New Age Islam
Sun Mar 26 2023, 03:04 AM

Urdu Section ( 22 Jul 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tarikh-e-Ridda Part- 6 (تاریخ ردّہ حصہ (6

 

خورشید احمد فارق

بُزاخہ 1؎  اور دوسرے محاذوں کو خالد بن ولید کی روانگی

(1؎ مدینہ کے شمال مشرق  میں طیّٔ کے علاقہ کا ایک نخلستان )

مورخین کابیان  ہے کہ ( باغیوں کے خلاف) خالد بن ولید نے جب  پیش قدمی  کی تو عدی بن حاتم 2؎  ( 2؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر5 37؁) اپنے قبیلہ کے ہزار  جوانوں کے ساتھ  ان کے ہمرکاب تھے، خالد رضی اللہ عنہ  نے بزُ اخہ آکر کیمپ لگایا،  قبیلہ  ٔ جَدِیلہ ( طیٔ کی ایک شاخ)اسلام سے منحرف  تھا ، عدی بن حاتم کا تعلق طیٔ کے ایک دوسرے خاندان غوث سے تھا، جب جدیلہ نے مرتد  ہونے کا ارادہ  کیا تو مِکنف 3؎ بن زید خیل طائی  ان کے پاس آئے او ر کہا : (3؎ صحابی: اصابہ 3/457 ومعجم البلدان 2/160) کیا تم اپنی قوم کے ماتھے پر کلنگ کا داغ لگانا چاہتے ہو ، طیّٔ کا ایک فر د تھا باغی نہیں ہوا ہے اور اَبُو طُریف عَدِی بن حاتم  کے ساتھ طیّٔ کے ہزار جوان اسلام کی وفاداری پر قائم ہیں ،ان باتوں نے جَدِیلہ کے حوصلے پست کر دیئے جب خالد بن ولید بزُاخہ  میں فرش کش ہوئے تو انہوں نے عَدِی  بن  حاتم  سے کہا : اَبُو طُریف کیا ہم جَدِیلہ  کی خبر  لینے نہ جائیں ؟’’ عَدِی : ‘‘ ابو سلیمان  ایسا نہ کیجئے  ، آپ کو وہ سپاہی پسند ہے جو دونوں ہاتھوں سے آپ کے ساتھ ہو کر لڑے یا وہ سپاہی  جو صرف  ایک ہاتھ سے لڑے ’’خالد بن ولید : وہ سپاہی جو دونوں ہاتھوں سے لڑے ’’ عَدِی رضی اللہ عنہ : تو سمجھ لیجئے  کہ جَدِیلہ میرا ایک ہاتھ ہے  ، یہ  سن کر خالد رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی عَدِی رضی اللہ عنہ  جَدِیلہ  کے پاس آگئے  ، ان کی ترغیب  و تلقین  سے وہ مسلمان ہوگیا، عَدِی  رضی اللہ عنہ  نے خدا کاشکر اداکیا او رجَدِیلہ کے جوانوں کو لے کر خالد رضی اللہ عنہ  کے کیمپ  کی طرف روانہ ہوئے،  خالد رضی اللہ عنہ نے ان کو آتا دیکھا تو وہ گھبرا ئے اور سمجھے کوئی دشمن لڑنے آرہاہے ، انہوں نے  اپنی فوج کو مسلح ہونے کا حکم  دے دیا،بعض لوگوں نے ان کو بتایا کہ جَدِیلہ کے جوان  ہیں جو ( وفادار ہوکر) آپ کی طرف سے لڑنے آرہے ہیں ،جَدِیلہ  نے مسلمانوں سے ہٹ کر اپنا کیمپ لگایا، خالد بن ولید ان کے پاس گئے ،ان کی آؤ بھگت  کی، او ران کے آنے  پر خوشی  کا اظہار کیا  جَدِیلہ  کے لیڈوں نے اب تک الگ تھلگ رہنے پر معذرت کی اور خالد رضی اللہ عنہ سے کہا : اب ہم  آپ کی مرضی  پرچلیں گے ’’۔ خالد نے ان کو جزائے خیر کی دعا دی ، اس طرح قبیلہ طیّٔ کاکوئی فرد مرتد نہیں ہوا، اب خالد رضی اللہ عنہ  عسکری ترتیب  کے ساتھ روانہ  ہوئے ، عَدِی رضی اللہ عنہ نے ان سے درخواست  کی کہ میری  قوم  کو ساری فوج سے آگے  رکھئے  ، خالد رضی اللہ عنہ : ابو طُریف لڑائی قریب ہے اور مجھے اندیشہ  ہے کہ اگر تمہارے لوگوں کو آگے رکھو ں گا تو گھمسان کی لڑائی  کے وقت وہ منہ موڑ جائیں گے اور ان کی دیکھا دیکھی  ہمارے ساتھیوں کےبھی پیر اکھڑ جائینگے  اس  نے مجھے ان  لوگوں کو آگے  رکھنے دو جوشدائد جنگ  جھیل  سکتےہیں ، جن کی اسلامی خدمات دیرنہ   ہیں اور جن کے سینوں میں سچی  اسلامی  لگن ہے ۔ عَدِی رضی اللہ عنہ : جیسی آپ کی مرضی ’’ خالد رضی اللہ عنہ مہاجرین  و انصار کا ہر اول  دستہ آگے بھیج دیا بلکہ وہ تو ذُو القَصّہ سے روانگی  کے وقت سے برابر ہر  اول دستے بھیجتے رہے تھے،  خالد رضی اللہ عنہ  نے اپنے جاسوسوں  کو حکم دیا  کہ جہاں جہاں  ان کا گزر ہو وہاں دیکھیں کہ  نماز  کے وقت  لوگ اذان  دیتے ہیں  یا  نہیں ، اگر اذان  دیں تو ان کومسلمان  سمجھا جائے اور کوئی نقصان نہ پہنچا یا جائے ۔

