New Age Islam
Sun Feb 16 2025, 02:41 PM

Urdu Section ( 11 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Proofs of Islam as an ideal religion اسلامی نظام کے بے مثال ہونے کی ثبوت

 

خواجہ ازہر عباس  

مئی، 2013

تحریک طلوع اسلام اپنی ابتدا سے یہ دعوی کرتی چلی آ رہی ہے کہ اسلام ایک بہترین نظام حیات ہے اور عقل انسانی کسی طرح بھی اس جیسا نظام وضع نہیں کر سکتی ۔تحریک طلوع اسلام کا یہ دعویٰ کوئی ایک یا  اہم utopiaنہیں ہے ۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم   باالکل یکاّ و تنہا، اس دعویٰ کو لے کر اٹھے اور آپؐ نے بے پناہ مصائب و نوازل کے باوجود اپنی اور اپنے جلیل القدر ساتھیوں کی کوششوں سے اس نظام کو قائم فرمادیاپھر اس نظام کی واضح کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم   کی حات مبارکہ اور طیبہ کے دوران ہی لوگ اس نظام میں  یدخلون فی دین اللہ افواجاً (110-2)فوج در فوج داخل ہونے لگے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حیات طیبہ میں اس نظام کی وسعت دس لاکھ مربع میل پر تھی ۔اس نظام میں جگہ جگہ حضور اکرم ؐ کے مقرر کردہ حکام (188-2)اور اولوالامر(83-4)موجود تھے جنہوں نے Law& Order قائم کیاہواتھااور حضور اکرمؐ خود مقدمات کے فیصلے فرماتے تھے ۔اس نظام کے اوامر و نواہی کے لئے قرآن کریم نے معروف و منکرکے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔اطاعت صرف معروف و منکر کی ہوتی تھی۔کسی افسرکی ذاتی اطاعت کا سوال  ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔حکام اور اولولامر خود قانون کے رسّے میں جکڑے ہوے تھے۔وہ خود حکومت کے معروف کی اطاعت کرتے تھے اور منکر سے بعید رہتے تھے خود ان کی اطاعت کے بعد ،دوسروں سے ان معروف کی اطاعت کراتے تھے ۔اس نظام میں انسان کی حکومت دوسرے انسانوں پر با لکل منع تھی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم  خود ان قوانین کی اطاعت فرماتے تھے ۔انہیں یا کسی افسر کو کسی قسم کی  Immunity حاصل نہیں تھی کیوں کہ اسلامی مملکت کا سر براہ سب سے زیادہ قوانین مملکت کی اطاعت کرتا ہےاس کے بر خلاف عقل انسانی کے وضع کردہ نظام اور ان کے نتائج آپ کے سامنے ہیں ۔کمیونزم کے ایک بہترین نظام حیات ہونے کی شہرت ہمارے سامنے شروع ہوئی تھی  اور ہمارے سامنے ہی اس نظام نے دم توڑ دیا جمہویت کا لازمی نتیجہ سرمایہ داری Capilalis  ہے ۔بلکہ یوں کہیے کی ان دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔جمہوریت صرف امیروں کو راس آتی ہے۔یہ غریبوں کو بالکل اجاڑ دیتی ہے۔اس میں لوگوں کی اپنی خواہشات کے مطابق بنائے ہوے قوانین چلتے ہیں ۔اس میں قانون سے زیادہ شخصیات کی اہمیت ہوتی ہے۔اس کے تمام قوانین امیروں کو suit  کرتے ہیں اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا ۔اس میں امیروں کے گروپ ،کرپشن کے اڈے ہوتے ہیں سرمایہ داری کے خلاف جو تحریکOccupy Wall Street  حال میں شروع ہوئی ہے وہ تقریباً188 مختلف ممالک میں پھیل چکی ہے ۔اس تحریک کا آہستہ آہستہ فروغ پاناسرمایہ داری اور جمہوریت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اب آپ قرآن کریم کے نظام کی منفرد خوبیاں ملاحظہ فرمائیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے  و لقد کرمنا بنی آدم وحملنٰھم فی البروالبحرورزقناھم من الطیبٰت (70-17)ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور جنگل اور دریا میں ان کو سواری دی اور پاکیزہ چیزوں میں سے روزی دی ۔اللہ تعالی ٰ نے تمام انسانوں کو صاحب تکریم بنایاہے اور یہ قرآن کریم کی ایک مستقل قدر ہے۔اس قدر کا ماحصل یہ ہے کہ ہر انسانی بچہ محض انسان ہونے کی جہت سے عزت و احترام کا مستحق ہے۔موجودہ دور میں ہمارے معاشروں میں عزت و احترام کے معیار اضافی ہوتے ہیں ۔ایک بچہ جو امیر ماں باپ کے یہاں دولت ہوتا ہے وہ ہزاروں مراعات اور عزتوں کا مستحق پایا جاتا ہے ۔غریب کے بچوں کو کوئی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔جو بچہ محلات میں پیدا ہوتے ہیں دنیاں کی  تمام نعمتیں انھیں حاصل ہوتی ہیں ۔جو بچہ ایک جھوپڑی میں پیدا ہوتا ہےوہ دنیاں کی ہر طرح کی نعمت سے محروم رہتا ہے۔عزت و احترام اور مراعات و آسائش کی یہ تقسیم ان دونوں کے درمیان ساری عمر جاری رہتی ہے لیکن یہ تقسیم کی ذاتی جوہر و قابلیت ((Potentiality کی وجہ سے نہیں ہوتی۔اسی طرح امیر لوگوں کے بچوں کے لئے ترقی کے تمام دروازے مسدودہوتے ہیں ۔ہمارے ہاں بھی امیر لوگوں کے بچے انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم پاتے ہیں لیکن غریب کے بچوں کو اسکول کا منہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوتا۔

