خورشید احمد فارق
بنو عامر 1؎ اور دوسرے قبیلوں کے دُوبارہ مسلمان ہونے کا ذکر
(1؎ بستیاں : وسط نجد ،مدینہ کے شمال مشرق میں بنوعامر کا اطلاق اِن قبیلوں پر ہوتا تھا قشیر عقیل بھدہ کلاب اور ہلال)
جب خدا نے بنو اَسَد اور ( ان کے حلیف) بنو فزا رہ کی خوب گو شمالی کرادی اور بزُاخہ میں طُلیحہ اور ا سکے حلیفوں کو شکست فاش ہوئی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے رسالے بھیجے تاکہ جہاں جہاں ان کو باغی ملیں انہیں ٹھکانے لگادیں ،بدو عرب یا تو سزاسے ڈر کر یا دل سے مسلمان ہونے کےلئے خالد رضی اللہ عنہ کے رسالے ملتے ہیں تو وہ کہتا : میں خوشی سے اسلام لانے جارہاہوں ،میں پھر اسلام کامطیع ہوگیا ہوں ۔’’ کوئی کہتا : ‘‘ میں نے بغاوت نہیں کی میں نے اپنا مال روک لیا تھا جو مجھے بے حد عزیز ہے،لیکن اب میں زکاۃ دینے کو بھی تیار ہوں ۔ ’’ اور اگر کوئی عرب رسالوں کی زد میں نہ آتا تو وہ خالد رضی اللہ عنہ کے پاس چلاجاتا ہے اور اپنے اسلام کا اعلان کرتا، کچھ بدو سیدھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ جاتے اور خالد رضی اللہ عنہ کے پاس نہ پھٹکے ۔
قاضی و افذی : قُمرہّ بن ہُبیرہ قُشَیری 2؎ (2؎ بنو عامر کاایک لیڈر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر باغی ہوگیا تھا) کےبارےمیں راویوں کی آرا مختلف ہیں کوئی کہتاہے کہ وہ بھاگ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور مسلمان ہوگیا، کوئی کہتاہے کہ خالد رضی اللہ عنہ کے رسالوں نے اس کو جا پکڑا اور خالد رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئے ، کوئی کہتاہے کہ وہ اپنےقبیلہ بنو عامر کے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا او رہماری رائے میں یہی رپورٹ مرجح ہے ایک قول یہ ہے کہ بنو عامر منتظر تھے کہ دیکھیں باغی جیتتے ہیں یا مسلمان اور ان کا لیڈر قُرہ تھا، بنو عامر کا ایک ممتاز سردار اور بہادر ابو حرب بن ربیعہ بن خویلدِ عُقیلی جو انتظار کی پالسی کے خلاف تھا کھڑا ہوا ، اور بولا ا ے ‘‘ بنو عامر جلد بازی نہ کرواؤ تدبیر سےکام لو، تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں کو قتل کیا جو ئینر 1؎ معُو نہ جارہے تھے (1؎ مدینہ کے شمال مشرق میں ایک نخلستان تھا ۔ جہاں 4ھ میں بنو عامر کےلیڈر ابوبراء کی فرمائش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تبلیغی جماعت بھیجی تھی، جب یہ جماعت برّ معُونہ پہنچی تو بنو سلیم نے عامر بن طُفیل کی قیادت میں پر اچانک حملہ کردیا ، ابوبرا جس نے ان کی حفاظت کاذمہ لیا تھا مدد کو نہ آسکا)تم نے ابوبراء کے عہد حفاظت کو توڑ دیا ، اور عامر بن طفیل نے تمہارا منہ کالا کردیا۔ تم کومعلوم ہوناچاہئے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مہاجرین و انصار کی ایک فوج لے کر قریب آپہنچا ہے ( اور عنقریب تمہاری خبرلے گا)’’ ابوحَرب بن رَبیعہ کی تقریر نے بنو عامر کے حوصلے پست کردیئے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب عمر و بن عاص عمان سے مدینہ لوٹے تو قُرہّ بن ہُبیرہ سے ان کی جو بات چیت ہوئی وہ ہم یہاں بیان کریں گے ، عمر بن عاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سےعُمان کے عامل تھے ، ایک دن عُمان کا ایک یہودی ان کے پاس آیا او ربولا : اگر میں آپ سےایک سوال پوچھوں تو مجھے کوی گزند تو نہ پہنچے گا؟ عمر و بن عاص : ‘‘ نہیں ’’ یہودی : ‘‘ خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو یہاں کس نےبھیجا ہے؟ ‘‘ عمر و بن عاص : ( محمد) رسول اللہ نے ‘‘ یہودی ’’ : کیا آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ہیں؟ ‘‘ عمر و : ‘‘ہاں’’ یہودی : اگر آپ کی بات صحیح ہے تو آج ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ سن کر عمر و بن عاص نے اپنے مشیر وں اوراہل حاشیہ کو جمع کیا اور اوہ دن نوٹ کرلیا جب بقول یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا ، اس کے بعد آزد اور عبدالقیس کے محافظوں کی ایک ٹولی ساتھ لے کر عمر و رضی اللہ عنہ مدینہ کی طرف چل کھڑے ہوئے ، ہَجَر ( راجدھانی بحرین) پہنچے تو وہاں مُنذِربن ساوی 1؎ ( 1؎ بحرین کا عرب حاکم جو اسلام پر ثابت قدم رہا تھا ) کے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سنی ، وہاں سےچل کر وہ بنو حنیفہ کے علاقہ میں آئے او ربنو حنفیہ کے محافظ ساتھ لے کر بنو عامر کی بستیوں میں داخل ہوئے ۔ وہ قُرّہ بن ہُبیرہ کے ہاں مقیم ہوئے جب چلنے لگے تو قُرّہ بن ہُبیرہ نے کہا : تمہاری خیر خواہی کی ایک بات ہے جسے میں چاہتاہوں کہ تم سنُو ، تمہارے صاحب (لیڈر نبی) کا انتقال ہوچکاہے ۔ ’’ عمر و بن عاص : تمہاری ماں مرے ،کیا وہ بس ہمارے ہی صاحب تھے؟ ’’ قُرّہ : قریشیو ! تم اپنے حرم ( مکہ) میں مقیم تھے، دوسروں سے محفوظ اور دوسرے تم سے محفوظ ، پھر تمہارےقبیلہ سے ایک شخص ( محمد) اٹھا، اس نے جو دعوت دی اس سے تم واقف ہو، جب اس کی دعوت کاہمیں علم ہوا تو ہم نے اس کو ناپسند نہیں کیا اور کہا خاندان مُضَر 2؎ ( 2؎ شمالی عربوں کا داد) کا ایک ممتاز شخص عربوں پرحکومت کرنا چاہتا ہے تو اس کے راستے میں کیوں روڑے اٹکائیں ، لیکن اس کی وفات ہوچکی ہے، اب بڑی تیزی سے عرب تمہارے خلاف بغاوت کریں گے اور زکاۃ کی مد میں کچھ نہیں دیں گے ، لہٰذا مناسب ہے کہ اپنے حرم (مکہ) کولوٹ جاؤ اور وہاں امن و چین سے رہو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ایک جگہ مقرر کر لو، میں وہیں تم پر آچڑھوں گا ۔’’ عمر و بن عاص نے قرّہ کو آڑے ہاتھوں لیا اورکہا : میں تمہاری خیرا خواہی رد کرتا ہوں او رمقررہ جگہ تمہاری ماں کی حفش 3؎ ہے ۔’’ (3؎ حفش فوج چھوٹی کوٹھٹری کے معنی میں بھی آتا ہے) ۔ ‘‘ قُرہّ: تم تو ناراض ہوگئے ، میرا مقصد یہ نہ تھا ’’۔ وہ اپنی گفتگو پر نادم ہوا، ایک قول یہ ہے کہ قُرہّ اپنے قبیلہ کے سو آدمی عمر و بن عاص کی ( بدو حملہ آوروں سے) حفاظت کے لئے لے کر نکلا ۔عمر چلے تو راستہ میں ان کو بہت سے باغی عرب ملے اور نواحِ مدینہ کے کارواں اسٹیشن ذوالقَصّہ میں ان کی مڈبھیڑ عُیینہ بن حصِن فَزاری سےہوئی جو مدینہ سے واپس آرہا تھا اور یہ کہنے ابوبکر صدیق کے پاس گیا تھا کہ اگر آپ مجھے معاوضہ دیں تو میں اپنے قبیلہ کو بغاوت سے روک لوں گا۔ عمر و بن عاص نے اس سے پوچھا: کیا خبر ہے، کون خلیفہ ہوا؟ عُیینہ : ‘‘ ابوبکر ’’ یہ سن کر عمر و نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا عُیینہ : ‘‘ ہم او رتم برابر ہوگئے ’’۔ عمرو : تو غلط بکتا ہہے مُضَر کے خبیث زادئے’’ عُیینہ جل گیا اور جس سے ملتا اس کو زکاۃ دینے سے روکتا، جب ملنے والا پوچھتا : ‘‘ تم کیا کروگے’’ ؟ تو وہ کہتا : ‘‘ میرے قبیلہ کا کوئی آدمی ابوبکر کو ایک بچھڑا تک نہ دے گا ’’ ۔ وہ طُلیحہ سے جا ملا۔
