خورشید احمد فارق
بنو سُلیم 3؎کی بغاوت
(3؎ ان کی بستیاں وادی القریٰ اور خیبر سے لے کر مدینہ کے مشرق تک تھیں)
واقدی نے سُفیان بن اَبی العَوجاء سُلمی 4؎ کے حوالہ سے بنو سُلیم کے ارتداد کا واقعہ بیان کیا ہے۔ (4؎ حجازی تابعی ۔ تہذیب التہذیب 4/117)سفیان نہ صرف اپنے اہل قبیلہ (سُلیم) کی بغاوت کی تفصیلات سے خوب واقف تھے بلکہ نہایت وسیع العلم اور دیندار آدمی تھے ، وہ کہتے ہیں کہ غسّانی رئیس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک عطردان بھیجا جس میں مشک و عنبر تھا، اس رئیس کے قاصد جب بنو سُلیم کی اراضی سے گذررہے تھے تو ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی ، بنو سُلیم کے ایک گروہ نے طے کیا کہ عطردان چھین لیا جائے اور اسلام سے بغاوت کردی جائے ، دوسرے گروہ نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو کیا ہے، خدا تو زندہ جاوید ہے۔ بنو سُلیم کی جن شاخوں نے بغاوت کی ان کے نام یہ ہیں : عُصَیہَّ ، بنو عُمیر ، بنو عَوف او ربنو جاریۃ کے بعض گھرانے جن لوگوں نے عطردان لوٹا اور اس کے حصے کر ڈالے وہ حَکَم بن مالک بن خالد شَرید ( مشہور شاعرہ خَنساء)کا خاندان تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلیفہ ہوکر مَعن بن حاجِر 1؎ (1؎ عہد نبوی میں موجود تھے لیکن صحبت ثابت نہیں ۔ استیعاب 1/271) کو مراسلہ بھیجا اور اُن کو بنو سُلیم کے مسلمانوں کا حاکم مقرر کیا، بنو سُلیم میں ارتداد کی آندھی کے وقت انہوں نے اچھی خدمت انجام دی تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی اطلاع دے کر انہوں نے وہ آیتیں تلاوت کیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق نازل ہوچکی تھیں، مثلاً إنَّکَ مَیَّت وَ إنَّھُمْ مَیّتُون، وَمَا مُحَمَّدُ إِ لاَّ رسول خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُل۔ انہوں نے قرآن کی اور آیتیں بھی جو بر محل تھیں سنائیں ، نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے سُلیمی اسلام کے وفادار ہوگئے اور باغی عناصر نے الگ الگ ہوکر لوٹ مار شروع کردی جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مدینہ کے مضافات میں طُلیحہ وغیرہ کی بغاوت فروکرنے بھیجنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے مَعن بن حاجِز کو لکھا کہ وہ وفادار مسلمانوں کے ساتھ جا ملیں اور اپنے بھائی طُریفہ بن حاجِر 2؎ (2؎ سُلیمی صحابی، استیعاب 1/215) کو بنو سُلیم کےوفادار قبائل پر جانشین مقرر کردیں ، مَعن نے حکم کی تعمیل کی ، طُریفہ نے بنو سُلیم کے باغیوں سے جنگ شروع کردی، یہ اُن پر چھاپے مارتے اور وہ اُن پر ، اسی اثناء میں بنو سُلیم کا ایک لیڈر فجارہ جس کا نام اِیاس بن عبداللہ بن عبد یا لیل بن عُمیر بن خِفاف تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں مسلمان ہوں اور باغی عربوں سے جہاد کرناچاہتا ہوں ، آپ میری مدد کیجئے ،اگر میرے پاس سامان جنگ ہوتا تو میں آپ کو تکلیف نہ دیتا ، میرے پاس نہ ہتھیار ہیں نہ اونٹ نہ گھوڑے ’’۔