خورشید احمد فارق
حضرت ابو بکر کا زکوۃ نہ دینے والوں سے جنگ کا عزم
رِدّہ لڑائیوں کے ایک مورخ کی رائے ہے کہ ‘‘زکاۃ کے اونٹ نکال لانے کی جس تدبیر کا ابھی ذکر ہوا زِبرِقان بن بدر کے ہاتھوں عمل میں آئی تھی ’’۔ مؤلف کتاب : ‘‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو دونوں نے توفیق ایزدی سے یہ تدبیر اختیار کی یا پھر غلط نسبت کی وجہ سے اختلافِ روایت ہوگیا’’۔ مذکورہ تدبیر کو زِبِرقان بن بَدر کی طرف منسوب کنے والے کہتے ہیں کہ اس موقع پر زِبِر قان نےیہ اشعار کہے:۔
لقد عَلِمَتْ قیس و خنِدِ فُ أننی وفیتُ إذا مافارسُ الغد رِأ لجما
قیس اور خندف کو خوب معلوم ہے کہ میں نے وفاداری سے کام لیا جب کہ غدار سوار 1؎ نے بغاوت کی تیاری کی (1؎ انصاری ،بدری صحابی 43 ھ / 663 ء میں وفات پائی ۔ تہذیب التہذیب 9/454۔455)۔
آتیت التی قد یَعلَم اللہُ أنھا اِذاذُ کرت کانت أعفَّ و آکرما
میں نے وہ کام کیا جو ہمیشہ تاریخ میں دیانت اور شرافت کا شاہکار سمجھا جائے گا
ألفِتُ لعَوف أن یُسَبَّ أ بو ھم إذا أقتسم الناس السَّوام المُقَسَّما
مجھے یہ بات عوف ( قبیلہ زبرقان) کے شایان شان نہ معلوم ہوئی کہ ان کے اجداد پر لعن طعن ہو ، جب لوگ زکاۃ کے اونٹ بانٹیں
ورَوَّ حتُھامن أَھل جو 1؎ فا ءَ أصبحت تَد وس بأید یھا الحصا و المُحَرَّما (1؎ علاقہ یمامہ کی ایک سرسبز بستی جہاں زبر قان کا قبیلہ آباد تھا تاج القروس 6/63 ۔معجم البلدان 3/173)
میں اہل جو فاسے زکاۃ کے اونٹ لے کر چلا اور وہ کنکر یاں روندھتے ہوئے مدینہ آگے
حَبوتُ بھا قبرا لنبی وقد أبی فلم یحبُہ ساعٍ من الناس مَقسما
ان کو میں نے رسول اللہ ک مزار پر پیش کیا جب کہ دوسرے قبیلوں کے محصل زکوٰۃ کے اونٹ لیکر نہ آسکے
نیز :۔
وفیتُ بأ ذوادا لنبی بن ھاشم علی مَوطِن ضمام الکریم َ الُمسَوَّدا
میں نے نبی محمد کے مقرر کردہ اونٹ ادا کر دیئے ایسے حالات میں جو ایک شریف سردار کے لئے محبت پریشان کن تھے ۔
فأدَّ یتْھا ألفاد لوشئتُ ضَمّھا رُعاء یکبون الوَشیج المقصدا
میں نے مقررہ زکاۃ کا پورا کوٹا یعنی ہزار اونٹ دے دیئے اور اگر میں چاہتا تو میرے نیزہ باز بہادر ہم قوم ان کو گلّو ں میں ضم کرلیتے ۔
ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم کے پاس زکاۃ کے اونٹوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی ، جب عربوں میں ارتداد کی وبا پھیلی او رانہوں نے دی ہوئی زکاۃ واپس لے لی اور بنواسد بھی جو طیّ کے پڑوسی تھے مرتد ہوگئے تو طیّٔ کے اکابر عَدِی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے او رکہا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد عرب باغی ہوگئے ہیں او رہر قبیلہ نے زکاۃ روک لی ہے، ان حالات میں ہمیں اپنا مال آپس میں بانٹنے کا اجنبیوں کی نسبت زیادہ حق ہے۔’’
عَدِی :۔ کیاآپ لوگ برضا و رغبت عہد و میثاق پوراکرنے کا وعدہ نہیں کر چکے ہیں؟ ’’ اکابر : ہم نے وعدہ ضرور کیا تھا، لیکن اس وقت بالکل نئے حالات پیدا ہوگئے ہیں اور عربوں نے جو روش اختیار کی وہ بھی آپ کےسامنے ہے ’’۔
