New Age Islam
Thu Jan 16 2025, 06:28 AM

Urdu Section ( 30 Aug 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tarikh-e-Ridda Part- 17 (تاریخ ردّہ حصہ ( 17

 

خورشید احمد فارق

صَعنا ء (یمن) کی بغاوت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اَسود بن کعب عَنسی نے یمن میں نبوت کا دعویٰ کیا اور بہت سے لوگ اس کے پیرو ہوگئے، اس نے کسریٰ کے گورنر باذان فارسی  کی بیوی مَرُزُبانہ سے شادی کرلی، یہ مُرُزُبانہ ایک بڑے فارسی گھرانے کی خاتون تھی، اَسود نے اس کے خاوند کو مار کر زبردستی اس سے نکاح کرلیا تھا،  اس لئے وہ اس سے سخت نفرت کرتی تھی ، نجران کے مسلمان  عربوں کو جن کا تعلق حارث بن کَعب کے قبیلہ سے تھا، اسود کی نبوت کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے اسے اپنے علاقہ  میں آنے کی دعوت دی ، اس نے دعوت قبول کرلی اور جب وہ آیا تو بنو حارث نے اس کو نبی مان لیا اور اسلام کے باغی ہوگئے ، ایک قول یہ ہے کہ اسود جب بنو حارث کےعلاقہ میں داخل ہوا تو تین ہزار آدمی  جو اس کو نبی  مانتے تھے ، اس کے ہمرکاب تھے ، اسود غُمدان 1؎ (1؎ صنعاء کے قریب واقع تھا) کے تاریخی محل میں فرد کش ہوا اور اپنی دعوت شروع کردی، قبائل نَخغ اور جُعفی کے ایک متنفس نے بھی اس کی بات نہ مانی، البتہ زُبید ، مَذْ حج، بنو حارث ، اَور مُسیلمہ 2؎ (2؎ مسیلمہ نامی  کسی قبیلہ  سے ہم واقف نہیں، شاید جدید کی تصحیف ہو۔) اور حَکَم 3؎ (3؎ مَذحج کی ایک شاخ ۔تاج القروس 8/355) کےبہت سے لوگ اس کے پیرو ہوگئے ،اسود کچھ دن نجران میں ٹھہرا، پھر اس کی رائے ہوئی کہ صنعا چلاجائے جو اس کو اپنے مقاصد کے لئے نجران سے زیادہ بہتر نظر آیا، وہ بنو حارث کے چھ سو نوجوانوں کو ساتھ لے کر صنعاء آگیا، (یہاں فارسی حکمراں طبقہ) اَبناء کو سیاسی اقتدار سے محروم کر کے صنعا ء پر قبضہ جمالیا اور چونکہ اَنبا ء (اسلام کے وفادار) اور اس کی نبوت کے منکر تھے، اس لئے ان کے ساتھ دوسری بد سلوکیاں بھی کیں، ان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک اَزدی کو اور دوسرا قول ہے کہ ایک خُزاعی کو جس کا نام وَبربن یُحنَّیس4؎ (4؎ کلبی صحابی 10ھ میں ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ اِصابہ 3/630)اپنا سفیر بنا کر اَنباء کے پاس بھیجا ، وہ بھیس بدل کر صنعاء آیا اور ( اَنباء کے بڑے لیڈر) ذاذَوَیہ  کے پاس ٹھہرا ، ذاذَوَیہ نے اس کو اپنے پاس چھپا لیا ، اس کی تحریک  پر اَنبا ء نے اَسود کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، چند سیاسی اکابر نے اس منصوبہ کو نافذ کرنے کا بیڑہ اٹھایا جیسے قیس بن مَکشوح مُرادی5؎ (5؎ یمن کا ایک رئیس) ، فَیُرو نروَیلمی،ذاذَوَیہ اَنباوی ، مَرزُبانہ 1؎ ( 1؎ گورنر یمن باذان کی بیوی جس کو قتل کر کے اسود صنعا ء پر قابض ہوگیا تھا ۔)پہلے ہی سے خار کھا ئے ہوئے تھی،  اس نے ان اکابر سے ایک دن مقرر کیا ، یہ لوگ اسی دن اَسود کے محل پہنچ گئے ، مَرزُبانہ نے اسود کو اتنی شراب پلائی کہ وہ مدہوش ہوگیا،نشہ سے چُور ہوکر گِرا اور پڑکر سو گیا،فَیُروز، قیس بن مَکشُوح اور ان کے ساتھی محل میں داخل ہوئے تو اسود پَروں بھرے ایک بڑے گڈے میں میں دھنسا پڑا تھا، فیروز کو اندیشہ ہوا کہ اگر انہوں نے تلوار چلائی تو وہ کام نہ کرے گی، 2؎ (2؎ کیونکہ اسود پَروں میں ایسا دھنسا گیا تھا کہ تلوار چلانے کاڈھب نہ تھا۔)اس لئے انہوں نے اس کذّاب کے سینہ پر اپنا گھٹنا رکھا اور سر پکڑ کر اس کا چہرہ جو پیٹھ کی طرف مڑا ہوا تھا  سیدھا کیا اور قیس نے اشارہ پاکر اسود کا سرکاٹ لیا اور پبلک کے سامنے پھینک دیا، اَسود کے متبعین کی کمر ٹوٹ گئی اور ان کی عزت و عظمت خاک میں مل گئی، قیس بن مَکشُوح نے ایک عام جلسہ میں تقریر  کی او رکہا : ‘‘ اسود جھوٹا تھا ، اس نے ( نبوت کا دعویٰ کرکے )خدا پر افترا پردازی کی اور آخرکار اس کا خمیازہ بھگتا ، قیس بن مکشوح  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سراہا اور ان کے نبی  بر حق ہونے کا اعتراف کیا۔

