خورشید احمد فارق
مقدمہ
ہجرت کے بعد چند سال کے اندر اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے لمبے چوڑے ملک میں اسلام کی دعوت پہنچادی اور تعلیم قرآن کی بنیاد رکھی ، ذہنی انقلاب کا کام ابھی ابتدا ئی منزلوں میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا ، ان کے انتقال سے جیسے آتش فشاں پہاڑ پھٹ نکلا، عربوں کا سوادِ اعظم اسلام سے باغی ہوگیا، قریش، ثقیف اور چند دوسرے چھوٹے قبیلوں کو چھوڑ کر جزیرہ نما کے بیشتر عربوں نے تو زکوٰۃ روک لی یا مرتد ہوگئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محصلِ زکاہ اورمعلم قرآن اپنے اپنے صدر مقاموں سے بھاگ آئے اسلام سےبغاوت کئے کئی سبب تھے۔
(1) نئے مذہب کے اخلاقی و اجتماعی پابندیوں سے انحراف
(2) زکوٰۃ سے بد دلی
(3) قبائلی اکابر اپنے اقتدار میں کمی اور مدینہ کی ماتحتی سے ناگواری ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے ان کے تین حریف تھے :۔ یمن میں آسود عَنسی ہیمامہ ( شمالی نجد) میں مُسیلمہ اور جنوب مغربی نجد میں ظلیحہ ، اَسود عَنسی کا خاتمہ تو جلد ہوگیا، لیکن مُسیلمہ اور طُلیحہ کا نفوذ اور اقتدار روز بروز بڑھتا گیا ، مُسیلمہ کی فوج بڑی اور خوب منظم تھی، اس کا مرکزیمامہ ، مکّہ اور مدینہ کے بعد ملک کا سب سے بڑا اور خوش حال شہر تھا جہاں مضبوط قلعے بھی تھے 1؎ ( 1؎ اہل یمامہ فخر یہ کہا کرتے تھے : ۔ رنگ روپ میں ہماری عورتیں دنیا کی عورتوں سے بازی لے گئی ہیں ۔ ہمارا گیہوں ہر جگہ سے زیادہ عمدہ ہوتا ہے ،ہماری کھجور ہر جگہ سے زیدہ لذیذ ، ہمارا گوشت چبانے میں ہر گوشت سے زیادہ خستہ ہوتا ہے، اور ہمارا پانی ہر پانی سے زیادہ گوارا اور شیریں ۔ کتاب الباران ابن الفقیہ ، اڈیٹر دی غوئے لائڈن 1302ھ 28) طُلیحہ کا اقتدار اتنا بڑھا کہ مرکز خلافت سے قریب کے کئی قبیلے باغی ہوکر اس سے مل گئے او رمدینہ پر خطرہ منڈلانے لگا ۔
بارہ ربیع الاول 11 ھ / 632ء کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو حالات نازک تھے ، اسلام کا نوخیز پودا حوادث کی صر صر سے کانپ رہا تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے کئی سربر آوردہ لیڈر نئے خلیفہ کے انتخاب سے ناراض ہوکر ترک موالات کئے ہوئے تھے ، مدینہ کے منافق خوش تھے کہ نئے مذہب کی بساط اُلٹ رہی ہے، مدینہ کے باہر ملک کے گوشہ گوشہ میں خاص و عام اسلام کی بندشوں اور مدینہ کی بالادستی سے نکلنے کا اعلان کررہے تھے ، سرکاری آمدنی جو زکوٰۃ کی شکل میں آتی بہت کم ہوگئی تھی ، مختصر یہ کہ خلافت کی کشتی بھنور میں آپھنسی تھی ۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان خطروں اور مشکلات سے زیادہ متاثر نہ ہوئے ، بلکہ خطروں اور مشکلات نے ان میں ہمیشہ سے زیادہ عز م پیدا کردیا، بارہ ربیع الاول 11ھ / 632ء کو خلیفہ ہوکر انہوں نے خطرات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سب سے پہلے اُسامہ بن زید 1؎ ( 1؎ مولی رسول اللہ ، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ انیس سال سے زیادہ نہ تھی ، استیعاب ابن عبدِ ابسَّر حیدر آباد ہند ۔1336ھ /29۔30) میں ایک منظم و مضبوط حکومت ان کی جانشینی کررہی ہے ، چنانچہ آخر ربیع الاوّل میں اپنی خلافت کے دس پندرہ دن کے اندر اندر انہوں نے اُسامہ رضی اللہ عنہ کی سر کردگی ایک فوج شام بھیج ہی دی۔
