New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 01:26 AM

Urdu Section ( 18 Jul 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miracles of the Quran Part- 17 اعجاز القرآن ۔ سترہ

 

وما بینہما کی وضاحت ۔ باب (17)

خواجہ ازہر عباس ، فاضل درس نظامی

قرآن میں  جس جگہ بھی آسمانوں  او رزمین کا تذکرہ آیا ہے ۔ اس  کے ساتھ ساتھ وَمَا بَیْنَھْمَا  کے الفاظ بھی آتے ہیں ۔ گذشتہ دور کے ہمارے مفسرین کرام ، چونکہ فلکیات کے ماہر   نہیں تھے اس لئے انہوں نے ان الفاظ کو Significance  کو نہیں سمجھا اور اس کا ترجمہ ‘‘ جو کچھ  ان کے اندر ہے’’ یا ‘‘ جو مخلوق ان  کےاندر’’  کردیا ہے۔ اس میں اُن حضرات  کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ علم فلکیات کی یہ تحقیقات موجودہ دور میں ہوئی ہیں۔

اللہ کی تخلیق کے نمونے  ساری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں جن کے لئے قرآن کریم نے آیات کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ یہ آیات اس ذاتِ  باری تعالیٰ  کے وجود کی زندہ شہادات ہیں ۔فہم انسانی  اور علوم انسانی  جس قدر ترقی کرتے چلیں جائیں گے ۔ یہ آیات اُبھر کر سامنے آتی چلی جائیں گی  اللہ کی ان آیات  اور نشانیوں میں ستاروں اور سیاروں  کی درمیانی فضاء میں مادہ کا جو و جود ہے یہ ایک اہم نشانی ہے جس کی تحقیق موجودہ زمانہ میں ہوئی ہے۔ انہیں نشانیوں  میں ایک ایتھر Ether  ہے جس کا پہلے کسی  کو علم نہیں تھا۔  سائنسدانوں نے اس کو مسخر کیا، اس کی لہروں  پرقابو حاصل کیا، ہوائی جہاز ،ریڈیو، ٹی وی ، ٹیلیفون سب اس کی وجہ سے ایجاد ہوئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں نزول قرآن  کے وقت خلاء و فضاء ( وَمَا بَیْنَھَمَا) کے اندر لہروں کے وجود کا کوئی ادراک بھی نہیں کرسکتا تھا جس کی نشاندہی قرآن  نے بار بار  جگہ بہ جگہ  فرمائی ہے ۔ آپ چند مقامات  ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ( 43:85) اور وہ ذات بہت بابرکت  ہے جس کاپورا قبضہ اور اختیار آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ، کار فرما ہے۔

(2) وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ( 21:16) ہم نے آسمان و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان  میں ہے یونہی کھیل کے لئے پیدا نہیں کیا۔

(3) وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ ( 44:38) ہم نے آسمانوں اور زمین کواور جو کچھ ان کے درمیان موجود  ہے یونہی کھیل کے لئے نہیں پیداکیا ۔

(4) مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّى ( 46۔3) ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان کے درمیان موجود ہے سب کو ایک مقررہ وقت تک کے لئے ٹھوس  مقاصد کے لئے پیدا کیا ۔

(5) رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِن كُنتُم مُّوقِنِينَ ( 44:7) سارے آسمان و زمین  اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے سب کامالک، اگر تم یقین رکھتے ہو۔

(6) سورۂ رحمٰن  میں ارشاد  عالی ہے ۔ يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (55:29)

کائنات  کی  پستیوں  اور بلندیوں میں مختلف  اشیاء کی کیفیت  یہ ہے کہ وہ ہر آن مختلف حالت میں ہوتی ہیں اور اپنی ہر حالت میں سامان نشو و نما کے لئے اللہ کی محتاج ہیں اور چونکہ اللہ اپنی تخلیق  کی طرف سے غافل  نہیں ہے اس لئے وہ ان  کی ہر طلب کو بطریق احسن پوری کئے جاتاہے  اور اس طرح  کائنات کا ارتقا ء ہوتا جارہا ہے ۔