اسود کے قتل کی خبر رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بستر علالت پر موصول ہوئی، جب ان کی زندگی کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، وہ خوش ہوئے اور صحابہ سے کہا : ‘‘ اسود کو ایک مرد صالح  فَیُروزوَال یلمی نے قتل کردیا ۔’’ ( انباء کے لیڈر) فیروز اور ذَاذَویہ  نے حکومت کی باگ ڈور قیس بن مَکشُوح کے سپرد کر دی، وہ صنعا ء اور اس کی عملداری کا حاکم ہوگیا، یہاں اس وقت اسود کی بہت سی فوج موجود تھی، اہل صنعا ء کوجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا علم ہوا تو قیس ، اَنباء اور شہر کے اکثر لوگ اسلام پر قائم رہے لیکن اسود عَنسی کے فوجی لیڈر وں نے بغاوت کی ٹھانی، اس کے کچھ عرصہ بعد قیس بن مکشوح کو فیروز اور ذاذَوَیہ سے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ اس حکومت سےبے دخل کر کے صنعاء پر خود قابض  نہ  ہوجائیں، اس لئے اس نے دونوں کو دھوکہ  سے قتل کرنے کا تہیہّ کر لیا، اس نے اَنباء کے ان بڑے لیڈروں کی دعوت کی، جب  دعوت کھانے ذاذَوَیہ اس کے محل آئے تو اس نے انہیں اچانک  قتل کردیا، ان کے بعد فیروز آئے لیکن قبل اس کے کہ قیس کی غدار تلوار ان کے ٹکڑے کردے کسی نے ان کو خطرہ سے آگاہ کردیا اور وہ بھاگ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس چلے گئے 1؎۔(1؎ زیادہ مشہور اور غالباً صحیح رائے یہ ہے کہ فیروز نے بعض یمنی  قبیلوں کے پاس رشتہ میں ان کے ماموں تھے جاکر پناہ لی، اور وہاں ابوبکر صدیق کو خط  کے ذریعہ حالات سے مطلع کیا اور مدد طلب کی)قیس بن مکشوح مدینہ کیے وفاداری  ترک کرکے خود مختار  ہوگیا اور اَنباء ( فارسی حکمراں طبقہ) کو صنعا ء سے نکال دیا ، صرف جوار2 ؎ ضلع میں ان کے کچھ خاندان رہ گئے۔ (2؎ یا قوت نے یمن میں اس نام کے کسی مقام کا ذکر نہیں کیا ، شاید یہ جُو ءہ بالضم کی تصحیف ہےجو جَنَدِ یمن کے قریب ایک شہر تھا معجم البلدان 3/156) شعبی کہا کرتے تھے : ‘‘ اگر خدا کے بعد کسی کو سجدہ کرنادرست ہوتا تو یمن کے وہ شخص اس لائق تھے کہ ان کو سجدہ کیا جائے، ایک سیف بن ذی  یزن جس نے حبشہ کی عیسائی حکومت کا تختہ اُلٹا اور دوسرے قیس بن مکشوح جس نے اَنبا ء کے فارسی اقتدار کی جڑ کاٹی۔

