خورشید احمد فارق
مسلمہ اور اہل یمامہ کے ارتداد کا ذکر
رافعِ بن خد یج2؎ : (2؎ انصاری احدی صحابی متوفی 73 ھ تہذیب التہذیب ابن حجر، حیدر آباد ، ہند3/229) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جو عرب قبیلے آئے ان میں سب سے زیادہ سخت دل اور سب سے کم اسلام سے متاثر ہونے والا قبیلہ بنو حنیفہ کا تھا، مسیلمہ کے وفد کا حال پہلے ( ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) میں گزر چکا ہے ، جب وفد کے ارکان نے بتایا کہ ہم نے مسیلمہ کو اپنے خیموں کی نگرانی کےلئے پیچھے چھوڑ دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ‘‘ وہ مرتبہ میں تم سے کم نہیں ہے 3؎ ’’ ۔ ( 3؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کے ارکان کو عطیے دیئے تو ایک عطیہ یہ مسیلمہ کے لئے بھی نامزد کیا اور وفد کو مخاطب کر کے کہا : اس کا مرتبہ تم سے کچھ کم نہیں ہے۔ سیرۃ النبی ابن ہشام لائڈن 1867)ابن عباس راوی ہیں کہ جب مسیلمہ اپنی قوم ( بنو حنیفہ) کے ساتھ رسول اللہ کے پاس آیا تو ا سنے کہا : ‘‘ اگر محمد اپنے بعد خلافت مجھے دے دیں تو میں ان کے کہنے پر چلوں ’’۔ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا ، ثابت بن قیس 4؎ (4؎ انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب ، جب عرب وفد آتے اور ان کے لیڈر تقریریں کرتے تو ثابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان کا جواب دیا کرتے ۔) ان کے پاس تھے اور ان کے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ) ہاتھ میں کھجور کی ایک لکڑی تھی، مسیلمہ پاس آکر کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اگر تم آگےبڑھے تو تم پر خدا کی مار پڑیگی اورپیچھے ہٹے تو خدا تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادے گا ، میں تم کو ویسا ہی پا رہا ہوں جیسا میں نے تم کو ( خواب میں) دیکھا تھا ، اگر تم مجھ سے کھجور کی یہ لکڑی بھی مانگو تو میں نہ دوں اور یہ ثابت رضی اللہ عنہ تمہارے سوالات کا جواب دیں گے۔’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا مفہوم پوچھا : ‘‘ میں تم کو ویسا ہی پارہا ہوں جیسا تم کو دیکھا تھا ’’۔ تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو سونے کے کڑے میرے ہاتھ میں ہیں ، میں نے اُن پر پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے، اُن میں سے ایک یمامہ میں گرا اور دوسرا یمن میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اس خواب کی تعبیر کیا ہے تو انہوں نے کہا : ‘‘ کچھ دن بعد دو جھوٹے نبوت کا دعویٰ کریں گے’’۔ ( یمن میں اسود عَنسی اور یمامہ میں مُسیلمہ)
‘‘ مسیلمہ1؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے محمد رسول اللہ کے نام، مجھے تمہارے ساتھ نبوت میں شریک کیا گیا ہے، (خدا کی طرف سے) آدھی زمین میری ہے اور آدھی قریش کی ، لیکن قریش حق مار لوگ ہیں ’’( 1؎ نانحون کا تصرف ہے ، اس نے یقیناً مسلمہ بن حبیب لکھا ہوگا)