خالد رضی اللہ عنہ اور مسلمان ا س جگہ پہنچے جہاں طُلیحہ کاکیمپ تھا ۔ اس کے لئے چمڑے کا ایک خیمہ  لگایا گیا تھا اور اس کی فوج خیمہ  کے چاروں طرف پڑی ہوئی  تھی، خالد رضی اللہ عنہ  شام کے وقت  وہاں پہنچے اور طُلیحہ  کے کیمپ  سے ایک میل دور یا ا س کے لگ بھگ اپنا کیمپ لگایا ،  وہ اور صحابہ کی ایک جماعت  گھوڑوں پر سوار ہوکر طُلیحہ  کےلشکر کے قریب  آکر رُکے ،خالد رضی اللہ عنہ  نے کہا : ‘‘ طُلیحہ نکل کر ہمارے پاس آئے ۔’’ طُلیحہ کے فوجی : ‘‘ ہمارے نبی کا نام طُلحہ ہے  اس کو بگاڑ ومت ’’۔ طُلیحہ  کیمپ  سے نکلا اور  خالد رضی اللہ عنہ  کے قریب آکر رکا ۔

خالد رضی اللہ عنہ : ‘‘ ہمارے خلیفہ کا حکم ہے کہ ہم تم کو خدا کی وحدانیت  اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کی نبوت  کے اقرار کی دعوت دیں، اگر تم ایسا کروگے تو ہم اپنی  تلواریں  نیام  میں رکھ لیں گے ’’۔ طُلیحہ  : ‘‘ میں اقرار کرتاہوں کہ خدا اایکتا اور بےشریک ہے او رمیں اس کا رسول ہوں، خدا نے مجھے نبی  بنا کر بھیجا  ہے اور ذوالنّون  ( فرشتہ) میرے پاس  ( وحی لے کر ) آتاہے جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس جبریل  آتا تھا ۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد  میں طُلیحہ  نے دعویٰ  کیا تھا کہ  میرے اوپر ذوالنّون  کی معرفت  وحی نازل  ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاتھا کہ  ذوالنّون آسمان  کے ایک بڑے فرشتہ کا نام ہے۔

