خواجہ ازہر عباس (فاضل درس نظامی)
دنیا میں ہر معاشرے کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہوتی ہے کہ اس میں کچھ قوانین جاری ہوں تاکہ اس کے عوام کو معلوم ہوسکے کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کس طرح سلوک ، برتاؤ کریں ۔ اگر کسی معاشرے میں قانون ہی نہ ہو ں تو اس معاشرے میں یا تو مستقل طور پر بدامنی رہے گی ۔ یا وہ معاشرہ ختم ہوجائے گا۔ قانون سازی کےبارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ قانون جامد نہیں ہوا کرتا ۔ بلکہ قوانین میں ارتقاء کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ قوانین ہر معاشرے کی ضروریات کےمطابق وضع کئے جاتےہیں اور اس طرح معاشرے کی ضرورت کےمطابق قوانین تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ قوانین کے نفاذ کے ذریعے ہی معاشرہ میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔ اگر قوانین کا اجراء نہ ہو تو معاشرہے میں امن و امان قائم ہی نہیں رہ سکتا ۔ قانون کمزور کی حفاظت کرتا ہے او راس کو طاقتور کی دستبرد سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگر قوانین نہ ہوں تو پھر ہر انسان آزاد ہو جائے کہ وہ جو چاہے کرتا پھرے۔ اگر معاشرہ میں قانون نہ ہو تو لوگوں کو زندگی کی ضرورت بھی مہیا نہیں ہو سکتیں ۔ قانون کے ذریعے ہی انسانوں کے حقوق اور ریاست کے حقوق متعین ہوتے ہیں ۔
قانون کی اس قدر اہمیت کے باوجود آپ حیران ہوں گے کہ قانون دان طبقے کے درمیان قانون کی کوئی متفقہ علیہ تعریف (Defination) نہیں ہے او رنہ ہی یہ بات متفق علیہ ہے کہ کس قانون کو سند Recignize کیا جائے، اور کون سا قانون سند کے معیار نہیں اترتا ، ہمارے ہاں پاکستان میں یہ بات ہر شخص کےعلم میں ہے کہ ہماری قانون ساز اسمبلی کے ممبران کی غالب اکثریت نہایت کرپٹ، بد دیانت اور مفاد پرست ہے سیاسی اعتبار سےبھی ان حضرات کا کردار کوئی قابل تحسین نہیں ہے۔ ان میں زیادہ تر ممبران نہایت کمزور سیرت کے حامل ہیں ۔ بلکہ ان حضرات ہاں سیرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ ان میں اسے اکثریت ممبران اپنے مفادات کی خاطر پارٹیاں تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ کیا ان حضرات کے وضع کردہ قوانین مقدس ہوسکتے ہیں ۔ ان ہی افراد کا وضع کردہ پاکستان کا دستور (Constitution) ہے جس کے متعلق صدر ضیا ء الحق مرحوم یہ فرمایا کرتے تھے کہ ، دستور کیا ہے، اس کی کیا اہمیت ہے ، یہ چند صفحات پرمشتمل ہے ، یہ میری جیب میں ہے، میں جب چاہوں اس کو پھاڑ سکتا ہوں ۔
اگر پختہ سیرت کے لوگ قانون بناتے ہیں تو وہ نسبتاً بہتر ہوتے ہیں اور اگر بری سیرت کے لوگ قانون بناتے ہیں تو وہ قانون زیادہ برُے ہوتے ہیں ۔ اصل بات یہ ہے کہ ذہن انسانی اب تک یہ ہی طے کر سکا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ جب ذہن انسانی خیر و شر کی تمیز نہیں کرسکا تو یہ قانون کے نفع و نقصان کو کس طرح طے کرسکتا ہے۔ قرآن کریم نے اس بات کی تائید میں فرمایا وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (216۔2) شاید کہ تم ایک چیز برُی لگے، او رتمہارے لئے بہتر ہو او رشاید کہ تمہیں بھلی لگے اور وہ چیز تمہارے لے برُی ۔ اللہ ہی جانتا ہے او رتم نہیں جانتے ۔ تو یہ بات ضروری نہیں کہ جس چیز کو تم اپنے حق میں نافع یا مُصر سمجھو وہ واقع میں بھی تمہارے حق میں واپسی ہی ہوا کرے بلکہ ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اپنے حق میں بھی برُا سمجھو اور وہ مفید ہوا ، او رکسی چیز کو مفید اور وہ مُضر ہو۔ انسان کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ صحیح کیا ہے او رغلط کیا ہے ۔ ہم قدم قدم پر فیصلے کرتے ہیں ، دھوکے بھی کھاتے ہیں اور غلطیاں بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات شدید نقصانات برداشت کرتے ہیں، اکثر اوقات یہ ہوتا ہے کہ جو چیز آج ہمارے لئے اچھی (good) ہے کل ہی وہ ہمارے حالات و مصالح کی وجہ سے برُی ( evil) ہوجائے ۔ یہ سب تو (Releative) چیزیں ہیں فی ذاتہ ایک شے درست اور فی ذاتہ ایک شے غلط ہے یہی انسانی فلسفہ کی ساری تاریخ ہے او ریہ مسئلہ عقل انسانی نہیں سلجھا سکتی ۔ بلکہ جوں جوں عقل انسانی ترقی کررہی ہے، یہ مسائل بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں ۔ عقل انسانی کو ان مسائل کو حل کرنے کےلئے ہی وحی الہٰی کی ضرورت پڑتی ہے۔
یہ بات کہ انسان خود صحیح قوانین بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، اس کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں یہ ہمارا روز کا مشاہدہ ہے ۔ہم نے اوپر پاکستان کی مثال تحریر کی ہے بین الاقوامی طور بھی پہلے تو آپ سابقہ ادوار میں دیکھیں کہ جب یورپ نے قوت حاصل کی اور Colonization شروع کی، سارے قوانین حاکم و غالب قوم کے مفادات کی حفاظت کےلئے ہی بنتے تھے ۔ بر صغیر پاک و ہند پر ان غیر منصفانہ قوانین کے ذریعے ہی قبضہ حاصل کیا گیا تھا ۔ اس موجودہ دور میں فلسطین اور کشمیر کےمتعلق U.N.O جو ریزولیشن پاس کرتی ہے وہ سب غیر منصفانہ ہونے ہیں ، مشرق وسطیٰ اور عراق کی بربادی قوانین وضع کرنے کے بعد ہی کی گئی ۔ چین 1949 میں ایک قوت بن چکا تھا ، سارا چین کمیونسٹوں کے پاس تھا ۔ ایک چھوٹا سا حصہ فارموسا (Formosa) ، چن کائی شیک کے پاس رہ گیا تھا اتنے وسیع و عریض رقبہ پر مشتمل چین امریکہ کو دکھائی نہیں دے رہا تھا ، امریکہ نے اس کو تسلیم نہیں کیا ، گویا امریکہ کے نزدیک اس کا وجود ہی نہیں تھا۔ چند سال بعد جب امریکہ کی پالیسی بدلی تو چین نظر بھی آنے لگا اور راتوں رات اس کو پاکستان کی معرفت رابطہ کرکے، اس کو تسلیم بھی کرلیا۔
پاک و ہند کے درمیان 1965 کی جنگ میں چین نے پاکستان کی حمایت میں چند بیان دئے، او راپنے اور ہندوستان کے درمیان سرحدی تنازعات کا بھی حوالہ دیا، اور اپنے پانچ سو بھیڑوں کا بھی مطالبہ کیا جو ان کے بقول ہندوستان نےاپنے قبضہ میں لے لی تھیں ، اس پر ہندوستانی لیڈر شپ نے جواباً کہا تھا کہ ہندوستان اور چین کوئی ایسا دیانتدار ثالث مقرر کر لیں جو ان کے درمیان دیانت پر مبنی فیصلہ کرا دے، اس پر چین کےوزیر اعظم چو این لائی نے کہا کہ اس وقت دنیا میں کوئی ایسی شخصیت نہیں ہے جو دیانت پر مبنی فیصلہ کردے۔ افسوس اس بات پر ہوتاہے کہ دنیا کی کسی نامور شخصیت نے چو این لائی کےاس چیلنج کو قبول نہیں کیا، کہ آگے بڑھ کر اعلان کرتی کہ میں دیانتدار آدمی ہوں اور دیانت سےفیصلہ کرا سکتا ہوں ۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ کوئی شخص بھی اس وقت دنیا میں دیانتدار نہیں ہے۔ چو این لائی نے ساری دنیا کی نمایاں شخصیات کے منہ پر ایک طمانچہ مارا ہے۔ جب ساری دنیا میں یہ حالت ہو تو کیا ہرنا مور شخصیات حق پر مبنی قوانین وضع کر سکتی ہیں ۔
