خورشید عالم
22اگست، 2009
21ویں صدی کی ٹکنا لوجی اور مواصلاتی انقلاب نے تعلیم اور پیشہ وارانہ تربیت کی اہمیت وافادیت کو جس طرح اجاگر کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خودحکومت ہند نے 60سال بعد 6سے 14سال تک کے بچو ں کو مفت اور لازمی تعلیم کابل پیش کرا نہیں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ ملک میں موجود اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی (اگنو) پہلے سے ہی تعلیمی فاصلے کو کم کرنے میں مصروف عمل ہے۔ اسی کے ساتھ اس نے ایک نئی پہل ‘آدرش کمیونٹی کالج’ کے نام سے شروع کی ہے تاکہ وہ نوجوان جو کسی وجہ سے تعلیم حاصل کرسکے یا انہوں نے اپنی تعلیم کو درمیان میں چھوڑ دیا ہے،اس کے ذریعہ انہیں مختلف پیشہ وارانہ کورسیز کی تربیت دی جائے جس سے وہ اس لائق ہوسکیں کہ بعد فراغت وہ پیشہ اختیار کر سماج میں ایک اچھے شہری کی طرح زندگی گزار سکیں۔ اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی نے ملک گیر سطح پر 100آدرش کمیونٹی کالج کھولنے کامنصوبہ بنایا ہے۔ اتر پردیش کے تاریخی قصبہ اور مردم خیر گنگوہ میں واقع شو بھت یونیورسیٹی نے اس مشن کو ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا ہے تاکہ نوجوان نسل کو ہنرمندی ،تعلیم عمل تربیت اور ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ذریعہ اوپر اٹھایا جائے جس سے نئی نسل ایمپاور ہو اور ملک کی تعمیر وترقی میں عملاً شریک ہو ۔ صورتحال یہ ہے کہ ملک کی قابل ذکر آبادی نئی نسل پر مبنی ہے جس کی عمر تقریباً 20۔24سال کے درمیان ہے، اس میں محض 5فیصدی کو باضاطہ وکیشنل ٹریننگ مل پاتی ہے جب کہ میٹرک پہنچنے سے پہلے 63فیصد طالب عالم اپنی پڑھائی کوالوادع کہہ دیتے ہیں ۔12.8ملین نوجوان ہر سال مارکیٹ میں بحیثیت دستکار اور محنت کش کے طور پر شامل ہورہے ہیں ۔ملک میں صرف 2.5ملین وکیشنل ٹریننگ سیٹیں ہی دستیاب ہیں۔ اسکول کی تعلیم درمیان میں چھوڑ نے والے لڑکوں کی ٹریننگ کے لئے بہت مختصر سیٹیں دستیاب ہیں۔ تقریباً 10ملین افراد کو مناسب ٹریننگ نہیں مل پاتی ہے اور 27ملین افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں ۔26فیصد افراد غریبی ریکھا سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اکیلے تکنیکی صلاحیت رکھنے والے تقریباً 5کروڑ محنت کشوں کی ضرورت ہے۔ آدرش کمیونٹی کالج کا مقصد یہ مانگ پوری کرنے اور محنت کشوں کو ایک نئی پہنچان دینے میں اہم رول ادا کرنے کا ہے۔
گذشتہ دنوں شوبھت یونیورسٹی کے آدرش کمیونٹی کالج کا افتتاح کرتے ہوئے سینئر رکن پارلیمنٹ آسکر فرنانڈیز نے اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بنیاد ی فوکس ان پیشوں کو جو غیر معروف ہیں اور جن کو باضابطہ تسلیم نہیں کیا گیا ہے، اس کےذریعہ ان پیشوں کو تسلیم کرنا اور ان کو پہچان دے کر سند عطا کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عصر حاضر میں اس چیلنج کا مقابلہ اکیلے حکومت نہیں کرسکتی ہے اس لئے اس نے پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر اس طرح کےکالج بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