کائنات کے ارتقاء کاموضوع یہاں ختم  ہوتا ہے ۔ آپ سے درخواست  ہے کہ آپ ان آیات پر غور فرمائیں ۔ مضمون کے اختصار کی وجہ سے ہم نے تمام  آیات  کا احصیٰ نہیں کیا ورنہ تو اس موضوع پر قرآن کریم  میں بے شمار  آیات  موجود ہیں ۔ غور کرنے کی بات صرف  یہ ہے کہ کیا  اس دور کی فکر  انسانی کائنات کی بات  کرسکتی تھی  یا نہیں ۔ یہ آیات تو خود  کہہ رہی  ہیں کہ یہ وحی  الہٰی ہیں ۔ اب  آپ کے سامنے  زندگی  اور انسان کے  ارتقا کی وہ تفصیل پیش کی جاتی ہے جو قرآنِ نےبتائی ہے۔

یہ بات  کہ زندگی  خود بخود  کس طرح وجود میں آگئی قرآن کریم اس کے متعلق  خاموش  ہے۔ سائنس بھی  اس درجہ ترقی کرنے کے باوجود یہ نہیں بتاسکتی کہ زندگی خود کیسے  پیدا ہوگئی ۔ سائنس  کے لئے بھی یہ ایک راز ہے ۔البتہ قرآنِ کریم نے زندگی  کی ابتداء اور اس کی مختلف  Stages  پر خوب واضح روشنی ڈالی  ہے۔ یہ بھی ممکن  ہے کہ زندگی کائنات  کی پیدائش سے پہلے  بھی موجود ہو لیکن اُسے  کوئی پیکر عطاء نہ ہوا ہو۔ قرآن کریم  یہ ضرور بتاتا ہے کہ زندگی  یا انسان ایسی  حالت میں ضرور تھا جو قابل بیان حالت  نہیں تھی  لَمْ يَكُن شَيْئًا مَّذْكُورًا ( 76:1) وہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھا ۔ یہ وہ زندگی  تھی جو ہنوز کسی پیکر  میں نہیں آئی تھی ۔ زندگی  کی ابتداء پانی کی گہرائیوں  سےشروع ہوئی ہے ۔ زندگی کے جرثو مہ اولین کا نام سائنس نے  Protoplasm دکھا ہے اس Protoplasm  میں اسی نوعیت  اور اسی طرح کے نمکیات پائے جاتے ہیں جو سمندر  کے پانی میں بھی ہوتے  ہیں ۔ اسی طرح زندگی کا رخ خاک کے ذرات سے مُڑ کر پانی  کی طرف منتقل ہوا ہے ۔ اس جر ثومہ  یعنی  Protoplasm نے Cell  کی صورت اخیتار کی جس کو قرآن  نے طین لازب کہا ہے ۔إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ (37:11) ہم نے انہیں طین لازب  سے پیداکیا ۔ ان Cell میں ایک لیس دار مادہ Nucleus ہوتا ہے ۔ اس لیس دار مادہ سے زندگی  کا آغاز  ہوتاہے ۔ یہ لیس دار ہی نفس واحدہ ہے ۔ قرآن  نے اس کو  نفس واحد ہ اس لئے کہا ہے کہ اس میں تذکرہ  وتانیث کا امتیاز  نہیں تھا  وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ( 6:98) اسی نفس واحد  ہ سے مخلوق  کی مختلف  شاخیں  پھوٹتی ہیں  ۔ ارتقا ء  کی جو  Stages  قرآن کریم  نے بیان فرمائی  ہیں پہلے  آپ ان تمام Stages  کوبیک  وقت ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) زندگی کی ابتداء پانی سے ہوئی  وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ( 21:30) ( ترجمہ) ہم نے ہر جاندار کو پانی سے بنایا۔

(2) پانی او رمٹی  کے ملنے  سے زندگی کا جرثومہ اولین پیدا ہوا ہے إِنَّا خَلَقْنَاهُم مِّن طِينٍ لَّازِبٍ ( 37:11) ہم نے انہیں طین لازب یعنی چپ چپی  مٹی سے  پیدا کیا۔

(3) زندگی  کے یہ جراثیم نوعو ں میں تقسیم   ہوکر، ایک  درخت  کی شاخوں  کی طرح  بڑھنے  اُگنے  لگے ۔

(4) ان جراثیم  کے پیکرو ں میں ہزار ہزار سال کے مراحل  کے بعد تبدیلیاں واقع ہوئیں ۔ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ( 32:5)  ایسے لمبے عرصوں  میں جن  کی مقدار  تمہاری  گنتی  کے اعتبار سے ہزار ہزار سال ہوتی ہے۔