( حلیف طُلیحہ)  عُیئینہ بن حصِن فَزاری نے طُلیحہ  سےکہا تھا : ‘‘ مرد آدمی اپنی نبوت  کی کچھ کرامات  دکھاؤ ، تم او رہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامات  (وحی)  تو دیکھ چکے ’’۔ طُلیحہ نے کرامات  دکھانے کا وعدہ کیا ۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  مدینہ سے ( باغیوں کی خبرلینے) روانہ ہوئے اُس وقت طُلیحہ  نے کچھ  جاسوس ان کے حالات دریافت  کرنے روانہ کردیئے تھے ، اس وقت تک خالد  کی پیش قدمی  کی خبر عرب  قبیلوں میں مشتہر  نہیں ہوئی تھی ( جب عُیئینہ نے کرامات  دکھانے کی  فرمائش کی) تو طُلیحہ  نے کہا : اگر تم بنو نَصْرین قُعَین 1؎  کے دوسوار  جن کے گھوڑوں کی پیشانی اور کھُروں پر سفید داغ ہوں  ( 1؎ قبیلہ اسد کی ایک شاخ) بھیجو تو وہ مدینہ فوج کا ایک جاسوس  تمہارے پاس پکڑ لائیں گے’’۔  دوسوار بھیجے گئے ان کو راستہ میں خالد رضی اللہ عنہ  کا ایک جاسوس  ملا جس  سے انہوں نے  پوچھا ، ‘‘ کیا خبر ہے ؟ ’’ جاسوس : خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  ایک لے کر آرہاہے ’’۔ دونوں سوار  جاسوس  کو لے کر طُلیحہ  کےپاس آئے ، اس وقت  سے طُلیحہ  کے متبعین  کی گمراہی اور زیادہ  بڑھ گئی    ( 1؎ یعنی طلیحہ  کی کرامات  اور نبوت  پر ان کا عقیدہ اور زیادہ  راسخ ہوگیا)طُلیحہ  نے فاتحانہ  شان سے کہا ۔ ‘‘ دیکھ لو میں نے تم سے نہ کہا تھا ’’ ( کہ مدینہ  سے فوج آرہی ہے)۔

طُلیحہ نے خالد رضی اللہ عنہ  کی دعوت  ماننے سے انکا رکردیا تو وہ اپنے کیمپ واپس چلے گئے اور اس رات مِکنَف بن زید طائی  اور عَدِی بن حاتم  کو جو مخلص اور پرُ جوش مسلمان تھے ، کیمپ کی چوکیداری پر مامور کیا ،دونوں  نے مسلمانوں  کی ایک  پیچیدہ جماعت کے ساتھ  رات بھر پہرہ دیا ۔ صبح ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے لڑائی کے لئے فوج  کی  ترتیب  درست  کی ، جھنڈ ے تقسیم  کئے اور  سب سے بڑا جھنڈا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ 2؎ (2؎ بدری صحابی، عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کے بڑے بھائی ، اصابہ 1/565) کو زید رضی اللہ عنہ  ( مہاجرین  کا) جھنڈا لے کر آگے بڑھ گئے اور ثابت بن قیس 3؎ انصار کا ( 3؎ اُحدی  صحابی ، انصار او ر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطیب ۔اصابہ 1/195) قبیلہ  طیّٔ  نے خواہش کی کہ ایک  جھنڈا ان کو بھی  دیا جائے ، چنانچہ  خالد رضی اللہ عنہ نے  ( ان کے لیڈر) عَدِی  بن حاتم  کو ایک جھنڈا دے دیا۔

