New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 10:39 AM

Urdu Section ( 28 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Tarikh-e-Ridda Part 1 (تاریخ ردّہ حصہ (1

 

سلسلہ ندوۃ المصنفین

تاریخ ردّہ

ابوبکر صدیقؓ کے عہد کی بغاوتوں اور  عسکری سرگرمیوں کی مفصل ترین تاریخ

اسپین کی ایک قلمی تاریخ کے اچھوتے اقتباسات کا اردو ترجمہ

از

خورشید احمد فارق

صدر شعبہ عربی، دہلی یونیورسٹی

 

ندوۃ المصنفین، دہلی

------------

جملہ حقوق محفوظ ہیں

طبع اوّل

شعبان 1383ہجری  مطابق دسمبر، 1963

قیمت مجلد

قیمت غیر جلد

مطوبعہ: انڈیا لیتھو پرنٹنگ پریس، پہاڑی بوجلا، دہلی

فہرست مضامین

نمبر شمار               مضمون                                   صفحہ

            1        تعارف  5-11                                                                                          

2             مقدمہ12- 19                                                                                            

3           رسول اللہﷺ کی وفات پر ردّہ کی ابتدا  19-36                                                 

4       باغیوں کی سرکوبی کو بھیجتے وقت ابو بکر صدیقؓ کی خالد بن ولید کو ہدایات          36-445      بزاخہ اور دوسرے محازوں کو خالد بن ولید کی روانگی                                                                  

6      بنو عامر اور دوسرے قبیلوں کے دوبارہ مسلمان ہونے کا ذکر 54- 67                          

7     مسیلمہ اورائل یمامہ  کے ارتداد کا ذکر  67- 81                                                         

8     بطاح سے خالد بن ولیدؓ کے ہراول دستے بھیجنے کا ذکر      81-128                                          

9     بنو سلیم کی بغاوت 128- 136                                                                                      

10   بغاوت بحرین   136- 147                                                                                        

11    دبا، آزر اور عمان کی بغاوت   147- 150                                                                     

12    صنعاء (یمن) کی بغاوت     150- 156                                                                          

13 حضر موت کے بنو کندہ کی بغاوت    157- 186                                                              

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

تعارف

قاہرہ کے قومی کتب خانہ میں ایک قلمی کتاب ہے۔ الاکتفاءبما تضمنّہ من مغازی رسول اللہ و مغازیالخلفاء، جس کے مصنف  چھٹی ساتویں ہجری /بارہویں تیرہویں صدی عیسوی کے  ہسپانوی عالم  ابو الزبیع  سلیمان کلاعی بلنسی ہیں۔( 1؎ یمن کے قدیم شاہی خاندان کلاع اورندلس  کے مشہور شہر  بلنسیہ کی طرف نسبت) کتاب رسول اللہؐ کے حالات و مغازی اور ان کے بعد ابو بکر صدیقؓ اور عثمان غنیؓ کے فتوحات پر  مشتمل ہے۔  موضوع کا دائرہ اتنا محدود ہونے کے باوجود  تقیطمع  کے چار سو اڑتالیس  صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔

مصنّف نے بہت  سے ماخذوں سے استفادہ کیا ہے جن میں سے کچھ طبع ہوکر ہمارے سامنے آچکے ہیں  اور کچھ نایاب  ہیں،جن کا صرف شوق انگیز ذکر ہم  ابن الندیم کی ‘‘ فہرست ’’ میں پڑھتے ہیں، جیسے  محمد بن اسحاق مدنی ( متوفَّی 151ھ  تا 768ء) کی سیرۃ رسول اللہ یا سیف ابن عُمر اُسَیّدی (دوسری ہجری  آٹھویں صدی عیسوی) کی کتابُ الرَِّدہ یا مدائنی  ( متوفی 215 ھ تا 830ء ، 839ء ) کی فتوح العراق  یا قاضی مکہ زبیر بن بَکّار ( متوفی 256ھ 869ء) کی انساب قریش ۔