خالد بن سعید عاص رضی اللہ عنہ کو جو اس وقت قبیلہ مُراد کی اراضی  میں تھے، صنعاء میں قیس کی بغاوت کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے بےدرنگ صنعاء کا رخ کیا اور اس کی عملداری میں داخل ہوگئے، فیروز نے ان سے قیس کی ذاوَذیہ کے ساتھ غداری کی شکایت  کی، خالد رضی اللہ عنہ  نے اپنا ایک نمائندہ قیس کو گرفتار  کرنے کے لئے بھیجا ، جب وہ قیس کو اپنی حراست میں لئے صنعاء کے قریب پہنچا تو قیس اسے دھوکہ دےکر بھاگ گیا اور خالد رضی اللہ عنہ  کے پاس آکر کہا : ‘‘ ایک شخص جس نے زمانہ جاہلیت میں جرم کئے ہوں، مسلمان ہوکر تمہارے پاس آئے تو وہ کس برتاؤ کا مستحق ہے؟ ‘‘ خالد رضی  اللہ عنہ: ’’ اس کے قبل از اسلام جرائم نظر  انداز کردیئے جائیں گے ’’۔یہ سن کر قیس نے اسلام کی وفاداری کا پھر حلف لے لیا، وہ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ کے ساتھ العلاء 1؎ گیا ، (1؎ اصل میں اسی طرح غالباً العلاً نۃ کی تصحیف ہے، عُلاَّنتہ صنعا سے  دو مرحلے یا لگ بھگ پچاس میل پر ایک گاؤں تھا معجم البلدان 4/196)مسجد میں فیروز موجود تھے، ان کو دیکھ کر قیس نے کہا : ‘‘ کیا تمہیں خالد بن سعید سے کچھ کہنا سننا ہے؟’’ اس سوال نے فیروز کا حوصلہ پست کردیا، وہ خالد سے ملے اور کہا : ‘‘ مجھے  قیس سےاپنی پناہ  میں لو۔’’

یمن میں یہ حالات تھے کہ ابوبکر صدیق نے عِکرِمہ بن اَبی جَہل  کو جو اس وقت عَمان کی سرزمین میں ڈٹے ہوئے تھے یہ فرمان لکھا :۔

‘‘ بلادِ مہرہ میں بغاوت فرو کرکے صنعاء پہنچو اور قیس بن مکشوح  کو گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو۔’’