اُسامہ رضی اللہ عنہ کے خروج کی خبر ملک بھر میں آگ کی طرح پھیل گئی ، مشہور ہو ا کہ مر کزِ خلافت بالکل ننگا ہے ، نہ وہاں باغیوں سے لڑنے کے لئے فوج ہے، نہ خود اپنی حفاظت کا انتظام ہمارے بعض مورخ اس وقت کی حالت کا نقشہ اس طرح پیش کرتے ہیں :۔
‘‘جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اور اُسامہ رضی اللہ عنہ اپنی مہم پر روانہ ہوئے تو عرب مر تد ہوگئے ، کہیں عام عرب او رکہیں خاص طور پر زعیمان قوم مُسیلمہ اور طُلیحہ نے اپنی سرگرمیاں بڑھا دیں اور خوب قوی ہوگئے ، قبائل طئیّ اور اَسَد کے عوام ( مدینہ کے شمال اور شمال مشرق میں) طُلیحہ کے جھنڈے تلے آگئے، غَطَفان ، اَشجَع اور اَفنا ء 1؎ (1؎ ادھر ادھر سے آئے ہوئے عرب ۔ الأفنا من الناس الاخلا ط وقوم نُزّّاع من ھنا و ھنا ۔ تاج القروس مرتضیٰ زَبِیدی بلگرامی مصر 1307ھ / 10/285۔) کے خواص نے ( مدینہ کے شمال مشرق میں ) اس کی بیعت کرلی، قبیلہ ہوازِن (شرق مکہ) اور ان کے پڑوس میں مختلف قبیلوں کے جو عرب مقیم تھے ، اسلام پر قائم رہے ، جدیلہ اور اَعجاز 2؎ ( 2؎ اعجاز سے مرادیہ قبیلے ہیں، بنو حشم ، بنو نصر اور سعید بن بکر ۔ انساب الاشراب بلاذری قلمی 2/255) بھی ثقیف کی دیکھا دیکھی مرتد نہیں ہوئے، بنو سُلیم کے امرا ( مدینہ کے شمال مغرب میں ) باغی ہوئے اور جزیرہ عرب کے باقی لوگوں کا بھی یہی حال تھا کہ کہیں ان کے عوام نے بغاوت کی اور کہیں خواص نے ۔ رسول اللہ کے سفیر یمن ، یمامہ اور بنو اَسَد کے علاقوں سے بغاوت کی خبریں لے کو لوٹ آئے اور ان امراء کے وفد بھی خط لے کر آگئے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَسود عَنسی ،مسیلمہ او رطُلیحہ کا مقابلہ کرنے کے لئے خط وکتابت کی تھی ۔ ان سفیروں اور وفدوں نےابو بکر صدیق کو صورت حال سے مطلع کیا اور جو مرُاسلے لائے تھے ان کو دکھائے ، ابوبکر صدیق نے کہا: بس کوئی دم جاتا ہے کہ تمہارے حاکموں اور محصلوں کے قاصد ہر طرف سے او رزیادہ کرّوی اور سخت خبریں لے کر آگے ہوں گے، ایسا ہی ہوا ، بہت جلد ہر سمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندوں کے خطوط آنے لگے کہ ہماری عملداری کے خاص و عام نے بغاوت کردی ہے او رمسلمانوں کو طرح طرح کی جسمانی اذیتیں پہنچارہے ہیں ۔ ( تین ماہ تک) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح سفیرو ں کے ذریعہ بگڑتے حالات کا مقابلہ کیا ،یعنی ہر باغی علاقہ کے حاکموں کو بغاوت سے عہدہ بر آہونے کے لئے مناسب احکام اور پے در پے ہدایات بھیجتے ہے ، اور اُسامہ بن زید کی واپسی تک اسی وقتی تدبیر پر عملی پیرا ہے 1؎ ۔’’(1؎ سیف بن عمر اُسیّدی ، تاریخ الامم ابو جعفر ا بن جریر طبری پہلا مصری ایڈیشن 3/221۔222)۔
