خورشید احمد فارق
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو تاکید کی تھی کہ بنو اَسَد اور غَطَفان ، نیز نواح مدینہ کے باغیوں سے فارغ ہوکر یمامہ کا رخ کر یں، خالد رضی اللہ عنہ نے ان پر فتح پائی تو کچھ باغی مدینہ نکل بھاگے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ ہم سے بیعت لیجئے اور ہمیں امان دیجئے ، انہوں نے کہا : مجھ سے تمہاری بیعت اور تمہارے لئے میری امان یہ ہے کہ تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج سے جاملو، خالد رضی اللہ عنہ جس جس کےبارے میں لکھیں گے کہ اس نے جنگ یمامہ میں شرکت کی، اس پر کوئی آنچ نہ آئے گی اور وہ اسلام کی امان میں رہے گا ، جو حاضر ہیں وہ غیر حاضروں کو یہ خبر پہنچا دیں، میرے پاس مت آؤ خالد رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ’’۔ابو بکر بن ابی جَہم 1؎ کہتے ہیں (1؎ متن میں : ابوبکر بن جَہم ، نام صُخَیر تھا، تابعی ، فقیہ و محدث ۔ تہذیب التہذیب ابن حجر 12/26) کہ نواحِ مدینہ سےجو عرب خالد رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ضم ہوئے یہ وہی لوگ تھے جو جنگ یمامہ میں تین بار پسپا ہوئے اورمسلمانوں کو مصیبت میں ڈالا۔
شریک 2؎ فزاری : (2؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 2 صفحۃ) میں عُیَینہ بن حِصن ( فزاری کی طرف سے جنگ بزُاخہ میں شریک تھا ، پھر توفیق ایزدی میرے شامل حال ہوئی اور میں مسلمان ہوکر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، انہوں نے مجھے حکم دیا کہ خالد رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤں او رایک خط دیا جس کا مضمون تھا :۔
‘‘ واضح ہوکہ تمہارا ایلچی خط لے کر آیا، جس میں تم نے بزُخہ میں خدا کی عنایت کردہ فتح اور اَسَد و غَطَفان کی سرکوبی کا ذکر کیا ہے او رلکھا ہے کہ اب تم یمامہ کی طرف پیش قدمی کررہے ہو جیسا کہ میں نے تم کو ہدایت کی ہے، اللہ وحدہ لاشریک لہ سے ڈرتے رہو ، اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ باپ کی طرح لطف و محبت سے پیش آؤ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، بنو مُعیرہ 3؎ (3؎ خالد رضی اللہ عنہ کے دادا) کی تمکنت سے بچتے رہنا ہیں ، میں نے تمہیں سالار بنا کر اس شخص کی بات ٹال دی ہے جس کی بات کبھی نہیں ٹالی 4؎ ( 4؎ یہ صحیح نہیں ، ابوبکر صدیق اگر مصلحت ہوتی تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے مسترد کردیتے تھے، ابوبکر کی تاریخ میں اس کی کافی مثالیں موجود ہیں، اس کتاب میں بھی دو تین پہلے آچکی ہیں اور کئی آگے آئیں گی۔) ( یعنی عمر بن خطاب) جب بنو حنیفہ کے پاس پہنچو تو تدبر سے کام لینا، تم اب تک اُن جیسے دشمن سے مقابل نہیں ہوئے ہو کیونکہ اُن کا کل قبیلہ ازاول تاآخر تمہارے خلاف ہے اور اُن کا علاقہ بڑا بھی بہت ہے ، جب تم وہاں پہنچو تو سارے معاملات کا انتظام خود کرنا، اپنے میمنہ ، میسرہ اور رسالوں پر مخلص افسر مقرر کرنا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ممتاز صحابہ سے مشورہ کرنا اور ان کو جو فضیلت حاصل ہے اس کے عملاً معترف رہنا جب بنو حنیفہ صفیں درست کر کے لڑنے کے لئے آمادہ ہوں تو جیسے وہ لڑیں اسی طرح تم لڑنا: اگر وہ تیر