عمر بن عاص رضی اللہ عنہ مدینہ آئے او رابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان سب باتوں سے آگاہ کیا جو عُمان سے مدینہ تک ہوئی تھیں اور قرُّہ بن ہُبیرہ اور عُیَینہ کی گفتگو سے بھی ان کو مطلع کیا جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خالد رضی اللہ عنہ کو باغیوں کی سرکوبی کےلئے بھیجنے لگتے تو عمر و رضی اللہ عنہ نے ان سےکہا : ‘‘ ابو سُلیمان ،خیال رکھنا قُرّہ تمہارے ہاتھ سے نکلنے نہ پائے جب خدانے اہل بزُاخہ کو مقہور کیا تو خالد رضی اللہ عنہ طیّٔ کی پہاڑی بستیوں ( سَلمی اور اَجا1؎ ) (1؎ مدینہ کے شمال مشرق میں) کا رخ کیا، وہاں بنو عامر ار غَطَفان دوبارہ اسلام لانے ان کے پاس آئے اور اس بات کی امان چاہی کہ ہمارے نخلستانوں اور دیہاتوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا یا جائے، انہوں نے اپنے کئے پر خالد رضی اللہ عنہ کے سامنے توبہ کی ، نماز باجماعت پڑھی ، اور زکاۃ ادا کی ، خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو امان دے دی اور ان سے وعدہ لیاکہ اپنے بچوں اور عورتوں کو بھی اسلام کا وفادار بنائیں گے ، جب بنو عامر اور غَطَفان آئے تو خالد رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : ‘‘ قُرّہ بن ہُبیرہ کہا ں ہے؟ ’’ قُرّہ سامنے آکھڑا ہوا او ریہ بولا ‘‘ یہ ہوں میں’’ ۔ خالد رضی اللہ عنہ( اپنے ایک ساتھی سے)اس کو آگے بڑھاؤ اور اس کا سر اُتارلو ’’۔ ( قُرّہ کی طرف متوجہ ہوکر ) تم ہی نے عمر و بن عاص سے وہ بغاوت بھری باتیں کی تھیں ، تم ہی نے مسلمانوں کی مدد نہیں کی اور منتظر تھے کہ وہ باغیوں ہاتھوں تباہ ہو ں، تم ہی نے کہا تھا کہ اسلام کی بساط اُلٹی تو میرا ( یعنی قبیلہ کا) مال میرے قبضہ میں ہوا اور اسی پالسی کی بنیاد پر تم نے اپنے قبیلہ کو متحد کیا اور انہوں نے تم کو اپنا لیڈر بنا لیا حالانکہ تم لیڈر بننے کے اہل نہ تھے ’’۔ قُرّہ ’’ ابن مُغیزہ1؎: (1؎ خالد رضی اللہ عنہ کے دادا) میر ی وفاداری کے عمر و بن عاص شاہد ہیں ’’۔ خالد رضی اللہ عنہ : عمر وہی نے تو خلیفہ کو تمہاری بغاوت او رانحراف کی خبریں پہنچائی ہیں ’’۔ دوسری روایت : خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر و نے جو دھمکی تم کو دی تھی کہ میں تمہاری ماں کے حِفش 2؎ میں تم کو آ پکڑوں گا، (2؎ فرج ۔ کوٹھری) اب پوری ہوتے دیکھ لو ’’۔ قُرّہ : ابوسلیمان ! میں نے عمر و کو پناہ دی تھی اور ان کی خوب آؤ بھگت کی تھی، میں مسلمان ہوں میں نے بغاوت نہیں کی ’’۔ خالد رضی اللہ عنہ : اگر تم ان باتوں کا ذکر نہ کرتے تو میں تم کو قتل کر ادیتا ، تاہم بیڑیاں ڈال کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تو ضرور بھیجوں گا ، ان کو اختیار ہے جیسا چاہیں تمہارے ساتھ سلوک کریں ۔’’ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بنو عامر سے وفاداری اسلام کا عہد لے چکے تو انہوں نے عُیَینہ بن حِصن اور قُرّہ بن ہُبیرہ کے بیڑیاں ڈلوائیں اور دونوں کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ 3؎ (3؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ،فقیہ و مفسر جنگ یمامہ کے وقت سولہ سترہ سال کے تھے 68 ھ میں انتقال ہوا استیعاب 1/372) میں نے دیکھا کہ عُیَینہ کے دونوں ہاتھ رسی سے گردن میں بندھے ہیں او رمدینہ کے بچے کبھی کھجور کی ٹہنی اس کے بھوکتےہیں او رکبھی مارتے ہیں اور کہتے ہیں : ‘‘ دشمن خدا، ایمان لاکر پھر تونے کفرکیا؟ اس پر عُیینہ کہتا :بخدا میں ایمان لایا ہی نہ تھا۔’’ بعض مورخ کہتےہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ا س کے پاس آکر کھڑے ہوئے او ربولے : تم اپنے منصوبوں میں ناکام ہوئے اور نقصان اٹھایا سو الگ ، کفر و باطل سے تمہارا پرانا رشتہ ہے۔’’ عُیینہ : چپ ہو جا آدمی ، اگر میں اس حال میں نہ ہو تا تو تم ایسی باتیں نہ کرسکتے ۔’’ ابن مسعود چلے گئے ۔
