خورشید احمد
23 اکتوبر 2015
اسلام میں خاندان کے اندرونی نظم و نسق میں، ایک مرد کی حیثیت ایک قائد کی ہے اور وہ مجموعی طور پر خاندان کا سربراہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی کی اہم ذمہ داریاں خاندان کے خارجی معاملات میں ہیں۔
اس کا کام اقتصادی اور مادی طور پر خاندان کا تعاون کرنا ہے۔ اس کام پورے معاشرے، اس کی معیشت، اور پالیسی کے ساتھ خاندان کے تعلقات کا دھیان رکھنا، اور خاندان کے داخلی نظم و ضبط کے مطالبات کا بھی خیال رکھنا ہے۔
ایک عورت کی اہم ذمہ داریاں اس کے خاندان کے اندر ہی محدود ہیں۔ باہمی حقوق اور ذمہ داریوں کا ایک ایسا نظام تیار کیا گیا ہے کہ جس میں متوازن تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔
مسلم معاشرے میں روایتی ہندو سماج میں پائے جانے والے کسی مشترکہ خاندانی نظام کا کوئی تصور موجود نہیں ہے، جس میں، مثال کے طور پر، خاندان کے اقتصادی وسائل ایک بزنس یونٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہیں اور خاندان کے سربراہ کا ان پر حقیقی کنٹرول ہوتا ہے۔ ایک مسلم خاندان میں باہمی اقتصادی تعاون پایا جاتا ہے، ان کے یہاں کوئی مشترکہ اقتصادی تنظیم اور کنٹرول کا نظام نہیں پایا جاتا، سوائے اس خاندان کے جہاں اس کا اہتمام کیاجاتا ہو۔
قرآن کا فرمان ہے:
{مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں} (4:34)۔
{اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر، البتہ مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے} (2: 228)۔
یہ خاندان کے اندر مناسب تنظیم اور نظم و نسق کے مفاد میں ہے۔ حقوق میں مساوات ہے۔ اور ذمہ داریوں کی ایک حد ہے۔
مردوں کو خاندان کا سربراہ بنا دیا گیا ہے تاکہ نظم و ضبط کو برقرار رکھا جا سکے۔ مردوں اور عورتوں دونوں کو عدل و انصاف کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریوں کوپورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اکثر جنسی مساوات یا عدم مساوات کا سوال اٹھایا جاتا ہے۔ تاہم، یہ مسئلہ ایک مخصوص ثقافتی اور قانونی تناظر کی پیداوار ہے، اور اس کا اسلامی سیاق و سباق سے کوئی تعلق نہیں ہے، جس میں انسان کی حیثیت سے مردوں اور عورتوں کے درمیان مساوات کی تائید و توثیق اور اس کا قانونی طور پر تحفظ اللہ نے کیا ہے۔
ان کے کردار اور ذمہ داریوں میں تفاوت ہے اور تنظیموں اور اداروں کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے کچھ خاص انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی بنیاد جنسی برتری یا کمتری پر نہیں، بلکہ زندگی اور معاشرے کی ضروریات اور بنیادی حقائق پر ہے۔
ہر کردار اس کے اپنے حق میں بہت اہم ہے اور ہر شخص کا فیصلہ اس کے لئے مقرر کردہ ذمہ داریوں کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ ان کے کردار مقابلہ جاتی نہیں بلکہ تکمیلی ہیں۔
وراثت کے اعتبار سے
اس سلسلے میں وراثت کا اسلامی قانون مثبت اور سبق آموز ہے۔ مثال کے طور پر، ایک بیٹی کا حصہ ایک بیٹا کے حصے کا نصف ہے۔ اس سے بظاہر عدم مساوات ظاہر ہوتا ہے، لیکن جب مردوں اور عورتوں کے اقتصادی کردار اور ذمہ داریوں کے تناظر میں اس پر غور کیا جاتا ہے تب اس کا جواز ظاہر ہو جاتا ہے۔
کمانے اور خاندان کے افراد پر خرچ کرنے کی ذمہ داری مردوں پر ہے، جبکہ عورتوں کو جائیداد اور سرمایہ کاری کو اپنے نام پر رکھنے اور اس کی آمدنی کو اپنے پاس ہی رکھنے کا حق حاصل ہے۔
کردار اور شراکت میں اس فرق کی وجہ سے حصص کو بھی مختلف رکھا گیا ہے۔ لیکن جہاں مردوں اور عورتوں کو مخصوص اقتصادی اور سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ رشتہ داروں کی حیثیت کے بجائے محض مردوں اور عورتوں کی حیثیت سے وارث حاصل ہوتا ہے وہاں ان کے حصص مساوی ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، میت بیٹے بیٹیوں کی موجودگی میں میت کے باپ یا ماں کا حصہ، یا جو زندہ ہوں، یا اگر دونوں زندہ ہوں تو میت کی وارث سے ان کا حصہ برابر ہوگا۔
اگر دونوں والدین زندہ ہوں، تو والدین کو حاصل ہونے والی وراثت میں برابر کا حصہ حاصل ہوگا۔ ماں کا حصہ باپ کے حصے کا نصف نہیں ہے۔ ان دونوں کو برابر حصص حاصل ہوں گے۔ اخیافی بھائیوں اور بہنوں کے حصص بھی برابر ہیں۔
ماخذ:
goo.gl/zDjzAK
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/are-men-superior-women-islam/d/105039
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/are-men-superior-women-islam/d/105056