چلائیں تم بھی تیر چلانا ، اگر وہ نیزہ بازی کریں تو تم بھی نیزہ بازی کرنا اور جب وہ تلوار سے لڑیں جس کے معنی ہیں یقینی موت تو تم بھی تلوار سے لڑنا، اگر خدا تم کو فتح عطا کرے تو خبردار ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ نہ کرنا، ان کے زخمیوں کا کام تمام کرنا، ان میں سے بھاگ جائیں ان کا تعاقت کرنا اور جو تمہارے ہاتھ آجائیں ان کو قتل کردینا اور آگ میں جلا دینا ، میری ان ہدایات کی خلاف ورزی نہ ہو والسلام علیک ۔’’ یہ خط پڑھ کر خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : سمعاً و طاعۃً ( تعمیل حکم کروں گا)
اہل یمامہ کو جب معلوم ہواکہ خالد رضی اللہ عنہ ان جیسے باغیوں کی سرکوبی کرکے، دھاوے مارتے ان کی طرف بڑھے چلے آرہے ہیں تو وہ سٹ پٹا گئے ، ان کا سردار مُحکم 1؎ بن طفیل بھی گھبرا گیا ، ( مُسیلمہ کادستِ راست اور وزیر) اس نے سوچا مسلمان ہوجاؤں تو بہتر ہے، وہ رات بھر بستر پر کروٹیں بدلتا رہا اور یہ شعر کہے :۔
أری الرکبانَ تُخبر ماکرِ ھنا أُکُلّ الرَّکبِ یکذب ما بقول
مسافر ہمیں بُری خبریں لاکر سناتے ہیں کیا سب مسافر جھوٹ بولتے ہیں
ألا، لالیس کلھم کذ و باً وقد کذبوا و کذبھر قلیل
نہیں سب جھوٹ نہیں بولتے کبھی کوئی تھوڑا سا جھوٹ بول دیتا ہے
وقد صد قوا’ لھم منا و منھم لنا أن حار بُوا یوم طویل
انہوں نے سچ کہا ہماری ان سے اور ان کی ہم سی اگرو ہ لڑے تو، بڑی سخت اور لمبی لڑائی ہوگی ۔
فقل لا بن الولید و للمنا یا علی الَّرَّاء و الضَّرَّا دلیل
خالد سے پوچھو ۔ اور موت تو بہر حال آکر رہے گی مصیبت ہو یا عافیت
أ یقطع بیننا حبلا و صال فلیس إ لیھما أبداً سبیل
کیا دوستی کا رشتہ توڑنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہو تو پھر کبھی دوستی قائم نہ ہوسکے گی
یہ اشعار سن کر بنو حنیفہ نے سمجھ لیا کہ محکم آپنی گمراہی پر قائم ہے ، مُسیلمہ کو بھی اطمینان ہوا، مُحکم یمامہ کا بار سوخ لیڈر تھا اور صحابی زیاد بن لَبید انصاری کادوست ، خالد رضی اللہ عنہ نے راستہ میں زیادہ سے کہا کہ تم مُحکم کو کوئی ایسی بات کہلا بھیجو جس سے اس کا حوصلہ پست ہو، زیاد رضی اللہ عنہ نے ایک سواء کے معرفت مُحکم کو یہ شعر بھیجے ، اور ایک قول ہے کہ مدینہ سے حسان بن ثابت یہ شعر لے کر گئے تھے :۔
یا مُحکم بن طُفیل قد أ یِتحَ لکم للہ درُّ أ بیکم حَیَّۃُ الوادی
مُحکم بن طفیل کیا کہنا تمہارے باپ کا تمہیں کیا وادی کا سانپ ( مراد خالد) عطا کیا گیا
یا محکم بن طُفیل إنکم نفر کالشاء أسلمھا الراعی لأساد
مُحکم بن طفیل تم لوگ اُن بکریوں کی طرح ہو جنہیں گڈریئے نے بھیڑیوں کے حوالہ کردیا ہو
مافی مُسیلمۃ الکذاب من عوض من دار قوم و إخوان رأ ولاد
کیا تم کو مُسیلمہ کذاب سے بہتر کوئی لیڈر اپنی قوم، اولاد اور دوستوں میں نہیں ملا ؟
فاکفُفْ حنیفۃَ عنہ قبل نائحۃ تنِعی نوارس شاج شجو ھا باد
بنو حنیفہ کو مسیلمہ کی تابعداری سے روک لو قبل اس کے کہ رونے والی تمہارے سواروں کا غم انگیز ماتم کرے۔
ویلُ الیما مۃ ویلاً لا فراقَ لہ إن جالت الخَیل فیھا بالقنا الصاد
یمامہ پر ایک مستقل تباہی آئے گی اگر خالد کے سوار پیاسے نیزے لئے وہاں گھس پڑے
واللہ لا تنثنی عنکم أعِنَّتھُا حتّٰی تکونو ا کأ ھل الحِجر 1؎ أوعاد ( 1؎ وادی القریٰ کے پاس مغرب میں ثمود کی بستیاں۔)