قرآنی مملکت میں کوئی ایسا قانون جاری نہیں ہوسکتا جس میں اضافی نسبتوں کی وجہ سے ایک بچھے کو دوسرے بچے پر کوئی فوقیت حاصل ہو سکے۔ اس مملکت میں ہر انسان کی عزت ہوگی کسی شخص کو اضافی نسبت کی وجہ سے ذلیل نہیں سمجھا جائے گا۔اس میں ذاتی اعمال اور ذاتی جوہروں کی بناء پر مدارج کا تعین ہوگا لکل درجات مما عملوا (19-46) لوگوں کے درجے ان کے کام کے مطابق ہونگے۔

غیر اسلامی نظام میں عزت و احترام کا معیار ذاتی نسبتیں ہوتی ہیں ۔یورپ کی موجودہ اقوام جو انسانی عزت و تکریم کی دعویدار ہیں انھوں نے صدیوں تک ساری انسانیت کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔اگر دوسری اقوام سے صرف نظر کریں ۔انگریز ان پوری اقوام میں سب سے بہتر حاکم تسلیم کئے جاتے تھے۔انھوں نے ہندوستان پر زبردستی قبضہ کیا۔دو عالمگیر جنگوں کے درمیان انہوں نے عمداًیہاں اس درجہ غربت پھیلائی کہ یہاں کا غریب طبقہ فوج میں بھرتی ہونے پر مجبور ہو گیا۔اس وقت سپاہی کو صرف 18روپے ماہوار کی آمدنی کے بدلے ان لوگوں کو قتل کرنے کے مرتکب ہوتے تھے ،جنہیں وہ جانتے تک نہیں تھے ،اور جن سے ان کی کوئی دشمنی نہیں ہوتی تھی ۔

امن و امان کے دوران ،سول سوسائٹی میں ہندستانیوں کی محکوم قوم ہونے کی وجہ سے اگر چہ قدم قدم پر بے عزت ہوتی تھی لیکن اس کی محسوس مثال یہ تھی کہ اس زمانہ کی اعلیٰ معیار کے  Clubsکے باہر Indian or dogs are not allowedلکھا ہوتا تھا۔انگریزوں کے نزدیک محکوم قوم کے فرد کا مرتبہ کتوں کے برابر ہوتا تھا۔آج یہی اقوام انسانی حقوق کی دعویدار بن رہی ہیں ۔