انسانیت پر ظلم کی داستان پوری بیان نہیں ہوسکتی ہے جب تک کہ بردہ فروشی کاذکر نہ کیا جائے، ہمارے ہاں مسلمانوں میں ملوکیت کے دور میں بردہ فروشی عام تھی ۔ لیکن اس کے متعلق کوئی لیٹر یچر اس وقت موجود نہیں ہے۔ البتہ امریکہ میں جو کالوں پر مظالم ہوتے ہیں ان کا ریکارڈ تو موجود ہے، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا ، لندن کی پبلک لائبریریوں میں موجود ہے اور با آسانی مہیا بھی ہے ۔ ایک شعبہ الگ ہوتاہے جس میں یہ کتابیں ہوتی ہیں جن میں کالوں پرمظالم کے حالات لکھے ہوتے ہیں ۔ یہ کتب کالوں کی تحریر کردہ بھی ہیں اور خود گوروں کی بھی ان کتب کو پڑھ کر جگر پھٹ جاتا ہے۔ اور آدمی رو ئے بغیر نہیں رہ سکتا ان پر جو مظالم ہوئے ان میں Incert تک شامل ہے۔ یہ اس قدر قبیح فعل ہے ۔ کہ اس کا اردو میں کوئی لفظ نہیں ، جو حضرات ان کا لوں کے مظالم کا حال جاننا چاہیں وہ Roots کامطالعہ کریں یا اس ناول کی فلم دیکھ لیں ، اس سے معلوم ہوگا کہ کالوں پر کسی درجہ مظالم ہوئے ۔
قرآن کریم نے اس دور میں بردہ فروشی اور غلام کی جڑکاٹ کے رکھ دی تھی ۔ قرآن کریم تو پوری انسانیت کو آزاد کرانے کےلئے آیا ہے۔ وہ غلامی کی کس طرح اجازت دےسکتا ہے ۔ قرآن کریم نے فرمایا فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً (4۔47) یا تو غلاموں کو فدیہ لے کر چھوڑ دو،اور اگر وہ فدیہ دینے کے قابل نہ ہوں تو ان پراحسان رکھ کر چھوڑ دو ۔ قرآن کریم کےاس حکم پر اگر عمل کیا جاتا تونہ تو مسلمانوں کے ملوکیت کےدور غلامی پر مظالم ہوتے او رنہ ہی امریکہ اور یورپ میں رواج جاری رہتا ۔ یہ شان ہوتی ہے اللہ کےقانون کی اور یہ فرق ہوتا ہے انسان کے وضع کردہ قوانین اور وحی کے عطا کردہ قانون کے درمیان ۔
اسی لئے قرآن کریم نے انسانوں کو قانون سازی کی اجازت نہیں دی ۔ اس کا ارشاد گرامی ہے کہ انسان کے وضع کردہ قوانین کفر ، ظلم اور فسق پر مبنی ہیں وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ (47۔45۔44۔5) جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کےمطابق فیصلے نہیں کرتے وہ کافر ، ظالم اور فاسق ہیں ۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ انسانوں کے وضع کردہ قوانین ، کفر، ظلم اور فسق پر مبنی ہوتے ہیں ۔ یہ قوانین کفر پراس لئے مبنی ہوتےہیں۔ کیونکہ یہ قانون الہٰی کے محاذ پر کھڑے ہیں ۔ جس کے لئے قوانین الہٰی کا انکار یعنی کفر ہے۔ دوسری بات یہ کہ قانون الہٰی عدل پر مبنی ہوتے ہیں اور چونکہ یہ قوانین ، قوانین الہٰی سے منحرف ہیں اس لئے ظاہر ہے کہ یہ ظلم پر مبنی ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ یہ قوانین چونکہ اللہ کی بندگی کے دائرہ سے باہر ہیں، اس لئے فسق پر مبنی ہیں ۔ اس قسم کے قوانین وضع کرنے والے لوگ، جو اعتقاد اً حکم الہٰی پر ایمان لاتے ہیں ، لیکن عملاً ان قوانین کو جاری نہیں کرتے ۔ وہ پیدائشی مسلمان ہیں لیکن وہ قرآن کے مطابق مسلمان نہیں ہیں ۔ قرآنی مسلمان صرف وہ ہیں جو قرآن کے مطابق فیصلے کرتےہیں ۔ ( 181۔7) جنہیں ہم نے پیدا کیا ان میں ایک گروہ ایسا ہے جو قرآن کی طرف بلاتا ہے اور قرآن کے مطابق ہی فیصلے کرتا ہے۔ رسول اللہ کو بھی یہی حکم تھا کہ فیصلے صرف قرآن کے مطابق فرمائیں ( 48۔5) پس تو ان میں بما انزل اللہ کے مطابق فیصلہ کر۔ ہم نے اوپر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کی مذمت تحریر کی ہے کیونکہ ان قوانین کی نہ تو کوئی اساس ہے اور دوسری بات یہ کہ وہ قانون نہ ہی معاشرہ کی ترقی وکمال میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں ۔ او رنہ ہی انسانیت کے لئے نافع ہوتے ہیں ۔ یہ صرف قرآن کے قوانین ہیں کہ جن کی اساس بھی متعین اور واضح ہے او رجن پر عمل کرنے سے معاشرے کی تعمیر ( Development) ہوتی ہے اور وہ ساری انسانیت کی خدمت ( Serve) بھی کرتے ہیں ۔ یہ موضوع بالکل نیا ہے،اس میں آپ کچھ نکارت بھی محسوس کریں گے ، تاہم اب اس مضمون کو غور سے ملاحظہ فرمائیں ۔
قرآن کریم کے نزول کے وقت اور اس موجودہ دور تک بھی دنیا میں ہر جگہ روح کاچرچہ تھا او رہے۔ انسان کو روح اور جسم کامجموعہ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ قرآن کریم نے اسی وقت روح انسانی کی تردید کی۔ آج تو بیشتر سائکولوجسٹ اس نظریہ کی حمایت کرتےہیں، لیکن نزول قرآن کے دور میں تو ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو روح کے وجود کا منکر ہو۔ قرآن کریم روح خداوندی کا تو قائل ہے لیکن روح انسانی کا منکر ہے۔ قرآن کا نظریہ ، یہ ہے کہ جب زندگی حیوانیت کی سطح سےبلند ہوئی اور انسانیت کے دائرہ میں داخل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کو ایک صلاحیت سے نوازا ، جو صلاحیت انسان کو حیوانیت سےممتاز کرتی ہے۔ یہ صلاحیت جب تک ذات باری تعالیٰ کی طرف سے انسان کو نہیں ملتی، قرآن کریم اس کو روح خداوندی کہتا ہے اور جب یہ صلاحیت ، یہ روح خداوندی انسان کو مل جاتی ہے تو قرآن کریم اس کو نفس کےلفظ سےپکارتا ہے اسے روح انسانی نہیں کہتا ،یہ نکتہ ذہن میں رکھیں یہ نکتہ سب سے اہم ہے ۔
جب انسانی بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ جسم او رنفس دو چیزوں کامجموعہ ہوتاہے ، اس بچہ کا جسم مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ یہ 6 انچ کابچہ 6 فٹ کاجوان بن جاتاہے ۔ اس کا نفس بھی اس کے ساتھ ہوتاہے اور اس کے اس نفس میں اللہ تعالیٰ کی صفات خوابیدہ شکل میں بطور قابلیت و اہلیت (Potentialities) موجود ہوتی ہے۔ یہ انسانی ذات ہوتی ہے ۔ انسان کی ذات میں یہ صفات خداوندی خوابیدہ شکل میں موجود ہوتی ہیں، ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنے سامنے بطور نمونہ رکھے اور اپنے میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو پیدا کرے، ان کو ترقی دے اور ان میں اضافہ کرے، تو اس طرح اس کی ذات نشونما ہوجائے گی۔ جس قدر صفات خداوندی کوئی شخص اپنے میں اُجاگر کرے گا، اسی قدر قُرب خداوندی اِس شخص کو حاصل ہوگا ۔ انسان کی زندگی کا مقصد ان صفات کی نشو نما کرتاہے۔ کیونکہ اس طرح انسان کی ساری صلاحیتیں بیدار ہوجاتی ہیں ۔