(5)  ان طویل  مراحل  کے بعد تخلیق  کا طریقہ بذریعہ تناسل تک  پہنچا  اور یہاں  سے حیوانی زندگی  شروع ہوئی ۔

(6) یہ حیوانی زندگی  پھر لمبے لمبے  مراحل طے کرنے کے بعد ، منزل بہ منزل ، انسانی پیکر میں نمودار ہوئی اور اس طرح  نوع انسانی کی ابتداءہوئی ۔

قرآن کریم  نے تصریف  الآیات کے ذریعے  نفس واحدۃ کی وضاحت خود ہی  فرمادی ہے ۔ سورۂ اعراف  میں ارشاد ہوتاہے هُوَ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ( 7:189) وہی تو اللہ  ہے جس نے تمہیں نفس واحدہ  سے پیداکیا سورۂ مومنون میں ارشاد ہوتا ہے  وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ( 23:12)اور بے شک ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر ( سلالہ) سے پیدا کیا ۔ جو  جرثو مہ حیات جس نے انسان کی ابتداء  کی گئی ہے اس میں وہ تمام اجزاء موجود ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے مٹی کے اندر رکھے ہیں ۔ مثلاً مٹی میں لوہا ۔ سونا چاندی، سیسہ، قلعی ( Lime) چونا، نمکیات ،تیزابیات پائے جاتے ہیں ۔ انسانی جرثومۂ حیات  میں بھی  ان تمام چیزوں  کا جوہر پایا جاتاہے ۔ قرآن کریم نے یہ بڑی  اہم اور حتمی بات کہی ہے ۔موجودہ میڈیکل  سائنس بھی اس کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ جب  کسی  شخص میں ان اجزاء کی کمی یا زیادتی  ہوجاتی  ہے تو وہ بیمار ہوجاتا ہے  ۔ اگر  اس بیمار کے جسم میں چونے  کی کمی  ہوجاتی ہے تو اسے کیلشیم Calcium کی گولیاں  دی جاتی ہیں ۔ اگر اس میں لوہا کم ہوجاتا  ہے تو اس کو Iron Tablets  کھلائی جاتی ہیں ۔ ہر شخص  کے جسم  میں پانی بھی موجود  ہوتا ہے ۔ پانی کی کمی   یا زیادتی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے ۔ قرآن  نے خوب واضح  کردیا کہ نفس واحدہ  اور سلالہ من طین  ایک ہی چیز ہے۔ اس دور میں تو یہ بات بہت  آسان ہے۔  آپ مٹی اور انسانی کے اجزاء کا Chemical Analysis کرالیں ۔ اگر انسان کے جسم  میں وہی  اجزاءہیں جو مٹی  کے اجزاء ہیں تو پھر تو قرآن کریم کی حقانیت میں کوئی شبہ  باقی ہی نہیں رہتا ۔ قرآن کریم بار بار  اصرار  کرتاہے کہ  انسان کو زمین  (مٹی) سے پیدا کیا گیا  ہے ۔ آپ صرف چند مقامات  ملاحظہ فرمائیں ۔

(1) هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا ( 11:61) اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی میں آباد کردیا۔

(2) مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ ( 20:55)  ہم نے تمہیں زمین سے پیداکیا (مرنے کے بعد) ہم تمہیں  زمین میں لوٹادیتے ہیں اور ( قیامت کو ) اسی طرح دوبارہ  نکال لیں گے۔

(3) هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ أَنتُمْ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ ( 53:32) ( ترجمہ) وہ اللہ خوب جانتا ہے جب تمہیں  زمین سے پیدا فرمایا  تھا  اور جب تم اپنی ماؤں  کے رحم  میں بصورت  جتین ہوتے ہو۔

(4)وَاللَّهُ أَنبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا ، ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًا ( 71:17:18) اور اللہ نے تمہیں زمین سے اُگایا ٹھیک ٹھیک اُگایا پھر ( تمہارے مرنے کے بعد)  تم کو اسی زمین میں لوٹا دیتا ہے ۔ پھر وہ (قیامت  کو) تمہیں دبارہ  زمین سے نکال لے گا صحیح صحیح  نکال لینا ۔ ان آیات کریمات  سے ظاہر ہے کہ نوع انسانی زمین  ( مٹی)  سے  پیدا  کی گئی ہے اور کُرّہ ارض  کے مختلف  مقامات پر بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا کرلی گئی تھیں۔