بخدا یہ سوار اس وقت تک تمہارے سامنے سے اپنے گھوڑے نہ ہٹائیں گے جب تک تم عاد دثمود کی طرح تباہ نہ ہوجاؤ گے۔
ایک طرف یہ اشعار مُحکم بن طفیل کو موصول ہوئے اور دوسری طرف اس کو یہ خبر ملی کہ خالد بن ولید فوج لئے آرہے ہیں، مُحکم نے کہا : ‘‘ خالد کچھ چاہتے ہیں اور ہم کچھ اور ( صلح اور عافیت) خالد رضی اللہ عنہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ بنو حنیفہ میں ایسے مخلص اور جاں نثار لوگ موجود ہیں جن کو مُسیلمہ نے اپنا شریک و معتمد بنا لیا ہے اگر خالد رضی اللہ عنہ یہاں آئے تو وہ دیکھ لیں گے ان کے سامنے ان لوگوں سے مختلف لوگ ہیں جن سے اب تک ان کا سابقہ پڑا ہے، اُس نے اہل یمامہ کے سامنے ایک تقریر کی جس میں کہا : ‘‘ آپ کا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو اپنے لیڈر پر جان نثار کرتے ہیں، آپ بھی اپنے لیڈر پر جان نثار کر دیجئے ، اَسَد غَطَفا ن کی طرف خالد رضی اللہ عنہ نے تلوار کا اشارہ کیا تو وہ بدکنے شتر مرغ کی طرح سرپٹ بھاگ گئے ( آپ کو یہ بھی یاد رہے کہ ) بُزاخہ طُلیحہ کی فوج کو شکست دےکر خالد رضی اللہ عنہ نے شان سے کہا تھا ‘‘ بنو حنیفہ ان سے کچھ زیادہ سورما نہیں ہیں ۔’’
عُمیر بن ضابی یشکرُ ی خالد رضی اللہ عنہ کے دوستوں او ریمامہ کے سادات میں سے تھا اس کا تعلق حَجر ا صدر مقام یمامہ، سے نہیں بلکہ مَلہم 1؎ سے تھا (1؎ متن میں تحلحم بقاف متناۃ، مَلہم یمامہ کا ایک گاؤں تھا ۔ معجم البلدان 8/ 155) جو بنو یشکُر کا ایک نخلستان تھا، خالد رضی اللہ عنہ نے عُمیر سے کہا : ‘‘ اپنی قوم کے پاس جاؤ اور ان کو ایسی خبریں سُناؤ جن سے اُن کے حوصلے پست ہوں ۔’’ عُمیر یمامہ آیا ، بنو حنیفہ کو اس بات کا علم نہ تھا کہ وہ مسلمان ہوگیا ہے، وہ عمدہ سوار، مستعد اور بار سوخ آدمی تھا، اس نے کہا : صاحبو: مہاجرین و انصار کے ایک لشکر کے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ تمہارے سر پر آپہنچے ہیں، وہ یمامہ فتح کرنے بڑھے چلے آرہے ہیں ، اَسَد ، غَطَفان اور عُلیا ہَوا زِن 2؎ (2؎ عُلیان ہوازن سے یہ قبیلے مراد ہیں، جُشم بن بکر ، سعد بن بکر، نصر بن معاویہ اور ثقف مر ہر سُیوطی مصر 1/127) کو ٹھکانے لگا چکے اب تم اُن کے چنگل میں ہو، اُن کا نعرہ ہے : لاحول و لاقوۃ الاباللہ ، وہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر تم صبر کے ذریعہ ان پر غلبہ چاہو تو وہ موت کی لگن سے تم کو مسخر کر لیں گے ، اور اگر تم کثرت فوج سے ان کو ہرانا چاہو تو وہ خداوندی مدد سے تم پر فتح یاب ہوجائیں گے، تمہاری اور مسلمانوں کی حالت یکساں نہیں، اسلام سر بلند ہورہا ہے ،شرک سرنگوں، ان کا لیڈر نبی ہے، تمہارا کذّاب ، ان کے دل فتح کی سچی خوشی سے مسرور ہیں، تم دھوکہ میں مبتلا ہو، اس وقت جب ان کی تلوار نیام میں اور ان کا تیر ترکش میں ہے، تمہارے لئے سرکشی اور اسلام کی بغاوت کے باز آنے کاموقع ہے، میں مسلمانوں کی اس فوج میں دس روز رہ کر آرہاہوں جو دھاوے مارتی تمہاری طرف چلی آرہی ہے :’’