انسان کے جسم کی نشو نما طبعی قوانین کے ماتحت ہوتی ہے۔ اگر وہ اچھی ، مفید ( wholesome) غذا کھائے گا۔ تو اس کے جسم کی قوت آئے گی ، اس کی عمر دراز ہوگی، وہ طبعی قوانین کےمطابق سردی اور گرمی کا خیال رکھے گا ۔ انسانی ذات کی نشو نما میں طبعی قوانین کا کوئی دخل نہیں ہوتا ۔ یہاں انسان وحی خداوندی کا محتاج ہوتاہے، وحی الہٰی میں وہ مستقل اقدار دی گئی ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان کی ذات میں استحکام پیدا ہوتاہے۔ یہ مستقل اقدار اور صفات خداوندی ایک ہی چیز ہے۔ خواہ آپ اس کا مستقل اقدار پرعمل کرنا کہہ لیں، یا اپنے میں صفات الہٰی کو اُجاگر کرناکہہ لیں ، بات ایک ہی ہے۔
اللہ تعالیٰ رب العالمین ہے۔ یہ اس کی صفت ہے انسان کےلئے یہ ایک مستقل قدر ہے کہ ہر انسان دوسروں کی ربوبیت کریں (79۔3)، اللہ تعالیٰ رازق ہے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کو رزق پہنچانے کی کوشش کرے۔ مستقل اقدار ، اور صفات خداوندی پرعمل ایک معاشرے میں ہی ہوسکتا ہے ۔ جنگل یا صحرا میں مستقل اقدار کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ یہ ملاحظہ فرمائیں کہ قرآنی قوانین معاشرے کو تعمیر ( Develop) کرنے میں کیا کردار ادا کرتےہیں ۔
ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذات کی نشو نما کرے، ہر وہ کام جس سے اس کی نشو نما ہوتی ہے ، وہ عمل خیر ہے او رہر وہ کام جس سے اس کی ذات میں اضمحلال پیدا ہوتاہے ۔ وہ عمل شر ہے۔ یہ وہ اساس محکم ہے جو قرآن کریم قانون سازی کےلئے عطا کرتاہے، اور یہ اساس قرآن کے علاوہ کہیں اور نہیں ملے گی۔ قانون کی اس اساس کے علاوہ او رکوئی اساس ہوہی نہیں سکتی ۔ ہر شخص اپنی استعداد کے مطابق عمل خیر کرتا ہے اور عمل شر سےاجتناب کرتاہے۔ اگر چہ وہ یہ اعمال اپنی ذات کی برومندی کے لئے کرتا ہے لیکن اس کا ایک مفید ور تعمیر ی امر معاشرے پر بھی از خود مرتب ہوتاہے۔ اپنی ذات کی تعمیر کےلئے ہر شخص مال حرام سے اجتناب کرے گا، او رمحنت کرکے رزق حلال حاصل کرنے کی کوشش کرے گا ۔ اگر چہ یہ سب کچھ وہ اپنی ذات کی پرورش کےلئے کرے گا ۔ لیکن اس کامعاشرے پر اچھا اثر مرتب ہوگا کہ اس معاشرے میں ہر شخص سخت محنت کرے گا اور صرف رزق حلال کھائے گا او رلوگ ایک دوسرے کامال ہڑپ نہیں کریں گے۔ جھوٹ بولنا بُرا فعل ہے اس سے نفس پر برُے اثرات پڑتےہیں ۔ اس لئے لوگ جھوٹ سے اجتناب کریں گے او رمعاشرے میں جھوٹ کا رواج بالکل ختم ہوجائے گا ۔ نفس کی پرورش کے تمام اعمال کا معاشرے پربہت اچھا اثر پڑے گا ، او رمعاشرہ مثالی معاشرہ بن جائے گا۔