       ان چند سطور کے تحریر کرنے سے انگریز قوم کی تنقیص کرنا مقصود نہیں ہے،انگریز بحیثیت قوم ایک اچھی قوم ہیں ۔تہزیب ،ہمدردی ،خوش اخلاقی ،انکساری ،راست گوئی ،علم دوستی ان کا شیوہ ہے ۔ہمیں ذاتی طور پر متعددواقعات ایسے پیش آئے جن میں ان کی شرافت اور محبت عیاں ہوتی تھی ۔پرکشش شخصیات جن کو بار بار ملنے کو دل چاہتا ہےلیکن انھوں نے ہندستان میں چونکہ انسانیت کی تقسیم حاکم و محکوم کے اصول پر کی ہوئی تھی ۔اس لئے یہاں محکوم کی تذلیل زیادہ تھی لیکن اسی دور میں انگریزوں کے ہاں انگلینڈ میں بھی غربت عام تھی اور غریبوں کی سخت تذلیل ہوتی ہے۔آپ  Victorian Ageاور خاص طور پر Charles Dickensکے ناول ملاحضہ فرمائیں ۔اس کے ہر ناول میں غریبوں کی تذلیل کے واقعات لکھے ہیں ۔اس کے بیشتر ناول کا Theme  ہی یہ ہوتا ہے ۔بات انگریزوں یا کسی قوم کی نھیں  ہے ۔اصل وجہ اور سبب نظام ہوتا ہے۔ان کا اس وقت کا نظام زیادہ تاریک اور غریب کش تھا۔ان کے نظام میں غریب کی تذلیل  Inherentتھی۔آج زمانہ کے تقاضوں اور حالات کے تھپیڑوں سے مجبور ہو کر،ان کا نظام از خود قرآن کے قریب آ رہا ہےاور انسانوں کے ما بین تفاوت کم ہو رہا ہے اور قرآن نے جو ہر شخص کو عزت بخشی تھی ۔موجودہ دور کا نظام ہر شخص کو عزت دینے پر مجبور ہو رہا ہے۔معاشرہ میں اچھائی اور برائی کا سبب اس کا نظام ہوتا ہے قرآن کریم کے پیش کردہ نظام کا کوئی جواب ہی نہیں ہو سکتا۔اسی وجہ سے تحریک طلوع اس قیام کی ساعی ہے۔

اسلامی نظام کی دوسری خصوصیت یہ ہے  لیس للا نسان الا ماسعیٰ (39-53)آدمی صرف اس چیز کا حقدار ہے  جو اس نے کمایا ہے۔قرآن کریم نے یہ ایک بڑا جامع وسیع اور عالم گیر اصول عطا فرمایا ہےجس کا اطلاق زندگی کے ہر شعبہ پر ہوتا ہے۔اس اصول کی وجہ سے اسلامی مملکت کا کوئی فرد محنت کے  بغیر کچھ نہیں پا سکتا۔اکثر لوگوں کی زرعی زمین کسی مقام پر ہوتی ہےاور خود عیش کرتے پھرتے ہیں ۔غریب مزارع سال بھر محنت کرے ،اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر ،ایک خطیر رقم جاگیر دار کے گھر دے آتے ہیں ۔یہ مزارع پر بڑا ظلم  ہے۔اسلامی مملکت میں کوئی شخص دوسرے کی محنت کو Ploitly کر سکتا لیکن افسوس کہ آج کل دنیا کے تمام ممالک کی Economy،اس اصول کے خلاف قائم کی گئی ہے اور ان تمام ممالک میں غریب مزدور کی محنت کو Ploitly  کیا جاتا ہے۔اس کی تفصیل تحریر کرنا اس لئے ضروری نہیں کہ اس کا علم ہمارے تمام قا رئین کرام کو بخوبی ہے۔