مولف کی زندگی  کا کوئی  واضح خاکہ ہمارے سامنے نہیں ، اتنا معلوم ہے کہ تاریخ  و حدیث  سے ان کو گہری دلچسپی تھی ، ذہین بیان آدمی تھے ، بَلنِیہ کے  (2؎ قُر طُبہ سے تقریباً ڈھائی  سو میل  مشرق میں سمند ر کے قریب ایک بڑا ضلع تھا  معجم لبلدان  یاقوت حموی مصر 1906ء 2/9،2 ) دربار  سے تعلق  تھا ، شہر کے سب سے بڑے خطیب  کے عہدہ پر بھی کچھ عرصہ فائز رہے ، ان کے ایک شاگرد اور ہم وطن  ابوبکر بن اَبَّار قُضاعی ( متوفی 659ھ، 1260ء ) نے اپنی کتاب  تکملۃُ الصّلَتہ میں ا س طرح  اُن  کا تعارف کیا ہے:

‘‘ تنقید و روایت سے ان کو خاص دلچسپی  تھی، حدیث  کے ممتاز عالم  تھے اور اس کی بڑی  پرکھ رکھتے تھے ، جرح  اور تعدیل کے فن سے واقف تھے، تاریخی اکابر  کی پیدائش  او رموت  کی تاریخیں  ان کو خوب  یا دتھیں ، اس فن میں اپنے  ہمعصر وں سے بازی  لے گئے تھے ، اسی طرح اپنے ہمعصر اور ذرا پہلے  کے علما  اور اعیان کے ناموں  اور حالات سے بھی خوب  واقف تھے ، ان کا خط بے مثال تھا  ، ادب  اور گہری  نظر تھی ، بلاغتِ  بیان  کے لئے مشہور  تھے ، انشائے رسائل  میں ان کی نظیر نہ تھی ، شعر و شاعر ی میں بھی پایہ بلند تھا  ، بڑے خوش بیان مقرر تھے ، لباس بڑھیا اور پرُ تکلف پہنتے تھے ، شاہی جلسوں  میں بادشاہ ان کی زبان سے بات کرتے تھے ، مختلف  اوقات  میں بَلَنیہ کے سرکاری خطیب  بھی رہے  انہوں نے کئی موضوعوں پر مفید کتابیں  لکھی ہیں:۔

1۔ کتاب الأ کتفاء بما تَضَمَّنہ من مغازی رسول اللہ و الثلا ثنا الخلفاء چار جلدوں میں

  صحابہ  اور تابعین پر ایک جامع کتاب جومکمل  نہ کرسکے

3۔ مصباح الظُلم

4۔ امام بخاری  کے سوانح اور حالات

5۔ کتاب  الأَربعین ۔

ان کتابوں  کےعلاوہ حدیث ، ادب  اور خطُیب پر ان کی بہت سی تصنیات ہیں لوگ دور دور سے ان کے پاس  علم حاصل  کرنے آتے تھے  ، میں خود ان کے گھاٹ سے سیراب  ہوا ، یہ وہی تھے  جنہوں نے  مجھے  یہ تاریخ  ( تکمِلۃ الصِّتہ) لکھنے  کی ترغیب دی اور اپنی  تحقیق  کردہ معلومات  فراہم کیں  جن سے میں نے اپنی کتاب  بھرلی ہے ۔565ھ / 1169ھ میں پیدا ہوئے  اور 20 ذِوالحجہ 634ھ/ 1236ء کو بَلَنِیہَ  کے قریب  ایک حادثہ  میں شہید ہوئے   ’’(1؎  تکملۃ الصِّلَۃ ابن ابَّا رید ریڈ اسپین 1887ء صفحہ 708،709 )

مؤلف  نے کتاب کے مقدمہ  میں مقصد تالیف  ، طریقہ تالیف  او راپنے بعض ماخذوں  کی وضاحت  کی ہے ۔ مقصدِ  تالیف إِیقاع الأَقناع  و إمتاع النفوس والأَسماع بتاتے ہیں، یعنی  یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اور خلفائے ثلاثہ  کے حالات  اس تفصیل  سے بیان کرنا  چاہتے ہیں  کہ قاری  کی پیاس  پوری طرح بجھ جائے اور دل ان حالات  سے محظوظ ہوں او رکان ان کے سننے  سے لطف اندوز ۔ طریقہ تالیف پر روشنی ڈالتے ہوئے  کہتے ہیں کہ میں نے اپنی تالیف  میں بہت سی کتابوں  سے اقتباس  لئے ہیں،  کہیں یہ اقتباس  حدیث  سابق  کی کمی  یا کوتاہی  دور کرنے  کے لئے لئے گئے ہیں ، کہیں نئی  معلومات  فراہم کرنے اور کہیں  حدیث سابق  کو زیادہ واضح  اور اُجاگر کرنے کے لئے ۔