 انسان  کی پیدائش اور نوعِ انسانی کا ارتقاء ایک طویل  موضوع ہے ۔ یہ Scientific  بھی ہے  Technical  بھی ۔ اس کے بیان کرنے کا حق وہی حضرات ادا کر سکتے ہیں  جن کو سائنسی  علوم خصوصاً Genetics  اور Biology پر عبور  ہو، اس بارے میں ہم تو ایک آنکھ رکھتے ہیں  اور اس موضوع  پر صرف اتنا ہی  کہہ سکتے ہیں ، جس قدر بھی قرآن  نے ہدایت فرمائی  ہے اور ہمارا مُدّعا بھی  صرف اتنی تفصیل بیان کرنا ہے  جس سے یہ ثابت  ہوجائے کہ قرآن  کریم وحی الٰہی  ہے۔  تجدید  یا د داشت  کے لئے عرض  ہے کہ اس  موضوع پر قرآنِ کریم کی تعلیم کا ملخص  یہی ہے کہ  تالابوں  کی تہ  میں یا جوہڑوں کے کنارے  پر پانی  او رمٹی کی ملاوٹ  سے جو سبز  رنگ کی کائی جم جاتی ہے ۔ ا س کائی میں یہCellsپیدا ہوجاتے  ہیں جن سے زندگی کی ابتداء ہوئی تھی ۔ یہ Cells ہی زندگی کے تمام امکانات  Potentialities اپنے اندر  رکھتے ہیں ۔ جس طرح ایک ننھے سے بیج میں درخت  بنے کی صلاحیت  ہوتی ہے ۔ اسی طرح اس Cell نفس واحدہ میں جاندار مخلوق کی شاخیں  پھوٹنے کی صلاحیت ہوتی ہے ۔ نفس واحدہ کی یہی صلاحیت  کروڑوں سال گزارکر، سینکڑوں کروٹیں بدل کر حیوانی زندگی میں منتقل  ہوئی اور پھر مزید ترقی کرکے ، بتدریج ،منزل بہ منزل اس صلاحیت کی نمود پیکر  انسانی  میں ہوئی ۔ ہمارے پیکر اسی زندگی  کی نمود  کے نمونے ہیں ۔ جب انسان مرتا ہے تو اس کا یہ پیکر Dis-Integrate  ہوجاتا ہے لیکن انسانی جان یا اس کا شعور زندہ رہتا ہے ۔ وہ کبھی  نہیں مرتا۔ قیامت  کے دن جب یہ دوبارہ Active ہوگا تو اس کا یہ جسم ا س کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اس وقت اس نفس  یا شعور انسانی کو اپنے  ارادے پورا کرنے  کے لئے کون سا Vehicle  فراہم کیا جائے گا ۔ ہم  اپنے موجودہ شعور کی سطح  پر اس کو نہیں  سمجھ سکتے ۔

قارئین  کرام سے درخواست  ہے کہ قرآن  کریم کی جملہ  آیات کو پیش نظر  رکھیں اور پھر غور فرمائیں کہ نزول  قرآن کے زمانہ میں کیا رسول اللہ یہ آیات  اپنی فکر سے وضع  کرسکتے تھے ؟ ۔  ان آیات  کے مفاہیم  ومطالب  اس درجہ عمیق  ہیں کہ اس موجودہ دور میں  بھی تعلیم یافتہ لوگ ان  آیات کے مفاہیم  کا ادراک  نہیں کرسکتے ۔ یہ آیات یقیناً یقیناً وحی الہٰی ہیں۔