فُجارہ کے آنے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خوش ہوئے اور اس کو تیس اونٹ اور رتیس آدمیوں کے ہتھیار دے دیئے ، فُجارہ چلا گیا اور مسلمان یا کافر جو بھی اس کو ملتا اُن کا جھاڑا لیتا اور سامان چھین لیتا ، اگر کوئی سامان دینے سے انکار کرتا تو اپنے مرتد ساتھیوں کے ساتھ اُن سے لڑتا ، مسلمانوں کی ایک جماعت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آرہی تھی ، اَرَحَضِیّہ 1؎ (1؎ مکہ مدینہ کے درمیان بِر مَعُونہ کے پاس معجم البلدان 1/182، بِئر مَعُونہ مدینہ سے چار مرحلے ( تقریباً سو میل ) شمال مشرق میں ایک نخلستان تھا۔) مقام پر فُجارہ نے ان پر چھاپہ مارا، ان کا سامان لوُٹ لیا او ر انہیں قتل کردیا، اس کا دست راست ایک سُلیمی عرب نَجبہ بن اَبی میثا 2؎ تھا ، (2؎ دیکھیں 1۔31) جب ابوبکر صدیق کو اس حادثہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے طُریقہ بن حاجِز کو لکھا:۔
‘‘ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ابو بکر صدیق خلیفہ رسول اللہ کی طرف سے طُریفہ بن حاجِز کو سلام علیک ، تم کو معلوم ہو کہ دشمن خدا فُجارہ میرے پاس آیا اور مجھ سے درخواست کی کہ اسلام سے منحرف عربوں کی سرکوبی کے لئے اس کو ضروری سامان دوں، میں نے اس کی مدد کی اور ضروری سامان فراہم کیا اب مجھے پکی خبر ملی ہے کہ دشمن خدا کیا مسلمان کیا کافر سب کو جھاڑا لے کر ان کا سامان ہتھیا لیتا ہے اور جو اس کی بات نہیں مانتے انہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے مسلمان ساتھیوں کو لے کر اس کی سرکوبی کو جاؤ اور اس کو قتل کردو یا گرفتار کر کے میرے پاس لے آؤ، والسلام علیک رحمۃ اللہ ۔’’
طُریفہ بن حاجِز نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فرمان بنو سُلیم کے مسلمانوں کو سُنایا ، وہ مسلح ہوکر جمع ہوگئے اور طُریفہ کی سرکردگی میں مُجارہ سے لڑنے نکلنے، فُجارہ نے ہر اول فوج اپنے دست راست نجبہ بن اَبی یَثا1؎ (1؎ متن میں اَبی المثنی) کی قیادت میں مقابلہ کے لئے بھیجی ، اس کی مسلمانوں سے جھڑپ ہوئی جس میں وہ ماراگیا ، اُس کے سپاہی بھاگ کر فجارہ سےجا ملے ،اب طُریفہ بن حاجِز نے فُجارہ کی طرف پیش قدمی کی ، دونوں فریق متصادم ہوئے ، مسلمانوں نے تیر بازی شروع کردی ، فُجارہ کے سپاہیوں نے بھی بے دلی سے تیر پھینکے ، اُن کے دل حوصلے پست تھے کیونکہ خود ان کا لیڈر فُجارہ ہمت ہار گیا تھا اور اپنے کئے پر نادم تھا اُس نے طُریفہ سے کہا : ‘‘ خدا کی قسم میں مرتد نہیں ہوا ، میں اسلام پر قائم ہوں اور جس طرح تم ابوبکر کے کمانڈر ہو اسی طرح میں بھی ہوں ۔ ’’ طُریفہ: ‘‘ اگر تم سچّے ہو تو ہتھیار ڈال دو اور ابوبکر کے پاس چلو ۔’’ فُجارہ نے ہتھیار ڈال دیئے ، طُریفہ اس کو ایک رسّی سے باندھنے لگے تو فُجارہ نے کہا : ایسا نہ کرو طُریفہ ، اگر تم مجھے باندھ کر لے گئے تو میں رُسوا ہوجاؤں گا ’’۔ طُریفہ : ‘‘ دیکھو ابوبکر کا خط ، اس میں انہوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ تم کو گرفتار کر کے لاؤں ۔’’ فُجارہ بہتر ہے ، خلیفہ کا حکم سر آنکھوں پر۔’’ طُریفہ نے بنو سُلیم کے ایک وفد کے ساتھ جو دس افراد پر مشتمل تھا فُجارہ کو مدینہ روانہ کردیا ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کو قبیلہ جُشم کے پاس بھیج دیا ( جس کے آدمیوں کو فُجاہ نے قتل کیا تھا) انہوں نے اُس کو آگ میں جلادیا ۔
( بنو سُلیم کی شاخ) ضِر بان کا ایک لیڈر قَبیصہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا : ‘‘ میں مسلمان ہوں اور میری قوم بھی اسلام کی وفادار ہے۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اُس کو حکم دیا کہ اپنے ہم قوم مسلمانوں کو لے کر بنو سُلیم کے باغیوں سے لڑو۔ قبیصہ نے لَوٹ کر اپنے قبیلہ کے مسلمانوں کو یہ پیغام سنایا تو بہت سے لوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے، قبیصہ ان کو لے کر نکل پڑا اور جہاں باغیوں کو پاتا مارتا اور قتل کرتا ، اس کا گذر خمیصہ بن حکم شریدی ( خاندان شاعرہ خنساء) کے گھر کی طرف ہوا، اس وقت خمیصہ باغی عناصر کو جمع کرنے گیا ہوا تھا، قَبِیصہ نے اس کے ایک باغی مہمان کو مار ڈاالا اور اس کے اونٹ اور بکریاں ہانک کر لے گیا، ایک تالاب کے کنارے قَبِیصہ کے ساتھیوں نے مقتول مہمان کی ایک بکری ذبح کی اور اس کوکھاپی کر چل دیئے خَمیصہ لوٹا تو گھر والوں نے اس کو مہمان کے قتل کا ماجرا سنایا، وہ قبیصہ کی تلاش میں نکل گیا اور اُس تالاب سے گذرا جہاں مہمان کی بکری ذبح کی گئی تھی، اس نے آگ میں بھُنے سر کی ہڈی جو قبیصہ کے ساتھی چھوڑ گئے تھے اٹھائی اور اس کو اپنے منہ پر مارتا قبیصہ کی تلاش میں چل دیا جب قبیصہ ملا تو وہ ہنوز بکری کی کھوپڑی اپنے منہ پر ماررہا تھا اور خون اس کے داڑھی پر ٹپک رہا تھا ، وہ طاقتور آدمی تھا، اس نے قبیصہ سے کہا : ‘‘ تم نے میرے مہمان کو مار ڈالا:’’ قبیصہ : ‘‘ تمہار ا مہمان مرتد ہوگیا تھا’’ ۔ خمیصہ : ‘‘ اچھا اس کے جانور لوٹا دو۔’’ قبیصہ نے لوٹا دیئے ، ایک بکری کم پاکر خمیصہ نے بکری طلب کی، قبیصہ نے کہا : ‘‘ وہ تو میرے ساتھیوں نے کھاپی لی اور اُن کو ایسا کرنے کاحق تھا کیونکہ وہ باغیوں کی گوشمالی کی مہم پر تھے ۔’’ خمیصہ : ‘‘ باغیوں میں تمہارے لئے میرا مہمان ہی جس کو میں نے پناہ دی تھی، ہاتھ صاف کرنے کو رہ گیا تھا؟’’ قبیصہ :‘‘ کیوں نہیں، کر لو جو تمہارا جی چاہے۔’’ خمیصہ نے طیش میں آکر قبیصہ کے سر پر اس زور سے نیزہ مارا کہ اس کا پھل ٹیڑھا ہوگیا، قبیصہ اونٹ سےنیچے گر پڑا اور خمیصہ سے کہا : ‘‘ تم نے میرا سر زخمی کردیا ہے، اب اس سے آگے نہ بڑھنا ۔’’ خمیصہ نے دو پتھروں سے نیزے کاپھل سیدھا کیا اور یہ کہتے ہوئے کہ :‘‘ اپنے مہمان کے قتل کے بعد میں رُکا رہوں ، یہ ناممکن ہے، قبیصہ پر ایسا وار کیا کہ وہ ختم ہوگیا اُس نے اپنے ساتھیوں کو خمیصہ کے آنے سے پہلے ہی چھٹی دے دی تھی ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو یہ فرمان بھیجا:۔