مُسیلمہ کے دو سفیر یہ خط لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، خط پڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا : خط کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔’’ تو وہ بولے : ‘‘ جو مسیلمہ کی رائے وہی ہماری رائے ’’، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : اگر سفیروں کو مارنا روا ہوتا تو میں تم کو قتل کردیتا ۔’’ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کو یہ جواب لکھوایا :۔
‘‘ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ محمد رسول اللہ کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو واضح ہو کہ زمین کا مالک خدا ہے، وہ جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور آخرت کی سُرخروئی خدا ترسوں کا حق ہے۔’’
ابن اسحاق : یہ 10 ھ کے آخر کا واقعہ ہے، دوسرے مورخ کہتے ہیں کہ قصہ اس وقت کا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃَّ الوَداع ( آخری حج) کرکے لوٹے او رمرض موت میں مبتلا ہوئے ، واللہ تعالیٰ اعلم۔
رسول اللہ کے بعد دشمن خدا کی گمراہی اور بڑھی اور اس گمراہی میں چند اہل خرِ و کو چھوڑ کر سارے بنو حنیفہ نے اس کا ساتھ دیا۔ ان کےلئے رَجَّال بن عُنفُوہ 1؎ ( 1؎ متن میں رَجَّال بحا ، مہملہ ہے یمامہ کے وفد میں مدینہ آیا تھا بعد میں اسلام سے منحرف ہوکر مسیلمہ کا دست راست بن گیا تھا، جنگ یمامہ میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا ) کی یہ شہادت سب سے بڑا فتنہ ثابت ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مُسیلمہ کو خلافت میں شریک کرلیا ہے ، رَجَّال کا قصہ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، قرآن پڑھا او رنسبت سے واقفیت حاصل کی، ( عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہ : ہماری نظر میں وہ سارے وفد سے افضل تھا ، اس نے سورہ بقرہ اور آل عمران پڑھی اور اُبیَّ ( بن کعب) کے پاس تلاوت کے لئے جاتا تھا ، وہ لوٹ کر یمامہ گیا اور اس بات کی جھوٹی شہادت دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ کو خلافت میں شریک کرلیا ہے، رَجَّال راست بازی اور حق گوئی کے لئے مشہور تھا اس لئے اس کی یہ گواہی بنو حنیفہ کے لئے سب سے بڑا فتنہ ثابت ہوئی ۔’’
رافع بن خُدیج 2؎: ( 2؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 2 صفحہ 67) رجَّال کا خضوع و خشوع ، پابندی سے قرآن خوانی اور صلاح پسندی جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا ، ایک دن رسول اللہ ہمارے پاس آئے رَجَّال چند لوگوں کے ساتھ ہمارے پاس بیٹھا تھا، انہوں نے کہا : ‘‘ اس گروہ کا ایک فرد دوزخی ہے’’۔میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو میرے سامنے ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ، ابو اُردَی دَوسی 1؎ ، ( 1؎ صحابی، امیر معاویہ کی خلافت کے آخری ایام میں وفات پائی، اِصابہ 4/5) طُفیل بن عمر دَوسی 2؎ (2؎ صحابی جنگ یمامہ او ربقول بعض پرَ مُوک ( شام ) میں مارے گئے ۔ اصابہ 2/225) اور رَجَّال بن عُنفُوہ، یہ چار آدمی تھے، میں سب کو حیرت سے دیکھتا اور دل میں کہتا : ‘‘ کون ہے یہ بد نصیب ؟ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بنو حنیفہ مرتد ہوگئے تو میں رَجّال کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ بھی گمراہ ہوگیا ، اور یہ کہ اُس نے مُسیلمہ کے حق میں شہادت دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اس کو خلافت میں شریک بنا لیا ہے ،یہ سن کر میں نے کہا : ‘‘ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک کہا تھا ( کہ اس جماعت کا ایک دوزخی ہے)’ لوگوں نے رَجَّال کو کہتے سنا : دو مینڈھے لڑرہے ہیں ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم او رمسیلمہ) ان میں ہمیں اپنا مینڈھا زیادہ پسند ہے’’۔
ابن یَشکرُی 3؎ ( 3؎ عَمیر بن ضابیٔ یَشکری ) یمامہ کا ایک معززوجیہ تھا، وہ مرتد نہیں ہوا ( لیکن بدلے ہوئے حالات میں ) اس کو اپنا اسلام مخفی رکھنا پڑا ، وہ رَجَّال کا دوست بھی تھا، اس نے ذیل کے شعر کہے جن کا یمامہ میں خوب چرچا ہوا، حتیٰ کہ عورت، کنیز، بچہ سب کی زبان پر تھے :۔
یا سْعا دَ الفُوْاد بنت اُثال طال لیلی بفتنۃ الرَّجّال
سعاد بنت اُثال 4؎ میرے دل کی ملکہ رَجَّال کے فتنہ سے میری راتیں دراز ہوگئیں
(4؎ غالباً بنو حنیفہ کا رئیس اثال بن سلمہ مراد ہے)
إنھا یا سُعادُمن فتنۃ الدھر علیکم ، کفتنۃ الدَّجَّال
سعادیہ فتنہ تمہارے لئے ایک بڑا فتنہ ہے دجَّال کے فتنہ کی طرح
فَتَن القوم َ بالشھادۃ واللہ عزیز ذو قُوۃ و مِحال
اُس نے قوم کو اپنی شہادت 1؎ سے گمراہ کیا لیکن خدا طاقتور اور بڑا با تدبیر ہے
( 1؎ اس بات کی شہادت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت میں مسیلمہ کو شریک کرلیا ہے)
إن دینی دین النبی وفی القو م رجال علی الھدی اًمثال
بلا شبہ میرا دین وہی ہے جو محمد بنی کا ہے اور بنو حنیفہ میں مجھ جیسے کافی مسلمان موجو د ہیں
اھلک القومَ محکَم بن طُفیل ورجال لیسوا لنا برجال
مُحکم بن طُفیل نے بنو حنیفہ کو تباہ کردیا اور ایسے لیڈوں نے جو ہمارے لیڈر نہیں
بزَّ ھم أمرَّھم مسیما مۃُ الیو مَ فلن یر جعوہ أخری اللَّیال
مسیلمہ نے ان کا اقتدار اور رسوخ چھین لیا اور وہ کبھی اس کو واپس نہ لے سکیں گے
إن تکن میتتی علی فطرۃ اللہ حنیفا فأ ننی لا أبال
اگر میں فطرۃ اللہ پہر ایک حنیف مسلمان کی طرح مروں تو مجھے موت کا کوئی خوف نہیں
ان اشعار کا علم جب مسیلمہ ، مُحکم اور یمامہ کے اکابر کو ہوا تو انہوں نے ابن یَشکُری کو گرفتار کرنا چاہا لیکن وہ بھاگ گیا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے ولید جا ملا اور ان کو یمامہ کی صورت حال اور بنو حنیفہ کی کمزوریوں سے مطلع کیا ۔
مورخ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک حَنَفی کو جو کافی عرصہ ان کی صحبت سے مستفید ہوکر مخلص مسلمان ہوگیا تھا مسیلمہ کو مدینہ لانے کے لئے یمامہ بھیجا ، یہ شخص کہتا تھا کہ اگر مسیلمہ نے کسی کی بات نہ مانی تو میری ضرور مانے گا ، وہ یمامہ جاکر مسیلمہ سے ملا اور کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم سے ملاقات کے خواہشمند ہیں، اگر تم مدینہ گئے تو خوش خوش لوٹ کر