خورشید احمد فارق
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات پر رِدَّہ کی ابتداء
ابن اسحاق 2؎ : ( 2؎ محمد بن اسحاق مَدَنی ایک قُرشی رئیس ( قیس بن مخرمہ بن مطلب بن عبدمناف)کے مولی ، تابعی محدث ومورخ مولٔف سیرۃ رسول اللہ ، مغازی رسول اللہ اور کتاب الخلفا ٔ 150ھ / 151ھ / 768ء یا 769ء میں وفات پائی تہذیب التہذیب 9/38۔47)سو ل اللہ صلعم کی وفات سے مسلمانوں پر سخت مصیبت نازل ہوئی ، میں نے سنا ہے کہ بی بی عائشہ 3؎ رضی اللہ عنہ کہا کرتی تھیں ۔ ( 3؎ رسول اللہ کی وفات کے وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔ 57 ھ یا 58 ھ / 676 ء یا 677 ء میں انتقال ہوا ۔ تہذیب التہذیب 12/435۔436) ۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو منافقوں نے سر اٹھایا ، عرب مرتد ہوگئے اور یہود و نصاریٰ چوکنا، مسلمانوں کی حالت اپنے بنی کی وفات سے ایسی زبوں ہوئی جیسی ان بکریوں کی جو جاڑوں کی رات میں بارش سے بھیگی حتیٰ کہ خدا کے حکم سے انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا ، خلافت کی ایسی سنگین ذمہ داریاں میرے والد پر آپڑیں کہ اگر پہاڑ ان کو اٹھاتے تو ٹوٹ جاتے ،بخد ا جس بات پر مسلمانوں میں اختلاف ہوتا میرے والد خوش اسلوبی سے اس کو دور کردیتے ، جو میرے والد 4؎ (4؎ متن میں میرے والد کی جگہ ابن الخطاب ( عمر رضی اللہ عنہ) کا لفظ ہے جو یہاں بے تکا معلوم ہوتا ہے غالباً کابت نے یہ تصرف کیا ہے ۔) کو دیکھتا سمجھ لیتا کہ وہ اسلام کی تقویت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں ، بخدا میرے والد بڑے سمجھ دار آدمی تھے۔ بے نظیر لیاقت کے مالک ہر مشکل کاعلاج ان کے پاس تھا ۔’’
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ 1؎ ( 1؎ کثیرالحدیث صحابی ، 7ھ میں مسلمان ہوئے ، 57 ھ یا 58 ھ / 676ء یا 677 ء میں انتقال ہوا ۔ تہذیب التہذیب 12/265۔266) :۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور ان کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب مرتد ہوئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا ‘‘ آپ عربوں سے کیسے لڑیں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ چکے ہیں کہ غیر مسلمو ں سے صرف اس وقت لڑوں گا جب تک وہ یہ نہ کہہ دیں کہ ‘‘لا الہ الا اللہ ’’ سوائے اللہ کوئی دوسرا لائق عبادت نہیں ، جو شخص زبان سے یہ کہہ دے گا مجھے اس کی جان کو گزند پہنچانے کا کوئی حق ہوگا نہ مال لینے کا الاّ یہ کہ حق اور جائز طریقہ سے ایسا کیا جائے ، رہی بات کہ اس نے سچے دل سے لا الہ الاّ اللہ کہا یا نہیں تو یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے ، وہ خود کا حساب لے گا ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا ۔ ‘‘ بخدا میں ان لوگوں سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرتے ہیں، کیونکہ مال سے زکاۃ لینا بالکل حق اور جائز کا ہے، بخدا اگر عربوں نے زکاۃ کے اونٹ کی رسّی تک روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تب بھی ان سے لڑوں گا۔’’