قُرّہ بن ہَبیرہ کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا، اس نے کہا : ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بخدا میں کافر نہیں ہوا عمر و بن عاص سے پوچھئے میں میری وفاداری اسلام کی شہادت دینگے، جب عُمان سے آرہے تھے تو میں اپنی قوم کے 100 آدمی لے کر ان کی حفاظت کرنے نکلا تھا اور اس سے پہلے میں نے ان کی آؤ بھگت کی اور اونٹ ذبح کئے تھے ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عمر و سے پوچھا تو انہوں نے کہا:۔ ‘‘ میں قُرّہ کے گھر ٹھہرا ،انہوں نے بے حد میری مہمان نوازی کی، اس کے علاوہ خطرناک علاقہ سے نکالنے کے لئے اپنے سو آدمی لے کر میرے ساتھ گئے’’ ۔ پھر عمرو نے وہ باتیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سنائیں جو قُرہّ نے بطور خیر سگالی ان سے کی تھیں، اس پر قُرّہ نے کہا : ‘‘ رہنے دو ان باتوں کو عمرو ۔’’ عمرو: ‘‘ تم رہنے دیتے تو میں بھی رہنے دیتا ۔’’ ابوبکر رضی اللہ نے قُرّہ کو کوئی سزا نہیں دی، معاف کردیا او رامان لکھ دی عُیینہ نے بھی اپنی برأت پیش کی ، ابوبکر نے اس کو بھی معاف کردیا اور امان نامہ لکھ دیا ،قُرّہ بنو عامر کے اُن اکابر میں سے تھا جو اسلام سے منحرف ہوگئے تھے، ان کا اکابر میں عُلقمہ بن عُلاثہ 1؎ (1؎ صحابی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر مر تد ہوا اور باز تطینی قیصر کے پاس چلا گیا ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوٹا اور پھر مسلمان ہوا ، عمر فاروق نے اس کو شام کے ضلع حوران کا والی بنادیا کتاب المعارف 144 واصابہ 2/503) نے توبہ نہیں کی اور ارتداد پر قائم رہا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی لڑکی او ربیوی کو گرفتار کرنے پر لوگ مامور کئے، اس پراس کی بیوی نے کہا : ابوبکر ہوتے کون ہیں مجھے گرفتار کرنے والے ، عَلقمہ کا فر ہوا تو ہوا میں تو نہیں ہوئی ۔’’ ( اس احتجاج پر) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس سے مزید تعرض نہ کیا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عَلقمہ نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا تو خلیفہ نے اس کی بیوی کو سُسرال جانے کی اجازت دے دی۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بنو عامر اور دوسرے مرتد باغیوں سے جو ان کے پاس آئے اور جنہوں نے وفاداری اسلام کا عہد کیا وہ سارے ہتھیار رکھوالئے جو ان کے پاس تھے اور چھپے ہتھیار وں کے لئے قسم لی جس نے قسم کھالی اس کوچھوڑ دیا اور جس نے قسم کھانے سے انکار کیا اس کو گرفتار کرلیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک وہ چھپے ہتھیار نہ لے آیا، ا س طرح خالد رضی اللہ عنہ نے بہت سے ہتھیار فراہم کرلئے اور ان لوگوں کو دیئے جنہیں ضرورت تھی، ہتھیار پانے والوں کے نام رجسٹر کر لئے گئے اور جب لڑائی ختم ہوئی تو لینے والوں نے ہتھیار واپس کردیئے ، یہ سب ہتھیار خالد رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کئے گئے ۔
یزید فرازی 1؎ (1؎ ہمارے مراجع میں کسی شخص کا ذکر نہیں جس کانا م یزید بن شریک فرازی ہو البتہ یزید بن طارق نامی راوی کا جو قبیلہ یتیم سے منسوب تھا ، رِجال کی کتابوں میں ذکر موجود ہے یہ اپنے قبیلہ کا طریف تھا ، ابن سعد نے اس کو ثقہ بتایا ہے ۔ تہذیب التہذیب 11/ 337) نے اپنے والد شُرِیک کی سند پربیان کیا ہے کہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بزُاخہ کی فہم سے فارغ ہوئے تو میں اَسَد اور غَطَفان کے ایک وفد کے ساتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہورہے تھے ، ان میں سے کچھ نے خالد رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی تھی او رکچھ نے نہیں کی تھی ، ہمارا وفد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، وفد سے خلیفہ نے کہا ۔