3مرحلوں کے اس کورس میں 6ماہی سرٹیفیکٹ کورس کے علاوہ ایک سالہ اور دوسالہ ڈپلومہ کورس اور 3سالہ کورس پرمبنی ایسو سی ایٹ ڈگری پروگرام شامل ہیں۔ کسی بھی مخصو ص کورس کے پورا ہونے پر 6ماہی سرٹیفیکٹ اور ڈپلومہ دیا جائے گا۔ جب کہ دوسالہ پروگرام ان طالبہ کے لئے ہے جنہوں نے دسویں کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑدی ہے، یہ کورس ایسو سی ایٹ ڈگری پروگرام کے درمیانی فاصلے کو کم کرے گا جس کو کرنے کے بعد وہ ڈگری پروگرام میں داخلے کے حقدار ہوں گے۔ آدرش کمیونٹی کالج کے تحت پیرا انجینئرنگ ،پیرا میڈیکل ، کامرس اور اکاؤنٹس ،بزنس ،بینکنگ ،ریٹیل ،لیبارٹری تکنیک اور دیگر آفس امور کی مہارت کے علاوہ مارکیٹ کی ضرورت اور مانگ کو سامنے رکھ کر ایسے کورسیز تیار کیے گئے ہیں جنہیں کرنے کے بعد وہ جہاں نوکری کرنے کے اہل ہوں گے وہاں اپنا روزگار بھی خود شروع کرسکیں گے۔ اس لحاظ سے یہ اپنی طرح کا منفرد پروگرام ہے۔ جو دستکاروں اور محنت کشوں کا سماج میں ایک باعزت مقام عطا کرے گا۔ جس سے ان کے اندر خود اعتمادی اور تحفظ کا جذبہ پیدا ہوگا جو ان کے آگے بڑھنے کے راستے کو ہموار کرے گا۔
اگنو کے اشتراک سے شوبھت یونیورسٹی کے ذریعہ شروع کئے جارہے آدرش کمیونٹی کالج سے کیا مسلم بچے بھی مستفید ہوسکیں گے، جن کے بارے میں سچر کمیٹی کاکہنا ہے کہ ان کی تعلیمی اور سماجی صورت حال شیڈ ولڈ کاشٹ سے بھی بدتر ہے۔ تعلیم نہ ہونے کے سبب نوکریاں نہیں ہیں۔ جو روایتی پیشے ہیں ان میں تکنیکی استعمال نے جدید طرز کا بنادیا ہے لیکن مسلمانوں کی بڑی تعداد اور روایتی پیشوں کی سینہ بہ سینہ منتقلی کے سبب جدید تکنیک کا استعمال نہیں کرپارہی ہے۔اس لئے وہ یہاں بھی پچھڑ گئی ہے۔ اس کے جواب میں شوبھت یونیورسٹی کے پروچا نسلر کنور شیکھر وجیندر کہتے ہیں کہ ہم نے شوبھت یونیورسٹی کے میرٹھ کیمس کے بجائے گنگوہ کیمپس انتخاب کیا ہے کیونکہ گنگوہ سہارنپور ضلع میں رام پور روڈ سے تقریباً 150کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور اپنی گنگا جمنی تہذیب کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے ۔ پورے ہندوستان کی آزادی میں ملک کی رہنمائی کا یہ ایک اہم مرکز تھا بعد میں دارالعلوم دیوبند کی تحریک یہیں سے پروان چڑھی اور اب نئی نسل میں پیشہ وارانہ ہنر مندی او رمہارت کی عملی تربیت انہیں ایک نئے عہد میں داخل کرے گی۔ اس لحاظ سے آدرش کمیونٹی کالج کے دروازے مسلم بچوں کو خو ش آمدید کہتے ہیں کہ وہ یہاں آئیں اور اپنے مستقل کو سنواریں اور کیریئر کو بہتر بنائیں ۔ بچے چاہے جس مذہب سے تعلق رکھتے ہوں وہ اس ملک کا بیش قیمت اثاثہ ہیں اور اس اثاثہ کو غلط ہاتھوں میں پڑتے اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے بچانے کی ذمہ داری ہم سب پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے یہاں اس بات کی بھی سہولت رکھی ہے کہ وہ طالب علم جو مالی تنگی کے سبب داخلے کے وقت فیس ادا نہیں کر سکتے ہیں وہ بھی ہمارے یہاں فیس کے بغیر داخلہ لے کر اپنا کیرئیر بناسکتے ہیں اور نوکری حاصل کرنے کے بعد وہ اس کی فیس ادا کرسکتے ہیں۔
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/golden-chance-muslim-children-/d/1669