عمر فاروق :۔یہ جواب سن کر بخدا میں نے محسو س کیا کہ اللہ کی طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لڑائی کا اشارہ مل گیا ہے اور عربوں سے لڑنا درست ہے، بخدا ( باغیوں سے لڑائی کے معاملہ میں ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت سب عربوں کے ایمان سے بڑھی ہوئی تھی ۔
یعقوب بن محمد زہری 2؎ ( 2؎ تابعی محدث و مورخ ، ان کا تعارف پہلے ہوچکا ہے ۔ دیکھئے 10) کا خیال تھا کہ ان کی موت سے نبوت ختم ہوگئی اور ان کے کسی جانشین کی اطاعت ہم پر لازم نہیں ہے ، چنانچہ ان کا شاعر 1؎ کہتا ہے :۔ (1؎ مشہور ہجو گو شاعر حُطیہ کا بھائی خطیل بن اوس )
أطَعنا رسول اللہ ماعاش بیننا فیا لَعباد اللہ مالأ بی بکر
جب تک رسول اللہ زندہ تھے ہم نے ان کی اطاعت کی لوگو! ابوبکر کو کیا ہوا کہ وہ ہم سے اطاعت کے طالب ہیں
أیور ثھا بکراً إذامات بعدہ فتلک وہیتِ اللہ قاصمۃ الظہر
کیا وہ اپنے بعد خلافت اپنے لڑکے بکرکو دیں گے کعبہ کی قسم تب تو ہماری کمر ہی ٹوٹ جائے گی
ایک تیسری جماعت کہتی تھی کے ہم خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور ایک چوتھی جماعت کہ ہم کو خدا کی وحدانیت اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تسلیم ، ہم نماز بھی پڑھتے ہیں لیکن زکاۃ نہیں دیں گے ۔ ابوبکر صدیق نے جیسا کہ بیان ہوا کسی کی بات نہ مانی اور کہا :۔ ‘‘ ہم لڑیں گے’’
ابوبکر صدیق نے عربوں سے لڑائی کے معاملہ میں صحابہ سے بحث و مباحثہ کیا، صحابہ میں عمر فاروق، ابو عُبَیدہ بن جرّاح 2؎ (2؎ عامر بن عبداللہ قرشی ، بدری صحابی 18ھ /639ء میں انتقال ہوا ۔ اصابہ ابن حجر عَسقلانی مصر 1328ھ 2/252۔253) اور سالم أبی حُذیفہ 3؎ ( 3؎ فارسی نژاد بدری صحابی، قرشی رئیس ابو حُذیفہ عتبہ کی بیوی کے مولی جنگ یمامہ 12ھ / 663ء میں مارے گئے ۔ استیعاب ابن البرحیدر آباد ہند 1331ھ 2/ 561۔562) سب سے زیادہ ابوبکر صدیق پر نکتہ چیں تھے، انہوں نے کہا : اسامہ بن زید 4؎ (4؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 1 13؎) کی مہم روک دیجئے تاکہ ان کی فوج مدینہ میں رہے اور شہرکےلوگ باغی عربوں کی یورش سےمحفوظ رہیں اور جب تک موجودہ آزمائش ختم عربوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے اس وقت صورت حال بے حد سنگین ہے ، کوئی ایک قبیلہ اگر باغی ہوجاتا تو ہم کہتے ہیں کہ وفادار عربوں کو ساتھ لے کر ان کا مقابلہ کیجئے لیکن اس وقت تو ساری عرب قوم نے ارتدد کی گھنٹی بجادی ہے اور وہ یا تو ترکِ اسلام کر چکے یا زکاۃ دینے سے منکر ہیں یا متذبذب ، کبھی ایک قدم آگے، کبھی ایک قدم پیچھے اور منتظر ہیں کہ آپ کی دشمن سے کیسے نمٹتی ہے’’۔
کتاب الرِدّہ میں واقدی نے عمر فاروق کی ابوبکر دیق سے گفتگو اس طرح بیان کی ہے:۔