بَلَنسی  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے حالات و مغازی  کی بنیاد ابن  اسحاق  مَدَنی (متوفی 151ھ/ 768ء )کی  سیرۃ پر رکھی ہے اور اس کی جوش  بھرے الفاظ میں تعریف  کی ہے،  اس کے علاوہ  انہوں نے جن  دوسری اہم  اور موجودہ وقت میں  نایاب کتابوں  سے خوشہ  چینی کی ہے  ان میں سے بعض کے نام  اپنے دیباچہ  میں دیئے ہیں :۔

(1)  مغازی موسیٰ  بن عُقبہ (متوفی 141 ھ / 758 ء ) (2؎  مولی آل زبیر مدلی تابعی فقیہ ، محدث او رمفتی تہذیب  التہذیب ابن حَجَر عَقلانی حیدر آباد ہند 1325ھ 10/360۔362 )

(2) کتاب المبَعث قاضی و اقدی (متوفی 207ھ/ 822ء ) اس کے بارے میں

بلنسی لکھتے ہیں کہ اپنے موضوع  پرنہایت  جامع  اور مفصل کتا ب ہے

3۔ اَنساب قریش  ، تالیف  قاضی زبیرین بکّار ( متوفی 256ھ / 869ء) ان کی بابت  بَلنَسی نےاپنے استاد  کے استاد کا یہ قول نقل  کیا ہے : ھوکتاب عجیب لاکتابُ نَسَبٍ یعنی  وہ نسب کی کتاب نہیں ( جیسا کہ نام سے ظاہر ہے) بلکہ نادر معلومات کا خزانہ  ہے۔ کتاب المبعثہ کی طرح  یہ کتاب  بھی نایاب  ہے، خلافت  راشدہ اور اعیان  قریش  سے متعلق  اس میں  جو اہم  اور تاریخی  اعتبار سے انقلاب  انگیز  حقائق بیان کئے گئے ہیں اس کا کچھ  اندازہ شرح نہج  البلاغہ پڑھنے سے ہوتا ہے جہاں قاضی ابن ابی الحدید معتزلی  (متوفی 655ھ / 1257ء)  نے انساب قریش  کے بہت سے علمی موتی بکھیردیئے ہیں ۔

(4) تاریخ الکبیر تالیف  ابوبکر بن ابی خیثمہ ۔ بلنسی  کی رائے میں یہ کتاب ایک ایسا گہر ا دریا ہے جس کا پانی ڈول ڈالنے سے کبھی گدلا نہیں ہوسکتا  اور ایک ایسا  سوتا  جس کو بڑے سے بڑا آب کش خشک نہیں کرسکتا ۔ ابن  الندیم  ( متوفی 385ھ / 995 ء) نےاپنی ‘‘ فہرست’’  میں ابن ابی  خیثمہ کی چار کتابوں  کے نام  نقل  کئے ہیں جن میں ایک بَلَنسی  کا ماخذ ‘‘ کتاب التاریخ’’  ہے ۔ ابن ابی حیثمہ  فقیہ  اور مورخ  تھے، ان کا انتقال  279ھ/ 892 ء میں ہوا۔ (1؎ فہرست مصر 1348 ھ 321ء)

جیسا کہ میں نے شروع  میں بتایا  اکتفادہ  448 صفحات پر مشتمل  ہے ، تقریباً آدھی کتاب یعنی 220 صفحات  میں ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   ہے، 286 یعنی کوئی 66 صفحوں میں ابوبکر صدیق اور 286 سے 440 یعنی 154 میں عمر فاروق  اور صرف 7 صفحوں میں  حضرت عثمان غنی  کے فتوحات  قلم بند کئے گئے ہیں، چونکہ  حضرت علی  کا دور فتوحات  سےخالی تھا ، اس کا ذکر نہیں کیا گیا، نسخہ زیر بحث  میں کتابت کی  غلطیاں  بھی زیادہ نہیں  ناسخ کا قلم باریک ہے موٹی نب کی طرح اور ایک صفحہ  میں 41 سطریں  ہیں ۔ اگر یہ کتاب  طبقات  ابن سعد  کے لائڈن ایڈیشن  کے ڈھنگ  پر چھاپی  جائے تو شاید دوہزار صفحات  سےکم نہ ہو۔