انسانیت کو اللہ تعالیٰ  کی طرف سے علم ملنے کا ایک واضح اور مستقل  اُصول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اللہ تعالیٰ  کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے انسانیت  کو اپنی رہنمائی  سے نوازا( 3:164) اور انسان کو اس سے محروم  نہیں رکھا ۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم انسانیت  کو ملا اس کی قدر و قیمت  کا ہم اندازہ  نہیں کرسکتے  لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسانیت  کی یہ بد قسمتی ہے کہ انسانوں نےاللہ تعالیٰ  کی رہنمائی کی قدر و قیمت  کا احساس  نہیں  کیا اور اس رہنمائی  میں تحریف  کرنا شروع  کردی۔جب اللہ تعالیٰ نے نبوت  کا دروازہ بند کیا تو اپنی رہنمائی  اور اپنے علم  کو ایک کتاب  میں محفوظ  کردیا اور اس  کتاب کی حفاظت  کی ذمہ داری  خود اپنے  سر لے لی ( 15:9) اس طرح اس کتاب میں کوئی کمی بیشی  نہیں  ہوسکتی تھی اور اللہ  تعالیٰ  کے اس وعدے کے مطابق  وہ کتاب ، قرآن  کریم آج تک اسی طرح  محفوظ چلی آرہی ہے  لیکن ہم مسلمانوں  نے  علم الہٰی  حاصل کرنے  کے  چور دروازے  خود کھول لئے  اور اس طرح قرآن  کی اہمیت کو کم  کرنے  کی نا کام سازش  کی ۔ اس لئے آج  ہمارے بیشتر  نظریات  قرآن  کے خلاف  خود ساختہ ہیں جن میں  سر فہرست وحی خفی ، الہام، القاء، استخارہ، تفاول اور رُویائے  صادقہ ہیں ۔ یہ سارے  عقیدے  خود ساختہ  اور خلاف قرآن  ہیں اور ان ہی خود ساختہ عقیدوں  نے مسلمانوں کو تباہ  و برباد کیا ہے ۔ ختم نبوت کے جو منطقی  نتائج تھے ان کا تذکرہ ہم آئندہ مضمون  میں چل کر کریں گے پہلے اس  Core issus کے متعلق جناب چند  معروضات و گذارشات ملاحظہ فرمائیں ۔

ہم مسلمانوں میں خلافت راشدہ  کے کچھ عرصہ  سے ہی یہ نظریات  در آنے شروع ہوگئے تھے اور ان نظریات پر کبھی کسی نے غور و فکر اور انتقاد  نہیں کیا ۔ حُجیتِ حدیث او رالہام ، القاء مستند اور معتبر  عقائد  شمار ہوتے ہیں ۔ گذشتہ  صدی ہجری  اس لحاظ سے بڑی  خوش قسمت  صدی تھی  کہ اس صدی میں پہلی مرتبہ ان عقائد  کے متعلق  غور و فکر اور انتقاد  شروع  ہوا اور سب سے پہلے رئیس المفسرین ،سر تاج موجد ین  مولوی محمد عبداللہ صاحب چکڑ الوی مرحوم نے حُجیت حدیث کے خلاف آواز بلند کی ۔ یہ بہت بڑی  او راہم با ت تھی ۔ یہ آواز  چونکہ پہلی مرتبہ  بلند ہوئی تھی  ا سلئے یہ  بالکل  غیر مایوس تھی  اور اس کی سخت  مخالفت  ہوئی ۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب  جذباتی آدمی تھے  ، جس قدر ان کی مخالفت میں اضافہ  ہوا، اسی قدر  وہ بھی  انتہا ء تک پہنچ گئے ۔لیکن ان کے ساتھ ان کے ہم عصر عالم  اجل خواجہ  احمد الدین امر تسری مرحوم  زیادہ متوازن  مزاج تھے ۔ انہوں نے  بھی حجیت  حدیث  کے خلاف  آواز بلندکی  اور مولوی  محمد عبداللہ صاحب سے رابطہ میں رہے ۔ خواجہ  احمد  الدین  مرحوم  اور ان کے چند ساتھیوں  نے مل کر 1929 میں امرتسر  میں اُمّتِ  مسلمہ اہل الذکرو القرآن کی بنیاد ڈالی  اور مختلف  اوقات  میں مختلف  جرائد کفایت قرآن کے ثبوت  کے لئے نکالنے  شروع کئے ۔