عربوں کو اپنا پیسہ بہت عزیز ہے ، ان کو باغی بناکر آپ کوکوئی فائدہ نہ ہوگا ، اس لئے مناسب ہے کہ اس سال زکاۃ وصول نہ کریں:۔
اس وقت عُیینہ بن حصِن فَزاری اور اَقرع بن حابِس 1؎ (1؎ رسول اللہ صلعم کے عہد میں عُیینہ اور اَقرع دونوں اکابر مؤلفہ القلوب میں سے تھے ۔ رسول اللہ صلعم کی وفات پر باغی ہوگئے ، ابوبکر صدیق کی فوج سے شکست کھاکر توبہ کی اور اس بار خلوص دل سے عُینیہ کی لڑکی ام النبین عثمان غنی رضی اللہ عہ کو بیاہی تھی، خلافت عثمانی کے اواخر میں عُینیہ کا انتقال ہوا ، اَقرع عرب فوج کے ایک کمانڈر کی حیثیت سے جوز جان (مشرقی خراسان) میں دشمن سے لڑتے ہوئے مارے گئے 32ھ / 652 ء۔ کتاب الاشقاق ابن دُرید طبع یورپ 46؎ وفتوح البلدان بلاذری مصر 1317 ھ 414؎۔) تمیمی اکابرین عرب کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ آئے اور چند بار سوخ اصحاب سے ملے او رکہا : ‘‘ ہمارے قبیلوں کے بیشتر لوگ مرتد ہوگئے ہیں اور ان کا ارادہ زکاۃ دینے کا نہیں ہے، اگر آپ ہمیں معقول فیس دیں تو ہم کوشش کر کے ان کو مدینہ کا وفادار رکھیں گے ۔’’ بڑے صحابہ ابوبکر صدیق کے پاس آئے اور ان کے سامنے عرب وفد کی شرط پیش کی اور کہا : ‘’ ہماری رائے ہے کہ اَقرع بن حابس اور عُیئینہ بن حصِن کو اتنی فیس دیجئے کہ وہ خوش ہوجائیں اور اپنے قبیلوں کو قابو میں رکھیں یہاں تک کہ اُسامہ کا لشکر شام کی مہم سے لوٹ آئے اور آپ کے ہاتھ مضبوط ہوجائیں، اس وقت ہمارے طاقت عربوں کے مقابلہ میں بہت کم ہے اور ان سے جنگ کرنا ہمارے بس سے باہر ہے’’۔ ابوبکر صدیق نے کہا : ‘‘ آپ کی یہی رائے ہے یا کچھ اور بھی ؟’’ بڑے صحابہ : ‘‘ ہماری تو یہی رائے ہے ’’۔ ابوبکر صدیق : ‘‘ آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے ان سارے معاملات میں جن میں قرآن و رسول خاموش ہیں آپ ہی سے مشورہ لیا جاتا رہاہے ، مجھے یقین ہے کہ خدا آپ کو کسی غلط طریق کار پر متفق نہیں کرے گا، میں آپ کو ایک رائے دیتا ہوں ، میں آپ ہی میں سے ہوں آپ اپنی اور میری دونوں کی رائے پر غور کرکے صحیح طریق کار اختیار کیجئے ، خدا ضرور آپ کی رہنمائی کرے گا، میری رائے یہی ہے کہ باغیوں سے کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے ، ان میں سے جس کا جی چاہےمسلمان ہو اور جس کا جی چاہے کافر رہے ، یہ مناسب نہیں کہ ہم اسلام پر قائم رہنے کےلئے کسی کو رشوت دیں، بلکہ ہم کو چاہئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال سامنے رکھ کر خدا کے دشمنوں سےلڑیں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑے تھے ، بخدا اگر عرب زکوٰۃ کے اونٹ کا بندھن تک روکیں تو میری رائے ہے کہ ان سے لڑوں اور بندھن وصول کروں ، باہمی مشورہ کو لیجئے ،خدا آپ کی رہنمائی کرے گا ، رہا عُئینہ اور اس کے ساتھیوں کا وفد تو وہ خود اپنے قبیلہ کے ساتھ بغاوت میں شریک ہے بلکہ اس نے بغاوت کو شہ دی ہے، ان کے سامنے اگر تلوار سونت لی تو ان کی عقل دوست ہوجائے گی اور اسلام کے وفادار بن جائیں گے ، اگر مارے گئے تو جہنم رسید ہوں گے ’’۔