بنو حنیفہ نے عُمیر کی بات نہ مانی اور اس پر جاسوسی کا الزام لگایا، عُمیر چلا گیا۔ اب تمامہ بن اُثال حنفی نے عام جلسہ میں تقریر کی او رکہا : ‘‘ صاحبو! میری باتیں گوش ہوش سے سنو اور ان پر عمل کرو، اس میں تمہارا ہی بھلا ہے، دو بنی ایک مشن میں شریک نہیں ہوا کرتے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بنی نہیں ہے،اور خدانے ان کے ساتھ کوئی دوسرا نبی بنا کر بھی نہیں بھیجا ہے ۔’’ تمامہ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت کی : حٰم تنزیل الکتاب من اللہ العزیزالحکیم غافرالذنب قابل التوب شدید العقاب لا إلہ إلاھو إلیہ المصیر کہا یہ خدا کا کلام ہے ، اس سے مُسیلمہ کے اس کلام کا مقابلہ کیجئے : یا ِضِفدعٔ نِقّی کم تَنِقِّین لا الشربَ متغین ولا الماء تکدرین 1؎ (1؎ اسے مینڈ کی ٹرّائے جا تو کتنا میدہ ٹرّاتی ہے لیکن تو پانی گدلا نہیں کرتی اور نہ پانی پینے سے کسی کو روکتی ہے) کتنا بے تکا ہے یہ کلام ، ایک قصہ سنو جس سے محمد کے استحقاق نبوت کی تائید ہوتی ہے 2؎ (2؎ یہاں متن کی عبارت بقدر ایک جملہ کے محرف ہے، اس لئے یہ ترجمہ اندازہ سے کیا گیا ہے۔) وہ میرے پاس سے گزرے میں اپنے مذہب پر تھا، میں نے ان کو قتل کرنا چاہا تو عُمیر ( بن ضابی یشکری) آڑے آئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا خون ہدر کردیا، میں عمامہ لپیٹ کر نکلا اور جب مدینہ کے نواح میں پہنچا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آدمیوں نے مجھے گرفتار کرلیا، لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے معاف کردیا، میں مسلمان ہوگیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حج کی اجازت دی ، میں نے کہا : ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو قُشیر نے میرے والد اُثال کو اسلام سے پہلے مار ڈالا تھا ۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان کا انتقام لینے کی اجازت دی ، میں نے بنو قُشیر پر چھاپہ مارا اور مالِ غنیمت کا خمس ( پانچواں حصہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ، رسول اللہ کا جب انتقال ہوا تو ایک ایسا شخص ان کا جانشین ہوا جو سارے مسلمانوں سے زیادہ دین کی بصیرت رکھتا ہے اور جو اسلام کے اصول نافذ کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتا، اس جانشین نے تمہارے پاس ایک شخص بھیجا ہے جو نہ تو اپنے نام سے مشہور ہے نہ اپنے باپ کے ، بلکہ سیف اللہ کے لقب سے یاد کیا جاتاہے، اس کے ساتھ بہت سی خدائی تلواریں ہیں حضرات ، خوب غور و فکر کر لیجئے ’’۔ بنو حنیفہ نے ثُمامہ کو آڑے ہاتھوں لیا، ثمامہ نے یہ شعر کہے:۔
مُسیلمہ إ رجع و لا تمحَکِ فَأ نک فی الأمر لم تُشرک
مُسیلمہ راہ راست پر آجاؤ، لڑو جھگڑو مت کیونکہ تم کو نبوت یا خلافت میں ( محمد کے ساتھ) شریک نہیں کیا گیا ہے۔
کذبتَ علی اللہ فی وحیہ فکان ھواک ھوا لأ توک
وحی کا دعویٰ کرکے تم نے خدا پر بہتان تراشا ہے تمہاری آرزو ئیں بڑی احمقا نہ ہیں
وَمَنَّاک قَو مُک أن یمنعوک وإن یأ تھم خالد تُترک
تمہاری قوم نے تمہیں سبز باغ دکھایا ہے کہ تمہاری مدد کرے گی حالانکہ اگر خالد آگئے تو وہ تم کو چھوڑ کر چلی جائے گی۔
فھالک من مَصعد فی السماء و لالک فی الأرض من مسلک
اس وقت نہ تو تم آسمان پر چڑھ سکو گے اور نہ زمین پر کہیں تمہارا ٹھکانہ ہوگا ۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-9/d/98451