عدل کرو کہ یہ تقویٰ کے قریب ہے ۔ جب آپ کسی کے ساتھ عدل کررہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل کو سامنے رکھیں اور اس بات پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ عادل ہے اور ہر شخص کو ہمیشہ عدل کرنا چاہئے اور نا انصافی سے اجتناب کرناچاہئے ۔ اللہ تعالیٰ رب ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ ربوبیت کو خوب عام کرے ( 3:79)اللہ رازق ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ ہر شخص دوسروں کو رزق مہیاکرے ۔ اللہ تعالیٰ سلام ہے تو ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے لئے سلامتی مہیا کرے ۔ اللہ تعالیٰ عزیز ہے تو ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ قوت کا مالک ہو۔ یہ صفات الہٰی جس طرح ہر مومن میں موجود ہونی چاہئیں اگر اسلامی نظام اور اسلامی نظام کے باشندے دونوں اپنے آپ میں یہ صفات پیدا کرلیں گے تو اس مملکت کے باشندوں کی ذات از خود محکم اور مستحکم ہوتی چلی جائے گی ۔ غیر اسلامی مملکت جس کا صفاتِ الہٰی سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ۔ اس مملکت کے باشندوں کی ذات میں استحکام پیدا نہیں ہوسکتا ۔
قرآن کریم میں بہت سے مقامات پر بعض آیات کے بعد متضاد صفات بھی آئی ہیں ۔ ہم نے سابقہ آیتوں میں ان کی مثال بھی لکھی ہے،ایک ہی آیت کے بعد غفور و رحیم بھی اور بعض کے بعد غفور و رحیم بھی ہے ۔ یہ بات کہ ہمیں کس مقام پر کس صفت پر عمل کرنا چاہئے یہ قرآن سےہی بہت غور و فکر کے بعد معلوم ہوتا ہے ۔ جس جگہ عدل کی ضرورت ہو وہاں عدل کرنا چاہئے جس جگہ عفو کی ضرورت ہو وہاں عفو کرناچاہئے درست طریقہ یہی ہے کہ جس مقام صفت الہٰی کی نمود درکار ہووہاں اسی صفت کا ظہور ہو اور اسی قدر ظہور ہو جس قدر ظہور کی اس موقع پر ضرورت ہو۔ فکر انسانی آج تک خیر شر کی تعریف نہیں کرسکی ۔ نہ تنہا عقل کے ذریعہ خیر و شرکی Definition ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے ۔ یہ وحی الہٰی کا ہی کام ہے کہ وہ خیر و شر کی Definition کرے ۔ وحی الہٰی کے مطابق ہر وہ عمل جو صفتِ الہٰی کےمطابق ہو و ہ خیر ہوگا اور ہر فعل جو صفت الہٰی کے خلاف ہوگا وہ شر ہے۔ صفات الہٰی ہی مستقل اقدار میں اور Political Parlance یہی Human Rights ہیں ۔ دنیا میں خیر و شر کا بھی اس کے علاوہ کوئی او رمعیار نہیں ۔ ان امور سے یہ بخوبی معلوم ہوجاتاہے کہ صفاتِ الہٰی کا انسان کی ذات سے کتنا گہرا تعلق ہے۔
انسانی زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس کا تعلق صفاتِ الہٰی سے نہ ہو۔ انسان کی زندگی میں ان کے ذریعے انسانی ذات کی نشو و نما ہوتی ہے ۔ ان صفات پر عمل کرنے سے معاشرہ بہترین معاشرہ ہوجاتا ہے ۔ ان ہی سے اس دنیا کی خوشگوار یاں اور سر بلند یا ں حاصل ہوتی ہیں اور ان سے ہی آخرت میں بلند مراتب حاصل ہوتے ہیں ۔ صفاتِ الہٰی ہی وہ محور ہیں جن کے گرد انسان کی زندگی گردش کرتی ہے ۔ یہ ہی اصل سبب ہے جس کی وجہ سے قرآن نے ان صفات ِ الہٰی کی اتنی تفصیل بیان کی ہے۔ چونکہ یہ چیز کسی بھی مذہب اور کسی بھی فکر میں نہیں ملتی او رنہ مل سکتی ہے ۔ اس لئے یہ یقیناً وحی الہٰی ہے ۔ فکر انسانی صفاتِ الہٰی کی یہ تفصیل پیش ہی نہیں کرسکتی ۔ آپ جب بھی صفاتِ الہٰی اور اس کےتضمنات پر غور فرمائیں گے ۔ آپ کو ان سے قرآن کریم کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ملتا چلا جائے گا۔
اگست، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-19/d/98524