اسی طرح قرآن کریم کا زریں اصول ہے  لاتزر وازرۃ وزر اخریٰ (164-6) کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائےگا۔یہ قرآنی اصول بھی بڑا معنی خیز ہے۔اس قانون کی رو سےہر شخص اپنی اپنی ذمہ داری خود اٹھائیگا ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ ذمہ داری ایک شخص کی ہو ،اور اسے کسی دوسرے کے سپرد کر دیا جائے۔یا کام کوئی کرے اور خمیازہ کوئی دوسرا بھکتے۔

قرآن کریم کے نزدیک مملکت فرد کے لئے ہوتی ہے،فرد مملکت کے لئے نہیں ہوتا۔اسلامی نظام کا محور فرد کی ذات ہوتی ہے۔اسلامی نظام کی اساس مستقل اقدار پر ہوتی ہے،سیکولر حکومتوں کے برخلاف ،اسلامی مملکت کے تمام قوانین مستقل اقدار کی حدود کے اندر ہوتے ہیں Political Parlance  میں یہی مستقل اقدار انسانی حقوق کہے جاتے ہیں ۔صفات الہی بھی یہی ہوتی ہیں انسانی ذات کی بنیاد ی صفات وہی ہوتی ہیں ،جو صفات ذات الہی کی ہیں یہ اللہ اور انسان کا بنیادی تعلق ہے۔اللہ تعالی کی اطاعت نہ تو کسی ڈاکٹر کی  اطاعت طرح ہے اور نہ ہی انسان کی طبیعت اور اس کی سرشت اس اطاعت سے ابا کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالی کے قوانین کی اطاعت سے انسانی ذات کی نشونما ہوتی ہے۔ان احکامات کی اتباع سے ذات کے تقاضوں کی تسکین ہوتی ہے۔

آپ اس مشکل مقام کو چند مثالوں کے ذریعہ مزید ذہن نشین کر سکتے ہیں ۔ چوری کرنا یا کسی کے مال پر زبردستی قبضہ کرنا ، مستقل قدر کے خلاف ہے ۔ایک شخص اپنی ذات کے استحکام کی خاطر ،اس مستقل قدر پر عمل کرتا ہےاس کے اس عمل سے جہاں وہ اپنی ذات کو مستحکم کریگا،اس کا ضمنی اثر اس معاشرہ پر از خود ہوتا چلاجائےگا،کہ اس معاشرہ میں چوری کی واردات کم ہوتی چلی جائینگی ۔اسی مثال کو آ پ دوسرے جرائم پر پھیلا لیں۔جو شخص روزہ اس لئے نہیں توڑتاکہ اس کو اضمحلال واقع ہو گا۔وہ شخص ٹریفک سنگنل کی حکم عدولی نہیں کریگاکیونکہ وہ سمجھےگا کہ اسلامی مملکت کے احکامات کی خلاف ورزی سے ذات انسانی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اسلامی مملکت میں معاشرہ کی اصلاح کا براہ راست تعلق ذات کی پرورش سے ہوتا ہے اسلامی نظام میں قرآنی احکامات سے سوسائٹی بہترین اصولوں پر قائم ہونا ہی مقصود بالذات نہیں ہوتا ۔بلکہ اس نظام کا مقصد انسان میں وہ سالمیت پیدا کرنا ہوتا ہے ۔جس سے انسانی ذات میں شرف انسانیت کی منازل طے کرکے ،اگلی زندگی حاصل کرنے کی استعداد پیدا ہوتی ہے۔