مدینہ کے شمال ، شمال مشرق اور شمال مغرب کے چھوٹے بڑے تقریباً ایک درجن قبیلوں 2؎ ( 2؎ یہ قبیلے مشہور وادی رمہ اور اس سے متصل متعدد دوسری چھوٹی وادیوں میں اور ان کے گردو پیش رہتے تھے، وادی رُمہّ اور متعلقہ وادیوں میں عمدہ چراگاہیں تھیں، وادی رتبہ ایک لمبی چوڑی وادی جو بحر قلزم کے ساحلی پہاڑوں کو نکل کر مشرق میں نجد کی طرف جاتی ہے ، اس کی لمبائی لگ بھگ دو سومیل ہے ، اس وادی کے مشرق حصہ میں جو نجد کے پلیٹو سی متصل ہی بنو اسد اور عنسی وذبیان آبا د تھے ،وسطی میں بنو کلاب عَطَفان اور اَشجع ،مغربی میں بنو سلیم ، ہ وادی مدینہ کے شمال مشرق اور شمال مغرب میں کہیں تیس کہیں پینتیس اور کہیں 40 میل کے فاصلہ سےہوکر گزرتی ہے معجم البلدان 4/ 290۔291) نے جن میں کئی طُلیحہ کے براہِ راست زیر اثر تھے، اُسامہ کے خروج کے بعد زکاۃ اور قریش کی ماتحتی سے نجات پانے کے لئے مدینہ کو گھیر لیا ، یہ مخالف قبیلے دو بڑے گروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ جس میں بنو اَسَد شامل تھے او ر جس کی قیادت طُلیحہ کا بھتیجہ حبِاں 1؎ کررہا تھا ، ( 1؎ بروزن حِبان ،اصل میں یہ تشدید حاء مہملہ غلط ہے۔)مدینہ کے مضافات میں بمقام ذوالقَصَّہ 2؎ خیمہ زن ہوا، (2؎ ذوالقَصَّہ ایک کارواں اسٹیشن تھا، اس کے بارے میں چار قول ہیں : ایک یہ کہ وہ مدینہ سے کوفہ کی شاہراہ پر چار سو اٹھارہ عرب میل شمال میں ، دوسرے یہ کہ وہ مدینہ کے شمال مشرق میں قبیلہ طیّ کے سَلَمی اور اجا پہاڑوں کے قریب ( غربی نجد میں ) تیسرا یہ کہ وہ مدینہ کے شمال مشرق میں چوبیس عرب میل کی مسافت پر اور چوتھا یہ کہ وہ مدینہ کے شمال مغرب میں ایک برید ( برید= چونتیس انگریزی میل ۔ معجم البلدان یا قوت حَموِی مصر 1906 ء 7/114 و تاج القروس 5/281) اور دوسرے گروہ نے جس میں مغربی نجد کے عبس و ذُبیان قبیلے شامل تھے ، ذوالقصّہ کے عقب میں مغرب کی طرف اَبرق 3؎ کی چراگاہوں میں فوجیں اتاریں،(3؎ اَبرق سے مراد اَبرقِ رَبَذہ ہے جو مدینہ سے تقریباً پچاس میل شمال میں ایک چراگاہ تھی ۔ معجم البلدان 1/70) ان مخالفت قبیلوں کا ایک وفد مدینہ آیا اور شہر کے ممتاز صحابہ سے کہا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دے سکتے ، نماز ادا کرسکتے ہیں، آپ خلیفہ سےہماری سفارش کردیجئے ، اگر زکوٰۃ معاف نہیں کی گئی تو ہم لڑیں گے ،ممتاز صحابہ نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے ابوبکر صدیق سے کہا کہ جب تک حالات ساز گار ہوں باغیوں سے زکاۃ طلب نہ کیجئے ، مگر ابوبکر صدیق اس معاملہ میں کسی کی بات سننے کو تیار نہ ہوئے اور کہا جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ معاف نہیں کی تو میں بھی نہیں کروں گا ، ان لوگوں نے اگر زکاۃ کے اونٹ کی رسی تک روکی تب بھی میں ان سے لڑوں گا ، وفد نامراد لوٹ گیا اور اپنی قوم کو بتایا کہ مدینہ میں ن فوج ہے نہ ہتھیار ، حملہ کا بہترین موقع ہے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفد کے جانے کے بعد حملہ کی توقع میں تیاری شروع کردی ، مدینہ آنے وجانے والے سب راستوں پر چار صحابیوں کی زیر قیادت مورچے بٹھا دیئے اور اہل مدینہ کو جمع کر کے صورت حال سے باخبر کیا اور تیار رہنے کی تاکیدکی۔
وفد کی واپسی کی تیسری رات کو ان متخالف قبیلوں نے مدینہ پر حملہ کردیا جس کو صحابہ کے مورچوں نے سنبھالا اور خلیفہ سے مدد مانگی ، ابو بکر صدیق نے کہلا بھیجا ‘‘ ڈٹے رہو مدد آتی ہے’’۔ مدینہ میں نہ گھوڑے تھے ، نہ تیز رو اونٹ ، دودھ دیتی اونٹنیاں تھیں ، ابوبکر صدیق نے جس قدر جلد ہوسکا ایک فوج تیار کی اور اس کو اونٹنیوں پر سوار کر کے مدد کے لئے نکلے ، لڑائی ہوئی ، مخالفوں کی ایک چال سے اونٹنیاں بدکیں اور مسلمانوں کو لے کر بھاگ پڑیں، ابو صدیق نے سنبھل کر دوبارہ مقابلہ کیا، حملہ آوروں کے پیر اکھڑ گئے ، طُلیحہ کا بھتیجا حبال جو بنو اسد کی قیادت کررہا تھا مارا گیا ، ابوبکر ان کے تعاقب میں ذوالقَصَّہ کے کارواں اسٹیشن پہنچے اور وہاں کیمپ لگایا، عرب قبائل تتر بتر ہوگئے ۔1؎ ( سیف بن عمر ۔ تاریخ طبری 31/223۔224)