مسلمانوں کی پیش قدمی کی اطلاع پاکر طُلیحہ نے بھی اپنی فوج جنگ  کے لئے مرتب کرلی، خالد رضی اللہ عنہ پا پیادہ صفیں درست کرنے لگے  اور طُلیحہ سواری  پر بیٹھ کر  جب صفیں ٹھیک ہوگئیں  تو ان  کو لے کر خالد رضی اللہ عنہ  بڑھے اور طُلیحہ  کے قریب  آگئے ، طُلیحہ  اپنی فوج کے چالیس  بے داڑھی مونچھ غلاموں  کو جو بہادری  اور سپہ گری میں  اپنی مثال  آپ تھے،  لایا اور ان کو میمنہ  میں کھڑا کر کے کہا :‘‘ پہلے یہاں  اور پھر میسرہ  میں جاکر  تلوار  کے جوہر دکھاؤ ’’۔ ان کی تلوار بازی سے مسلمان منتشر  ہوگئے،  لیکن کوئی  مر ا نہیں ان کے بعد طُلیحہ  نے ان چالیسوں غلاموں  کو میسرہ  میں لا کھڑا کیا، ان کی تلوار بازی سے مسلمان  پسپا ہوگئے ، قبیلہ  ہو ازن  کے ایک عرب نےجو جنگ میں موجود تھا بیان کیاکہ جب  مسلمانوں  کے پیر اُکھڑ ے تو خالد رضی اللہ عنہ نے کہا :‘‘ انصاری مجاہد و خدا سے ڈرو خدا سے ڈرو ۔ ’’  یہ کہہ کر وہ طُلیحہ  کی فوج  کے وسط میں گھس پڑے،  یہ دیکھ کر ان کی پسپا فوج لوٹ  پڑی  اور دونوں  فریق گُتھ گئے،  تلواریں  کھٹا کھٹ  چلنے لگیں  ، خالد رضی اللہ عنہ مارتے کاٹتے  اپنا گھوڑا بڑھاتے چلے جارہے تھے ، یہ دیکھ کر ان کے ساتھیوں  نے احتجاج  کیا، ‘‘ خدا  سے ڈرو  خالد رضی اللہ عنہ  سے ڈرو ، تم سالار فوج ہو ، تمہارے  لئے اس طرح آگے  بڑھنا  ( اور اپنی جان  جو کھوں میں ڈالنا)  مناسب نہیں ’’۔‘‘ خالد رضی اللہ عنہ : ‘‘ بخدا  مجھے  یہ خوب معلوم   ہے،لیکن  یہ کس طرح ممکن  ہےکہ مجھے  مسلمانوں  کی شکست کا دھڑ کالگا  ہو اور  میں صبر سے بیٹھا  رہوں ۔ ’’ مورخ کُلبی 1؎  ( 1؎ محمد بن سائب  کلبی متوفی 146ھ ) نے ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے جن کا تعلق  قبیلہ  طیّٔ سے تھا  کہا کہ جب ان چالیس  غلاموں نے  مسلمانوں  پر حملہ کیا تو ایک طائی  نے بآواز بلند کہا  ‘‘ خالد سَلمی اور اَجا 2؎  ( پہاڑوں کو ) (2؎ مدینہ سے تین مرحلے  ( تقریباً نوےمیل )  شمال میں دو پہاڑوں  کے درمیان اور آس پاس  قبائل  طبیّٔ کی بستیاں تھیں)  بھاگ  چلو ۔’’ ہمارا ملجا تو بس خدا ہے’’۔ پھر انہوں نے  حملہ کردیا اور بخدا اس وقت  تک نہ لوٹے جب تک ان چالیسوں  کا صفایا نہ کردیا۔

جنگ بزُ اخہ میں  خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  دو تلواروں سے  لڑے  اور اتنا کہ  دونوں ٹوٹ گئیں، پسپا  ہونے کے بعد  مسلمان لوٹے تو پھر جنگ  گرم ہوئی  ( طُلیحہ کا بھتیجا اور جنرل )حِبال بن آبی  حِبال  گرفتار ہوا ، مسلمانوں  نے چاہا کہ اس کو ابوبکر  صدیق رضی اللہ عنہ کے پا س  بھیج دیں تاکہ  وہ خود اس کی قسمت  کا فیصلہ  کریں،  لیکن اس نے کہا : ‘‘ میری  گردن اڑادو مجھے  تمہاری یہ عنایت  نہیں چاہئے ’’۔  اس کی گردن  ماردی گئی ۔