مولوی محمد عبداللہ صاحب کے ایک شاگرد مولوی حشمت علی  صاحب دہلوی  نے مولوی عبداللہ صاحب کی زیر نگرانی اشاعت القرآن نکالنا  شروع کیا ۔ یہ رسالہ علامہ  اقبال کے زیر مطالعہ بھی رہتا تھا ۔ یہ سب  حضرات عالی مقام اس بات کے قائل تھے  کہ اللہ تعالیٰ  کی طرف سے جو علم آیا  ہے وہ صرف  قرآن ہے اور اس کے علاوہ اس وقت او رکہیں  خداوندی  نہیں ہے ۔ اس وقت ماانزل الہ یا منزل من اللہ صرف قرآن  ہے لیکن یہ سب  بزرگ  مذہب کے معیار تک رہے  ان کا سارا زور فقہ  پر یا پرستش کی رسومات  کی تبدیلی پر رہا ۔ ان کے سامنے دین کا کوئی  تصور نہیں تھا لیکن  جس عقیدہ  کی انہوں نے اشاعت  و ترویج  کی وہ  بھی  کوئی کم اہم  نہیں تھا  اس کے بعد تحریک طلوع اسلام سامنے  آتی ہے ۔ علم الہٰی  حاصل ہونے کے بارے میں  اس تحریک کا بھی یہی  عقیدہ ہے لیکن  اس کا معام اس لئے زیادہ اعلیٰ  اور بر تر ہے کہ یہ اقامتِ دین کی بھی داعی  ہے ۔  صدر اوّ ل کے بعد اس تحریک نے پہلی مرتبہ اقامتِ دین کی  دعوت دی ہے ۔ اقامتِ  دین تمام  انبیاء کرام پر فرض  تھی ۔ ( 42:13)  اور یہ اسی طرح  حضور صلی اللہ علیہ وسلم  پر بھی فرض  تھی ( 42:13) دین  کے قیام کے لئے حضور کو 82 حملوں  کا دفاع کرنا پڑتا تھا ۔ اگر اقامتِ دین  حضور پر فرض نہ ہوتی تو حضور اتنی مشکلات  اور صعوبات کیوں مول لیتے۔

غیر اسلامی نظام  میں زندگی بسر کرنا جُرم ہے( 6:123)اور ایسے لوگوں کا ٹھکانہ  جو غیر اسلامی نظام میں زندگی  بسر کررہے ہیں جہنم ہے ( 4:97) حضرت نوح علیہ السلام کے دور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تک اقامت دین کے داعی  صرف انبیاء کرام  ہوتے تھے ۔ ختم نبوت کے بعد یہ فریضہ امت کے ذمہ منتقل  ہوا کہ وہ حضور  کے قائم کردہ نظام کو قائم رکھے (35:32) لیکن یہ مسلمانوں  کی انتہائی  بد قسمتی  اور ان کی ایک تقصیر تھی اور ہے کہ انہوں نے اس نظام کو منقرض اور ترک  کردیا  اور اس دور سے لےکر تحریک طلوع اسلام کے قیام تک سارا عرصہ نظام کے تصور  سے عاری  اور غافل رہے ۔ اس طویل عرصہ میں بڑے بڑے علماء و مشائخ اور ( So-Called) اولیاء اللہ گذرے ہیں ۔ جن کی تعظیم میں سب کے سر جھک جاتے ہیں ۔ حیرت  ہے کہ ان میں سے کسی  نے دین کا نام تک نہیں لیا ۔ ہمارا بارہ سو سال کاسارا لٹریچردین کے تصور  سے نہ صرف خالی ہے بلکہ یہ سارا لٹریچر ہی قرآن  فہمی  میں سدِ راہ بنا ہوا ہے ۔ یہ وہ تحریک ہے جو انبیاء کرام ہی  لے کر اٹھتے تھے ۔