خلفائے ثلاثہ  کے مغازی مرتّب  کرنے کے لئے ہمارے  مصنّف  نے جن کتابوں  کو استعمال کیا ہے ان کو دو صنفوں  میں رکھا جاسکتا ہے :۔ایک وہ جو طبع ہوچکی ہیں  ، دوسرے وہ جو طبع  نہیں ہوئیں بلکہ نایاب  اور غالباً  ناپید ہیں ۔ مطبوعہ  ماخذوں  میں تاریخ  طبری  ہے  (1؎ متوفی 310ھ / 922 ء ) جس سے آپ  سب واقف  ہیں، اَزدی  بَصری کی(2؎ متوفی دوسری صدی ہجری / نویں صدی عیسوی) فتوح الشام   ہے جس کو ڈبلو،  این ، لیس نے 1854ء میں کلکتہ  سے چھاپا تھا ، اور فتوح مصر والأ سکندریہ : ابن عبدالحکیم کی ہے(3؎ متوفی 257ھ / 870ء )   جس کو امریکہ کے مستشرق چارلس ، سی ٹوری نے ییل یونیورسٹی  کی اور منٹیل سوسائٹی  کی طرف سے 1920 ء میں نشر  کیا تھا، ان تینوں  سے ہمارے  مصنّف  نے خوب مواد لیا ہے،  طَبری  سے رِدَّہ لڑائیوں  ، عراق، فارس اور مادرا النہر  کی فتوحات  مصر کے لئے  اَزدی بَصری  سے فتوحات  شام کے لئے  اور ابن عبدالحکم  سے فتوحات  مصر  کے لئے ، ان ممالک  کی فتوحات  کے لئے بَلَنسی  نے غیر مطبوعہ  ماخذوں  سے بہت ہی کم استفادہ  کیا ہے لیکن  رِدَّہ بغاوتوں اور عمر فاروق  کے عہد میں عراق کی بڑی جنگوں  جیسے قادِسیہّ  مدائن اور جَلُو لاء  کے ضمن  میں مؤلف  نے بہت سے ایسے  نئے حقائق  پیش کئے ہیں جن  سے مطبوعہ کتابیں  خالی ہیں  اور جن کی خوشہ چینی  ایسے باغو ں سے کی گئی  ہے جو حوادث  کی صرصرسے تباہ  ہوچکے ہیں ، ان میں ذلیل  کی بَلَنسی  نے تصریح  کی ہے:۔

(1)  کتاب الواقدی بَلَنسی  نے اسی طرح لکھا  ہے، اس سے مراد غالباً  قاضی  واقدی  کی کتاب  الرِدّہ ہے جو ابن الندیم نے واقدی  کی تصنیفات میں(  4؎ فہرست 144 ) گِنائی ہے۔

 (2) کتاب ( المغازی ، یعقوب بن محمد زُہری ، تابعی  محدث  و مورخ،  مدینہ کے ایک معزّز خاندان  سے ان کا تعلق  تھا،عباسی دور میں جب بغداد علم کا مرکز  بنا تو یہ وہاں  حدیث  اور تاریخ  کادرس دینے چلے  گئے تھے، 213ھ/828ء میں  وفات پائی ۔( 1؎ تاریخ بغداد ، احمد علی خطیب  بغدادی  ، مصر 1931 ء 14/269۔271 )

(3) کتاب الاُمَوِی ،اس سے غالباً  محمد بن اسحاق  کی کتاب  المغازی  مراد ہے

(4)  کتاب الرِدَّہ ، تالیف وَ شمیہ بن موسیٰ متوفی 237ھ / 851ء  و شیمہ فارس کے مشہور  شہر فسا میں  پیدا ہوئے ، ریشم کے تاجر تھے، فسا سے بصرہ آئے، وہاں سے مصر اور مصر سے تجارت  کرتے اسپین  پہنچے، السام کی ابتدائی تاریخ  سے ان کو گہری دلچسپی  تھی ان کی کتاب  الردَّہ  ابن خُلّکان  نے دیکھی تھی ، اپنی وَفَیات الأَعیان  میں لکھتے ہیں :۔

‘‘ عمدہ  کتاب ہے ، اس میں بہت سی نئی معلومات ہیں ’’(2؎ دقیات  الأعیان  مصر 1310ھ 2/171 واِرشاد الأریب  یا قوت خَمَوِی ، اڈیٹری ۔ داس، ماگولیتھ مصر 1925ء 7/225۔226)