چونکہ اسلامی مملکت قرآنی احکامات جاری کرتی ہے اسی لئے اس مملکت کا اطاعت قرآن کی اطاعت ہوتی ہے۔ چونکہ قرآن کریم کے ہر حکم کی اطاعت ، اللہ کی عبادت ہوتی ہے اس لئے اس مملکت کے قوانین کی اطاعت عبادت اللہ کی عبادت ہوتی ہے ۔ اسلامی مملکت میں جب آپ ٹریفک سگنل کی اطاعت اس لئے کریں گے کہ اس اطاعت سے آپ کے نفس پرایک اچھا اثر پڑے گا، لیکن آپ کے نفس کی پرورش ساتھ ساتھ ٹریفک کانظام بھی خودبخود اچھا ہوتا چلاجائے گا۔ جب آپ ٹیلی فون، پانی، بجلی کا بل اور ریاست کے تمام محصولات (Revenues) ادا کرتےہیں تاکہ آپ کا نفس مضبوط ہو، اور اس میں استحکام واقع ہوتو اس سےمملکت کے تمام واجبات از خود ادا ہوجاتے ہیں اور وہ مملکت بہترین مملکت شمار ہوتی ہے ۔ ان مثالوں کو آپ بڑھاتے جائیں آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان اعمال سےمعاشرہ کا کلیتاً اچھا اثر ہوتا ہے۔
اسلامی مملکت میں دوسروں کی پرورش سےاپنی روش ہوتی ہے وَمَن تَزَكَّىٰ فَإِنَّمَا يَتَزَكَّىٰ لِنَفْسِهِ ( 18۔35) جو دوسروں کی پرورش کرتاہے اس سےاس کی اپنی پرو رش ہوتی ہے۔ الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ (18۔92) جو اپنا مال دوسروں پر خرچ کرتا ہے اس کے نفس کی پرورش ہوجاتی ہے۔ آپ دوسروں پر زیادہ اپنی کمائی (مال و دولت) اس لئے خرچ کریں گے کہ اس سے آپ کے اپنی ذات (نفس ) کی پرورش ہوگی، اور آپ کی تمام صلاحیتیں برو مند ہوں گی ۔ اگر آپ اللہ کی عبارت زیادہ کرنا چاہیں گے تو آپ کےلئے اور ورد و وظائف نہیں کریں گے ، نہ نوافل پڑھیں گے بلکہ اس کےلئے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ مزید آمدنی کےلئے ایک اضافی کام ( Part Time Job) کریں گے تاکہ اس سےکچھ آمدنی ہو اور اس آمدنی سے آپ دوسروں کی پرورش کریں گے، تاکہ آپ کے نفس کی پرورش ہو۔ آپ غور فرمائیں کہ اس سے معاشرے کوکتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اسلامی قانون کی اطاعت سےمعاشرے میں کتنا عمدہ اثر ہوتا ہے ۔ او ریہ قانون معاشرہ میں کتناعمدہ اثر مرتب کرتا ہے۔ اس کے بر خلاف ‘‘ درود’’ و ‘‘وظائف’’ اور پرستش کرنے کی رسوم کا کوئی مثبت و مفید اثر نہیں ہوتا ۔
یہاں تک ہم نے آپ کو قوانین الہٰی کی اساس کلیم عرض کی ہے اور یہ عرض کیا کہ اسلامی قوانین کی اطاعت سے معاشرہ کس طرح از خود بہتر ہوتا چلا جاتاہے ۔ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہر مسلمان میں صفات خداوندی نشو نمایا ہونی چاہئے او رہر فرد کے کردار میں یہ جھلکتی ہوئی محسوس ہونی چاہئیں ۔ امت مسلمہ چونکہ مسلمانوں پر مشتمل ہوتی ہے، اس لئے امت مسلمہ بھی صفات خداوندی کے مطابق عمل کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی مملکت کی اساس بھی صفات خداوندی پر ہوتی ہے اس لئے اسلامی مملکت تمام انسانیت کی ربوبیت کرنے کی مکلّف ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات رحمانیت ، رحمیت ، قدیر ، حکیم، نصیر ہیں ، ان صفات پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے بلکہ ان تمام صفات کو انسانیت میں رائج کرنا بھی ضروری بات ہے۔ ہم صفات الہٰی پر ایمان لاتے ہیں ۔ ہمارا یہ ایمان نظری و فکری ہوتا ہے ، لیکن جب آپ ایک اسلامی مملکت میں ان صفات کو عملاً جاری کردیں گے تو اسلامی مملکت ، میں اللہ کی یہ صفات ایک ٹھوس شکل میں سامنے آجائیں گی تو یہ زمین اپنے رب کے نور سے جگ مگ جگ مگ کرنے لگے گی ۔ اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں تم میں ایک ایسا نظام دے کر جا رہا ہوں ‘‘جس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی طرح روشن ہوں گی ’’۔ اسلامی مملکت کی اساس مستقل اقدار اور صفات خداوندی پر ہوتی ہے، انسان کی ذات کی نشو و نما مستقل اقدار کے اتباع اور صفات خداوندی کو اپنے میں اجاگر کرنے سے ہوتی ہے اس لئے جب کوئی شخص اسلامی مملکت کے قوانین کی اطاعت کرتاہے تو وہ خارج سے کسی اتھارٹی کی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اس سے وہ اپنے نفس کے ایک تقاضہ کو پورا کرتا ہے، اسلامی مملکت کی اطاعت سے مراد اپنی مثالی فطرت کے تقاضوں کی تکمیل ہوتی ہے ۔
جب ہم آپ کو اللہ کی صفات اور تقاضوں کےمطابق بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے تقاضوں کےمطالبات پورا کریں تو اس وقت انسان کا تعلق ، اللہ تعالیٰ سے صحیح بنیادوں پر قائم ہوتاہے، اللہ تعالیٰ کی صفت کا ایک تقاضہ عدل ہے، جب اسلامی مملکت میں ہر جگہ عدل ہورہا ہو، اور اس کے شہری بھی فرد فراد عدل پر عمل کررہے ہوں تو آپ سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا تقاضہ پورا ہورہا ہے۔ اس مملکت کا اللہ تعالیٰ سےاس کی ایک صفت میں صحیح بنیادوں پر تعلق قائم ہوگیا ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ اللہ کے ہر حکم کے اندر اللہ کی ایک صفت کاعکس ہوتا ہے ۔ اس حکم پر عمل کرتے وقت اس صفت کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے جس صفت کی عملی شکل میں یہ حکم روبہ عمل آرہا ہے۔ قرآن کریم کے تمام احکام اللہ کی صفات کےمظہر ہوتے ہیں۔
اسلامی مملکت کی اساس کوملاحظہ فرمانے کے بعد آپ کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اس مملکت کے قوانین کوئی اندھے بہرے اور بے مقصد قوانین نہیں ہوتے جس طرح کہ دوسری سیکولر حکومتوں کے قوانین ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اس مملکت کے شہری اس کی اطاعت از خود، دل و جان کی رضا مندی سےکرتے ہیں کہ اس کی اطاعت سے ان کو یہ فائدہ ہورہا ہے کہ اس سے ان کی دنیا اور آخرت دونوں بن رہی ہوتی ہے۔ اس ریاست میں انسداد جرائم کےلئے کسی محکمہ کی ضرورت نہیں رہتی ،صرف اتنی ضرورت ہوتی ہے کہ اس مملکت کے شہریوں او راس کے عوام کو مستقل اقدار پرپور اپور ایقین اور ایمان ہو۔ چونکہ اسلامی مملکت اللہ کی صفات کو اس دنیا میں عملاً جاری کرتی ہے، دوسرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کے وعدے اس مملکت کے ذریعے پورے ہوتے ہیں اور زندگی بلند سے بلند منازل کی طرف رواں دواں چلی جاتی ہے، اللہ کی صفات کوعملاً جاری کرنے سے انسانیت کی خدمت بھی ہوتی ہے۔
انیبا ء کرام کا مبعوث ہونا انسانیت پر ایک بڑا احسان ہوتا ہے ( 163۔3) انبیاء کرام کے ذریعے انسانیت کو وہ قوانین ملے جن کی اتباع سے زندگی بلند مراتب و مدارج حاصل کرتی چلی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےان قوانین کی اتباع کےلئے ایک ہئیت اجتماعیہ قائم فرمائی جس میں یہ اللہ کے قوانین جاری فرمائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ یہ ریاست دس لاکھ مربع میل پر وسیع و عریض تھی ۔