قرآن  کریم کی تمام آیات لولو ءلالا کی طرح آبد اروتابدار ہیں ۔ مختلف  فرقوں  نے آیات تقسیم  کی ہوئی ہیں ۔کچھ آیات  کو شیعہ حضرات کے ہاں  بہت اہمیت  دی جاتی ہیں ، کچھ دیوبندی  حضرات  کے پیشِ نظر رہتی ہیں ۔ کچھ بریلوی  حضرات کے ہاں  بہت بہت  اہم ہیں ۔ یہ مذہب میں ہوتا ہے ۔ دین میں تمام آیات یکساں  اہمیت حاصل  ہے اور ہر وقت  ان پر عمل ہوتا رہتا ہے ۔ البتہ  بعض اوقات  زمانہ  کے تقاضوں  کی وجہ سے کوئی آیت  زیادہ  نمایاں  ہوجاتی ہے ۔ جب سے حجیت  حدیث  و الہام کی تردید شروع ہوئی  ہے سورۂ الشوری  کی  مندرجہ ذیل آیت غور و فکر کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ہمارے مفسرین کرام نے  بھی  اپنی اپنی تفاسیر  میں اس آیت کی تفسیر لکھی ہے ۔اور فرقہ اہل قرآن ، تحریک طلوع اسلام ، اور ادارہ صوت الحق  نےبھی اس آیت کریمہ کی  تفسیر  بار بار مختلف  اوقات  اور مختلف مضامین  میں پیش کی ہے۔ ہم نے بھی اپنے کئی مضامین میں اس آیت  کریمہ  کی تفسیر  تحریر کی ہے ۔ لیکن  اس آیت  کریمہ کی تفسیر  میں ایک نکتہ ایسا ہے  جو اب تک  کسی نے پیش  نہیں کیا ۔ اور ہمارے  بھی غالباً کسی مضمون میں اس کو نمایاں  نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ ایک  ہی آیت کریمہ اس بارےمیں  فیصلہ کن ہے ۔ اب آپ آیت  کریمہ  اور اس کا ترجمہ  اور اس کی تفسیر  ملاحظہ فرمائیں  ۔ یہ آیت مشکل آیات میں شمار  ہوتی  ہے لیکن  ہم اس کو آسان  کرکے پیش  کریں گے۔ آٖپ بھی  ذرا توجہ  سے ملاحظہ فرمائیں ۔

ارشاد عالی ہے  وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ ( 42:51)( ترجمہ) اور کسی بشر کی بھی یہ شان  نہیں ہے کہ اللہ اس سےکلام کرے مگر وحی کے ذریعے سے یا پردہ کی اُوٹ  سے یا بھیجے کسی فرشتہ کو بس وہ وحی کردے اس کے اذن سے جو وہ چاہے ۔ وہ بڑا ہی عالی مقام اور بڑا ہی حکمت والا ہے ۔ اس آیت کی تفسیر ہم نے مختلف مقامات پر کی ہے ۔ جن صاحب کو ضرورت ہو ،و ہ اس  آیت  کی تفسیر ہماری کتاب  ‘‘ قرآن فہمی  کے قرآنی قوانین ’’ کے ص 192 پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔ یہ کتاب ہماری Website  پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ www.azharabbas.com تحریک  طلوع اسلام نے بھی اس آیت تفسیر  قرآنی  فیصلے جلد اوّل صفحہ 230 پر رقم  کی ہے ۔ یہ بھی  ہماری Web  پر link  پر موجود ہے ۔ ہم  یہاں تفسیر  کو اس لئے رقم  نہیں کررہے ہیں کہ اس مضمون  طویل ہوتا ۔ ہم اس مضمون کو نہ تو طول  دیناچاہتے ہیں  اور نہ ہی اس مرکزی نکتہ  سے ادھر ادھر ہوناچاہتے ہیں ۔ اس آیہ کریمہ کااصل نکتہ جو ہم پیش کرناچاہتےہیں وہ یہ ہےکہ :

اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم بھی انسانیت  کو ملا وہ صرف اور صرف کلام کے ذریعے ملا ہے۔ اس آیہ کریمہ  میں کلام  کے تین  طریقے بتائے ہیں  ۔ تینوں طریقوں  میں اللہ  تعالیٰ  کاعلم کلام کے ذریعے ملا ہے ۔ حضرت موسیٰ کو بھی کلام کے ذریعے ملا تھا  فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ ( 20:13) نیز (8۔12۔27)  (35۔30۔28) اور کلام  کے لئے الفاظ  کا ہونا ایک لازمی اور ضروری  بات ہے ۔ امام  راغب اصفحانی نے اپنی مفردات  میں تحریر  فرمایا ہے ‘‘ کلام  کا اطلاق  منظّم و مرتب  الفاظ  اور  ان کے معانی دونوں  کے مجموعہ پرہوتا ہے ’’  وحی خفی ، الہام، القاء ، استخارہ وغیرہ  میں عقیدہ  رکھنے والے حضرات  یہ مانتے ہیں  کہ ان تمام طریقوں  میں الفاظ نہیں ہوتے صرف  معانی منتقل  کئے جاتے ہیں  اور یہ بات  اس آیت  کی رُو سے قرآن کےخلاف ہے۔ بغیر الفا ظ کے کوئی علم  منتقل  ہی نہیں ہوسکتا  یہ بات  ہی Non sensical, Impossibil’ity  ہے ۔ آپ  قرآن  کے بتائے ہوئے اس اصول کو ہمیشہ  پیش نظر رکھیں کہ  اس آیت  کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم آیا  ہے وہ صرف الفاظ کی شکل میں آیا ہے۔ اس لئے آیت سے یہ تمام عقائد  قرآن کے  خلاف ثابت  ہوتے ہیں ۔ اس زیر نظر  مضمون میں صرف  یہ ایک نکتہ ہی عرض کرنا مناسب  معلوم ہوتا ہے کیونکہ  یہ نکتہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے باقی رہا ختم  نبوت  کے نتائج تو  اس کو دوسرے  مضمون میں پیش کردیا جائے گا۔ ہمارا  Focus  او رہمارا Emphasis  ا مضمون  میں صرف اس نکتہ پر ہے ۔ اس لئے ہم اس مضمون کو زیادہ طویل  نہیں کرنا چاہتے ۔

