خورشید احمد فارق
جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے صلح کی بات کی تو اَبو نائلہ3؎ (3؎ سَلکان بن سلامہ بن دقِش انصاری صحابی اور شاعر، استیعاب 2/667) اور اُسیَد بن حُضَیر رضی اللہ ع نہ نے کہا 4؎ (4؎ انصاری صحابی متوفی 20 ھ استیعاب 1/28): خالد خدا سے ڈرو او رصلح نہ کرو ’’۔ کیسے نہ کروں ، مسلمانوں کا صفایا ہوچکا ہے۔‘‘ اُسَید: ہمارا ہوا تو دشمن کا بھی تو ہوا ’’۔ خالد رضی اللہ عنہ : ہمارے باقی لوگ سب کے سب زخمی ہیں ’’۔ اُسید: بنو حنیفہ کابھی یہی حال ہے، ہم ہر گز صلح نہ کریں گے، کل صبح لڑنے نکلو جب تک وہ پوری طرح رام نہ ہوجائیں ہم برابر لڑتے رہیں گے حتیٰ کہ ہمارا ٓٓخری سپاہی جان نہ دیدے ، تم کو خلیفہ کی اس ہدایت کے مطابق عمل کرنا چاہئے ۔ ‘‘ بنو حنیفہ پر اگر تم کو خدا فتح عطا کرے تو ان پر ترس نہ کھانا ۔ ’’ خدا نے ہمیں ان پر فتح عطا کردی ہے، ان کا لیڈر قتل ہوچکا ہے ، باقیوں سے نمٹنا کہیں زیادہ آسان ہے ’’۔ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مراسلہ صادر ہوا، اس کے خون کے قطرے سے ٹپک رہے تھے، ایک قول ہے کہ اس دن رات ہونے سے پہلے سَلمہ بن وقش 1؎ (1؎ سلمہ بن سلامہ بن دقِش انصاری، بدری صحابی متوفی 45 ھ استیعاب 2/ 568) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس سے دوخط لے کر آئے جن میں سے ایک کامضمون یہ تھا :۔
‘‘ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔میرا خط پاکر اگر خدا کی عنایت سے تم کو فتح حاصل ہو تو بنو حنیفہ کے کسی بالغ مرد کو جیتا نہ چھوڑ نا’’۔
ان ہدایات کے پیش نظر انصار نےکہا : ‘‘ خلیفہ کاحکم تمہارے حکم اور فیصلہ سے زیادہ لائق احترام ہے، لہٰذا بنو حنیفہ کےکسی بالغ مرد کو زندہ نہ چھوڑو’’۔ خالد رضی اللہ عنہ : خدا کی قسم میں نے تمہاری بے پایاں کمزوری کے باعث صلح کی ہے، جب جنگ کی چکی تمہیں بری طرح پیس چکی تھی، اب ہمارے اور بنو حنیفہ کے درمیان صلح نافذ ہو چکی ہے، بخدا وہ اگر کچھ بھی نہ دیتے تب بھی میں ان سے نہ لڑتا، اس کے علاوہ وہ مسلمان بھی ہوچکے ہیں ۔’’ اُسیَد بن حُضیر: تم نے مالک بن تویرہ کو قتل نہیں کیا، وہ بھی تو مسلمان تھا ! ‘‘ خالد رضی اللہ عنہ نے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ سَلمہ بن سَلامہ بن وقِش بولے : ‘‘ خالد! خلیفہ کے فرمان کی مخالفت نہ کرو’’۔ خالد رضی اللہ عنہ : ‘‘ اگر مصلحت کا تقاضا نہ ہوتا تو میں کبھی ایسا نہ کرتا، پُرانے آزمودہ کار قرآن خواں مسلمان مارے جا چکے تھے اور صرف وہ لوگ بچ رہے تھے جن کی طرف سے مجھے اندیشہ تھا کہ اگر دشمن نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا تو وہ منہ موڑ جائیں گے ، اس لئے میں نے صلح کرلی اور اب تو وہ مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں ’’۔
خالد بن ولید مُجَّاعہ کی لڑکی سے جو سارے یمامہ میں بےنظیر حسن کی مالک تھی، عقد کرناچاہتے تھے ، مُجّاعہ نے کہا : ‘‘ کچھ دن ٹھہر جاؤ ،اتنی جلدی شادی کی تو خلیفہ دونوں سے سخت ناراض ہوں گے اور تمہاری بڑی بد نامی ہوگی، اس سے یہ نہ سمجھو کہ میں شادی کرنا نہیں چاہتا ۔’’ خالد : ‘‘ مرد آدمی شادی کر ڈالو اگر خلیفہ کی رائے میرے بارے میں اچھی ہے تب تو کوئی ایسی بات نہ ہوگی جس کا تمہیں اندیشہ ہے اور اگر وہ مجھ سے آزردہ ہیں تب بھی شادی کوئی ایسا سنگین جرم نہیں جس سے میں ڈروں۔‘‘ مُجَّاعہ۔’’ : میں نے نے اپنی مخلصانہ رائے پیش کردی، آگے تمہاری مرضی ، اگر کچھ ہوا تو ا سکے ذمہ دار تم ہو۔’’ مُجَّاعہ نے لڑکی کی شادی خالد رضی اللہ عنہ سے کردی، اس کی خبر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہوئی توو ہ خفا ہوئے اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بولے : ‘‘ واقعی خالد کو عورتوں سے غیر معمولی دلچسپی معلوم ہوتی ہے جبھی تو انہوں نے دشمن سے رشتہ جوڑ ا او راپنی مصیبت تک فراموش کردی۔’’ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خالد کو خوب بُرا بھلا کہا اور جتنا ممکن ہوسکا شادی کی مذمت کی ، چند ہی دن بعد خالد رضی اللہ عنہ کو سَلمہ بن سلامہ1؎ ( 1؎ دیکھئے فٹ نوٹ 1۔114) کی معرفت خلیفہ کا یہ پُر عتاب خط موصول ہوا:۔