آؤگے ، حنفی نے تالیف قلب کے لئے خوب چکنی چپڑی باتیں کیں ، وہ مُسیلمہ سے تنہائی میں ملا کرتا اور اس کو مدینہ چلنے کی ترغیب دیتا ، جب وہ زیادہ پیچھے پڑا تو مسیلمہ نے کہا : میں سوچ سمجھ لوں، اس کے بعد اس نے رَجَّال بن عُنفُوہ اور دوسرے مشیروں سے صلاح کی تو سب نے جانے سے منع کیا او رکہا : ‘‘ اگر تم گئے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو مار ڈالیں گے ، تم نے ان کی باتیں نہیں سنیں ؟’’ مسیلمہ نے روسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خود جانے سے انکار کردیا لیکن اس کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کے لئے اپنے دو معتمد بھیج دیئے ، یہ دونوں آئے تو ایک نے کلمہ شہادت پڑھا اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ( اشہد أنَ محمداً عبدُہ و رسولہ)اور جو باتیں کرناتھیں کیں، جب وہ فارغ ہوا تو دوسرے نے کلمۂ شہادت پڑھا اور اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ مسیلمہ کا نام بھی لیا ( اشہد أن محمداً و مسلمۃ رسولا اللہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ‘‘ تو جھوٹا ہے ، مُسیلمہ رسول نہیں اس کو پکڑ کر قتل کردو ، صحابہ اس کی طرف لپکے اور اس کاکالر پکڑ کر گھسیٹنے لگے، اس کے ساتھی نے اس کے تہبند کی گانٹھ پکڑ لی او رکہنے لگا: ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان اس کو معاف کردیجئے ۔’’ صحابہ نے جب اس کو چھوڑ ا تو اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیا، وہ اور اس کا ساتھی دونو ں مسلمان ہوگئے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد وہ اپنے بال بچوں کے پاس یمامہ چلے گئے ( اور حیرت کی بات یہ ہے) کہ جس نے غلط کلمۂ شہادت پڑھنے والے کا تہبند پکڑا تھا وہ فتنہ میں مبتلا ہوا اور مسیلمہ کے ساتھ لڑتا ہوا مارا گیا اور وہ جس کا تہبند پکڑا گیا تھا اسلام پر قائم رہا اور خالد رضی اللہ عنہ کو بنو حنیفہ کی خامیاں اور فوجی راز بتایا کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیر نے جسے انہوں نے مسیلمہ کے پاس بھیجا تھا، ان کو اپنی چکنی چپڑی باتوں کا حال بتایا او ریہ کہ اگر رَجَّال اس کو نہ روکتا تو وہ آنے کے لئے تیار ہوگیا تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : ‘‘ خدا مسیلمہ کو قتل کرے گا اور اس کے ساتھ رَجَّال کو بھی ۔’’ خدا نے ایسا ہی کیا اور ان دونوں کے بارے میں رسول اللہ کی پیشنگوئی پوری کر دکھائی۔
مسیلمہ نے اپنی گمراہی اور خدا پر بہتان تراشی میں سَجاح کی گمراہی بھی شامل کرلی، وہ بنو تمیم کی ایک عورت تھی، اس کے قبیلہ نے اس کو نبی مان لیا تھا، اس نے وحی کا دعویٰ کیا، ایک مؤذن اور حاجب ( داروغہ در) مقرر کیا اور ( تقریر کے لئے) ایک منبر بھی بنوایا ، اس کے ہم قوم جب جمع ہوتے تو کہتے : ‘’سیاست و حکومت ان لوگوں کا حق ہے جو سجاح کے رشتہ دار ہوں ۔’’ عُطارِ و بن حاجب بن زُرارہ:
اْصحبت نبیتنا أنثی نطیف بھا و أصَبحَت أنَبیاء الناس ذُکرانا
لوگوں کے نبی مرد ہوتے ہیں لیکن ہمارا نبی عورت ہے جس کی خدمت میں ہم حاضر رہتے ہیں