‘‘ خدا کی عنایت سے اگر تم بنو حنیفہ پر فتحیاب ہوتو یمامہ میں زیادہ قیام کرنا اور بنو سُلیم کے علاقہ میں جا اُترنا اور ان کی ایسی خبر لینا کہ ان کو غداری اور بغاوت کامزہ آجائے، کسی عرب قبیلہ پر مجھے اتنا غصہ نہیں جتنا ان پر ہے، ان کا ایک آدمی (فُجارہ) میرے پاس آیا اورکہا : ‘‘ میں مسلمان ہوں، جہاد کے لئے میری امداد کیجئے ، میں نے جانور وں اور ہتھیاروں سے اس کی مدد کی ، پھر وہ رہزنی کرنے لگا، میں تم پر قطعاً برہم نہ ہوں گا اگر فتح حاصل کر کے تم اُن کو آگ اور تلوار سے اس بری طرح قتل کرو کہ پھر کبھی ان کو غداری کی جرأت نہ ہو۔’’
خط پاکر خالد رضی اللہ عنہ نے ہر اول ٹولیاں بھیجنی شروع کردیں ، بنو سُلیم کو خبر ہوئی تو اُن کےبہت سے آدمی مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے، ان میں زیادہ تر بنو سُلیم کی شاخ عُصّیہ کے افراد تھے ، جہاں جہاں بنو سُلیم کے مرتد بانی تھے اُن کو بھی بلالیا گیا، باغیوں کالیڈر ، اور سرغنہ ابو شجرہ 1؎ تھا،(1؎ مشہور شاعر ہ خنساء کالڑکا۔) یہ لوگ جِوار 2؎ کے فریف خمیہ زن تھے (2؎ جِوار سے مراد ضَرِیّۃُ الجِوار ہے، مدینہ کے شمالی مشرق میں نجد کی ایک چراگاہ۔ معجم البلدان 3/154۔155)کہ خالد رضی اللہ عنہ صبح تڑکے اُن کےبالمقابل آپہنچے ، انہوں نے اپنی فوج کو چوکنّا اور مسلّح ہونے کی تاکید کی او راپنی صفیں مرتب کرلیں، بنو سُلیم نے بھی اپنی صفیں درست کرلیں ، مسلمان اس وقت بہت خستہ اور کمزور تھے : اُن کے گھوڑے اور اونٹ خستہ خوراک سےلاغر ہوگئے تھے، خالد رضی اللہ عنہ خود تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے اور ان کو خوب قتل کیا ، پھر انہوں نے ایسا بھر پور حملہ کیا کہ دشمن سے سپاہی پکڑ لئے ، ان میں سے کسی کے کندھے پر تلوار مارتے تو اس کے دو حصّے کر دیتے اور اس کا پھیپھڑہ نظر آنے لگتا ، اور کسی کی کمر پر وار کرکے اس کا دھڑ الگ کر دیتے سفیان بن اَبی عَوجاء 3؎ (3؎ سُلمی ، حجازی ، تابعی، تہذیب التہذیب 4/117) کا بیان ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے باڑے بنوائے اور شکست خوردہ سُلمیوں کو ان میں بند کر کے آگ لگادی جس میں وہ جل مرے، اس لڑائی میں ابو شجرہ کے ہاتھ سے کافی مسلمان شہید ہوئے اور ان کی ایک بڑی تعداد گھائل ہوئی، اس نے اپنی کامیابی پر ایک نظم کہی جس کا آخری شعریہ ہے:۔
فرَ وَّیت رُمحی من کتیبۃ خالد وإنی الأ رجو بعد ھا أَن اُعَمَّرا
میں نے اپنا نیزہ خالد کے سواروں سے خوب سیرا ب کیا او رمجھے پوری امیدہے کہ میں ابھی بہت دن تک زندہ رہوں گا۔
