قرآن کو کیسے پڑھیں
خرم مراد
15 فروری 2013
( انگریزی سے ترجمہ۔ نیو ایج اسلام)
مسلمانوں کا یہ ایمان ہے کہ قرآن خدا کا کلام ہے، جو فرشتہ جبرئیل (علیہ السلام) کے ذریعے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ۔
قرآن خدا کا ازلی اور ابدی کلام ہے۔ یہ آنے والے تمام زمانوں میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ۔ کوئی کتاب اس کی طرح نہیں ہو سکتی ۔ آپ جب قرآن کے قریب آتے ہیں، تو خدا آپ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ قرآن کا پڑھنا، اسے سننا ہے، اس کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے، اور اس کے طریقوں پر چلنا ہے۔ یہ زندگی دینے والے کے ساتھ زندگی کی ملاقات ہے۔
"خدا (جو معبود برحق ہے) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا ۔ اس نے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر سچی کتاب نازل کی "(3-2 :3)
جن لوگوں نے اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے پہلی بارسنا ان کے لئے قرآن ایک زندہ حقیقت تھی۔ انہیں اس بارے میں بالکل کوئی شک نہیں تھا، کہ اس کے ذریعے، اللہ ان سے خطاب کر رہا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے دلوں اور ذہنوں پر اس کا قبضہ ہو گیا تھا۔ ان کی آنکھوں میں آنسو بھر گئے، اور ان کے بدن کانپ اٹھے ۔
انہوں نے اس کے ہر لفظ کو گہرائیوں کے ساتھ ان کے افکار اور تجربات سے متعلقہ پایا، اور یہ ان کی زندگی سے مکمل طور پر ضم ہو گیا۔ وہ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پر نئے، زندہ اور حیات بخش ہستی میں مکمل طور پرتبدیل ہو گئے تھے۔ وہ لوگ جو بھیڑ اور اونٹ چراتے تھے، اور چھوٹی تجارت کرتے تھے، لوگوں کے رہنما بن گئے۔
آج ہمارے پاس وہی قرآن ہے۔ اس کی لاکھوں کاپیاں چھپ رہی ہیں۔ دن اور رات، مسلسل گھروں میں، مساجد میں، اور منبروں پر اس کی تلاوت کی جاتی ہے ۔
ضخیم تفسیر کی کتابیں موجود ہیں، جو اس کے معانی اور تفسیر بیان کرتی ہیں۔ الفاظ متواتر اس کی تعلیمات کی وضاحت کرنے،اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے،بیان کئے جاتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی آنکھیں خشک رہتی ہیں، دل منجمد رہتے ہیں، دماغ میں کوئی حرکت نہیں پیدا ہوتی، زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔
بدنامی اور ذلت و رسوائی ایسا لگتا ہے کہ قرآن کے پیروکاروں کا مقدر بن چکی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم اب قرآن کو ایک زندہ حقیقت کے طور نہیں پڑھتے ۔ یہ ایک مقدس کتاب ہے، لیکن وہ ہمیں ماضی کے مسلمانوں اور غیر مسلموں، یہودیوں اور عیسائیوں، وفادار اور منافقوں کے بارے میں کچھ بتاتا ہے، جو کبھی ہوا کرتے تھے۔
کیا 1400 سال کے بعداب ،قرآن ہمارے لئے اسی طرح ایک زندہ جاوید طاقت ہو سکتا ہے، جتنا کہ اس وقت تھا؟ یہ بہت ہی اہم سوال ہے، جس کا جواب دینا ضروری ہے،اگر ہم قران کی رہنمائی کے تحت اپنی قسمت کو نئے سرے سے تشکیل دینا چاہتے ہیں ۔
تاہم، کچھ مشکلات ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس سے کم نہیں جس کا اس حقیقت سے سروکار ہے کہ قران ایک خاص وقت میں نازل کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد سے، ہم نے ایک طویل سفر طے کیا ہے، تکنیکی مہارت میں اونچی پرواز بھری ہے، اور انسانی معاشرے میں اہم سماجی تبدیلیاں پنپتی ہوئی دکھائی دیں ۔
مزید برآں، آج، قرآن کے پیروکاروں میں اکثر عربی نہیں جانتے، اور بہت سے جانتے ہیں، انہیں قران کی زندہ زبان کے بارے میں تھوڑی بہت معلومات ہے۔ ان سے اس کے جملے اور استعارات کو سمجھنے کی توقع نہیں کی جا سکتی، جوکہ قرانی کی تحقیق اور گہرائی کے ساتھ اس کے معانی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے ۔
لیکن پھر بھی اس کی رہنمائی، اس کے اپنے دعویٰ کے مطابق، ابدی خدا کا کلام ہونے کے ناطے، یہ تمام لوگوں کے لئے ایک ابدی افادیت پر مبنی ہے۔
