خورشید احمد فارق
باغیوں کی سرکوبی کو بھیجتے وقت ابوبکر صدیق کی خالد کو ہدایات
حَنظَلہ بن علی اسلمیٰ 1؎: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید کو اہل رِدّہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا اور ان کوحکم دیا کہ اگر کوئی شخص ذیل کی پانچ باتوں میں سے ایک کو بھی نہ مانے یا ترک کرے تو اس سےلڑو (1؎ عام طور پر ان کو تابعی بتایا جاتا ہے ، ان کا صحابی ہوناثابت نہیں ۔ اصابہ 1/396)
1۔ شہادت توحید
2۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول خدا ہونے کی شہادت
3۔ اقامت نماز ۔
4۔ ادائیگی زکاۃ
5۔ رمضان کے روزے
ایک دوسرا راوی زید بن اسلم 2؎ حج کااضافہ کرکے کہتا ہے (2؎ انصاری ،بدری صحابی اصابہ 1/560) کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چھ باتیں ضروری قرار دی تھیں ۔ نافع جبیر 3؎: (3؎ مدینہ کے تابعی محدث متوفی 93 ھ ۔ طبقات ابن سعد لائڈن 5/152۔153) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خالد بن ولید کو باغیوں کی سرکوبی کو بھیجا تو ان کو ہدایات دیں اور یہ خط لکھ کر ان کے ساتھ کر دیا :
‘‘ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔یہ وہ ہدایتیں ہیں جو خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دیں جب انہیں مہاجر و انصار نیز دوسرے مسلمانوں کے ساتھ ان لوگوں سے لڑنے بھیجا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اسلام سے منحرف ہوگئے تھے ، خالد کو حکم ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے سارے معاملات میں ظاہری ہوں یا خفیہ خدا سے ڈرتے رہیں ، اسلام کی سربلندی کے لئے تن دہی سے کام لیں اور پوری سنجیدگی سے ان لوگوں کی سرکوبی کریں جو اسلام سے پھر گئے ہیں او رشیطانی آرزو ئیں دل میں بسائے ہوئے ہیں، ان کو حکم ہے کہ سزا دینے سے پہلے باغیوں کو سنبھلنے کا ایک موقع دیں یعنی ان کے سامنے دعوت اسلام پیش کریں اور ان حقوق سے باخبر کریں جن کے بحیثیت مسلمان وہ مستحق ہیں اور ان ذمہ داریوں سےبھی جو بحیثیت مسلمان ان پر عائد ہوتی ہیں ، جو لوگ اس دعوت کو مان لیں کالے ہوں یا گورے ، ان کا اسلام قبول کرلیں ، جس کو دعوت اسلام دیں اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کریں، ، ( لیکن اگر وہ دعوت اسلام نہ مانے) تو تلوار سے کام لیں، ان کی لڑائی ان ہی لوگوں سے ہے جو کفر باللہ کےمرتکب ہیں، جو لوگ دعوت اسلام سن کر اس کو ( زبان سے) قبول کرلیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں ( اور جو دل سے مسلمان نہ ہوں) ان کا حساب خدا کے ہاتھ ہے ، خالد کو حکم ہے کہ اپنے مشن کو تن دہی سے انجام دیں، جو باغی کلمہ ٔ شہادت قبول نہ کریں ان کےلئے خالد کو ہدایت ہے کہ مہاجرین و انصار کے ساتھ ان سےلڑیں وہ جہاں ہوں اور جہاں کہیں بھی بھاگ کر جائیں ان میں سے جو خالد