و اقدی  نے عبداللہ  بن عمر 1؎  کے حوالہ سے جو جنگ میں شریک تھے بیان  کیا :۔ (1؎ صحابی ، 72 یا 73 ھ میں انتقال ہوا، جنگ  یمامہ  میں شرکت  کے وقت بیس اکیس  سال کے تھے اصفآ 2/347) ‘‘ میں نے دیکھاکہ طُلیحہ  کا جھنڈا سرخ رنگ کاہے جس  کو ایک اَسَدی اُٹھا ئے  ہوئے  خالد رضی اللہ عنہ  ا س کے پاس  آئے اور حملہ  کر کے اس  کو قتل کردیا، جھنڈے  کاگرنا تھاکہ طُلیحہ  کی فوجیں  بھاگ پڑیں  ، میں نے  دیکھا کہ جھنڈے  کو اونٹ گھوڑے اور آدمی روند رہے ہیں یہاں تک کہ اس کے پرزے  ہوگئے ،  خدا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  پررحم فرمائے ان کی کارگذاری  اور جرأت  قابل داد  تھی،  میں نے دیکھا  کہ جنگ  بزُاخہ میں وہ خود  کود پڑے  ہیں، اس پرلوگ  ان سے احتجاج  کرنے ، اسی طرح  میں نے جنگ یمامہ  میں بھی  ان کو خود لڑتے ہوئے دیکھا ، اگر کوئی  دوسرا ان کی جگہ ہوتا (تو جنگ اتنی خطرناک  تھی )  کہ خود لڑنے سے یقیناً  پہلو تہی کرتا ، جب وہ دشمن کی صفوں  سے ہمارے  پاس واپس  آتے تو ان کی سانس پھولی ہوتی’’۔

پسپائی کے بعد جب مسلمان لوٹے  اور لڑائی  گرم ہوئی تو طُلیحہ نے اپنی  شال لپیٹی  ، وہ بزعمِ خود وحی  کا منتظر  تھا،  جب دیر تک وحی نہ آئی اور دوسری  طرف جنگ میں اس کی فوج  برُی طرح  رگڑی گئی تو عُیَینہ بن حصِن  فَزاری  ( لیڈر بنو فزار ہ اور  حلیف طُلیحہ) نے خود لڑنا  اور فوج کو جوش دلانا شروع کیا۔ ابن اسحاق  مَدنی : اس دن عُیَینہ  نے اپنے قبیلہ  فَزارہ کے ساتھ  سو جوانوں کے ساتھ بڑی  سخت  لڑائی لڑی ، جب مسلمان تلوار سونت کر ان پر ٹوٹ پڑے تو وہ طُلیحہ  کے پاس  آیا جو اپنی  شال لپیٹے  ہوئے تھا  اور اس سے کہا : ‘‘ بُرا  ہو تمہارے باپ کا ! کیا  جبریل  اب بھی آیا؟’’ طُلیحہ ‘ :‘‘ نہیں ابھی تو نہیں : ‘‘ عُیینہ تباہی آئے تو پر، سارادن ہوگیا اور جبریل  کا کہیں پتہ نہیں : ’’ یہ کہہ کر عُیینہ  لوٹا اور جنگ  کی بھٹی  میں کود پڑا اور اپنی فوج  کو جوش دلانے  لگا جو مسلمانوں کی تلواروں کے نیچے چیخ رہی تھی ، کافی دیر کے بعد عُیینہ  پھر طُلیحہ  کے پاس گیا جو شال اوڑھے  لیٹا ہوا تھا اور شال اس زور سے کھینچی  کہ طُلیحہ  اُٹھ بیٹھا  ، عُیینہ  : اس نبوت کا برُا ہو !  اب بھی کوئی  وحی آئی  ؟ ’’ طُلیحہ  : ہاں آئی  ہے کہ تمہاری چکی  ( مراد جنگ) خالد رضی اللہ عنہ  کی چکی  کی طرح ہے اور اس جنگ کا ایک ایسا نتیجہ   نکلے گا جو تم ہمیشہ  یادر کھوگے ۔’’ عُیینہ  : میرا  خیال  ہے کہ تمہارے  ساتھ  ایک ایسا واقعہ ( شکست) پیش آئے گا  جو تم ہر گز کبھی نہ بھولو گے، بنو فزارہ ( ہاتھ کااشارہ کر کے) چل دو  یہاں سے، یہ کذاب  ہے، حکومت  و اقتدار  کی خواہش  اس کے اور ہمارے  لئے بڑی منحوس ثابت ہوئی!  قبیلہ فزارہ چلا گیا اور اس کے پیچھے عُیینہ اور اس کا بھائی   ( خارجہ) روانہ ہو ا ، مسلمانوں نے عُیینہ کو پکڑ لیا لیکن اس کا بھائی نکل بھاگا ،کہا جاتا ہے کہ عُیینہ کو پکڑنے  والا قبیلہ طَیّٔ  کا ایک بہادر  عُروہ بن مُصّرِس 1؎ تھا (1؎  بروز م محدث ، قبیلہ طیّ کا ایک لیڈر اور صحابی  تاج القروس 2/175) ،خالد رضی اللہ عنہ  نے عُیینہ  کو قتل کرنا چاہالیکن  بنو مَخُزوم  ( قریش) کے ایک معزّز آدمی  نے سفارش  کر کے اس کی جان بچالی ۔