جب خالد ربن ولید ضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے بنو سُلیم کے حالات دریافت کئے ، خالد رضی اللہ عنہ نے اُن کی ہلاکت کا قصہ سنایا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خدا کا شکر ادا کیا کچھ دن بعد معاویہ بن حَکَم اور اس کا بھائی خمِیصہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : ‘‘ ہم مسلمان ہیں۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خَمِیصہ سے کہا : ‘‘ تم نے قبِیصہ کو قتل کیا اور مرتد ہوگئے ’’۔ خمِیصہ : انہوں نے میرے مہمان کو جسے میں نے پناہ دی تھی قتل کردیا تھا۔’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ : ‘‘ اس نے تمہارے مرتد مہمان کو جسے میں نے پناہ دی تھی قتل کردیا تھا۔’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ : ‘‘ اس نے تمہارے مرتد مہمان کو قتل کیا تو تم نے خود اُسے قتل کردیا، دیکھتا ہوں اب تم کیسے بچ کر جاتے ہو ، تم کو قتل کئے بغیر نہیں رہوں گا’’۔ خمِیصہ کے بھائی نے کہا : خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت خمیصہ مرتد تھا اور اپنے مقتول کا بدلہ نہ لے سکا تھا ( اس لئے اس کے جذبات بہت مشتعل تھے) اب اس نے توبہ کرلی ہے اور دوبارہ اسلام بھی قبول کرلیا ہے، وہ قبِیصہ کا خوں بہا ادا کردے گا۔’’ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ لاؤ خون بہا ’’ ۔ خمیصہ نے ادا کرنے کا وعدہ کرلیا، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ : کیا خوب آدمی تھا قبِیصہ او رکیا خوب راہ تھی جس پر چل کر اُس نے جان دی ، پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معاویہ سے کہا : ‘‘ بنو شَر ید ، تم نے وہ عطردان لوٹ لیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھیجا گیا تھا او رکہا : ‘‘ اگر قریش میں سےکوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین ہوا تو وہ تمہارے قبول اسلام سے ہی مطمئن ہوجائے گا اور اس مرنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاتحفہ لوٹنے پر تم سے کوئی باز پرس نہ کرے گا اور اگر کسی نے تحفہ طلب کیا تو وہ مرنے والے کے اہل کنبہ ہوسکتے ہیں اور وہ کب ایساکرنے لگے کیونکہ رشتہ میں تم ان کے ماموں ہوتے ہو۔’’ معاویہ : ‘‘ ہم ذمہ لیتے ہیں کہ عطردان آپ کو لوٹا دیں گے ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معاویہ کو عطردان کا ضامن بنا دیا اور اس کو دو یا تین ماہ کی مہلت دی، اس اثنا ء میں معاویہ عطردان لے آیا۔
اَبَو شجرہ بھی جلد مسلمان ہوگیا او رمدینہ کا وفادار ، وہ اپنی بے راہ روی پر معذرت کیا کرتا او رکہتا میں نے وہ شعر نہیں کہے جن میں سے ایک کا اوپر ذکر ہوا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابو شجرہ نے مدینہ کا سفر کیا اور اپنی اونٹنی (مدینہ کے باہر) بنو قُریظہ کے علاقہ میں ٹھہرائی اور شَوران1؎ (1؎ مدینہ سے چار پانچ میل جنوب مشرق میں ایک پہاڑ) کے پتھر یلے میدان سے ہوکر مدینہ میں داخل ہوا اور جب عمر فاروق کے پاس آیا تو وہ غریبوں کو روپیہ پیسہ بانٹ رہے تھے، اُس نے کہا : ‘‘ امیر المومنین میں نادار ہوں ، مجھے بھی دیجئے ’’۔ عمر فاروق نے پوچھا : ‘‘ تم کون ہو ؟’’ ابو شجرہ : ‘‘ میں ابو شجرہ بن عادالعزَّی ہوں۔’’ عمر فاروق : دشمن خدا کیا یہ شعر تیرا نہیں ہے؟