کے ہاتھ آجائیں ان کو قتل کردیں او رکسی سےسوائے اسلام اور شہادت لَا إِلہٰ إِلاَّ اللہ و أنّ محمد ًا عبدُہ وَ رَسُوْلُہ کے او رکچھ قبول نہ کریں،ان کو حکم ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یمامہ کی طرف پیش قدمی کریں او رپہلے بنو حنیفہ او ران کےکذاب مسلمہ سے لڑیں لیکن لڑنے سےپہلے اس کو اور ان کو اسلام کی دعوت دیں او رمسلمان بنانے کی مخلصانہ کوشش کریں اور اگر وہ کلمۂ شہادت پڑھ کر اسلام لے آئیں تو ان کا اسلام قبول کرلیں مجھے اس طرح کی اطلاع دیں او رمیری اگلی ہدایت تک یمامہ میں ٹھہرے رہیں ، اگر بنو حنیفہ دعوتِ اسلام قبول نہ کریں، کفر سے نہ پھریں او راپنے کذّاب ( مسیلمہ ) کے اتباع سے باز نہ آئیں تو ان سے وہ خود اور دوسرے مسلمان سخت لڑائی لڑیں ، یہ یقینی بات ہے کہ خدا اسلام کی مدد کرے گا اور اُس کو سب دینوں پر غالب کرکے رہے گا جیسا کہ اُس نے قرآن میں کہا ہے، کافروں کو یہ بات خواہ کتنی ہی ناپسند ہو ، اگر خدا کے کرم سے خالد کو بنو حنیفہ پرفتح حاصل ہو تو ان کو ہتھیاروں اور آگ دونوں سے تباہ کریں اور ان کے کسی شخص کو جسے مار سکیں زندہ نہ چھوڑیں ، مالِ غنیمت اور ان کی دولت کا خُمس ( پانچواں حصہ) نکال کےمسلمانوں میں بانٹ دیں او رخُمس میرے پاس بھیج دیں تاکہ میں قانون اسلام کے مطابق اس کوٹھکانے لگادوں۔’’
‘‘ خالد بن ولید کو ہدایت ہے کہ اپنے ساتھیوں میں اختلاف نہ ہونے دیں جس سے ان میں کمزوری پیدا ہو اور نہ جلد بازی میں آکر کوئی قدم اٹھائیں ان کو ہدایت ہے کہ گھٹیا درجہ کے عربوں کو فوج میں بھرتی نہ کریں جب تک یہ تحقیق نہ ہوجائے کہ وہ کون ہیں ان کا حسب نسب کیا ہے اور وہ کیوں ( مسلمانوں کے ساتھ ہوکر) لڑنا چاہتے ہیں ، مجھے ڈر ہے کہیں تمہاری فوج میں ایسے عرب آکر پناہ نہ لیں جو نہ تو مسلمان ہوں اور نہ ہی تمہارےدوست و ہمدرد ایسے لوگ تو تمہارے خلاف جاسوسی کریں گے اور تمہاری پناہ سے فائدہ اٹھائیں گے ، یہ اندیشہ مجھے بدّو اور گنوار عربوں کی طرف سے ہے، لہٰذا تمہاری فوج میں اس قسم کے لوگ بالکل داخل نہ ہوں۔’’
‘‘ کوچ اور قیام ہر حال میں مسلمانوں کے ساتھ لطف اور کرم سے پیش آؤ اور ان کی تکلیف و آرام کا خیال رکھو ، کوچ کے دوران فوج کا ایک حصہ دوسرے سے دور نہ رکھو ، نہ کوچ کرتے وقت کسی حصہ کو دوسرے سےپہلے روانہ کرو، اپنے سب ساتھیوں کا فہمائش کرو کہ انصاری صحابہ کی جو تمہاری فوج میں ہیں دلجوئی کریں اور ان کے ساتھ نرم گفتاری سے پیش آئیں ، کیونکہ وہ غمگین او رکبیدہ خاطر ہیں 1؎ ( 1؎ خلافت کے معاملہ میں مہاجرین و انصار میں چند دن پہلے جو اختلاف ہوا اس کی طرف اشارہ ہے’ انصار ناراض تھے کہ قریش نے ان کا یہ مطالبہ نہیں مانا کہ ایک بار خلیفہ قریش ہو اور ایک بار انصار سے) اسلام میں ان کے بڑے حقوق ہیں، ان میں بڑی خوبیاں ہیں انہوں نے اسلام کی شاندار خدمات انجام دی ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی سفارش بھی کی ہے ، لہٰذا ان میں جو صالح ہو ں ان کی بات مانو اور جو خطا کار ہوں ان سے درگزر کرو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی ہے، والسلام ۔’’