مدعی نبوت بننے کے کچھ عرصہ بعد سجاح مسیلمہ نے لڑنے نکلی اور اپنے ساتھ ان تمیمیوں کو بھی لے لیا جو اس کے ہم خیال تھے اور جن کی رائے تھی کہ سَجاح ، مسیلمہ کی نسبت نبوت کی زیادہ اہل ہے، جب سجاح مسیلمہ کے پاس آئی تو مسیلمہ اس سے تنہائی میں ملا اورکہنے لگا آؤ نبوت کے متعلق تنہائی میں باہم گفتگو کرلیں اور دیکھیں ہم دونوں میں نبوت کا زیادہ اہل کون ہے، اس کے بعد مورخوں نے مسیلمہ کی سَجاح کے ساتھ ایسی باتیں بیان کی ہیں جو قلم انداز کرنے کے قابل ہیں 1؎ (1؎ ان سے جنسی گفتگو مراد ہے جو مسیلمہ کی سجاح سے ہم بستری پر منہتی ہوئی ۔ دیکھئے تاریخ الامم طبری 4/ 239)
ایک روایت ہے کہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے باغیوں کی گو شمالی کی تو سَجاح یہ سوچ کر کہ عربوں میں مسیلمہ سب سے زیادہ طاقتور سردار اور یمامہ سب سے محفوظ جگہ ہے، اس کے پاس پناہ لینے آئی، اس نے اپنے مؤذن شَبَث بن رِبعی کو ہدایت کی کہ اذان میں مُسیلمہ کے نبی ہونے کی شہادت دیا کرے ( أشہدأن مسیلمۃ رسول اللہ ) جب اس کی مسیلمہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا : ‘‘ میں نے سب کو چھوڑ کر صرف تم پر نظر ڈالی ہے اور تمہارا نام روشن کیا ہے حتیٰ کہ میرا مؤذن اذان میں بھی تمہارا نام لیتا ہے ’’۔ ا س کے بعد مسیلمہ نے سَجاح سے نبوت کے موضوع پر خفیہ بات چیت کی، جب مسیلمہ مارا گیا تو خالد رضی اللہ عنہ نے سجاح کو پکڑ لیا، سجاح مسلمان ہوگئی اور اپنے وطن لوٹ کر حسب سابق زندگی گزارنے لگی ۔
اپنے اس کذاب ( مسیلمہ) کے ہاتھوں بنو حنیفہ سخت آزمائش میں مبتلا ہوئے وہ ان کے بیماروں کے لئے شفا کی اور نومولود بچوں کے لئے برکت و کامرانی کی دعا کرتاتھا اور وہ خوب ا سکے دھوکوں میں آتے تھے ، کچھ لوگ ایک نوزائیدہ بچہ کو اس کے پاس لے کر آئے ، مسیلمہ نے بچہ کے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ اور اس کے سارے بہن بھائی گنجے ہوگئے، اور ایک اور شخص آیا اور کہا : ‘‘ ابو تمامہ ! میں مالدار ہوں میرے اس لڑکے عمر دس سال ہے، اس کے علاوہ میرا کوئی بچہ دوسا ل بھی نہیں جیا ، کل میرے ہاں ایک او ربچہ پیدا ہوا ہے ، میں چاہتاہوں کہ آپ اس لئے عمر درازی کی دعا کریں ’’۔ مسیلمہ : ‘‘ میں تمہاری خواہش پوری کرادوں گا ۔’’ پھر اس نے بتایا کہ ( خدا نے) نوزائیدہ کی عمر چالیس سال منظور کی ہے، وہ شخص خوش خوش گھر لوٹا ، گھر پہنچ کر کیا دیکھتا ہے کہ بڑا لڑکا ایک کنویں میں گرِ چکا ہے اور چھوٹا نزع کے عالم میں ہے، شام ہوتے ہوتے دونوں مرجاتے ہیں ، یہ دیکھ کر ان کی ماں کہتی ہے : ‘‘ بخدا ابو تمامہ ( مسیلمہ) کو خدا کے ہاں وہ منزلت حاصل نہیں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے۔’’ بنو حنیفہ نے ایک کنواں کھودا جس میں میٹھے پانی کا سوتا تھا وہ مسیلمہ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ کنویں پر جاکر دعا کرے کہ وہ اُن کے لئے باعث برکت ثابت ہو ، مسیلمہ نے کنوئیں میں تھوکا تو اس کاپانی کھاری ہوگیا ۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-8/d/98435