‘‘ اُم خالد کے بیٹے! بڑے بے صبر ے ہوتم، عورتوں سے شادی بیاہ رچاتے ہو حالانکہ تمہارے دروازہ پر بارہ سو مسلمانوں کا خون بھی خشک ہونے نہیں پاتا! پھر مُجَّاعہ نے تم کو صحیح طریق کار سے باز رکھا اور اپنی قوم کی طرف سے صلح کی حالانکہ خدا نے ان کو تمہارے بس میں کردیا تھا ’’۔ خط میں اور باتیں بھی تھیں جن کو وَشیمہ نے 2؎ (2؎ وشیمہ بن متوفی 237 ھ مؤلف کتاب الرّدۃ) ( کتاب) اگر وہ میں نقل کیا ہے، خالد رضی اللہ عنہ نے خط پڑھ کر کہا :
‘‘ یہ سب عمر 1؎ کا کیا دھرا ہے’’۔ (1؎ دونوں کے تعلقات کشیدہ تھے ) انہوں نے صحابی ابو بَرزَہ اسلمی 2؎ (2؎ نَضلہ بن عُبید او ربقول بعض عبداللہ بن نَصلہ، فتوحات ِ اسلام میں نمایاں حصہ لیا، 65 ھ کے لگ بھگ انتقال ہوا، اِصابہ 3/ 556 و تہذیب التہذیب 10/446۔447) کے ہاتھ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ جواب لکھ کر بھیجا:۔
‘‘ اپنی جان کی قسم ! میں نے اس وقت تک شادی نہیں کی جب تک کہ فتح و کامرانی کی مسرت پوری طرح حاصل نہ ہوگئی او رمیں کیمپ سےنکل کر گھر کے ماحول میں منتقل نہ ہوگیا، میں نے ایک شخص سے رشتہ جوڑا ہے جس کا پیغام عقد دینے اگر مدینہ سےمجھے آنا پڑتا تب بھی میں پرواہ نہ کرتا 3؎ (3؎ یہاں ایک جملے کے بقدر عبارت مسخ ہے،ہم اس کا ترجمہ نہ کرسکے) اگر آپ اس رشتہ کو کسی دینوی یا اُخروی خسارہ کی وجہ سے نا پسند کرتے تو میں آپ کی خفگی دور کردیتا 4؎۔ (4؎ طلاق دے کر) (آپ کی شکایت کہ میں نے شہیدوں کامناسب ماتم نہیں کیا تو) اگر کسی غم زندوں کو بقید حیات رکھ سکتا اور کسی کا ماتم مُردوں کو بقید حیات لا سکتا تو میرا ماتم اور غم ضروریہ اثر دکھا تے، ( یقین کیجئے) شو ق شہادت مجھے ایسے خطروں میں لے گیا کہ مجھے بچنے کی امید نہ رہی تھی او رموت کا یقین ہوگیا تھا ، رہا مُجّاعہ کادھوکہ دے کر مجھے صحیح طریق کار سے باز رکھنا تو عرض یہ ہے کہ میں نے اس موقع پر اپنی رائے غلط نہیں سمجھی ، علاوہ بریں مجھے غیب کاعلم بھی نہ تھا ( جو مُجّاعہ کے دھوکے کو پہلے سے معلوم کرلیتا ) اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صلح سے مسلمانوں کو فائدہ ہوا، خدانے ان کو بنو حنیفہ کے مال و متاع کا وارث بنا دیا اور آخرت میں ان کے لئے اہل تقوی کا انعام مخصو ص کردیا۔’’
اس عریضہ سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خفگی کچھ کم ہوئی ، لیکن عمر فاروق پر اس کامطلق اثر نہ ہوا اور وہ خالد رضی اللہ عنہ کی شادی پر برابر لعن طعن کرتے رہے، کچھ سربرآوردہ قرشی لیڈر بھی ان کے ہمنوا تھے، ابو برَ زَہ اسلمی سےنہ رہا گیا، انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کی حمایت میں کہا : خلیفہ صاحب! خالد پر نہ تو بزدلی کا الزام لگانا ممکن ہے نہ غداری کا ، انہوں نے نے جنگ کے خطرات میں گھس کر اسلام کی وفاداری کا حق پوری طرح ادا کردیا اور دشمن کے جان توڑ حملوں کا ایسی ہمت و ثبات سے مقابلہ کیا کہ بالآخر فتح پائی ، بنو حنیفہ سے انہوں نے دب کر صلح نہیں کی اور صلح کرنے میں بھی ان سے کوئی غلطی نہیں ہوئی کیونکہ قلعوں پر ان کے سامنے عورتیں مردوں کی ہیئت میں لائی گئی تھیں ۔’’ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ تم سچ کہتے ہو، تمہاری باتوں سے خالد کے خط کی نسبت ان کی برأئت زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔’’ صلح کے بعد خالد رضی اللہ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ عمر فاروق ، خلیفہ کو ان کے خلاف ضرور بھڑکائیں گے اس لئے انہوں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ خط بھیجا:۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حالد بن ولید کی طرف سے ، ہمیں قسیمہ کہتا ہوں کہ میں حنفیوں سے اس وقت تک صلح نہیں کی جب تک میری فوج کے وہ لوگ قتل نہ ہوگئے جن پر میر ی قوت کا دار و مدار تھا، جب گھوڑے سوکھ کر کانٹا ہوگئے اور اونٹ زیادہ زخمی ہوئے کہ ( اس ڈر سے کہیں وہ ہار نہ جائیں یا سب کےسب قتل نہ کردیئے جائیں)میں بھیس بدل کر تلوار سونت کر انتہائی خطروں میں کود پڑتا تھا، آخر خدا نے فتح عنایت کی، شکر ہے اس کا ۔’’