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا خط کے ساتھ مراسلہ ذیل عوام کے نام بھیجا اور خالد بن ولید کو حکم دیا کہ اس کو ہر مجمع میں پڑھ کر سنائیں :۔
‘‘ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر کی طرف سے خاص و عام کے نام خواہ وہ اسلام پر قائم ہوں خواہ مرتد ہوگئے ہوں ،سلامتی ہو ان پر جوراہِ راست پر قائم ہیں اور گمراہی کی طرف مائل نہیں ہوئے میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا جو یکتا او ربے شریک ہے کوئی عبادت کے لائق نہیں ، گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں جو سیدھی راہ دکھاتے ہیں او رگمراہ نہیں کرتے جن کو خدا نے اپنے پاس سے سچی تعلیم دے کر بشیر ونذیر ، داعی الی الحق اور سراج منیر ( روشن چراغ) بنا کر بھیجا تاکہ ان کو بدعملی سے ڈرائیں او رکافروں کے خلاف حجت قائم ہو، جن لوگوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مانی خدا نے ان کو سیدھا راستہ دکھایا اور جن لوگوں نے دعوت سےمنہ موڑا خدا نے ان کو سزا دی حتیٰ کہ چارونا چار ان کو مسلمان ہونا پڑا ، اس کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مقررہ عمر کو پہنچے تو خدا نے ان کو اٹھا لیا، انتقال کی خبر خدا ان کونیز سارے مسلمانوں کو اپنی نازل کردہ کتاب میں پہلے ہی دے چکا تھا : ( محمد) تم کو مرنا ہے اور سب کو بھی ۔ إنّکَ مَیَّت وَإ نَھُّمْ مَیَّتُونَ ( اے محمد)تم سے پہلے ہم نے کسی بشر کو دائمی زندگی نہیں دی، اگر تم مروگے تو وہ ہمیشہ تھوڑا ہی زندہ رہیں گے ‘‘وَمَا جَعَلْناَ لَبِشرٍ مِنْ قَبْلکَ الخْلَدَ ، أفأنَ مِتَّ فھُم الخا لِدُونَ ’’ ہر شخص کو مرنا ہے ، ہم شر اور خیر میں ڈال کر تم کو آزماتے ہیں او ر تم کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا ہے ۔ کُلُّ نَفسٍ ذَائقَۃٔ الَمؤتِ وَ نَبَلوَ کُمَ بِا الشَرِّ وَالخَیرِ فتنۃُ وَ إلَیَنا تُر جَعُونِ ۔ خدا مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ : ‘‘ محمد خدا نہیں رسول ہیں، ان سے پہلے بہت سے رسول آچکے ہیں ، اگر وہ مرجائیں یا قتل کردئیے جائیں تو کیا تم اسلام چھوڑ دوگے؟ اور جو اسلام چھوڑے گا وہ خداکا ہر گز کچھ نہیں بگاڑے گا اور خدا شاکرین نعمت کو عمدہ انعام عطا کرے گا۔ وَمَا مُحمَّدُ إ لَّا رَسُول ُ قَدْ خَلَتْ مِنَ قَبلِہ الرُّسلُ أفأن مَّاتَ أو قُتِل اِنقَلَبْتَم عَلےٰ أعَقَا بَکم وَ مَنْ یَّنقَلِبْ عَلیٰ عَقَبَیْہ فَلَنْ یَضُرَّ اللہ شَیْئآ وَ سَیَجریٍ اللہُ الشَّا کِرِینَ ۔ پس اگر کوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاہو( تو اس کومعلوم ہوناچاہئے) کہ ان کا انتقال ہوچکا اور خدا ئے یکتا او ربے شریک کی عبادت کرتا ہو ( اس کو معلوم ہوناچاہئے ) کہ خدا اس کو دیکھ رہا ہے ، خدا جو زندہ ہے، قائم با لذات ہے ، جاوداں ہے جس کو نہ نیند آتی ہے ، نہ غنودگی ، جو اپنے سب کاموں کا خوب دھیان رکھتا ہے ، جو نافرمانوں کو سزا دیتا ہے ۔ لوگو! میں تاکید کرتاہوں کہ خدا سے ڈرو اور اس خوش بختی اور انعام کے مستحق بنو جو خدا تم کو دیناچاہتا ہےاور اس دستورِ زندگی پر عمل کرو جو تمہارا نبی تمہارے لئے لایا ہے اور اس راستہ پر چلو جو نبی نے دکھایا ہے اور اس دین کو مضبوط پکڑ لو جو خدا نے دیا ہے بلاشبہ خدا جس کی حفاظت نہ کرے وہ بچ نہیں سکتا ، خدا جس کی تصدیق نہ کرے وہ سچا نہیں ہوسکتا، جس کو وہ خوش نصیب نہ بنائے وہ بد نصیب ہے، جس کو رزق نہ دے وہ محروم ہے ، جس کا دستگیر نہ ہو وہ خوار ہے لہٰذا اپنے مالک خدا کی دی ہوئی ہدایت کو مانو اور اس دستورِ زندگی پر عمل کرو جو تمہارانبی لایا ہے کیونکہ درحقیقت وہی سیدھی راہ پر ہے جس کی خدا نے رہنمائی کرے اور جس کو خدا سیدھی راہ سے ہٹا دے اس کو ہر گز کوئی سیدھی راہ نہیں دکھا سکتا ۔ تم میں سے جو لوگ اسلام لاکر اور اس کے مطابق عمل کرکے اسلام سے منحرف ہوئے ان کی خبر مجھے ملی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ صحیح اندازہ نہیں ہے اور دوسری طرف شیطان نے ان کو اپنے دام میں پھانس لیا ہے ، بلاشبہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس کو دشمن ہی سمجھو وہ اپنے مریدوں کو غلط کاموں کا مشورہ دیتاہے تاکہ دوزخ میں جائیں ۔ إنَّ الَّشیطَانَ لَکُمْ عَدْ وُفَاْ تخِذُوَہُ عَدُ وّاً وَإ نَّما یذَعُوْ حِزْ بہ لِیَکُوْ نُو ا مِنْ أصْحابِ السَّعِیرِ ، میں خالد بن ولید کو قریش کے مہاجرین اولین ، انصار او ردوسرے مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تمہارے پاس بھیج رہا ہوں ، ان کو حکم ہے کہ کسی سے اس وقت تک نہ لڑیں او رنہ قتل کریں جب تک اس کاکو ‘‘کلمۂ شہادت ’’ کی دعوت نہ دے دیں، جو شخص اسلام کو پھر قبول کرلے اور اپنی غلطی پر توبہ کرے اور ارتکاب گناہ سے باز آئے اور نیک عمل ہوجائے اس کااسلام قبول کرلیں اور اس کو اسلام پر قائم رہنے میں مدد دیں لیکن جو لوگ ان کی دعوت سن کر اور دوبارہ سنبھلنے کا موقع پا کر اسلام قبول کرنے سے انکار کریں اُن سے خود او راپنے خدائی جاں نثاروں کے ساتھ نہایت سخت لڑائی لڑیں اور ان کے ساتھ مطلق نرمی نہ برتیں ، ان کو آگ میں جلادیں ،عورتوں او ربچوں کو قید کرلیں اور کسی سے کلمۂ شہادت اور اسلام کے علاوہ اور کوئی سمجھوتہ نہ کریں ، جو شخص خط کی پیروی کرے گا اس کو فائدہ ہوگا اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا نقصان اٹھائے گا’’۔