صحابہ نے گفتگو سن کر کہا : آپ کی رائے زیادہ مناسب ہے ، ہم اسی پر عمل کریں گے ’’۔
ابوبکر صدیق نے فوجی تیاری کا حکم دیا اور خود باغیوں سے جنگ کے لئے نکلنے کا عزم کرلیا ، مضافات مدینہ کے اَسَد اور غَطَفان 1؎ (1؎ بستیاں : شمال مشرق مدینہ وسطی و شرقی وادی رُمَّہ دیکھئے فٹ نوٹ 2؎ صفحہ 15) قبیلے مرتد ہوگئے ، عَبس ( عَطفان ) اور اشجع 2؎ ( 2؎ بستیاں : شمال مشرق مدینہ) غطفان ، کی کچھ شاخیں باغی نہیں ہوئیں ، ( شمالی نجد میں)بنو تمیم کے بیشتر قبیلے اور بنو سُلَیم 1؎ ( 1؎ بستیاں : شمال مغرب مدینہ، خیبر، وادی القریٰ ، تیما ء صفتہ جزیرۃ العرب ہمدانی لائڈن 131)کی شاخوں میں عُصَیَّہ ، عُمیرہ ، خفاف ، بنو عوف ، ذکوان اور بنو حارثہ ، اسلام سے منحرف ہوگئے تھے، یمامہ کے سارے عربوں نے مسیلمہ کی قیادت میں مدینہ کی وفاداری سے منہ موڑ لیا ،ان کے علاوہ جن قبیلوں نے اسلام کو خیر باد کہا، یہ تھے : بحرین کے عرب اور قبیلہ کربن وائل 2؎ (2؎ بستیاں یمامہ تابصرہ) عمان کے پایہ تخت دبا کے ازدی عرب ، نمر بن قاسطِ کَلب ( شمال مغرب مدینہ)قُضاعَہ ( شمال مغرب مدینہ) کی وہ شاخیں جو کلب کے قریب آباد تھیں، بنو عامر بن صَعصَہ 3؎ (3؎ بستیاں : رَبَذہ ، فَدَک ( شمال مشرق مدینہ) صبح الا عشی قَلقشندی مصر 1340 ھ 1/340)( ہَوازِن) کی بیشتر شاخیں 4؎ ( 4؎ کلاب عُقیل ، ہلال ، ثمیر ، جَعدہ) اور ایک قول یہ ہے کہ بنو عامر اور ان کے لیڈر متذبذب تھے اور اس بات کے منتظر کہ دیکھیں کون ہارتا ہے ۔ قبیلہ ٔ فَزارہ 5؎ ( ذبیان) ( 5؎ بستیاں : جنوب مغربی نجد دوادی القری ۔ صبح الاعشی 1/ 344 قبیلۂ فزارہ ذُبیان کی شاخ تھا اور ذُبیان غَطَفان کی) مرتد ہوگیا ، عُئیینہ بن حصِن نے ان کو اپنے جھنڈے تلے جمع کر لیا ، مکہ او رمدینہ کے درمیان ( تقریباً تین سو میل لمبے علاقہ میں ) جو قبیلے آباد تھے وہ اسلام پر قائم رہے، ان کے علاوہ قبائل اسلم غفار، جُہینہ ، کعب اور ثقیف ( ہوازن) نے بھی بغاوت نہیں کی ، عثمان بن ابی العاص تقفی گورنر طائف نے بنو مالک اور اَحلاف 6؎ (6؎ ثقیف کی وہ شاخیں تھیں ۔ بنو مالک اور اَحلاف) میں تقریریں کر کے ان کو اسلام سے منحرف نہ وہنے دیا، عثمان رضی اللہ عنہ : ‘‘ قبیلہ ثقیف ، یہ بڑی نازیبابات ہے کہ تم سب سے آخر میں ( 9 ھ 630 ء) اسلام لاؤ اور سب سے پہلے مرتد ہوجاؤ ’’۔
قبائل طیَّ ( غربی نجد ) ہُذَیل، اہل سَراۃ، 1؎ (1؎ تہامہ یمن اور نجد کا درمیانی علاقہ جو صنعا سے طائف تک شرقاً غرقاً پھیلا ہوا تھا سَراۃ میں ہُذَیل بَجیلہ اور ثقیف کی بستیاں تھیں ۔ معجم البلدان 5/ 60۔61)بَجِیلہ ( سَراۃ ، حجاز ، تَبالہ) خَثعَم ( سَراۃ ، حجاز تبالہ) اور ہَوازن کی وہ شاخیں جو تِہامہ 2؎ ( 2؎ یمن اور مکہ کے درمیان کا ساحلی نشیبی علاقہ) سے قریب تھیں ، نصر ( غطفان ) جُشَم اور سعد بن بکراسلام پر قائم رہے ، قبیلہ عبدالقیش ( بحرین )کو ان کے لیڈر جارُود ( بن مُغَلّی ) نے مدینہ کا وفادار رکھا ۔