ان چار کتابوں  سے رِدَّہ لڑائیوں  کی تفصیلات  لی گئی ہیں، ان کے علاوہ بہت سی منفرد روایتیں  مختلف راویوں  کی طرف منسوب کر کے بھی  بیان کی گئی  ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ماخذ مذکورہ  چار کتابوں  کے علاوہ ہیں ۔ رِدّہ لڑائیوں  میں جنگ یمامہ ( 12ھ / 633ء) کا ذکر سب سے زیادہ مفصل ہے، اس کو پڑھ کر اس جنگ کی بھیانک تصویر آنکھوں  میں پھرجاتی ہے ۔ تاریخ  طَبَری میں سیف  بن عمر کی  بیان کردہ  روئداد  ارتداد  اتنی  واضح ، جامع اور ڈرامائی  نہیں، رِدّہ سے متعلق  سیف بن عمر  اور بَلَنسی  کے بیانات  کئی اہم مرحلوں  پر ایک دوسے سےمختلف  اور متناقض ہیں ، اکتفا میں ابو بکر صدیق  کے متعدد خط بھی  موجود ہیں جو عربی  یا فارسی  کی کسی تاریخ  میں میری نظر  سے نہیں گذرے  اس کے علاوہ  اکتفاء میں ارتداد کے متعلق  درجنوں ایسے اشعار ہیں جن  سے ہماری مفصل ترین   مطبوعہ  تاریخیں  مثلاً تاریخ  الاُمم والملوک طَبَری  ، فتُوحُ البُلدان بَلا ذرُی ، (1؎ متوفی 279ھ / 892ء ) فتوح  ابن اَعثمکوئی(  2؎ متوفی چوتھی صدی ہجری / دسویں  صدی عیسوی ) اور تاریخ  الخمیس دیار  بکری خالی ہیں۔( 3؎ متوفی 990ھ / 1582ء)

بَلَنسی  سے پہلے کی تاریخوں  کے رِدّہ واقعات  کا ہم نے اکتفاء سے مقابلہ کر کے دیکھا  تو بہت کم مشترک پایا،  اتنا بھی  نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتاہے، شاید  وجہ یہ ہے کہ عراق  حجاز ، شام او رمیسو پوٹامیہ  کے قدیم مورخوں  ۔ طَبَری ، ابن اَعثم، بعقوبی ، (4؎ متوفی 285ھ / 1898ء ) ابن  الاثیر وغیرہ (5؎ متوفی 632ھ/ 1234ء )کو ان مراجع کا علم نہ تھا جن سے بَلَنسی  نے استفادہ  کیا ہے اور اگر تھا تو اُن کو دستیاب نہ ہوسکے ۔ بَلنَسی  کے بعد کی تاریخوں  میں ہم صرف ایک تاریخ  ایسی ملی ہے جس میں اکتفاء سے کچھ خوشہ چینی کی گئی ہے اور وہ ہے  تاریخ الخمیس  جس کے مؤلف  ممکہ  کے قاضی حسین دیار بکری  متوفی 990ھ /6582ء ہیں ، یہ کتاب دسویں  صدی ہجری  میں لکھی گئی  اور اب اس 80 برس  پہلے( 1302ھ / 1884 ء  ) مصر میں چھپی تھی، اب  بے حد کمیاب ہے۔

دیار بکری  نے اکتفاء سےجو اقتباس  لئے ہیں  وہ صرف طُلیحہ اور اس کے حُلفاء  ( جنوب مغربی نجد) نیز  مسیلمہ ( یمامہ)  کی بغاوت  اور جنگوں  تک محدود  ہیں ۔ انہوں نے بنو عامر ، بنو سُلیم ، بحرین ، عُمان، حَضر موت اور یمن کی بغاوت  سے متعلق اکتفاء کی اچھوتی  معلومات  سے مطلق استفادہ  نہیں کیا،  اس کے علاوہ  انہوں نے اشعار  اور اشعار  کے محرک  واقعات  کو بھی نظر انداز  کردیا ہے جن سے اس وقت کی عرب نفسیات ، رجحان  او رمزاج پر روشنی پڑتی ہے۔

خورشید  احمد فارق

7 اگست، 1962 ء

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/tarikh-e-ridda-part-1/d/97777

 

Loading..

Loading..