عقل انسانی نے اس وقت تک جتنے بھی نظام زندگی وضع کئے ہیں ۔ان میں حیوانی سطح زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔کسی نظام نے بھی انسانیت کے سطح پر مسائل کو پیش نظر رکھا ہی نہیں ہے۔اللہ تعالی نے دنیا کی تمام اشیاءکو کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیداکیا ہے۔اور ہر چیز کے اندر اس مقصد کو حاصل کرنے کی صلاحیت ودیعیت کر دی ہے(41-24) ایک چھوٹا سا بیج آہستہ آہستہ ترقی کرکے بہت بڑا تناور درخت بن جاتا ہے ،درخت کے بیج کا درخت بن جانا ،اس کا مقصد تخلیق ہے، یہی اس کی صلاحیت ہے دنیا کی ہر چیز کا اپنی مضمر صلاحیتوں کو بیدار کرنا، اس کا مقصد تخلیق ہے ۔قرآن کریم کی رو سے انسان کی زندگی کا مقصد اپنی ساری مضمر صلاحیتوں کو نشونما دینا ہے ۔اس میں ایک انسان کی حیوانی سطح کی زندگی ہے۔موجودہ دور کی تمام اچھی حکومتوں نے اس سطح زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی کو شش کی ہے ۔معاشی نظام اس طرح وضع کئے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رزق مہیا ہو سکے لیکن اسلامی نظام کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ واحد نظام ہے جس میں انسانی جسم اور انسانی ذات کی پرورش ،ان مستقل اقدار پر عمل کرنے سے ہوتی ہے،جو قرآن کریم نے عطا فرمائی ہیں ۔ان اقدار پر عمل کرنے سے انسان کی ذہنی ، فکری صلاحیتیں بخوبی بیدار ہو جاتی ہیں ۔اور اس طرح معاصرہ بھی ترقی کرتا ہے۔اور ایک عمدہ مثالی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔قرآن کریم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے متعلق ارشاد فرمایا۔

و یتلوا علیھم آیاتک و یعلمھم الکتاب والحکمۃ و یزکیھم (129-2) انہیں اس کتاب کی تعلیم دیتا ہے ۔ان قوانین پر عمل کرنے کے جو نتائج برآمد ہوں گے ، ان کو بیان کرتا ہے اور عملاً ایسا نظام متشکل کرتا ہے جسمیں لوگوں کی صلاحیتیں بیدار ہو جاتی ہیں اور ان کی ذات کی نشو نما ہو جاتی ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے مناصب کے متعلق دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے  کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم یتلو علیکم آیاتناو یزکیکم و یعلمکم الکتب و الحکمۃ (151-2) اسی مقصد کے لئے ہم نے تمہاری طرف اس رسول کو بھیجا۔یہ ہمارا پیغام تمہیں پہنچاتا ہے۔تمہیں قانون الہی اور ان پر عمل کرنے کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ایسا عملی نظام قائم کرتا ہے جس میں تمہاری ذات کی صلاحیتوں کی نشونما ہو جاتی ہے۔قرآن کریم نے ان صلاحیتوں کو نشونما دینے کا طریقہ بھی خود ہی بیان کیا ہے جبکہ ارشاد عالی ہوتا ہے الذی یوتی مالہ یتزکی (18-92) جو شخص اپنا مال و متاع دوسروں پر صرف کرتا ہے،اس کی تمام صلاحیتیں نشونما پا جاتی ہیں ۔اس کے علاوہ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے  قد افلح من تزکی ،وذکر اسم ربہ فصلی (15-14-87) ذکر کے لغوی معنی ہیں "ابھار کر کسی چیز کو اپنے سامنے رکھنا"۔صفات الہی کو اپنے سامنے بطور معیار کے رکھنا، پھر ان صفات کے پیچھے پیچھے چلنا،اللہ تعالی کی صفت ربوبیت کو ہر وقت سامنے رکھ کر ،اس ربوبیت الہی کو عا م کرنا تزکیہ نفس ہوتا ہے۔اور اسانی صلاحیتیں اس طرح بیدار ہوتی ہیں ۔

یہ  ایک حقیقت ہے کہ غربت و افلاس بھی انسان کو جرائم کا ارتکاب کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔جو ماں اپنے بچے کو جائز طریقہ سے کھانا نہیں کھلاتی وہ پھر باطل طریقوں سے اپنے بچے کے لئے رزق حاصل کرے گی۔امیر و غریب اللہ کی طرف سے نہیں بنتے ۔نہ کوئی امیر پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی غریب۔ہر ملک کا نظام لوگوں کو غریب و امیر بناتا ہے۔اگر تقسیم رزق درست طور پر ہوتی ہےتو کوئی غریب نہیں رہ سکتا۔باطل نظام کی خرابی یہ ہے ۔کہ اس باطل نظام میں جو کچھ بھی کسی کے ہاتھ میں آ جاتا ہے وہ اسے سمیٹ لیتا ہے۔قرآن کریم نے وعدہ فرمایا کہ اس کے جاری کردہ نظام میں ہر متنفس کے رزق کی ذمہ داری اللہ پر ہے (6-11) اس نظام میں کو ئی شخص بھوکا نہیں رہ سکتا۔سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے۔