عَدِی : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تو عہد توڑوں گا نہیں ، میں نے کسی حبشی سے عہد کیا ہوتا تب بھی اس کو ضرور پورا کرتا، اگر آپ نہیں مانیں گے تو میں آپ سے لڑوں گا اور یہ حاتم کالڑکا پہلا شخص ہوگا جو ایفا ئے عہد کی خاطر یا تو جان دے دے گا یا زکاۃ ادا کرکے رہے گا۔ اس بات کی توقع چھوڑ دیجئے کہ حاتم اپنے لڑکے عَدِی کو قبر میں لعنت ملامت کرے ، کسی غدّار کی غدّاری دیکھ کر خود غداری کی طرف مائل نہ ہوئیے کیونکہ شیطان کے ایسے لیڈر ہوتے ہیں جن کے بہکانے میں آکر ہر نبی کی وفات پر احمق راہِ راست سے ہٹ جاتے ہیں اور بغاوت کر بیٹھتے ہیں ، یہ بغاوت خاک کے ایک جھونکے سے زائد نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ان کانانشین ضرور مقرر ہوگا جو حکومت سنبھالے گا اور بلاشبہ ایسے لوگ بھی ہیں جو اسی جوش او رلگن سے دین اللہ کی حفاظت و حمایت کرنے کو تیار ہیں جس سے انہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کی تھی ، قسم ہے اس ذات کی جو آسمان پر مقیم ہے اگر آپ نےبغاوت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین میرے قتل کے بعد لڑکر آپ کے مال اور عورتوں پر قابض ہوجائے گا، اس وقت آپ کی کیا پوزیشن ہوگی؟’’
بغاوت کے خلاف عَدِی کا یہ شبات دیکھ کر بنوطیّ حاموش ہوگئے اور ان کے نصیحت پر عمل کیا ، بعض لوگ کہتےہیں کہ بغاوت کے حق میں اکابرطیّ نے عدی رضی اللہ عنہ سے گفگتو کی اس میں ایک بات یہ تھی :‘‘ جمع کی ہوئی زکاۃ روک لو، اگر ایسا کروگے تو ہمارے حلیف بنواَسَد کے بھی لیڈر ہوجاؤگے۔’’ عَدِی رضی اللہ عنہ : میں ہر گز ایسا نہیں کروں گا ، یہ زکوٰۃ ابوبکر کو دی جائے گی ۔’’ چنانچہ وہ زکاۃ لے کر مدینہ گئے اور ابوبکر صدیق کے حوالہ کردی۔
عمر فاروق اپنے عہد خلافت میں عدی کے ساتھ روکھے پن سے پیش آئے تو عدی نے کہا : ‘‘معلوم ہوتا ہے آپ مجھے پہچانتے نہیں ؟ ’’ عمر فاروق : بخدا زمین پر میں تم سے خوب واقف ہو اور آسمان پر خدا میں تم کو خوب جانتا ہوں ، تم وہ ہو جس نے پاس عہد کیا ، جب دوسرے عربوں نے عہد شکنی کی،تم وہ ہو جو اسلام کی طرف بڑھےجب دوسرے عربوں نے اسلام سےمنہ موڑا بخدا میں تم کو خوب جانتا ہوں ۔’’
زِبِر قان بن بدر بھی اپنی قوم کی زکاۃ لے کر آگئے ، اس شاندار کا ر گذاری سے وہ اور عَدِی عمر بھر معززوکرم رہے ، ابوبکر صدیق نے عَدِی کو تیس اونٹ عطا کئے ، وجہ یہ تھی کہ 9 ھ / 630ء میں جب عدی بحیثیت عیسائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے اور پھر مسلمان ہوکر اپنے وطن جانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلایا او رکہا ئ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہارے زاد راہ کاکوئی بندوبست نہیں کرسکا ، بخدا آلِ محمد کے پاس اس وقت روٹی کا ایک ٹکڑا تک نہیں ہے ، اس وقت تم خالی ہاتھ چلے جاؤ ، خدا اس کی تلافی کرے گا۔’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول ابوبکر صدیق کو یاد تھا اس لئے انہو ں نے زکاۃ کے تیس اونٹ عَدِی کو ہبہ کو دیئے ۔
جب عربوں کی ایک خاصی تعداد اسلام سے منحرف ہوگئی اور ایک خاصی تعداد نے زکاۃ دینابند کردی تو ابوبکر صدیق نے پوری سنجیدگی سے ان کے ساتھ لڑنے کا تہیہ کرلیا ۔ خدانے ان باغی عربوں کےمعاملہ میں ان کی صحیح رہنمائی کی ، انہوں نے بذاتِ خود باغیوں کی سرکوبی کےلئے نکلنے کاعزم کر لیا ، انہوں نے حکم دیا کہ وفادار عرب جنگ کے لئے تیار ہوجائیں ، وہ سومہاجر وں کا ایک دستہ لے کر نکل کھڑے ہوئے ، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس دستہ میں مہاجر اور انصار دونوں تھے ، ان کی فوج کا جھنڈا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھا، انہوں نے بُقعا ء 1؎ ( 1؎ مدینہ سے 34 میل شمال مشرق میں ایک منزل ، تاج العروس 5/281)یا ذدالقَصَّہ جاکر کیمپ لگایا ۔ ان کے خود نکلنے کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے مسلمان جلدی کریں او ربڑی تعداد میں مسلح ہوکر آجائیں ، ترغیب جہاد کے لئے انہوں نے محمد بن مسلمہ 1؎ کو مامور کردیا تھا، (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 29) ابوبکر صدیق غروب آفتاب کے وقت بُقعا ء پہنچے ، نماز مغرب ادا کی اور ایک بڑی آگ جلوائی ،اس وقت خارجہ بن حصِن 2؎ (2؎ قبیلہ فزارہ کالیڈر اور عَیینہ بن حصِن کا بھائی ، بعد میں توجہ کر کے مسلمان ہوگیا تھا ) (بن حذیفہ بن بَدر) فَزاری جو مرتد ہوگیا تھا، اپنے قبیلہ کے رسالوں کے ساتھ مدینہ کی طرف گامزن تھا تاکہ عربوں کو ابوبکر صدیق کے پاس جانے سے باز رکھے اور اگر موقع مل جائے تو اچانک خلیفہ کے دستہ پر حملہ کردے ، اس کو موقع مل گیا اور اس نے ذوالقَصَّہ کے ان مٹھی بھر مسلمانوں بھر مسلمانوں پر چھاپہ مارا، معمولی لڑائی کے بعد مسلمانوں کے پیر اکھڑگئے ،ابوبکر صدیق ایک درخت پر چھپ گئے ، وہ نہ چاہتے تھے کہ باغی ان کو پہچان لیں ( اور قتل کردیں) اس وقت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور بآواز بلند کہا : مسلمانو ! ڈرو مت ، تمہاری مد د کے لئے رسالے آگئے ہیں ۔’’ یہ نعرہ سُن کر بھاگے ہوئے مسلمان لوٹ آئے ، اس اثنا میں ایک کمک بھی آگئی اور مسلمانوں کی جمعیت بڑھ گئی ، اب جو لڑائی ہوئی تو اس میں خارجہ بن حصِن فزاری اور اس کے رسالے پسپا ہوئے ، طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ ان کاپیچھا کیا اور زیر بن ثنا یا عَوسَجہ 3؎ میں خارجہ کو جا پکڑا ’ (3؎ یا قوت اور دسرے مراجع میں یہ جگہ نہیں ملی ) وہ بے تحاشا بھاگا تا کہ اپنی فوج کے عَقَبِی دستوں سے جا ملے ، طلحہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص پر نیزے کا وار کیا اور ا کی پیٹھ توڑ دی وہ مرکر زمین پر گر پڑا ، باقی لوگ بھاگ گئے ، طلحہ رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق کے پاس لوٹ آئے اور ان کو خارجہ کی فوج کےپسپاہونے کی خبر دی ، ابوبکر صدیق کئی دن بُقعا ء ( ذوالقَصَّہ میں ٹھیرے، انتظار میں کہ مسلمان جوق در جوق ان کے کیمپ میں آجمع ہوں، ان کے آس پاس جو وفادار قبیلے ۔ اسلم ، اشجع ، غِفار ، مُزینہ ، جُہینہ اور کَعب آباد تھے ان کو حکم دیا کہ بلاتا خیر مرتد عربوں سے جہاد کرنے جائیں ، ان قبائل سے اتنے جو ان آگئے کہ سارا مدینہ بھر گیا ۔
سَبرہ ( بن مَعبد ) جُہنی 1؎ : ( 1؎ مدنی صحابی ، امیر معاویہ کی خلافت میں انتقال ہوا۔ تہذیب التہذیب 3/453) قبیلہ ٔ جُہنیہ سے ہم چار سو آدمی آئے ، اونٹ او رگھوڑے ہمارے ساتھ تھے ، عمر و بن ممرّہ جُہنی 2؎ (2؎ اصل میں : عمر بن سَرۃ بسین مُہملہ ۔ صحابی ، امیر معاویہ کی خلافت میں وفات پائی ۔استیعاب 2/438) مسلمانوں کو تقویت کے لئے سو اونٹ لے کر آیا جنہیں ابو بکر صدیق نے ضرورت مند وں میں بانٹ دیا، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ ذوالقَصّہ کے کیمپ میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور سارے بدری مہاجر اور انصار لڑائی کے لئے نکل آئے ہیں ، نیزیہ کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ا س بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ خود جاکر باغیوں کی سرکوبی کریں تو انہوں نے کہا : خلیفہ ٔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوٹ چلئے تاکہ (اگر مسلمانوں پرمصیبت آئے تو) وہ آپ کے پاس پناہ لیں ۔ اور آپ ان کی پشت پناہی کرسکیں ، اگر ( خدانخواستہ) آپ مارے گئے تو سب عرب مرتد ہوجائیں گے اور باطل حق پر غالب آجائے گا ’’۔ تاہم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ برابر یہی ظاہر کرتے رہے کہ وہ خود لڑنے جائیں گے ،انہوں نے مشورہ کیا کہ گوشمالی کی ابتداء کس قبیلہ سے کی جائے تو صحابہ کو مختلف الخیال پایا، انہوں نے کہا : ‘‘ میری رائے ہے کہ پہلے اس کذاب طلیحہ کی خبر لیں جس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف خلاف واقعہ باتیں منسوب کی ہیں ۔’’
جب صحابہ نے لوٹنے پر اصرار کیا اور وہ خود بھی واپسی کےلئے تیار ہوگئے تو انہوں ن عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو سالارِ اعلیٰ بنانا چاہا ، زیدر ضی اللہ عنہ نے کہا :۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مجھے شہادت کی تمنا تھی جو پوری نہ ہوئی ، اب ( باغیوں سے جہا د کے)اس موقع پر چاہتا ہوں کہ شہادت حاصل کروں ،سپہ سالا بن کر جنگ میں عملی حصہ نہ لے سکوں گا ۔ ( لہٰذا مجھے معذور رکھئے ) ابوبکر صدیق نے ابو حُذیفہ 1؎ بن عُتبہ بن ربیعہ کو بلایا (1؎ ایک مُعزز قرُشی اور بدری صحابی ، یمامہ میں قتل ہوئے بعمر تریپن سال ، استیعاب 2/634۔635) او رکمانڈر ان چیف بناناچاہا لیکن انہوں نے بھی وہی عذر پیش کیا جو زید نے کیا تھا ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نظر انتخاب اب سالِم 2؎ مولی اَبی حُذیفہ پر پڑی (2؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 3 صفحہ 21) لیکن وہ بھی تیار نہ ہوئے ، بالآخر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار مقرر کئے گئے ، اس وقت تک کیمپ میں بہت سے مسلمان جمع ہوچکے تھے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک ہر اول دستہ بھی روانہ کرچکے تھے ، انہوں نے کہا : لوگو! خدا کا نام لے کر اس کی برکت کے سایہ میں روانہ ہو جاؤ جب تک میں نہ آملوں خالد بن ولید تمہارے سالار ہیں ، میں دوسری فوج کے ساتھ خیبر 3 ؎ کا رخ کر وں گا او رتم سے آملوں گا’’(3؎ مدینہ سے لگ بھگ ایک سو چھتیس میل یا آٹھ برید شمال میں ایک بڑا نخلستان معجم البلدان ایک برید = بارہ عربی میل یا سترہ انگریزی میل نقشہ دیکھئے )
بعض مورخ کہتے ہیں کہ لشکر سے ان کا خطاب ان الفاظ میں تھا : ‘‘ مسلمانو روانہ ہو جاؤ میں اگر پرسوں تک تم سے آملوں تو تمہاری کمان میرے ہاتھ میں رہے گی ورنہ خالد بن ولید تمہارے سپہ سالار ہوں گے ،ان کے حکم کی خلاف ورزی نہ کرنا’’ ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ باتیں اس لئے کیں تاکہ دور دور تک ان کا چرچا ہو اور اس خبر سے کہ فوجی کمان ان کے ہاتھ میں ہے ، باغی یا باغی فکر عرب ڈر جائیں پھر انہوں نے خالد بن ولید سے تنہائی میں گفتگو کی اورکہا :خالد ! خدا سے ڈرتے رہنا ، اس کی خوشنودی اور اس کی خاطر جہاد کو سب باتوں پر مقدم رکھنا میں نے تم کو بدری مہاجر اور انصار صحابہ کا سپہ سالار بنایا ہے’’۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ( طلیحہ کی گوشمالی کو) روانہ ہوگئے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ، بدری مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ لوٹ آئے ۔
URL Part -3
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-3/d/98056
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-4/d/98080