یہ خط پڑھ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مسرور ہوئے ، اس وقت عمر فاروق بھی آگئے، ابوبکر صدیق نے ان کو خط دے دیا، پڑھ کر بولے : خالد بنو حنیفہ سے رشتہ کی فکر میں تھے،اسی لئے انہوں نے آپ کے حکم کی خلاف ورزی کی، یہ کہہ کر آپ پرا احسان رکھا ہے کہ میں بذاتِ خود جنگ میں کود پڑا’’۔ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ ایسا نہ کہو عمر ، خالد مخلص افسر ہے ، مبارک رائے اور قاہر دشمن ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قدر و منزلت کرتے تھے اور کئی بار اس کو نہ میں مہمیں بھی سپرد کیں ’’۔عمر فاروق : ‘‘ مہمیں سپرد کیں لیکن خالد نے ان کے حکم کی مخالفت کی اور جاہلی چالوں سے لوگوں کو قتل کیا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ چھوڑ و یہ باتیں ۔’’ عمر فارو ق : ‘‘ بہت اچھا’’ ۔
صلح نامہ پر دستخط ہونے کے بعد خالد بن ولید نے بنو حنیفہ نےحصوں میں اپنے آدمی بھیج دیئے اور مُجَّاعہ کو قسم دے کر وعدہ کیا کہ ایسی کوئی چیز جو صلح میں داخل ہے نہ تو خود چھپائے گا اور اگر کوئی دوسرا چھپائے گا اس کی رپورٹ کرےگا، اس کے بعد قلعے کھول دیئے گئے ، وہاں سے بڑی مقدار میں ہتھیار لائے گئے ، خالد رضی اللہ عنہ نے ان کا الگ ذخیرہ کرلیا، پھر وہاں جتنا روپیہ پیسہ تھا لایا گیا ، خالد رضی اللہ عنہ نے اس کو علیحدہ جمع کیا ، پھر جتنے گھوڑے ملے ان پر قبضہ جمایا ، اونٹ اور گھریلو سامان چھوڑ دیا، اس کےبعد عورتوں اور بچوں کے دو حصے کئے اور قرعہ ڈال کر ایک حصہ جو لفظ ‘‘ اللہ’’ کے زیر عنوان تھا، لے لیا، اس کے پانچ حصے کئے اور اُن میں سے ایک نقطہ ‘ اللہ’ کے زیر عنوان الگ کرلیا ، سونے چاندی کو تول کر اس کا بھی پانچواں حصہ نکال لیا، باقی حصّے مسلمانوں میں بانٹ دیئے ، گھوڑے کو اس کے مالک کی نسبت دوہرا حصہ دیا گیا، اس کے بعد سارے مال غنیمت کا خمس لے کر خالد رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
جنگ یمامہ کے خاتمہ پر خالد رضی اللہ عنہ اپنی عسکری قیام گاہ چھو ڑ کر دوسری جگہ چلے گئے اور انتظار کرنے لگے کہ مدینہ سےحکم آئے تو جائیں، اس اثناء میں بنو حنیفہ کا ایک سرکش سَلمہ بن عُمیر آیا اور مُجَّاعہ سے کہا : ‘‘ امیر ( خالد رضی اللہ عنہ) سے میری ملاقات کرا دو، مجھے کچھ کام ہے’’ مُجَّاعہ نے انکار کیا او رکہا : ‘‘ سلمہ اپنی جان کی خیر مناؤ ، تمہیں اب سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہئے، مجھے صاف نظر آرہاہے کہ خالد تمہارے موت کا حکم دیں گے اور میرے ہاتھ سے تمہاری جان جائے گی! سلمہ: ‘‘ خالد سے میرا کوئی جھگڑا نہیں ، یہ ضرور ہے کہ اس نے میری قوم کو قتل کر ڈالا ہے’’۔ مُجَّاعہ نے اس کی طرف دھیان نہ دیا ۔ سَلمہ خالد رضی اللہ عنہ کو اچانک قتل کرنے کی فکر میں لگ گیا، ایک دن وہ خالد رضی اللہ عنہ کے ملاقاتیوں کے ساتھ آگیا ، اس کو دیکھتے ہی خالد رضی اللہ عنہ نے مُجَّاعہ کی طرف تاک کر کہا : ‘‘ خدا کی قسم اس کےچہرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نیت خراب ہے’’۔مُجَّاعہ اٹھا، اس کو بھی خالد کا یہ خیال صحیح معلوم ہوا، اس نے سَلمہ کے پاس ایک چھپی تلوار پاکر کہا : ‘‘ دشمن خدا تجھ پر لعنت ! تو حنفیوں کا استیصال کرانا چاہتا ہے ، خدا کی قسم اگر تونے خالد کو قتل کیا تو کوئی حنفی زندہ نہ بچے گا ’’۔مُجَّاعہ نے سَلمہ کا گریبان پکڑا اور اس کو کھینچتاہوا ایک کوٹھری میں لےگیا، وہاں اُس کے بیڑیاں ڈالیں اور دروازہ بند کر دیا ، رات میں سَلمہ اپنی تلوار لے کر نکل بھاگا اور یمامہ کے ایک باغ میں پہنچا ، لوگوں کو اُس کے ارادے معلوم ہوگئے، اُدھر خالد رضی اللہ عنہ نے اس کے قتل کا حکم صادر کردیا، مُجّاعہ نے اس کی سفارش کی او رکہا : ‘‘ ابوسلمان ! میری خاطر سَلمہ کی جان بخش دو ۔’’ خالد رضی اللہ عنہ نے معاف تو کردیا لیکن کہا کہ اس کی اچھی طرح خبر لینا ۔ مُجَّاعہ نے سَلمہ کو ڈانٹا ڈپٹا اور انجام سے ڈرایا ،سَلمہ تلوار لے کر نکل گیا، یمامہ کے لوگوں نےاس کو گھیر لیا ، یہ دیکھ کر اس نے اپنے گلے پر تلوار پھیر لی ، اس کی شہ رگ کٹ گئی اور وہ ایک کنوئیں میں گر کر مر گیا۔