وکاین من دابۃ لا تحمل رزقھا اللہ یرزقھاو ایاکم (60-29) خارجی کائنات میں انسان کے علاوہ اور بھی کروڑوں مخلوق ہیں جنہیں  رزق کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان سب کو اللہ کے قانون ربوبیت کے مطابق رزق مل رہا ہے۔(6-11) بیل ، بکری ، گائے کے سامنے پوری چراگاہ ہوتی ہے وہ صرف اپنا پیٹ بھر کر ،باقی پوری چراگاہ سے بے تعلق ہو جاتے  ہیں ۔فطرت کا یہ نظام وہاں چل رہا ہے۔وہ اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔قرآن کہتا ہے کہ جہاں انسان بھوکا رہتا ہے کہ وہ اپنی ضرورت تک محدود نہیں رہتا بلکہ باقی بھی اپنے پیٹ پر لاد کر چل دیتا ہے۔اور دوسرے لوگ اس رزق سے محروم ہو جاتے ہیں ۔اگر قرآن کریم کا نظام جاری ہو اور تمام شہری اپنی ضرورت کے مطابق پیٹ بھر کر ،باقی سمیٹ کر پیٹ پر نہ لادیں ۔تو یہ مسائل پیدا ہی نہ ہوں ۔اس لئے قرآن کریم نے فرمایا  یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو (219۔92)پوچھتے ہیں دوسروں کے لئے کیا خرچ کریں ،ان سے کہو جس قدر بھی تمہاری اپنی ضرورت سے زیادہ ہو ۔نیز اس بات کے لئے کہ لوگ اپنی کمائی دوسروں کے لئے کھلی رکھیں اس کے لئے قرآن کریم نے بہت بڑا  Initiative دیا ہے کہ  الذی یوتی مالہ یتزکی(18-92)  جو شخص اپنا مال دوسروں پر خرچ کریگا ۔اس کا تزکیہ نفس ہوگا۔ہر شخص دوسرے کی پرورش کرکے ، اپنی ذات کی پروارش کرتا ہے اور اس طرح اسلامی نظام میں کوئی بھوکا رہ ہی نہیں سکتا ۔کیوں کہ اگر اسلامی مملکت  کسی شہری کو رزق فراہم نہیں کرتی تو اس شہری سے اس مملکت کی اطاعت مرفوع ہو جاتی ہے۔مسند احمد میں ہے "جس بستی میں کسی شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ رات بھر بھوکا رہا۔اس بستی سے اللہ کی نگرانی اور حفاظت کا ذمہ ختم ہو گیا۔"اسلامی مملکت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ کسی کو یہ محسوس نہ ہونے دے کہ وہ تنہا یالاوارث ہے ۔ترمذی میں ہے کہ رسول پاکؐ نے فرمایا  کہ"جس کا کوئی سرست نہ ہو ،اس کا سرپرست" اللہ اور اس کا رسول "یعنی اسلامی نظام ہوتا ہے۔حضرت عمر  رضی اللہ عنہ نے  پرزور الفاظ میں فرمایا تھا  لو مات کلب علی شاطی الفرات جوعاً،لکان عمر مسئولاً عنہ یوم لقیٰمہ۔اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کی بھی باز پرس ہو گی۔