‘‘ دوباتوں میں سے ایک پسند کرلو: حرب مُحِلَیۃ یا سِلم مُخز یۃ 2؎ (2؎ حرب مُحِلَّیہ۔ تباہ کن جنگ سِلم مُخزیہ ۔ رسواکن صلح) وفد کے ایک لیڈر خارجہ بن حصِن فَزاری نےکہا : حرب ِ مُحِلَّیہ سے تو ہم واقف ہیں لیکن سِلم مُخزیہ ہم نہیں جانتے، ابو بکر رضی اللہ عنہ : ‘‘ وہ یہ ہے کہ تم اس بات کا اقرار کرو کہ ہمارے مقتول جنت میں جائیں گے اور تمہارے دوزخ میں، ہمارے جن چیزوں پر تم قابض ہو وہ لوٹادوگے او رہم تمہاری کوئی چیز لوٹائیں گے ، تم ہمارے مقتول لوں کا خوں بہا دوگے اور ہم تمہارے مقتولوں کا خوں بہا نہیں بہا دینگے ، اور ہمارے ہر مقتول کا خوں بہا سو اونٹ ہوں گے جن میں سےچالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی، ہم تمہاری ساری زر ہیں او رگھوڑے لے لیں گے اور تم کو اونٹ چرانے کے لئے چھوڑ دینگے اس کے بعد اگر تم ٹھیک نہ ہوئے تو تم کو سزا دیں گے اور اگر راہ راست پر آگئے تو معاف کردیں گے ۔’’ خارجہ بن حصِن : خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اسلام کے وفادار رہیں گے۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ اچھا تو اس بات کا عہد کرو کہ پوری طرح قرآن کے مطابق زندگی گزاروگے اور اپنے بال بچوں کو قرآن کی تعلیم دوگے اور اپنے مال کی زکاۃ ادا کروگے ۔’’ وفد نے ان سب باتوں کا عہد کیا ۔ ایک قول یہ ہے کہ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ فاروق کہنے لگے : خلیفہ رسول اللہ آپ نے جو شرطیں لگائیں ٹھیک ہیں، البتہ ہمارے مقتولوں کی دیت لینا درست نہیں کیونکہ وہ اسلام کی خاطر قتل ہوئے او رانہوں نے شہادت کاجام پیا ہے۔ ’’ دوسرے صحابہ نے بھی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس خیال کی تائید کی،ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جتنی زر ہیں اور گھوڑے ہوسکے اَسَد و غَطَفان سے لے لئے اُن کی وفات پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر کہ اسلام کی جڑ مضبوط ہوگئی ہے ، زر ہیں اور گھوڑے ان کے مالکوں یا مالکوں کے قریبی رشتہ داروں کو لوٹا دیئے ۔
جب خالد رضی اللہ عنہ، طُلیحہ ، بنو عامر اور آس پاس کے باغیوں کو ٹھکانے لگاچکے تو انہوں نے ظاہرکیا کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا حکم ہے کہ وہ بنو تمیم اور یمامہ ( بنو حنیفہ) کا رخ کریں ۔ انصار کے لیڈر ثابت بن قیس نے کہا : ‘‘ ہمیں تو یہ ہدایت ہے نہیں ، ہم آگے نہیں جائیں گے ( اور یہیں ٹھہر کر خلیفہ کی اگلی ہدایات کا انتظار کریں گے )ہم کافی کمزور ہوگئے ہیں، مسلمان تھک گئے ہیں اور ان کے گھوڑے دُبلے ہوگئے ہیں ، خالد رضی اللہ عنہ : میں کسی کو مجبور نہیں کرتا ،اگر چاہو تو میرے ساتھ چلو اور چاہو یہیں ٹھہرے رہو۔’’یہ کہہ کر خالد رضی اللہ عنہ او رمہاجر صحابہ جو چلنے کو تیار ہوئے ،بنو تمیم کے علاقہ 1؎ اور یمامہ کی طرف بڑھ گئے ، (1؎ شمالی و سطی نجد) انصار ایک یا دو دن ٹھہرے رہے ، پھر ان میں باہمی ملامت شروع ہوئی ، انہوں نے کہا : ‘‘ ہمارایہ اقدام عقل و مصلحت کے خلاف ہے،بخدا اگر مسلمانوں کو شکست ہوئی تو وہ کہیں گے کہ تم نے ان کی ساتھ غداری کی اور اُن کا ساتھ چھوڑ دیا ، اس رُسوائی کاداغ کبھی ہمارے ماتھے سے نہیں چھوٹے گا اگر خالد رضی اللہ عنہ کی فوج کو فتح حاصل ہوئی تو تم اس نعمت سے محروم رہو گے ،لہٰذا خالد رضی اللہ عنہ سے کہلا دو کہ اتنا ٹھہریں کہ ہم اُن سے جاملیں ، انصار نے مسعود بن سِنان 2 ؎ (2؎ انصاری ، احدی صحابی ،جنگ یمامہ میں مارے گئے ، اصابہ 3/411) او ربقول بعض ثَعلَّبہ بن غَنمہ 3؎ ( 3؎ ابن حجر نے ابن غَنمہ بغین منقوطہ نام کے کسی صحابی کا ذکر نہیں کیا ، ابن عَنمہ بعین مہلہ انصاری صحابی تھے لیکن وہ اب سے پانچ چھ سال پہلے یعنی غزہ خندق یا خیبر میں وفات پا چکے تھے ۔ اصابہ 1/201) کو یہ پیغام دے کر بھیجا ، خالد رضی اللہ عنہ نے پیش قدمی روک دی اور جب انصار قریب آگئے تو خالد رضی اللہ عنہ فوج کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ان کے استقبال کو گئے ۔
خالد رضی اللہ عنہ کل فوج کے ساتھ بُطاح کے نخلستان آئے، جو بنو تمیم کے علاقہ میں تھا یہاں کوئی باغی ٹولی ان کو نہیں ملی ، انہوں نے آس پاس دستے بھیج دیئے ، ایک دستہ میں ابو قَتادہ4؎ ( 4؎ بدری صحابی ،40ھ یا اس کے لگ بھگ وفات پائی ،استیعات 2/ 685) انصاری بھی تھے ، ابو قَتادہ راوی ہیں کہ ہم کو ایک شخص ملا ہم نے اس سے پوچھا ، ‘‘ تم کس قبیلہ سے ہو؟ ‘‘ اس نے کہا : ‘‘ بنو حتطلہ سے ۔’’ ہم نے پوچھا : ‘‘ وہ لوگ کہا ں ہیں جو زکاۃ روک رہے ہیں ۔ اس نےوہ جگہ بتائی جہاں مانعین زکاۃ تھے ۔ میں نے پوچھا : ‘‘ ہمارے او ران کےدرمیان کتنا فاصلہ ہے؟’’ ا سنے کہا : ‘‘ مابہ1؎’’ (1؎ شاید میل یا برید کی بگڑی ہوئی شکل ہے ،برید = بارہ یا 17/1/3 انگریزی میل) ہم تیزی سےبڑھے اور سورج نکلتے نکلتے ان کے پاس پہنچ گئے ، وہ ہمیں دیکھ کر ڈر گئے اور اپنے ہتھیار سنبھا ل لئے او رپوچھا : ‘‘ ہم نے کہا : ‘‘ ہم مسلمان ہیں’’ ۔وہ بارہ آدمی تھے اور ان میں مالک بن نوُیَرہ بھی تھا، ہم نے کہا : ‘‘ ہتھیار رکھ دو اور ہمارے بس میں ہوجاؤ ’’۔ انہوں نے ہمارے حکم کی تعمیل کی ، ہم ان کو پکڑ کر خالد رضی اللہ عنہ کے پاس لائے، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے ان کا جو قصہ بیان کیا ہے ذرا آگے بیان ہوگا، ہم یہاں مالک بن نوُ یرہ کا تعارف کراتے ہیں ۔
مالک کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حَنظلہ 2 ؎(2؎ بنو تمیم کی ایک شاخ )لج کس جس کا سردارِ مالک تھا ( محرم 11ھ ) میں محصل زکاۃ مقرر کر کے بھیجا تھا ، مالک نے زکاۃ جمع کی لیکن جب اس کو رسول اللہ کی وفات کی خبر ملی تو اس نے زکاۃ کےاونٹ جن لوگوں سے لئے تھے ان کو لوٹا دیئے ،اس لئے اس کا نام جَفُول (لوٹانے والا) پڑ گیا۔ اگر قریش میں اس کا کوئی جانشیں ہو ا تو ہم اس کو تسلیم کرلیں گے بشرطیکہ وہ خود ہم سے تسلیم کراناچاہے او ر پچھلی زکاۃ طلب نہ کرے، تم اپنی دولت اغیار کو کیوں دو تم خود اس کے زیادہ مستحق او راہل ہو’’۔ یہ تقریر سن کر لوگ خوش ہوئے او ر قبیلہ کے بیشتر افراد اس کے متبع ہوگئے ۔
یہ دیکھ کر ابن قعنب ج وبنویرَ بُو ع 3؎ (3؎ حنظلہ کی ایک شاخ) کالیڈر کھڑا ہوا اور یہ تقریر کی : ‘‘ صاحبو! آپ کی یہ خام خیالی ہے اگر آپ چاہیں کہ ایک طرف زکاۃ واپس لے لیں اور دوسری طرف خدا اپنی عنایتوں سے آپ کو نوازتا رہے ، آپ مصیبتیں مول لیں اور خدا آپ کو بخیر و عافیت رکھے، آپ کفر کو اپنا شعار بنائیں اور اسلام کے امن سے مستفید ہوتے رہیں آپ نے اپنی دولت کا بہت تھوڑا حصہ الگ کیا (زکاۃ میں) خدا کا حکم مانئے او رمالک کے مشورہ پر عمل نہ کیجئے ’۔ یہ سن کر مالک کھڑا ہوا اور بولا : ’’ صاحبو! میں نے ازراہ شفقت و ہمدردی آپ کی زکاۃ لوٹائی ہے،ایسے لوگ برابرکھڑے ہوتےرہیں گے جو میرے زکاۃ واپس کرنے اور آپ کے زکاۃ واپس لینے کی مذمت کریں گے، یہ لوگ نہ تو مجھے نقصان سے بچا سکتے ہیں اور نہ آپ کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہیں بخدا نہ تو مجھے اپنا مال آپ کی نسبت زیادہ پیارا ہے او رنہ میں آپ کی نسبت موت سے زیادہ گھبراتا ہوں ( اور بیرونی حملہ کے وقت) اگر ٹھہرا رہوں تو اتنا ننھا منا نہیں کہ دشمن کی نظر سے اوجھل رہ سکوں اور اگر خطرہ کے وقت بھاگ جاؤ تو میرے پیر آپ سے زیادہ تیز بھی نہ دوڑیں گے ’’ ۔ یہ تقریر کام کر گئی اس کے قبیلہ نے اس کو منالیا اور اپنا معاملہ اس کے سپرد کر دیا اور کہا ۔’’ تمہاری جنگ ہماری جنگ ہے اور تمہاری صلح ہماری صلح’’۔ انہوں نے زکاۃ واپس لے لی، ان کے بارےمیں خدا کا جو حکم تھا پورا ہوکر رہا ۔ مالک نے اس موقع پر یہ شعر کہے:۔
وقال دِجال سُدَّ دَالیوم مالک وقال رجالَ مالک یُسَدَّد
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آج ملک نے بالکل ٹھیک بات کہی اور کچھ کہتے ہیں اس کی بات ٹھیک نہیں
فقلت دعونی الاأبالأبیکم فلم أ خُطِ رأیانی الوعی 1؎ ( 1؎ اصل میں : فی امعار) أونی الند 2؎ (2؎ اصل میں فی المعاد والبد)
فریق ثانی سے میں نے کہا : تمہارا دادا مرے، میرے پیچھے مت پڑو میری رائے نہ جنگ میں غلط ہوتی ہے نہ مجلس میں
وقلت خذوا أموالکم غیر خائف ولا ناظر فی مایجئی بہ غد 3؎ ( 3؎ اصل میں : ولاالبد)
میں نے ان سے کہا بے دھڑک ہوکر اور انجام سےقطع نظر کرکے اپنامال لے لو۔
فأن قام بالأ مرالمجد 3 دقائم ( 3؎ اصل میں : ولاالبد) دقائم أطعنا و قلنا الدینُ دینُ محمد
اگر نئی حکومت کی کسی نے زمامِ کار سنبھال لی تو ہم اس کی اطاعت کرینگے اور کہیں گے دین محمدی سب سےبہتر دین ہے۔
سأجعل نفسی دون ماتَحْذِ دونہ وأرھنکم یوما ہما قَلتہ یَدِ
میں تمہارے اندیشوں کا اپنی جان سے مقابلہ کرونگا اور اپنے اس وعدہ کو ضمانت ہاتھ رہن دے کر کرتا ہوں
فد ونکمو ھا إِ نھا صَدَ قاتکم مُصَرَّرۃ أ خَلا فھا لم نُحرَّد 1؎ (1؎ اصل میں تجرد یحیم معجمہ )
اس لئے سنبھال لو اپنی دی ہوئی زکاۃ کی اونٹنیاں جو دودھ دیتی ہوتی ہیں اور جن کے تھنوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ( تاکہ بچے دودھ نہ پی لیں)
ان اشعار کا جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور مسلمانوں کو علم ہوا تو ان کو بہت غصہ آیا اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عہد کیا کہ اگر ملک ان کے ہاتھ لگ گیا تو وہ ضرور اس کو قتل کردی گے اور اس کے سر کا چولھا بنا کر اس پر ہانڈی چڑھائیں گے ،خالد رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا دستہ جب مالک اور اس کے قبیلہ کی ایک ٹولی پکڑ کر لایا جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تو مالک کے اسلام کے بارےمیں دستہ کے افراد میں اختلاف ہوا،ان میں سے بعض نے کہا :ہم نے اذان دی تو انہوں نے (مالک اور ان کی ٹولی نے ) بھی دی ، ہم نےاقامت کہی تو انہوں نے بھی کہی، ہم نے نماز ادا کی تو انہوں نے بھی کی، ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالد رضی اللہ عنہ کو ہدایت تھی کہ جب کسی گھر سے اذان کی آواز سنو تو اہل خانہ کو کوئی ضرر نہ پہنچا نا، جب تک اُن سے یہ نہ پوچھ لو کہ اسلام کی کیا بات تم کو پسند ہے اور تم کیا چاہتے ہو اور جس گھر سے تم کو اذان کی آواز نہ آئے اس پر حملہ کر کے اہل خانہ کو قتل کردینا اور جلا دینا ، دستہ کے کچھ دوسرے لوگو ں نے کہاکہ مالک اور اس کے ساتھی مسلمان نہیں ہیں، کیونکہ انہوں نے مالک اور اس کےساتھیوں کو نہ تو اذان دیتے سُنا نہ تکبیر کہتے اور اس لئے ان کو قتل کرنا اور ان کے بال بچوں کو غلام بنانا درست ہے، خود خالد کی بھی ان کے بارےمیں یہی رائے تھی، ابو قتاد رضی اللہ عنہ ۔ انصاری2؎ (2؎ بن ربعی ،اُحدی صحابی ، بقول بعض 40ھ میں بعقول بعض 54ھ میں انتقال ہوا ، اصابہ 3/179۔178) : میں خالد رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور پوچھا کہ کیا تم ان لوگوں کو قتل کردوگے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا ، اس پر میں نے کہا : ‘‘ بخدا ان کا قتل کرناجائز نہیں، وہ مسلمان ہیں ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتے ، میں تمہاری رائے سے متفِق نہیں ہوں ۔’’ میرے احتجاج کے باوجود خالد رضی اللہ عنہ نے مالک اور اس کے ساتھیوں کو قتل کرادیا ، میں بلاتاخیر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ گیا ،ان کو مالک کے قتل کی خبر دی اورکہا کہ خالد رضی اللہ عنہ نے بڑا سنگین جرم کیا ہے ، عمر رضی اللہ عنہ اس معاملہ میں میرے ہمنوا تھے ، انہوں نے بھی خالد رضی اللہ عنہ کے فعل کی مذمت کی اور کہا : خالد کو سنگسار 1؎ کیجئے وہ اسی سزا کے مستحق ہیں’’۔ (1؎ یہ سزا ایک شادی شدہ شخص کو زمنا کرنے پر دی جاتی تھی) ابوبکر رضی اللہ عنہ : ‘‘ بخدا میں تو ایسا کروں گا نہیں ، خالد رضی اللہ عنہ سے اجتہادی غلطی ہوئی ہے’’۔
یعقوب بن محمد زُہری اور واقدی نےمالک بن نُو یَرہ کے قتل کے بارے میں مذکورہ بیان سےمختلف بیانات پیش کئے ہیں جن کاذکر مذکورہ روایت کے بعد مجھے ضروری نہیں معلوم ہوتاہے، ان میں سے ایک بیان میں ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدے کےمطابق مالک کے سرکا چولھا بنایا جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اس ک سر کے بال بے حد گھنے تھے، لوگوں نے بالوں میں آگ لگا کر پھونکا تو ہانڈی گرم ہوگئی لیکن آگ سر کی کھال تک نہ پہنچی ، خالد رضی اللہ عنہ جب مدینہ آئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مالک کے قتل پر جس کے اسلام کی ابو قتادہ رضی اللہ عنہ وغیرہ نے شہادت دی تھی، ان کو ڈانٹا ڈپٹا ، خالد رضی اللہ عنہ نے اپنے کئے کی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں نے مالک کی زبان سے ایسی باتیں سنیں جن سے اس کو سزائےموت دیناجائز ہوگیا تھا ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی صفائی قبول کرلی متمم بن نُویرہ نے اپنے بھائی ( مالک) کے ماتم میں بہت سے مرثئے کہے جن میں وہ مرثیہ خاص طور پر مشہور ہے جس کےدو شعر یہ ہیں:۔
وکنّا کنَد مانی 2؎ جَذِیمۃَ حِقبۃً من الدَّ ھر حتیّ قیل لن یتصدعا
(2؎ جبرہ کا دوسرا یمنی عرب بادشاہ ،کوڑھی ہونے کے باعث اس کو اَبرش کہتے ہیں اس کے دو دوست تھے جنہوں نے چالیس سال تک مصاحبت کی اس شعر میں انہیں کی طرف اشارہ ہے)
ایک عرصہ تک ہم جذیمہ کےدو دوستوں کی طرف ایسی محبت و یک جہتی سے رہے کہ لوگ کہتے ہم کبھی جدا نہ ہوں گے
فلماتَفَّر قنا کأنی وما لکا لطُول آنتران لم بنت لیلۃ معا
پھر میں جب مالک سے جدا ہوا تو ایسا گویا ہم نے ایک رات بھی ساتھ نہ گزاری ہو۔
کہا جاتاہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے متمم بن نُویرہ سے کہاکہ میرے تمنا ہے کہ میں بھی تمہاری طرح اپنے بھائی زید رضی اللہ عنہ 1؎ (1؎ جنگ یمامہ میں شہید ہوئے) کے مرثیے کہتا متمم نے کہا : ابو حَفص اگر میں جانتا کہ میرے بھائی کاٹھکانہ وہی ہے ( مراد جنت) تب تو اس کے مرثیے کہتا ہی نہیں’’ عمر فاروق رضی اللہ عنہ یہ سن کر پھڑک گئے اور بولے : ‘‘ جسی میرے بھائی کی تم نے تعزیت کی آج تک کسی نے نہیں کی ۔’’
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-7/d/98299