اس فتح نے مدینہ کی آبرو بچالی، اسلام کے ڈگمگاتے قدم سنبھل گئے ، مُرتد قبیلوں میں جو مسلمان گھر ے ہوئے تھے ان کے ڈوبتے دلو ں کو سہارا ملا، ذوالقصَّہ میں فوجیں چھوڑ کر ابوبکر صدیق مدینہ لوٹ آئے ، متحالف قبیلے اپنی تازہ شکست سے بوکھلا گئے اور اپنے اپنے قبیلوں کے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے اور بڑی بے دردی سے ان کو قتل کیا، پہلے عَبْس و ذُبیان ( غَطَفان ) نے خون کی ہولی کھیلی ، پھر دوسرے قبیلوں نے ، ان مظالم کی خبر مدینہ پہنچی تو صحابہ میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی، ابو بکر صدیق نے قسم کھائی کہ ظالموں کو بے دریغ ماریں گے ، جنگ کی تیاری شروع ہوگئی، خوش قسمتی سے اس وقت تین جگہ سے زکاۃ آگئی جس سے ہتھیار وں اور دیگر ضروری سامان کے فراہم کرنے میں آسانی ہوئی ، سوا دو ماہ باہر رہ کر اُسامہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج بھی واپس آگئی ، ابو بکر صدیق نےاب بالکل دیر نہ کی ، اسامہ اور ان کی تھکی فوج کو آرام کرنے اور شہر کی اندرونی و بیرونی حفاظت سونپ کر وہ ذوالقصَّہ چلے گئے جماعی الثانیہ 11ھ ، وہاں سے فوجیں لے پر پندرہ میل شمال میں رَبَذہ کے کارواں اسٹیشن پہنچے ، جہاں قبائل مُرّہ ، ثعلبہ نیز عَبْس و ذُبیان جمع تھے ، لڑائی ہوئی ، چاروں قبیلے شکست کھا کر بھاگ گئے ، ان کی چراگاہوں پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا، عَبس و ذُبیان طُلیحہ سے جا ملے جو ابو بکر صدیق کی پیش قدمی کی خبر پاکر شمال میں سَمِیرا ء 1؎ ( 1؎ مدینہ سے براہ مَعدِن نُقرہ کوفہ کی شاہراہ پر تقریباً دو سو اسی میل شمال مشرق میں ایک سر سبز نخلستان ، الاعلاق النفیر ابن رُسۃ ، اڈیٹری غوئے لائڈن 174؎ ۔175) کے تالابوں سے ہو کر بزُاخہ 2؎ کے نخلستان میں فرد کش تھا، ( 2؎ مدینہ کے شمال مشرق میں اسد د غَطَفان کا نخلستان ۔ تاج العروس 2/253) خلیفہ نے زیادہ آگے بڑھنا مناسب نہ سمجھا او رمدینہ لوٹ آئے ۔
یہ آخری معر کے تعزیری قسم کے تھے ، عَبس و ذُبیان اور ا ن کے ساتھیوں نے اپنے کئے کی سزا پائی اور ان کی چرا گاہیں ضبط کر لی گئیں ، لیکن وہ نہ تو ارتداد سے تائب ہوئے اور نہ ان کا استیصال ہو ا ، مسیلمہ ، طلیحہ اور دوسرے باغی بھی بدستور موجود تھے ، اس لئے ابوبکر صدیق نے بڑے پیمانہ پر فوجی تیاری ضروری سمجھی، اسامہ بن زید کی فوج جب تازہ دم ہوگئی او ر زکاۃ کی بڑھتی ہوئی آمدنی سے سامان جنگ جمع ہوگیا تو انہوں نے خالد بن ولید اور دوسرے سالاروں کو باغیوں کی سر کوبی کے لئے ملک کے مختلف اطراف میں بھیجا ۔3؎ ( 3؎ ابو بکر صدیق کے سرکاری خطوط از خورشید احمد فارق ، ندوۃ المصنفین دہلی 1960ء ( بتصرف) 1۔6
URL for Part 1:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-1/d/97777
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-2/d/98038