اسلامی مملکت اپنے وجود میں ساری دنیا میں امن کرنے کی داعی ہے ۔ہر مومن دنیا میں امن قائم کرنے کا ذمہ دار ہے۔دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے دو باتیں ضروری ہوتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ  یہ قوم خود امن میں رہے اور دوسروں کو تنگ نہ کرے ۔دوسرے یہ کہ جب دوسری اقوام قوت کے نشےمیں آکر دنیا کے  امن کو تباہ کریں  تو انہیں اس سے روکنا بھی ضروری ہوگا۔پہلے بدمست کو اپیل کی جائے گی ۔اس کو دلائل و براہن کے ذریعےجنگ سے روکا جائیگا لیکن اگر وہ قوم برابر ظلم و تعدی پر آمادہ ہی رہے تو پھر اس کے خلاف قوت کا استعمال کرنا جائز ہو گا۔اسلام میں جنگ کی اجازت صرف ظلم و زیادتی کو روکنے کے لئے ہے۔خواہ وہ ظلم و زیادتی کسی بھی جگہ ہو اور کسی کے خلاف بھی ہو۔اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی بھی کوئی تمیز نہیں ہے۔قرآن کریم میں جہاں مشرکین سے جنگ کرنے کے احکام آئے ہیں ان سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے زمانے میں موجود تھے۔ان کے خلاف بھی خالص حالات کے  ماتحت جنگ کی اجازت دی گئی تھی ۔آئندہ بھی اگر اس قسم کے حالات واقع ہو جائیں تو ظلم و جور کو روکنے کے لئے جنگ کی اجازت ہے لیکن اگر اس قسم کے حالات نہ ہوں تو جنگ کرنے کی قطعاً اجازت نہیں ہے  کیونکہ اسلام  تو صرف امن کا داعی ہے۔وہ ساری نوع انسانی کو امن کی راہ دکھاتا ہے ارشاد ہوتا ہے۔قد جاءکم من اللہ نورو کتٰب مبین ،یہدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل اسلام (16-15-5) اللہ کی طرف سے تمہارے پاس نور اور واضح کتاب آئی جو لوگ اس کی خوشنودی کی پیروی کرتے ہیں اللہ انہیں سلامتی کے راہوں کی ہدایت کرتا ہے۔قرآن کریم کا مقرر کردہ راستہ نوع انسانی کو اس منزل تک پہنچا دیتا ہےجسے دارالسلام یعنی امن و عافیت کا گہوارہ کہا جاتا ہے۔

لھم دارالسلم عند ربھم و ھو ولیھم بما کانو ا یعملون(127-6) ان لوگو ں کے لئے (جو قرآن کی مقرر کردہ راہ پر چلتے ہیں)ان کے پروردگار کے نزدیک سلامتی و عافیت کا گھر ہے اور ان کے اعمال حسنہ کی وجہ سے ان کا مددگار ہے۔

یہودیوں نے جس طرح نبوت کو نسل میں محدود کر رکھا تھااسی طرح ان کا قبلہ بیت المقدس بھی نسلی تھا۔اس کے برخلاف اسلام ایک عالمگیر دین ہے اس لئے اس کا مرکز (کعبہ )بھی نسلی ، قومی ، جغرافیائی حدود سے ما وراء عالمگیر مرکز ہے اسی لئے فرمایا  فیہ اٰ یت بینت مقام ابراھم ومن دخلہ کان اٰ مناً (97-3) یہ رہنمائی بڑی مبین اور واضح ہے ۔ یہ کعبہ وہ مرکز ہے جہاں سے ابراہیم کی امامت کا مقام بلند ہوا اور اس مرکز اور اس مرکز  سے جاری کردہ نظام کی یہ خصوصیت کہ جو شخص بھی اس نظام میں داخل ہو گیا جو کعبہ سے جارہی ہو رہا ہے وہ ہر طرح کی امن وسلامتی میں آگیا ۔اسلامی نظام میں امن کے علاوہ کسی بھی بدامنی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

مئی ، 2013  بشکریہ : صوت  الحق ، کراچی

URL for English article:

https://www.newageislam.com/ijtihad-rethinking-islam/islam-outlasts-all-man-made/d/11487

URL for this article:

https://newageislam.com/urdu-section/proofs-islam-ideal-religion-/d/11524

 

Loading..

Loading..