زید بن اسلم 1؎ اپنے والد سے راوی ہیں : (1؎ ابو اُسامہ مدنی ، تابعی ، فقیہ ، مفسر او رمحدث 139 ھ میں انتقال ہوا، تہذیب التہذیب 3/395) ‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ کو یمامہ کی مہم پر بھیج کر خواب دیکھا کہ علاقہ ہَجَر ( یمامہ و بحرین) کی کھجوریں ان کےپاس لائی گئی ہیں ، انہوں نے ایک کھجور کھائی جو دراصل گٹھلی تھی کھجور سے ملتی جلتی ، ذرا دیر چبا کر انہوں نے کھجور تھوک دی، اس خواب کی تعبیر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خالد بن ولید کو بنو حنیفہ کے ہاتھوں بڑی مشکلات کاسامنا کرنا پڑے گا ، تاہم فتح انشاء اللہ اں ہی کو نصیب ہوگی، جب تک خالد رضی اللہ عنہ کا قاصد آتا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یمامہ کی خبروں کی ٹوہ میں رہا کرتے ایک دن شام کو وہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ، سعید بن زید رضی اللہ عنہ 1؎ (1؎ ابوالأعور ، اُحدی صحابی ، 51 ھ میں وفات پائی، تہذیب التہذیب 4/34۔35)اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ ، کچھ دوسرے مہاجر و انصار دوستوں کے ساتھ مدینہ کے باہر حَرَّہ کے صِرار2؎ نامی تالاب جانے کے لئے نکلے ہوئے تھے (2؎ مدینہ سے تین عرب یا سوا چار انگریزی میل دور عراق کی راہ پر معجم البلدان 5/ 346)کہ ابو خثیمہ انصاری 3؎ جن کو خالد نے بھیجا تھا، (3؎ دیکھئے فٹ نوٹ 2۔94) راستہ میں ملے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ‘‘ بولے:’’ خیریت ہے، خدا کے فضل سے یمامہ فتح ہوگیا،’’ یہ مژدہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سجدہ میں گر پڑے ابو خثیمہ نے خالد رضی اللہ عنہ کا خط دیا جس کو پڑھ کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سب ساتھیوں نے خدا کا شکر ادا کیا، پھر خلیفہ نے ابو خثیمہ سے جنگ کے حالات سنانے کو کہا، ابوخثیمہ نے بتایا کہ خالد اور اُن کے ساتھی کس طرح لڑےنیز یہ کہ کس طرح ان کی فوج پسپا ہوئی او رکتنے مسلمان مارے گئے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سنتے اور انا اللہ پڑھتے او رمرنےوالوں کے لئے رحم کی دعامانگتے ، پھر ابو خثیمہ نے کہا : ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ! دشمن نے ہمیں بدورنگڑوٹوں کی طرف سے آدبایا، وہ بھاگے تو ہم بھی ان کے لپیٹ میں آکر بھاگ گئے، ان کی بدولت ہم کو بھی منہ موڑ نا پڑا جس سے ہم واقف نہ تھے ، آخر کار خدا نے ہمیں فتح عنایت کی۔’’ اس موقع پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے بہت ہی بُرا خواب دیکھا تھا ، جس کے پیش نظر میرا خیال تھا کہ بنو حنیفہ کے ہاتھوں خالد رضی اللہ عنہ کو سخت زک پہنچے گی، کاش خالد ان سے صلح نہ کرتے اور سب کے گردن مار دیتے ہمارےمقتولوں کے بعد اہل یمامہ کو زندہ چھوڑ نامناسب نہ تھا، یہ لوگ تا قیامت اپنے کذاب کے فریب میں مبتلا رہیں گے الاّیہ کہ خدا ان کو بچالے، اس کےبعد خالد بن ولید کے ساتھ یمامہ کا ایک وفد خلیفہ سے ملنے آیا۔
واقدی: ‘‘ ہمارے مدرسہ تاریخ کی متفقہ رائے ہے کہ خالد بن ولید یمامہ سے مدینہ آئے ( اور وہاں سے براہِ راست عراق نہیں گئے جیسا کہ ایک دوسرے مدرسہ تاریخ کی رائے ہے) ان کے ساتھ بنو حنیفہ کے سترہ اکابر کا ایک وفد تھا جس میں مُجَّاعہ بن مَرَّارہ اور اس کے بھائی بھی تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارکانِ وفد کو مدینہ میں بند کردیا اور ان کو باریابی کی اجازت نہیں دی، وہ عمر فاروق کے پاس گئے اور کہا کہ خلیفہ سے سفارش کر کے ہماری ملاقات کرا دیجئے ، یا ہم کو وطن جانے کی اجازت دلوائیے ، اس وقت عمر فاروق ایک بادیہ میں جس میں روٹی تھی بکری کا دودھ دوہ رہے تھے اور جنگ یمامہ میں شہید اُن کے بھائی زید بن خطّاب کے دو بچے ،عبدالرحمٰن اور ایک لڑکی ان کی پیٹھ پر کود پھاند کے کھیل میں مشغول تھے،عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ‘‘ تم کون ہو؟’’ توہم نے اپنا حسب نسب بتایا ، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دودھ رو ٹی والا بادیہ آگے بڑھایا او رکہا : ‘‘ کچھ کھاؤ ، ہم نے تھوڑا سا کھایا ، پھر میں نے ان دونوں بچوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا : ‘‘ یہ زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کےبچے ہیں۔ ’’ یہ سن کر ہم خطا وار انہ سر جھکا کر کھڑے ہوگئے کیونکہ ہم ہی زید رضی اللہ عنہ کے قاتل تھے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمیں اس طرح دیکھ کر بولے : ‘‘ جو ہونا تھا ہوگیا ، یہ بتاؤ تم لوگ کیوں آئے ہو؟ ’’ یہ سن کر ہماری ہمت بڑھی اور ہم نے : ہمیں مدینہ میں بند کر دیا گیا ہے، نہ تو ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مل سکتے ہیں نہ وطن لوٹ سکتے ہیں ۔’’ عمر فاروق رضی اللہ عنہ : ‘‘ تم عہد کرو کہ اسلام اور مسلمانوں کے خیر اندیش رہوگے ہم نے یہ عہد کرلیا ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کل اسی وقت مجھ سے آکر ملو ، ہیں تمہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لے چلوں گا۔’’دوسرے دن ارکان وفد مقررہ وقت پر عمر فاروق کے پاس آئے ، وہ ان کو لے کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے زید بن اسلم 1؎ اپنے والد کے حوالہ سے : (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ نمبر 1۔119) ‘‘ جب بنو حنیفہ کا وفد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں باریاب ہوا تو انہوں نے کہا : ‘‘ تمہارا بُرا ہواس (مسیلمہ) نے خوب تمہاری مٹی خراب کی اور خوب ہٹھکنڈوں میں پھانسا ۔’’ ارکانِ وفد : جی ہاں آپ کو جو کچھ ہمارے بارے میں معلوم ہے درست ہے ۔’’ وَشمیہ ( بن موسیٰ نے اپنی کتاب الرَّدہَّ میں ) لکھا ہے کہ وفد کی طرف سے جس شخص نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی وہ بنو سُحَیم کا ایک فرد تھا، اُس نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ مُسیلمہ منحوس آدمی تھا جس کو شیطان نےسبز باغ دکھائے اور جو اپنے دل کے خوش نما دھوکوں میں مبتلا ہوا اور اپنی قوم کو بھی ان خوشنما دھوکوں میں مبتلا کیا، آخر کار وہ اس کے ہم قوم دونوں تباہ ہوئے ’’۔ زید بن اسلم اپنے والد کا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مُجّاعہ کی طرف متوجہ ہوے او رکہا : مُجَّاعہ تم مسیلمہ کا ہر ا ول دستہ لے کر نکلے اور پھر خالد کے ہاتھوں پکڑے گئے ۔’’ مُجّاَعہ : جی نہیں خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا ، میں تو ایک نُمیری عرب کی تلاش میں نکلا تھا ، جس نے ہمارے ایک آدمی کو قتل کردیا تھا، اس اثنا ء میں خالد کے سواروں نے ہمیں آلیا، آپ کو یاد ہوگا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دے چکا ہوں ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قطع کلام کر کے کہا : ‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم کہو۔’’ مُجَّاعہ نے حکم کی تعمیل کی۔ مُجَّاعہ : ‘‘ پھر میں اپنی قوم کے پاس چلا گیا اور مُسیلمہ نیز اس کی تحریک سے دور رہا اور اب تک ہوں، اس کے علاوہ میں خالد رضی اللہ عنہ کو جب کبھی انہوں نے مجھ سے رجوع کیا ، مخلصانہ مشورہ دیتا رہا ہوں ، ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ آپ ہمارے قوم کے خطاکاروں کو معاف کردیں اور ان کی توبہ قبول فرمائیں ، میرے سارے ہم قوم پھر سے اسلام کےوفادار ہوچکے ہیں ’’۔ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ : کیا میں نے خالد کو پے در پے نہیں لکھا کہ کسی بالغ حنفی کو زندہ نہ چھوڑیں ؟ ‘‘ مُجَّاعہ : ‘‘ خدا نے جو کیا اس میں آپ اور خالد دونوں کے لئے خیر و برکت ہے، ان کے ذریعہ خدا اسلام کو تقویت پہنچائے گا ۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : خدا کرے خالد کی صلح میں ہم سب کی بھلائی مضمر ، ہو، تم لوگ مسیلمہ کے جال میں کیسے پھنس گئے ؟ ‘‘ مُجَّاعہ : ‘‘ خلیفہ رسول اللہ، آپ مجھے اس کے پیردوں میں داخل نہ کیجئے ، خدا فرماتا ہے تَزِ رُ وَازِ رَ ۃً وِ ذْ رَ اُ خْری 1؎’’ ( 1؎ کوئی شخص دوسرے کے جرم کی سزا نہیں بھوگتا) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ مسیلمہ اپنے پیرووں کو کیسی وحی سناتا تھا؟ ‘‘ مُجَّاعہ نے یہ بتانا مناسب نہ سمجھا ۔ ابو بکر صدیق : تمہیں بتاناہوگا ، میں تاکید کرتاہوں ’’۔ دوسری روایت ہے کہ یحُمی نے جس کا اوپر ذکر ہوا ، ابوبکر صدیق کو مُسیلمہ کی وحی کا یہ نمونہ سنایا : یا ضِفد بنت ضِفد عَین لَحَسَن ما تُ نَقنِقِین ، لنا نصف تمَنَعِینَ ولا الماء تُکَدَّ دیُن ، اُمکُثی فی الأرض حتیٰ یأ تیک الخُفَّاش بالخبر الیقین، لنا نصف الأرض و لِقُر یش نصفھا و لکن قریش قوم لا یعدِ لون 2؎ (2؎ اے مینڈ کی بڑی سہانی ہے تیری اَلاَپ ، تو نہ تو کسی کو پانی پینے سے روکتی ہے او ر نہ پانی گدلا کرتی ہے، تالاب کے باہر رُکی رہنا جب تک چمگادڑ یقینی خبر لائے ، آدھی زمین ہماری اور آدھی قریش کی ، لیکن یہ لوگ انصاف سے کام نہیں لیتے ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اِنا اللہ پڑھی اور کہا : ‘‘ واہ ری وحی تمہارا بُرا ہو، کیسا بے تُکا او رمہمل کلام ہے ، اس کی بدولت تم کو یہ دن دیکھنا نصیب ہوا’ شکر ہے اس معبود کا جس نے مسیلمہ کو ٹھکانے لگایا ’’۔ وفد نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وطن لوٹنے کی اجازت مانگی، انہوں نے دے دی اور ایک تحریر دی جس میں ان کو جان و مال کی امال دی گئی تھی ۔
یعقوب زُہری 3؎ (3؎ مدنی تابعی ،مؤلف کتاب المغاری ، 213 ھ میں انتقال ہوا ۔ تاریخ بغداد احمد بن خطیب 14/269۔270) اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جب بنو حنیفہ کا وفد مدینہ آیا تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے منادی کرادی کہ کوئی شخص نہ تو ارکان وفد کو پناہ دے ، نہ ان سے بیعت لے، نہ ٹھہرائے اور نہ بات کرے، وفد نے سارے شہر کاگشت لگایا لیکن کسی نے اُن سے بات نہ کی اور نہ بیعت لی،مدینہ کی فضا اُن پر تنگ ہوگئی، اُن سے لوگوں نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملو، جب وہ ملنے گئے تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک بادیہ میں جس میں روٹی تھی بکری کا دودھ دوہ رہے تھے ، وفد کو دیکھ کر وہ جلد جلد دوہنے لگے اور دودھ اتنی تیزی سےپیالہ میں جمع ہوا کہ روٹی تیرنے لگی ، دودھ دوہ کر انہوں نے پیالہ رکھ دیا اور نوداروں کو کھانے کی دعوت دی، سب نے اُن کے ساتھ مل کر دودھ روٹی کھائی، اُن کے پاس ایک چھوٹی لڑکی ( بنت زید بن خطاب) بھی تھی ، پھر ارکان وفد نے کہا : ‘‘ ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ دوسرے باغی قبیلوں کا اسلام قبول کیا جائے اور ہمارا رد کردیا جائے، ہم اقرار کرتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے رسول ہیں اور خدا پر سب چھپی اور کھلی باتیں روشن ہیں۔’’عمر فاروق : ‘‘ قسم کھاکر کہو کہ جو زبان سے کہہ رہے ہو وہی تمہارے دل میں بھی ہے۔’’ وفد نے قسم کھالی، عمر فاروق : سپاس گذد ہوں اس مالک کا جس نے اسلام کے ذریعہ ہمیں عزت دی اور جس کے ذریعہ ہم انعامِ اُخروی سےمتمتع ہوں گے، کیا تم میں سے کوئی زید بن خَطَّاب کا قاتل ہے؟’’ارکانِ وفد: یہ معلوم کرکے آپ کیا کریں گے؟ ’’ عمر فاروق نے اپنا سوال پھر دہرایا ، ابو مَریم کھڑا ہوا اور بولا: ‘‘ زید کو میں نے قتل کیا ہے۔’’ عمر فاروق نے قتل کی تفصیل دریافت کی تو ابو مَریم نے کہا : ‘‘ پہلے ہم تلوار وں سے لڑے اور وہ ٹوٹ گئیں تو نیزہ بازی کی اور جب نیزے بھی ٹوٹ گئے تو ہم دونوں گتھُ گئے ، میرے پاس خنجر تھا اس سے میں نے زید رضی اللہ عنہ کا خاتمہ کردیا ۔’’ لڑکی نے سر پر ہاتھ رکھا اور ہائے ابّا ہائے ابا کہہ کر چیخنے لگی، عمر فاروق رضی اللہ عنہ وفد کو لے کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر چلے اور وہاں پہنچ کر وفد کے لئے اجازت لی ۔