اس فرمان کے مطابق عِکرِمہ عُمان سے مہرہ پہنچے اور وہاں باغیوں کو مارتے اور قید کرتے آگئے بڑھ گئے، مَہرہ میں جہاں جہاں ان کا گذر ہوتا وہاں کے باشندے ان سے جنگ کرتے، وہ لڑتے ، قتل و گرفتار کرتے، اسلام کا حلقہ بگوش بناتے، قیدیوں کو مدینہ بھیجتے اور پھر آگے بڑھ جاتے ، اس طرح بغاوت کاقلع قمع کرتے وہ صنعا ء پہنچے  اور قیس سے ملے، قیس کو کچھ خبر  نہ تھی کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے بارے میں کیا حکم  دیا ہے، عِکرِمہ نے اس کو پکڑ لیا اور ایک رسی  میں بندھوا کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے پاس بھیج دیا۔ قیس جب خلیفہ کے سامنے حاضر ہوا تو انہوں نے کہا : تم ہی ہو ذاذَوَیہ کے قاتل ؟’’قیس نے قسم کھائی او رکہا : ‘‘ میں نے نہ تو ذاذَوَیہ  کو قتل کیا اور نہ مجھے اس کے قاتل  کا علم ہے۔’’ اس نے درخواست کی کہ مجھے جہاد پر بھیج دیجئے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کے حکم سے وہ اپنے قبیلہ مذحج کو لینے یمن لوٹا اور ان کو جہاد کی دعوت دی ، وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ مدینہ آگئے  اور وہاں ان  فوجوں میں ضم ہوگئے جو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شام بھیجی  تھیں، یہ ہے شام میں بنو مَذ حِج  کے داخلہ کی شانِ نزول۔

اس اثنا ء میں أصفر عَکیّ 1؎ (1؎ اِصابہ وغیرہ میں اس نام کا کوئی  صحابی یا تابعی نہیں ملا ، شاید قبیلہ عَکّ کے کسی رئیس کا نام ہے)اپنی قو م کے وفادار مسلمانوں کو ( ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم سے) لے کر نکلے اور بنو حارث (نجران) کے باغیوں کی سرکوبی کے لئے نجران آیا، اصفر کو دیکھ کر بنو حارث بغیر لڑے  اسلام کے وفادار ہوگئے، اصفر نجران ٹھہر گیا اور آس پاس کے علاقوں میں پھر اسلامی  حکومت قائم کرلی۔

جب صنعاء میں یہ تقلبات ہورہے تھے  ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہاجر ین 2؎ (2؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سالے اور بدری صحابی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صنعاء کا محصل  رکاۃ مقرر کیا تھا، اسود عنسی کی بغاوت پر یہ مدینہ  لوٹ آئے تھے ۔ اِصابہ 3/465) ابی اُمَیۃَ کو صنعاء پر فوج کشی کا حکم دیا اور ہدایت کی  کہ راستہ میں قبیلہ مُضَر کے عربوں کو اپنے ساتھ لام پر لے جائیں  اور ان کو ہتھیار وں اور سواری کے لئے روپیہ دیں جو ابوبکر  صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ کیا تھا، مہاجر رضی اللہ عنہ نےمدینہ سے صنعاء  کا رُخ  کیا، مہاجرین و انصار کا ایک دستہ بھی ان کی فوج میں تھا، نجران پہنچے تو وہاں اَصفر عکیّ موجود تھا، چند دن قیام کے بعد انہوں نے  صنعا ء پر چڑھائی کردی،  اس وقت ان کے ساتھ کافی بڑی فوج تھی، راستہ میں ان کا مقابلہ اسود عنسی کے بعد سالاروں سے ہوا ( جو ہنوز باغی تھے) ، مُہاجر نے ان کے آنے کے سب راستوں پر پہرہ بٹھا دیا اور پھر ایسا دبایا کہ وہ بھاگ کر جنگل میں گھس پڑے، ان کے کافی سپاہی مارے گئے اور قید ہوئے قیدیوں کو لےکر وہ صنعاء چلے گئے۔