طُلیحہ نے  جب دیکھاکہ  اس کی فوج  کے لوگ مارے  او رپکڑے  جارہے ہیں تو اس نے میدان  چھوڑ دیا لیکن  مسلمان  نہ تو اس کوپکڑسکے  نہ اس کے بھائی  ( سَلمہ) کو  بھاگنے سے پہلے  اس کے دوست  اور حاشیہ  کے لوگ  اس سے پوچھنے  لگے  کہ اب   کیا رائے  ہے؟  طلیحہ  نے پہلے  ہی گھوڑا  تیار کرلیا  تھا، چھلانگ  مار کر  ا س کے پیٹھ  پر بیٹھا  او رپیچھے  اپنی بیوی  نوار کو سوار کیا او ریہ کہتے  ہوئے گھوڑے  کے ایڑ لگائی کہ  تم میں سے جو لوگ   بھاگ سکیں  اپنی بیویوں  کے ساتھ  میری طرح بھاگ جائیں ’’۔ وہ شام پہنچا  اور عرب ۔ شام  سرحد کے غَسَّانی  حکمرانوں  کے پاس  پناہ لی۔

یعقوب زہری کی کتاب (ا لمغازی) میں ہے: طُلیحہ نے اپنی فوج  کو پسپا  ہوتے دیکھا تو اس  سےکہا : تمہارا بُراہو،  تم  کیوں  پسپا ہورہے ہو؟ ’’ اس پر ایک شخص نے کہا :  ‘‘ اس  کی وجہ  میں بتاتا ہوں  ، ہمارا ہر سپاہی  چاہتا  ہے  کہ اس کا ساتھی  قتل ہو اور وہ خود بچ جائے جب کہ ہمارے   مقابل  ایسی فوج  ہے جس کے ہر فرد  کی تمنا  ہے کہ اپنے  ساتھی  سے پہلے جان  دے’’۔

ابن اسحاق مَدَنی : اور طُلیحہ  جب جنگ سے فرار ہوا تو عُکاّشہ بن محصَن ( اَسَدی)  اور ثابت  بن اَقرم 1؎  نے اس کاپیچھا  کیا، ( 1؎ اسلامی فوج کے دو بدری  صحابی  کمانڈر) طُلیحہ   نے عہد کیا تھاکہ جب  بھی کوئی دشمن  اس کو دوبدو لڑنے کا  چیلنج  دے گا وہ ضرور  اس چیلنج  کو قبول کرلے گا ، جب طُلیحہ  مڑا تو عُکّاشہ  نے اس کو  آواز دی ، طُلیحہ  نے ان پر وار کیا اور قتل  کرڈالا  اتنے میں ثابت  بھی  پاس آگئے ، طُلیحہ  نے اُن کو بھی شہید کردیا،  اس کے بعد وہ شام چلا گیا ، اُس  نے ان دونوں  کے قتل کا اشعار  ذیل  میں ذکر کیا ہے:۔

 زَعَمْمَ بأن القدم لن یقتلو کم            ألیسواوإن 2؎  لم یُسلموا برجال ( اصل میں ألیسو ولم یُسلموا برجال)

مسلمانو! تم نے دعوی  کیا تھا  کہ ہم تم کو ہرگز قتل نہیں کرسکتے            مسلمان نہ  سہی لیکن کیا ہم بہادر بھی نہیں

عدلتُ لھم صد رالحِمالۃ إنھا            مُعَوَّدۃ قیل 3؎  الکُماۃ نَزالِ (3؎ اصل میں قتل  الکماۃ)

میں نے عُکّاشہ کے رسالہ کی طرف اپنی گھوڑی  حِمالہ کا منہ موڑ دیا       جس کو مسلح  سورماؤں کی لڑائی  میں شرکت  کی عادت ہے

فیو مًا تقی  بالَمشرفِیَّۃ خَدَّھا                 و یو ماً ترا ھانی ظلال عَوالِ

 کبھی تم دیکھو گے کہ وہ مشرقی تلوار سے اپنا بچاؤ کرتی ہے    او رکبھی تم اس کو لمبے  نیزوں  کے نیچے  دیکھو گے