اس دعوے کی سچائی کے لئے، مجھے لگتا ہے کہ ، اس سے ہدایت اور تجربہ حاصل کرنا، اور قرآن کو سمجھنا ہمارے لئے ضرور ممکن ہوگا، جیسا کہ قرآن کے پہلے حاصل کرنے والوں نے کیا ، کم از کم کسی حد اور پیمانے تک۔ ہمیں لگتا ہےکہ خدا کی رہنمائی کو اس کی تمام دولت اور خوشی کے ساتھ حاصل کرنے کے امکان پر ہمیں حق ہے، افراط کے ساتھ ۔
دوسرے الفاظ میں، کسی خاص وقت اور جگہ پر ایک خاص زبان میں وحی کے نازل ہونے کے تاریخی واقعات کے باوجود، ہمیں اب قرآن، حاصل کرنے کے قابل ہو نا چاہئے (کیونکہ اس کا پیغام ابدی ہے)، اس کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ ہماری زندگی کا ایک حقیقی حصہ بنانے کے قابل ہونا چاہئے، جیسا کہ یہ پہلے کے مومنوں کے لئے تھا، اور ہمارے موجودہ افکار اور تجربات کے لئے اسی طرح کے فوری اور گہرے افادیت کےساتھ۔
لیکن ہم یہ کس طرح کرتے ہیں، صاف طور پر، یہ صرف قران کی دنیا میں داخل ہو کر ہی ممکن ہے، گو کہ خدا ہم سے آج اور ابھی ہم کلام ہے، اور اس طرح کے مقابلے کے لئے ضروری شرائط کو پورا کر کے ۔
پہلا، ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ خدا کے کلام کے طور پر قرآن کیا ہے، اور ہمارے لئے اس کاکیا مطلب ہے، اور تمام احترام، محبت اور چاہت بجا لائیں، اس احساس کے مطالبات پر عمل کرنے کی خواہش بھی رکھیں۔
دوسرا ، ہمیں اسے اس طرح پڑھنا جیسا کہ وہ ہم سے پڑھنے کامطالبہ کرتا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت دی ہے، جیسا کہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اسے پڑھا ہے۔ سوم، قرآن کے ہر ایک لفظ کو ، وقت ثقافت اورتبدیلی کی رکاوٹوں سے بالاتر ہو کر، اپنے حقائق اور افکار پر جاری کرنا ہوگا ۔
ان کے پہلے مخاطبین کے لئے، قرآن ایک معاصر واقعہ تھا۔ اس کی زبان اور اس کا طریقہ، اس کی فصاحت اور حکمت، اس کے جملے اور استعارات، اس کی علامتیں اور مثالیں، اس کے لمحات اور واقعات، سب ان کے اپنے ماحول میں بسے ہوئیےتھے۔
ان کی حیثیت ایک گواہ، اور ایک طرح سے، وحی کے پورے عمل میں شرکاء کے طور پر بھی تھی، اس لئے کہ وہ ان کے اپنے زمانے کی مدت میں پھلا تھا ۔ ہمارے پاس یہ رعایت نہیں ہے؛ کچھ اعتبار سے، یہی ہمارے لئے صحیح ہونی چاہئے ۔
ہم اپنی ترتیب میں قرآن کو سمجھنے اور اس کی اطاعت کرنے پر، ہم اسے ، جہاں تک ممکن ہو، اپنے لئے ایک معاصر واقعہ کے طور پر پائیں گے ، جیسا کہ اس وقت تھا ۔ انسان کا جوہر تبدیل نہیں کیا گیا ہے، یہ نا قابل تغیر ہے۔
صرف انسان کی خارجی خصوصیات - وضع، طریقے، ٹیکنالوجی - تبدیل ہوئے ہیں۔ مکہ کے کافر زیادہ نہیں ہو سکتے، اور نہ ہی یثرب کے یہودی، اور نہ ہی نجران کے عیسائی، اور نہ ہی مدینہ کی ایماندار اور بے ایمان کمیونٹی، لیکن ہمارے ارد گرد ایک ہی سیرت اور خصوصیت موجود ہے ۔
ہم انسان بالکل پہلے کی طرح تھے، اگرچہ بہت سے لوگ اس انتہائی آسان سچ کے گہرے مضمرات سے نمٹنے کو انتہائی مشکل سمجھتے ہیں ۔
ایک بار جب آپ کو ان حقائق کا احساس ہو گا ، اور آپ اس کی پیروی کریں گے، ایک مرتبہ آپ قرآن کے قریب آئیں گے، جیسا کہ پہلے کے ایمان والوں نے کیا، یہ آپ پر ایسا ہی ظاہر ہو گا جیسا کہ ان پر ہوا، اپنے ساتھی بنائیں، جیسا کہ اس نے ان کا کیا۔
صرف اسی صورت میں ، قرآن صرف احترام کی جانے والی کتاب، مقدس قدیم، نعمت کی طرح جادو کا ایک منبع ہونے کے بجائے، یہ ایک پر جوش ، عظیم طاقت میں تبدیل ہو جائے گا، اور ہمیں گہرے اور عظیم کامیابیوں کی طرف رہنمائی کرے گا، جیسا کہ اس نے پہلے کیا۔
یہ مضمون خرم مراد کی کتاب ‘‘Way to the Qur'an’’ پر مبنی ہے، جسے اسلامی فاؤنڈیشن، لیسٹر، برطانیہ کے ذریعہ شائع کیا گیا ہے۔
ماخذ: http://www.arabnews.com/how-read-qur%E2%80%99
: URL for English article
https://newageislam.com/islamic-ideology/qur-an,-1,400-years-later,/d/10495
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/qur-an,-1,400-years-later,/d/11717