وَرَوَّیت رُحُی من کتیِبۃ خالد و إنی جو بعد ھا أَ ن أُعمَّرا
خبیث بہت بری گذاری تو نے اپنی عمر ! ‘‘ یہ کہہ کر وہ ابو شجر کے کوڑے مارنے لگے ، وہ بھاگا اور اُس کے پیچھے عمر فاروق ، لیکن وہ اُس کو پکڑ نہ سکے، وہ سیدھا اپنی اونٹنی کے پاس گیا اور اِس پر کجاوہ کس کو شَور ان کے میدان سے اس کو دوڑاتا بنو سُلیم کے علاقہ میں پہنچ گیا ، اگر چہ ابو شجرہ اچھا خاصا مسلمان تھا ، اس کو عمر فاروق کے جیتے جی پھر کبھی ان سے ملنے کی جرأت نہ ہوئی ، جب کبھی اس کی زبان پر عمر فاروق کا ذکر آتا تو وہ ان کے لئے رحمت کی دعا کرتا اورکہتا مجھے ان کے برابر کسی سے ڈر نہیں لگتا تھا ۔ اس نے مذکورہ سانحہ کے بارے میں یہ شعر کہے:۔
ضَنَّ اَبو حَفص علینا بنا ئلہ وکل مختبط یو مالہ وَرَ ق
ابو حفص (عمر) ہمارے ساتھ بخل سے پیش آئے خیر ، ہر مانگنے والے کی جیب کسی نہ کسی دن گرم ہوہی جاتی ہے۔
مازال یتبعنی 1؎ حتی خَدَ یتُ لہ (1؎ متن میں دیر مقنی) وحال من دُون بعض البُفیۃ الشُّقَق
وہ مجھے پکڑنے لپکتے رہے لیکن میں ان کے ہاتھ نہ آیا، کبھی فاصلے حصولِ مقاصد کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں ۔
ثم ھَر عتُ إلی وجنا ءَ کاشرۃٍ مثل النَّعا مۃٍ 2؎ لم یَثبُت لھا الأفق (2؎ متن میں انعام )
مار کھا کر میں ایک مضبوط اونٹنی کی طرف بھاگا جو شتر مرغ کی طرح تیز گام ہے۔
أَ ز جیتُھا أَقحَل من شَوران صادرۃ إنی لأُ زری علیھا وحی تنطلق
میں اس کو شوران کے پتھر یلے بے آب و گیاہ میدان کی طرف، اس کی سُست رفتاری پر ڈانٹتا ڈپٹتا گھر واپس لے چلا۔
ہشام بن عُروہ 3؎ (3؎ بن زبیر بن عوَّام ، مدنی ، تابعی ، محدث ، 145ھ میں وفات پائی، تہذیب التہذیب 1/51) نے اپنے والد کی سند پر ابو شجرہ کی عمر فاروق سے ملاقات کا واقعہ مذکورہ قصہ سے مختلف بیان کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ابو شجرہ مدینہ آیا او راپنی اونٹنی ایک گھر میں لاکر کھڑی کی پھر وہ بھیس بدلے مسجد میں آیا او رلیٹ گیا، عمر فاروق جن کے اکثر گمان صحیح نکلتے ، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے ، انہوں نے کہا : ‘‘ میرا خیال ہے کہ یہ ابو شجرہ ہے۔’’ وہ اٹھے اور اس کے قریب جاکر پوچھا : ‘‘ تم کون ہو؟ ’’ ابو شجرہ نے کہا : ‘‘ عمر فاروق : تمہاری کُنّیۃ کیا ہے؟ ’’ ابو شجرہ : ‘‘ ابو شجرہ ’’۔ یہ سن کر عمر فاروق نے اس کے کوڑا رسیدکیا ، اور فروّیت رمحی ’’ والا شعر پڑھا ۔ اس کے بعد کی تفصیل دونوں روایتوں میں لگ بھگ یکساں ہے۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-14/d/98751