دیو ماً  تراھانی الجلال مصونہ            دیوماً  تراھا غیرَ ذاتِ جلالِ

کبھی  تم  اس کو جھول میں محفوظ  دیکھو گے          او رکبھی  بے جھول  کے

عُشیۃ َ غادرت ُ  آبنَ أترم ثادیا        وُعکّاشۃ الغنمی عند مجالِ

جس شام میں نے ثابت  اقرم اور عُکّاشہ بن محصَن جیسے شہسوار وں  کو میدان جنگ  میں کشتہ چھوڑا  اس شام کیا  میں نے بہادری  کا ثبوت  نہیں دیا؟

فأن تک أَذوٰادُاُصبن ونِسوۃُ          فلن یَذ مبوا فِرغا یقتل حِبال

اگر ہماری  اوٹنیاں اور عورتیں  مسلمانوں  نے پکڑی ہیں تو یہ ہرگز نہ سمجھا  جائے کہ  وہ ضائع  ہوئیں کیونکہ  ان کو دے کر ہم نے حِبال کا انتقام لے لیا۔

واقدی نے دو کمانڈروں کے قتل  سے متعلق  مختلف  اقوال پیش کئے ہیں،  ان کے  ایک راوی عُمَیلہ فَزاری نے جو رِدَّۃ  کی تاریخ  سے خوب  واقف تھا بیان  کیا کہ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  طُلیحہ   کے پاس پہنچے تو انہوں نے عُکّاشہ اور ثابِت  کو ہرادل دستوں  کا کمانڈر بناکر آگے  بڑھا دیا،  یہ دونوں اعلیٰ  درجہ کے گھوڑسوار  تھے،  ان کی مڈبھیڑ  طُلیحہ  اور اس کے بھائی  سلمہ 1؎ سے ہوئی (1؎ متن میں  مسلمہ)  جو اپنی  فوج  کے ہر اول دستوں  کے انچارج  تھے ، ان کا باقی لشکر پیچھے تھا ، طُلیحہ  عُکّاشہ سے اور سَلمہ ثابت  سےبنردآزما ہوئے سلمہ  نے ثابت   کو جلد ختم کردیا ، اس وقت طُلیحہ چیخا : ‘‘ سَلمہ میری  مدد کر یہ شخص  مجھے قتل کر دے گا ۔’’ سَلمہ اور طُلیحہ نے مل کر عُکّاشہ رضی اللہ عنہ پر وار کیا  اور اُن  کو قتل کر ڈالا اس کے بعد وہ ( خوش خوش) اپنی فوج  سے جاملے، خالد رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج  چلی آرہی  تھی کہ راستہ  میں پڑی ثابت بن اَقرم  کی لاش  نے ان پر خوف طاری کردیا،  اونٹنیاں  لاش کو رونڈ رہی تھیں  مسلمانوں  کو ان کے قتل  کاسخت قلق ہو ا ، ذار آگے بڑھے تو عُکّاشہ رضی اللہ عنہ  کی لاش اونٹوں  کے پیروں تلے آئی  ،اونٹ  سوار ( صدمہ سے) اتنے بھاری  ہوگئے کہ بمشکل اونٹوں کے پیر اٹھتے تھے ۔