یمن کے قبائل میں کِندہ ، حَضر موت اور عنس ( جنوبی یمن) باغی ہوگئے ، ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ان کے (یمنی قبیلہ) دوس کاکوئی فرد مرتد نہیں ہوا اور نہ سَراۃ کے باشندے ابومَرزُوق تحبیبی 3؎:۔ (3؎ مصر کے تابعی فقیہ او رمفتی نام حبیب بن شہید اور بقول بعض ربیعۃ ابن سلیم تھا ۔ 109ھ / 27ء میں انتقال ہوا ۔ تہذیب التہذیب 12/228۔229) نہ قبیلہ تجیب کاکوئی آدمی باغی ہوا ،نہ ہمدان کا اور نہ صنعا کے انباء ( فارسی نسل حکمراں طبقہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وافات کی خبر آبناء کو ہوئی تو ان کی عورتوں نے اپنے گریباں پھاڑ لئے اور کلّے پیٹ لئے ، ان ک ےحاکم کی بیوی ( مَرزُبانہ) نے آگے پیچھے سے اپنی قمیض پھاڑ لی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 10 ھ / 631 ء میں حج سے فارغ ہوکر مدینہ لوٹے تو انہوں نے 11ھ / 632ء کے محرم کا چاند دیکھ کر عرب قبیلوں میں محصِّل زکاۃ روانہ کئے ، عِکِرمہ بن اَبی جَہل کو عَجُز ہوازن 3؎ کا محصل مقرر کیا (3؎ مصر کے تابعی فقیہ او رمفتی نام حبیب بن شہید اور بقول بعض ربیعۃ ابن سلیم تھا ۔ 109ھ / 27ء میں انتقال ہوا ۔ تہذیب التہذیب 12/228۔229)حامیہ بن سُبیع اَسَدی کو اس کی قوم کاصحاک بن سفیان کو کِلاب کا ، عدی بن حاتم (طائی) کو طتّی اور اَسد کا ، مالک بن نویدہ کو بنو یَربُوع ( تمیم کی شاخ) کا ، آقرع بن جا بس 5؎ ( 5؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر1؎ 22) کو بنود ارِم اور بنو حنظلہ کا ( تمیم کی شاخیں) زِبرِقان بن بدر 1؎ (1؎ تمیمی 9ھ / 630 ء میں مسلمان ہوئے تمیم کی شاخ رِباب اور عَوف کے لیڈر تھے، امیر معاویہ کے عہد میں انتقال ہوا ۔ استیعاب 1/204 و اِصابہ 1/543۔544۔)کو ان کے قبیلوں ( رِباب اور عَوف) کا اور قیس بن عاصم منقری 2؎ (2؎ تمیمی ، 9 ھ/ 630ء میں مسلمان ہوئے ۔ استیقاب 2/ 527) کو ان کے قبیلے ( مُقاعِس اور بُطون 3؎) (3؎ شرح نہج البلاغہ 4/186۔187) کا ، ان قبائل کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کاعلم ہوا تو ان میں پھوٹ پڑ گئی ، کچھ باغی ہوگئے، کچھ وفادار ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو زکاۃ بھیجی ، جن محصّلوں نے زکاۃ روک لی اور اس کو اپنے اہل قبیلہ کو لوٹا دیا ، ان کےنام یہ ہیں : مالک بن نویرہ، قیس بن عاصم اور اقرع بن حابس تمیمی۔
بنو کلاب ( وسطی وادی رُمّہ ، شمال مشرق مدینہ ) متذبذب تھے، انہوں نے زکاۃ دینےسے نہ تو صاف صاف انکار کیا اور نہ اداہی کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو فَزارہ پر نَوفل بن مُعاویہ دیلی کو محصیل بنایا تھا، شَربَّہ ( نجد) میں خارجہ بن حُذیفہ بن بدر فَزاری سے ان کی ملاقات ہوئی تو حُذیفہ نے کہا ‘‘ تم یہ غنیمت نہیں سمجھتے کہ اپنی جان بچالے جاؤ ’’ یہ تہدیدسن کر نَو فَل بن معاویہ کے پیر اکھڑ گئے اور وہ اپنا توڑا سنبھالے دھاوے مارتے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے ۔ اس زکاۃ پر جو انہوں نے جمع کی تھی حُذیفہ نے قبضہ کر لیا اور ان لوگوں کو واپس کر دی جن سے وصول کی گئی تھی ۔ بنو سُسلیم 4 ؎ نے بھی یہ رویہ اختیار کیا ، (4؎ مغرب مدینہ ، وادی القری اور خیبر میں ان کی بستیاں تھیں )،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرباض بن ساریہ 5؎ کو ان کا مصدق مقرر کیا تھا ،( 5؎ اصحاب صُفیہ میں سے تھے ۔ 70ھ / 689ء کے بعد وفات پائی ۔ اصابہ ابن حجر 2/ 473) ان کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر ہوئی تو انہوں نے عرِباض کو زکاۃ دینے سے انکار کردیا اور جو کچھ عرِباض نے جمع کیا تھا واپس لے لیا، عرِباض بھی اپنا کوڑا سنبھا لے مدینہ آگئے ۔
بنو اسلم غفار مزینہ اور جُہینہ1؎ ( 1؎ مدینہ کے مغرب میں) کے مصدّق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کعب بن مالک انصاری 2؎ تھے (2؎ عمر بھر عثمان غنی ک وفادار رہے، امیر معاویہ کے زمانہ میں انتقال ہوا۔ اصابہ 3/ 302) رسول اللہ کی وفات کے خبر پا کر وہ عہد پر قائم رہے اور زکاۃ ادا کردی ان کا ایک وفد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سےملا، انہوں نے باغیوں کی گوشمالی میں ان قبائل کے عربوں سے مددلی، اسی طرح بنو کعب نےاپنے محصل بُسر بن سفیان کعبی 3؎ اور بنو اشجع ( 3؎ متن میں بشربشین معجہہ، 6ھ میں مسلمان ہوئے ، صلح حُدیبیہ میں شریک تھے ۔ استیعاب 1/76)نے اپنے مصدق مسعود بن رُخیلہ اشجعی 4؎ (4؎ جنگ أحزاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف لڑے بعد میں مسلمان ہوگئے ۔ استیعاب 1/273 و اصنآ 3/410) کو زکاۃ کے اونٹ دے دیئے جو انہوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ پہنچا دیئے ۔
عَدِی بن 5؎ حاتم (5؎ 9 ھ / 630ء میں مسلمان ہوئے ، مخلص او ر بیدار فکر آدمی تھے ،67ھ 686 ھ میں وفات پائی ۔ استیعاب 2/503) زِبرِ قان بَدر6؎ (6؎ دیکھئے فٹ نوٹ 1؎ صفحہ 26) نے اپنے اپنے قبیلوں کی زکاۃ جمع کرلی تھی اور اس کو بھیجنے کے لئے مناسب موقع کےمنتظر تھے، دونوں قبیلوں کے اکابر کا مطالبہ تھا کہ زکاۃ رول لی جائے لیکن عَدِی اور زِبرِقان اس کے لئے تیار نہ ہوئے ، وہ اسلام دوست تھے اور ان مصدقوں سے زیادہ صائب رائے جنہوں نے اپنے قبیلوں کو زکاۃ لوٹادی تھی ، انہوں نے اپنی قوم کے اکابر سےکہا : ‘‘ جلد بازی نہ کرو، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جانشین نہ ہو تو تمہارے پاس زکاۃ جمع ہوگی 7؎ (7؎ اور تم اس کو ادا کرکے اپنی وفاداری کا ثبوت دے سکو گے۔) اور اگر کوئی جانشین نہ ہو ا جیسا کہ تمہار ا خیال ہے تو بخدا تمہارا مال تمہارے ہاتھ میں ہے، اس کو کوئی نہیں لے سکتا ’’۔ اس طرح عَدِی بن حاتم اور زِبرِ بن بدر نے اپنے اپنے قبیلوں کے باغیانہ رجحانات دبائے رکھے یہا ں تک کہ ان کو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین مقرر ہونے کی قطعی خبر مل گئی ، جب ان کو معلوم ہوا کہ اکابر مدینہ نے ابوبکر صدیق کو خلیفہ منتخب کرلیا ہے اور اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مہم شام روانہ ہوگئی نیزیہ کہ ابوبکر صدیق خود باغیوں پر چڑھائی کرنے والے ہیں ( تو عدی نے زکوٰۃ کے اونٹ مدینہ بھیجنے کی ایک تدبیر سوچی) ہو ہر دن اپنے لڑکے کے ساتھ زکاۃ کے اونٹ چرانے بھیجتے ،ایک دن لڑکے کو دیر ہوگئی اور وہ عشاء کے وقت اونٹ واپس لایا، عَدِی نے اس کو مارا اور کہا : ‘‘ تونے اتنی دیر کیوں کی؟’’ دوسرے دن لڑکے نے چراگاہ سےلوٹنے میں پہلے دن سے بھی زیادہ تاخیر کی ، عَدِی رضی اللہ عنہ نے اس کو پھر سزادی اگر چہ قبیلہ کے اکابر روکتے رہے ، تیسرے دن عدی نے لڑکے سے کہا : بیٹے جب تم اونٹ چرانے جاؤ تو ان کے پیچھے زور زور سے چیخنا اور مدینہ کی جانب لے جانا، اگر تمہاری قوم یا باہر کا کوئی آدمی ملے تو کہہ دینا: ‘‘ گھاس کی تلاش میں جارہاہوں قرب وجوار میں چارہ سخت کمیاب ہے ۔ ‘‘ جب لڑکا وقت پر نہ آیا تو عَدِی رضی اللہ عنہ نے بناوٹی انتظار شروع کیا اور اکابر طیّ سے کہا : ‘‘ تعجب ہے لڑکے کو پھر دیر ہوگئی ’’۔ اس پرکسی نے کہا : ‘‘ ابو طُریف ، چلو اس کو تلاش کریں ’’۔ عَدِی رضی اللہ عنہ : نہیں اس کیا ضرورت ہے ؟ ‘‘صبح ہوئی تو عدی نے جانے کی تیاری کی، اکابر طیّ نے کہا ۔ ‘‘ ہم تمہارے ساتھ چلیں گے ’’۔ عدی رضی اللہ عنہ : نہیں میں اکیلا جاؤں گا ، تم ہوگےتو مجھے لڑکے کو سزادینے سے روکوگے ، اس نے میرے حکم کی پھر خلاف ورزی کی ہے۔’’
عَدِی اونٹ پر سوار ہوکر جلدی جلدی اپنے لڑکے سے جا ملے، پھر دونوں مدینہ چلے گئے، جب بطن قَناہ 1؎ (1؎ بطن قناۃ سے یہاں کون سی جگہ مراد ہے ہم یقین کے ساتھ نہیں بتاسکتے ممکن ہے ا س سےمراد ‘‘وادی قناۃ’’ ہو ، جو مدینہ کے قریب تین مزروعہ وادیوں میں سے ایک وادی تھی معجم البلدان 7/166) میں تھے تو ان کو ابوبکر صدیق کا ایک رسالہ ملا جس کے لیڈر عبداللہ بن مسعود تھے اور بقول بعض محمد 1؎ بن مَسلَمہ ، (1؎ انصاری ، بدری صحابی 43ھ /663ء میں وفات پائی ۔تہذیب التہذیب 9/454۔455)ہمارے نزدیک پہلا قول زیادہ مستند ہے ، رسالہ رسالہ نے جب عَدِی کو دیکھا تو وہ ان کی طرف لپکے اور کہا : ‘‘ وہ سوار کیا ہوئے جو تمہارے ساتھ تھے ؟ ’’ عَدِی : ‘‘ میرے ساتھ کوئی سوار نہ تھا ’’۔ اہل رسالہ : ‘‘ تھے کیسے نہیں ، ہمیں دیکھ کر کہیں چھپ گئے ہیں ’’۔ عبداللہ بن مسعود : ‘‘ جانے دو انہیں ، نہ انہو ں نےجھوٹ بولا نہ تم نے ، ان کے ساتھ فرشتوں کا لشکر تھا جس کو یہ دیکھ نہ سکے ۔ ‘‘ عَدِی بن حاتم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آگئے ، ان کے ساتھ تین سو اونٹ تھے اور یہ پہلی زکوٰۃ تھی جو (خلیفہ ہوکر) ان کو وصول ہوئی۔
URL for Part 2:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-2/d/98038
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-3/d/98056