حضرت اقدس  مولانا امین احسن  اصلاحی  مرحوم نے اس آیت  کی تفسیر  کے ذیل میں جو رقم فرمایا ہے ۔ وہ بھی آپ  ملاحظہ فرمالیں ۔  ان  کی یہ  تحریر  ہمارے موقف  کو ہی تقویت  دے دیتی ہے اور اسی  کی تصویت کرتی ہے۔ مذہبی دنیا  میں مولانا کامقام بہت بلند ہے۔ ان کا ہمارے  موقف کی تصویب کرنا ایک معنی رکھتاہے ۔ انہوں نے  تحریر فرمایا ‘‘ یہاں  یہ بات خاص طور پرنگاہ میں رکھنے کی ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے یہ نبیوں  سے اپنے کلام  کا طریقہ  بتایا ہے ۔ اس وجہ سے ہمارے  نزدیک ان لوگوں  کا خیال صحیح نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ وحی   مُجّر و فکر کی شکل میں دل پر القا  ء ہوتی ہے جس کو الفاظ  کا جامہ پیغمبر  پہنا تا ہے’’۔ تدبر قرآن، جلد 7، صفحہ 42 ۔ حضرت  اقدس کا یہ اشارہ بالکل قرآن کے مطابق  ہے اور اسی کو ہم پیش  کرتےہیں اور حضرت کے اسی اصول  کے مطابق  الہام  وحی خفی  وغیرہ  عقائد بالکل  غلط ثابت  ہوتے ہیں ۔ فھو المراد۔

یہ مضمون  جو الہام کی تردید  میں تحریر  کیا گیا ہے یہاں ختم  ہوتا ہے البتہ  ہم اتنا  اضافہ کرنا ضروری  سمجھتے ہیں  کہ مولانا کی یہ  بات یہاں  تک تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم  الفاظ کی شکل میں  آتا تھا ۔ ہمارا بھی  یہی موقف  ہے ۔ حضرت کے اس اقتباس  سے ہماری  تائید  ہوتی ہے اسی لئے ہم نے اس کا حوالہ  ضروری سمجھا لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ‘‘ اللہ نے یہ نبیوں  سے اپنے کلام  کا طریقہ  بتایاہے’’۔ تو یہ بات غلط  ہے کیونکہ  اس آیت  میں ساری بشریت سےکلام  کرنے کا طریقہ  بتایا گیا ہے ۔ صرف  نبیوں کے ساتھ  کا نہیں ہے ۔  آیت کے اپنے الفاظ و ماکان  لبشر خود اس کا ثبوت  ہیں ۔  ا س مسئلہ کو واضح  کرنے سے مضمون  طویل ہوگا  اس لئے اس کی وضاحت ہمارے مضمون  یا ‘‘ قرآنی  فیصلے ’’ میں ملا حظہ فرمالیں  جن کا حوالہ  اس مضمون  میں دیا چکا ہے ۔ ہم اس مضمون  میں صرف ایک اسی نکتہ  پر اکتفاء  کرنا چاہتے ہیں تاکہ  یہ نکتہ زیر غور رہے ۔

جون، 2014  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/miracles-quran-part-17/d/98175

 

Loading..

Loading..