( یعقوب) زُہری  کی کتاب ( المغازی)  میں ہے : پھر 2؎  مسلمان طُلیحہ  کی فوج سے (2؎ یعنی طُلیحہ  کے فرار کے بعد)  متصادم  ہوئے او ربہت  سوں کو قتل کیا او ربہت سوں کو گرفتار  ، خالد رضی اللہ عنہ نے بآواز  بلند کہا : ‘‘  جس شخص  کو کھانا پکانا  یا پانی گرم کرنا ہو وہ صرف دشمنوں کی کھوپڑیوں کا چولھا بنائے۔ ‘‘  اس موقع پر ایک اَسَدِی خالد کے گھوڑے کے پیچھے  دوڑا اور قریب آکر کہنے لگا: تم کو قسم  ہے جو مُضر 1؎ کو اپنے ہاتھ  سےتباہ کرو! ( 1؎ بن تراز بن مَعَد بن عدنان ، شمالی عربوں کا دادا، یہاں اس  کی نسل مراد ہے) ’’ خالد رضی اللہ عنہ : تیرا  بُرا ہو، کون ہے تو؟ اَسَدِی : میں قیس 2؎ کی نسل سے ہوں،(2؎ قیس بن عُیلان  بن مُضَر بنو اَسَدقیس  کی اولاد  میں سے تھے) کیا حکم  ہے تمہارا  بنو اَسَد کے لئے  ؟ ’’ خالد : میرا حکم ہے کہ وہ نماز پڑھیں  ، زکاۃ دیں اور اپنے علاقوں  کو لوٹ جائیں  اور جس کے پاس اونٹ  یا اَراضی  ہو وہ اس کی داشت  پر داخلت  کرے۔’’ بنو اَسَد نے یہ حکم مان  لیا ( اُن  کے پڑوسی)  بنو عامر نے خالد رضی اللہ عنہ  کی اس معافی کی خبر سنی تو انہوں نے  بھی اسلام کا اعلان کردیا ۔

 خالد  رضی اللہ عنہ  نے باڑے  بنوائے اور ان  میں آگ جلوائی  اور قیدیوں  کو آگ میں ڈلوا دیا،  حامیہ  بن سُبَیع  اَسَدی  بھی آگ  میں ڈالا گیا  جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی قوم کا محصِل زکاۃ  مقرر کیا تھا 3؎  ( 3؎ اوائل 11ھ میں ۔اصابہ 1/401) اور جو بعد میں مرتد  ہوگیا تھا ۔ طُلیحہ  کی ماں جو  بنو اَسَد کی ایک خاتون  تھی گرفتار  کر لی گئی  ، خالد رضی اللہ عنہ  نے اس کو اسلام  کی دعوت دی  لیکن اس نے یہ دعوت  ٹھکرادی اور یہ  جز پڑھتی  آگ  میں کود کر ستی ہوگئی :۔

یا موت عَم صَباحا ۔ کا فحۃُ کِافحا ۔ إذلم أَجد بَراحا

موت سلام ، جب زندگی  کے بچنے  کی کوئی صورت  نہ رہی تو میں  نے موت  کو خوش آمدید  کہا

قاضی   و اقدی  نے یعقوب  بن زید 4؎ بن طلحہ  کے حوالہ سے بیان کیا ( 4؎ من میں یزید بن طلیحہ  ہے  تابعی  قاضی مدینہ منصور عباسی  کی خلافت  میں انتقال  ہوا تہذیب التہذیب 11/ 385) خالد رضی اللہ عنہ  نے قیدیوں کو باڑوں  میں جمع کیا  اور آگ لگا کر ان کو زندہ  جلادیا ، بنو  فَزارہ  کا کوئی فرد  نہیں جلایا گیا،  میں نے تاریخ  رِدّہ کے ایک عالم سے پوچھا  کہ باغیوں میں صرف طُلیحہ  کے ساتھیوں  کو کیوں  جلایا  گیا تو اس نے کہا : انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کی  مذمت  کی تھی اور ارتداد پر قائم رہے تھے  5؎ (5؎ یعنی شکست کے بعد بھی  قبول اسلام کےلئے تیار نہ ہوئے ) ۔ دوسری روایت ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ  نے گڑھے کھدوائے تو صحابہ  نے پوچھا : ‘‘ ان کا کیا ہوگا ؟’’  تو انہوں نے کہا : ‘‘ میں قیدیوں کو آگ میں جلاؤں گا ’’۔ صحابہ نے  اس پر اعتراض  کیا تو خالد رضی اللہ عنہ  نے کہا : میرے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ  کا یہ ہدایت نامہ ہے: اگر تم کو خدا فتح عطا کرے تو قید یوں کو آگ  میں جلانا ۔’’

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ : میں جنگ  بزُاخہ میں  شریک تھا  ، خدا نے  ہم کو طلیحہ  پر فتح  عطا کی  ہم جب فتح یاب  ہوئے تو  بال بچوں  اور عورتوں کو غلام  بناتے  اور باغیوں کا مال  آپس میں  بانٹ لیتے ۔’’

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-6/d/98255

 

Loading..

Loading..