یمن کے ضلع زَبِید3؎  کے بہت سے عرب بھی باغی ہوگئے تھے ، (3؎ نقشہ دیکھئے) ان کالیڈر عمر و بن 4؎ معید یکرب تھا ، (4؎ ایک مشہور  شہسوار ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانہ  میں مسلمان  ہوا پھر مرتد ہوگیا ، ابوبکر صدیق کے عہد میں پھر مسلمان ہوا اور معبہد عمر فاروق عراق کے معر کوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے 21 ھ میں وفات پائی ۔ اِصابہ 3/18۔20) خالد بن سعید بن عاص مُراد اور مذحِج کے وفادار عربوں   کے ساتھ باغیوں سے لڑنے نکلے، لڑائی میں باغی ہار گئے، ان کی کچھ عورتیں مسلمانوں کے ہاتھ آئیں ، ان میں عمر و بن مَعدِ یکربِ کی بیوی حُلالہ بھی تھی ، وہ بڑی حسین عورت تھی، اس لڑائی میں عمر بن معدیکرب شریک نہیں ہوا تھا ، خالد رضی اللہ عنہ جیتے تو زَبید کے باغیوں نے کہا : ہم اسلام پر قائم  رہنے کاعہد کرتے ہیں ہمارے خلاف مزید کارروائی نہ کیجئے ۔’’ خالد بن سعید نے ان کو معاف کردیا،باغی  مسلمان ہوگئے ،  یہ خبر عمر و بن مَعد یکَرِب کو ہوئی تو وہ آیا اور خالد رضی اللہ عنہ کے کیمپ  کے نزدیک اتر ا جب رات ہوئی  تو وہ نکلا  اور بڑی حکمتوں سے حُلالہ کے پاس پہنچ گیا اور اس سے پوچھا : ‘‘ خالد بن سعید نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟’’  حُلالہ : ‘‘ انہوں نے میرے ساتھ کوئی نا مناسب حرکت نہیں کی بلکہ احترام سے پیش آئے۔’’ عمر و بن  معد یکَرِب : ‘‘ کیا وہ تم سے ہمکنار بھی ہوئے ؟’’ حُلالہ : ‘‘ خدا کی قسم نہیں ، ان کا مذہب اس کی اجازت کب دیتا ہے!’’ عمرو  : ‘‘ کعبہ کی قسم ، جو مذہب تم جیسی حسینہ کے قریب آنے سے روکے وہ یقیناً سچا ہے’’۔صبح ہوئی تو عمر و بن مَعد یکَرِب خالد بن سعید کے پاس گیا او رکہا : حُلالہ  کے بارے میں آپ نے  کیا سوچا  ہے؟ ‘‘ خالد رضی اللہ عنہ : وہ مسلمان ہوچکی ہے ، اگر تم بھی ہوجاؤگے تو میں اس کو تمہارے حوالہ کردو ں گا۔’’ عمر و مسلمان ہوگیا اور حُلالہ اُسے مل گئی ۔ خالد بن سعید کی مدینہ واپسی کے کچھ عرصہ بعد عمر بن معدیکَرِب  بھی وہاں پہنچ گیا اور خالد رضی اللہ عنہ سے ان کے گھر جاکر ملا او رکہا : ‘‘ مجھے اپنی تلوار صَمصامہ سے بہتر کوئی چیز نظر نہیں آتی جو حُلالہ کی با حرمت واپسی پر تمہاری نذر کو سکون ، یہ کہہ کر اس نے گردن سے تلوار اتاری،  خالد رضی اللہ عنہ نےاسے قبول کرلیا، اس موقع پر عمر و نے یہ شعر کہے:۔

وَھَبتُ لحالدٍ سیفی ثواباً                 علی الصَمصَمامۃ السیف السلام

خلیل لم أَ خُنہ ولم یخُننی               ولکن التَّوا ھب فی الکرام

 خالد کو ان کی عنایت کے عوض میں نے اپنی عزیز تلوار صمصامہ دے دی، خدا ہمیشہ اس کو سلامت رکھے ، وہ میری عزیز دوست تھی جس نے ہمیشہ دوستی کا حق ادا کیا ، جس طرح میں نے اس کی دوستی نبھائی  ، لیکن شریف آدمی اپنی عزیز ترین چیزوں کو بھی تحفے میں دے ڈالتے  ہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-17/d/98805

 

Loading..

Loading..