ارکان وفدنے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کےسامنے ان ہی الفاظ میں اپنے مخلص مسلمان ہونے کا اقرار کیا جن میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے کیا تھا، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا : خدا کا شکر ہے جس نے اسلام کے ذریعہ ہمیں عزت دی اور جس کی بدولت ہم آخروی انعام سےمتمتع ہوں گے ، آپ لوگوں میں عامر بن سَلمہ 1؎ کے کنبہ کاکوئی شخص ہے؟’’ (1؎ بن عُبید بن تعلبہ حَنفی ، ثمامہ بن اثال کا چچا۔ عامر اور ثمامہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مسلمان ہوگئے تھے ۔ اِصابہ 2/250 و 1/203)خالد بن ولید رضی اللہ عنہ : ‘‘ آپ عامر کے رشتہ داروں کومعلوم کر کےکیا کریں گے، آپ کے سامنے اہل یمامہ کا زعیم مُجَّاعہ موجود ہے۔’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سوال دہرایا ، ارکان وفد نے کہا : ‘‘ ہمارے ساتھ ایسا کوئی آدمی نہیں ’’۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ ثمامہ بن اُثال کے خاندان کاکوئی شخص ؟’’ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ : ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاندان کے مربی تھے میں بھی اس کا مربی بنناچاہتا ہوں ۔’’ وفد کے ایک رُکن مُطرف بن نعمان بن سلمہ نے کھڑے ہوکر کہا : عامر بن سَلمہ اور ثُمامہ بن اُثال میرے چچا تھے ۔’’ابو بکر صدیق نے کو یمامہ کا حاکم مقرر کردیا ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد رضی اللہ عنہ سے ان لوگوں کے نام دریافت کئے جنگ یمامہ میں غیر معمولی شجاعت سے لڑے تھے ، خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : لڑائی میں بَرار بن مالک 2؎ سب سے بازی لے گئے ’’۔(2؎ دیکھئے فٹ نوٹ 2۔286)
خالد رضی اللہ عنہ مدینہ آئے توکوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں صفِ ماتم نہ بچھی ہو کیونکہ ہر گھر کاکوئی نہ کوئی فرد جنگ میں مارا گیاتھا، یہ دیکھ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ روئے اور بولے : اس ماتم نے ہماری فتح کو کتنا بے کیف بنا دیا ہے ! خدا کی قسم ثابت بن قیس کو انصار اپنی آنکھوں اور کانوں سے زیادہ محبوب رکھتے تھے ۔’’
یمامہ کی لڑائی ربیع الاوّل 12 ھ میں واقع ہوئی، مسلمان شہید وں کی تعداد بارےمیں مورخ مختلف الرائے ہیں، ان کی سب سے زیادہ تعداد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خالد رضی اللہ عنہ کو لکھے ا س خط سے ظاہر ہوتی ہے جس میں تھا : ‘‘ تم شادی بیاہ رچاتے ہو حالانکہ تمہارے دروازہ پر بارہ سو مسلمانوں کا خون خشک بھی نہیں ہوئے پاتا ۔’’
سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی رائے ہےکہ کل 700 مہاجر و انصار مارے گئے زیدبن طلحہ 1؎ (1؎ تمیمی تابعی ۔ اِصابہ 1/588) کہتے ہیں کہ مقتولین میں 70 قریشی ، 70 انصاری اور پانچ سو دوسرے آدمی تھے ۔
ابو سعید خُدِری 3؎ (3؎ دیکھئے فٹ نوٹ 2۔96): ایسی چار لڑائیاں ہوئی ہیں جن میں سے ہر ایک میں 70 انصاری مارے گئے، جنگ اُحد ، جنگ بِئر مَعُو نہ ، جنگ یمامہ اور جنگ جِسر، 3؎ (3؎ 13 ھ میں سرحد عراق پر واقع ہوئی ) جس میں صحابی ابو عُبید ثَقَفی مارے گئے تھے ۔ سعید بن مُسیَّب 4؎ (4؎ قریش مدینہ کے تابعی فقیہ و محدث 94 یا 93 ھ میں وفات پائی ، تہذیب التہذیب 2/ 84۔85) صرف تین جنگوں میں انصار کے مرنے والوں کی یہ تعداد بتاتے ہیں، سِبُر مَعُو نہ اُن کی فہرست سے خارج ہے۔