عُروہ بن زُبیر 1؎ : (1؎ مدنی تابعی ، فقیہ او رمورخ مُتوفّی 94ھ ،تہذیب الاسماء نَودَی گو تنجن ، 1842/ 420۔421) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو ہدایات دینا شروع کیں اور کہا :۔
خالد! خوفِ خدا کو اپنا شعار بناؤ اور اپنے ماتحت ساتھیوں کے ساتھ لطف و محبت سے پیش آؤ، تمہارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے مہاجر انصار صحابہ ہیں،اپنے معاملات میں ان سے مشورہ کرو اور ان کی صوابدید کے مطابق عمل کرو، فوج سے آگے آگے ہر اول دستے رکھو جو تمہارے کیمپ کے لئے مناسب ٹھکانے تلاش کریں ، کوچ کے وقت اپنے ساتھیوں کو عمدہ فوجی تربیت میں رکھو ، اَسد اور غَطَفان 1؎ (1؎ مدینہ کے شمال او رمشرق میں) کے علاقہ میں پہنچ کر تم دیکھو گے کہ ان میں سے کچھ تمہارے دوست ہیں او رکچھ دشمن اور کچھ نہ دوست ہیں نہ دشمن بلکہ اس بات کے منتظر ہیں کہ جو لڑائی میں جیتے اس کا ساتھ دیں، ( مجھے ان کا تو زیادہ ڈر نہیں ، لیکن اہل یمامہ ( بنو حنیفہ) کی طرف سے بڑا اندیشہ ہے، مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ سب کے سب اسلام سے منحرف ہوگئے ہیں ، اگر مدینہ کے نواح میں تم کو کامیابی ہو تو یمامہ کا رخ کرنا ، وہاں تم ایسے دشمن سے مقابل ہوگئے جواول سے آخر تک تمہارے خلاف ہے ، جس کا علاقہ اجنبی ہے اور دُشوار گذار جہاں صرف جنگلوں اور بیا بانوں سے ہوکر ہی پہنچنا ممکن ہے، ان بیابانوں میں سفر کے دوران فوج کا خاص خیال رکھنا کیونکہ ان میں کافی کمزور لوگ ہیں، مجھے امید ہے کہ تم بنو حنیفہ کے علاقہ میں پہنچنے میں کامیاب ہوگے جب تم وہاں داخل ہوتو نہایت چوکنا او رمحتاط رہنا اور جب تم ان سے صف آرا ہوتو جس طرح کے ہتھیاروں سے لڑیں اسی طرح کے ہتھیاروں سے تم بھی لڑنا، اگر وہ تیر چلائیں تو تم بھی تیر چلانا ، وہ نیزوں سے لڑیں تو تم بھی نیزوں سے لڑنا، اور اگر وہ تلواروں سے مقابلہ کریں تو تم بھی تلوارو ں سے مقابلہ کرنا اور اگر خدا تم کو فتح عطا کرے تو ان کے ساتھ رحم یا نرمی سے پیش نہ آنا او ردیکھو تم سے کوئی ایسا فعل سرزدنہ ہو جس سے مجھے ملال ہو، میری ہدایت گوش ہوش سےسنو ، جس گھر سے اذان کی آواز آئے وہاں تحقیق کئے بغیر چھاپہ نہ مارنا او رجسے نماز پڑھتا نہ دیکھو اس کو ہر گز قتل نہ کرنا، تم کو دھیان رہے خالد کو خدا جیسا تمہارا ظاہر دیکھتا ہے ویسا ہی تمہارے باطن سے باخبر ہے ،تم کو یہ بھی یاد رہے کہ تمہارے رعیت جیسا تمہیں دیکھے گی ویسا ہی خود کرے گی ،ان سب راستوں پر پہرہ لگا دینا جو تمہاری طرف آتے ہوں ، اپنی فوج کے آرام کا خیال رکھنا ،نازیبا باتوں سے ان کو روکنا، اہل ارتداد سے تمہاری لڑائی ( ہتھیاروں کی نہیں) عمل کی ہے۔ اچھے عمل ہی سے تم دشمن پر فتح کی توقع کرسکتے ہو، خدا کی رحمت کے سایہ میں چل دو’’۔
URL Part-4
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-4/d/98080
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-5/d/98173