عمر فاروق نے ایک دن جنگ یمامہ اور اس میں شہید ہونے والے انصار و مہاجر صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا : دشمن کی تلوار پُراے مہاجر و انصار پر بری طرح ٹوٹ پڑی تھی، اس دن اُنہی پر ہمارا سارا دار و مدار تھا، ان کو اندیشہ تھا کہ کہیں اسلام کا چراغ گل نہ ہوجائے ، وہ خائف تھے کہ اسلام کا دروازہ ٹوٹ گیا تو مُسیلمہ اس میں گھُس پڑے گا، اُن کی قربانی سے خدا نے اسلام کو بچالیا ، دشمن کو سرنگوں کیا اور توحید کاجھنڈا اونچا رکھا ۔’’ بعض راوی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف یہ قول منسوب کرتے ہیں : ‘‘ اُس دن اے قرآن والو! اے قرآن ولو کانعرہ سن کے پُرانے آزمودہ کار صحابہ ایک ایک دو دو لیبک کہتے آگے بڑھتے اور بڑی تعداد میں مارے جاتے ، خدا ان پررحم فرمائے ، اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ حفاظِ قرآن کی بڑھتی ہوئی اموات کے پیش نظر قرآن جمع نہ کرلیتے تو مجھے اندیشہ تھا کہ دشمن سے اگلے مقابلوں میں مشکل ہی سے کوئی حافظ ِ قرآن بچے۔’’
جنگ یمامہ میں جب ثابت بن قیس بن شُماس 1؎ (1؎ دیکھئے فٹ نوٹ 3۔47) جن کے ہاتھ میں انصار کاجھنڈا تھا اور جو ان کے خطیب اور بڑے لیڈر تھے، شہید ہوئے تو ایک مسلمان نے اُن کو خواب میں دیکھا ، انہوں نے کہا : ‘‘ میری بات غور سے سنو اور یہ کہہ کر کہ خواب کی بات ہے اس کو نظر انداز نہ کردینا ، کل جب میں قتل ہوا تو اطراف بخد کا ایک شخص آیا اور میری زرہ تکبر اتا ر کر اپنی قیام گاہ لے گیا، وہاں اُس نے اس پر ایک ہانڈی ڈھکی اور ہانڈی پر زین ڈال دی، اس کا ڈیرہ لشکر گاہ کے بالکل آخر میں ہے اور ڈیرہ کی بغل میں ایک گھوڑا کلیلیں مارتا ہے ، تم خالد بن ولید کو اس واقعہ کی خبر کرنا تاکہ وہ کسی کو بھیج کر زرہ تکبر منگوالیں اور جب خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری ملاقات ہوتو کہنا میں ( ثابت) اتنااتنا مقروض ہوں، میرا لوگوں پر اتنااتنا قرض ہے، میرے دونوں غلاموں سعد اور مبارک آزاد کردیئے جائیں، دیکھو میرا یہ پیغام ضرور پہنچا دینا اور یہ کہہ کر نہ ٹال دینا کہ خواب ہے اس کا کیا اعتبار ۔’’
صبح کو وہ شخص خالد بن ولید کے پاس آیا اور ان سے خواب بیان کیا ، خالد رضی اللہ عنہ نے آدمی بھیجے جنہوں نے خواب میں بتائی ہوئی زرہ بکتر پالی، انہوں نے ثابت بن قیش کی باقی وصیت بھی پوری کردی، ہمیں نہیں معلوم کہ ثابت بن قیس کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کی وصیت موت کے بعد پوری کی گئی ہو2؎۔ (2؎ غالباً راوی کہناچاہتا ہے : کسی دوسرے مسلمان نے مرنے کے بعد وصیت کی ہو)۔
واقدی نے لکھا ہے کہ خواب بِلال بن حارشہ 3؎ (3؎ مُرَلی ، مدینہ کے ایک صحابی 60 ھ میں انتقال ہوا۔ اِصابہ 1/164) نے دیکھا تھا، قاضی واقدی کہتے ہیں کہ میں نے قصہ خواب کے بارے میں عبداللہ بن جعفر 4؎ (4؎ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھتیجے ، صحابی 80ھ میں وفات پائی ۔ تہذیب التہذیب 5۔170) سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ عبدالواحِد بن اَبی عَون 1؎ (1؎ مدنی ، تابعی ، محدث ، 144 ھ میں انتقال ہوا۔ تہذیب التہذیب 6/438)نے مجھے بتایا کہ بلال کا بیان ہے کہ جب ہم یمامہ سے مدینہ آرہے تھے تو میں نے خواب میں دیکھا کہ سالم مولی 2؎ (2؎ دیکھئے فٹ نوٹ 2۔88)اَبی حُذیفہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ میری زرہ بکتر ایک ہانڈی کے نیچے قافلہ کی اس جماعت کے پاس ہے جن کے ساتھ سیاہ سفید گھوڑا ہے، صبح کو تم ان کی ہانڈی کے نیچے سے جاکر نکال لانا اور میرے گھر والوں کو جاکر دینا، میرے اوپر کچھ قرض ہے وہ زرہ بکتر سے ادا کردیں گے، میں اُن لوگوں کے پاس گیا جن کی خواب میں نشان دہی کی گئی تھی، ہانڈی آگ پر چڑھی تھی میں نے اسے پھینک دیا اور زرہ بکتر لے لی، مدینہ پہنچ کر میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے خواب بیان کیا، انہوں نے کہا : ‘‘ ہمیں تمہاری بات کا یقین ہے، ہم سالمِ مولی اَبی حُذیفہ کا قرض اداکردیں گے۔’’
جنگ یمامہ میں بنو حنیفہ کے بہت سے آدمی مارے گئے ، یعقوب زُہری نے اپنی کتاب میں ان کے مقتو لین کی تعداد سات ہزار سے زیادہ بتائی ہے،بعض دوسرے مورخ کہتے ہیں کہ خالِص حنفی صرف سات سو مارے گئے ، ان کےہاتھوں اسلام پر سخت مصیبت نازل ہوئی تھی لیکن خدا نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور مسلمان پھر اسی طرح متحد ہوگئے جیسے رسول اللہ کی زندگی میں تھے ۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-13/d/98731