چونکہ اتنی بڑی ریاست تنہا ایک فرد نہیں چلا سکتا اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مدد کےلئے اس مملکت میں مقامی حکام مقرر کئے جن کو قرآن کریم نے اولوالا مر کے نام سے موسوم کیا او ران مقامی حکام کی اطاعت کو بھی قرآن نے فرض قرار دیا ہے۔ عملاً صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں احکامات دیئےجاتےتھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان احکامات کو جاری فرمارہے تھے ۔ جو احکامات اصول کی صورت میں ملتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جزئیات طے فرمادیتے تھے ۔ قرآن کریم نے ایتائے زکوٰۃ کا حکم نازل فرمایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایتائے زکوٰۃ کا نصاب مقرر فرما دیا ۔ قرآن کریم نے نکاح کے لئے مہر کو شرط قرار دیا لیکن خود مہر کی رقم مقرر نہیں کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کے مطابق مہر کی رقم فرمائی ، قرآن کریم نے رمضان کے روزوں کو مسافر کےلئے موخر کرنے کی اجازت دی ہے لیکن سفر کو متعین نہیں کیا کہ کتنی مسافرت پر روزہ موخر ہوسکتا ہے ۔ اصول او راحکامات کی جزئیات مقر ر کر کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مقامی حکام کو اس سے مطلع فرما دیتےتھے ۔ او رمقامی حکام ان جزئیات کو carry out کرتے تھے ۔ دوسری صورت یہ بھی تھی کہ جب مدینہ سے دور کسی مقام پر دو آدمیوں کوئی تنازع ہوتا تو اس کا فیصلہ یہ مقامی حا کم ہی کر دیتا تھا ۔ اور اسی مقامی حاکم کی اطاعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوتی تھی، مقامی حکام کی اطاعت کو فرض دے کر قرآن کریم نےایک طرف تو انسانیت کو سب سے پہلے ایک نظام کے تصور سے روشناس و آگاہ کیا اور انسان کی حکومت انسان پر حرام قرار دے دے ۔ ذاتی اطاعت کے تصور کی جڑ ہی کاٹ دی ۔ اور دوسرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی اطاعت کے تصور کو بھی ختم کردیا ۔اب حکومت نے صرف او رصرف اللہ کے نظام کی جائز قرار دی گئی ۔ اس نظام کے ذریعے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوتی تھی ۔ حضور کی موجودگی اطاعت رسول کا یہ طریقہ بالکل واضح تھا کہ اس نظام کی اطاعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تھی ۔ سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اطاعت کا پیدا ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اطاعت رسول کس طرح کی جائے ۔ اولوالامر کی اطاعت کی Pree واضح طور پر سامنے ہونے کی وجہ سے یہ بات واضح تھی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس اطاعت کو اسلامی نظام ہی کے سربراہ ، زندہ محسوس اتھارٹی کی طرف پھیر دینا چاہئے تھا ۔ چنانچہ اس اطاعت کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف پھیر دیا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کو اللہ و رسول کی اطاعت قرار دیا گیا۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کا نظام منقرض ہوگیا او رملوکیت غالب آگئی ۔ اس ملوکیت یعنی، بنو عباس کے دور میں ہمارے ہاں تفاسیر و رِوایات کے مجموعے تحریر کئے گئے ۔ بنو عباس کے بادشاہ نہایت آوارہ ، بد چلن او ربد کردار تھے ۔ تاریخ کے مطابق ان کے حرم میں تین تین ہزار عورتیں بیک وقت موجود ہوتی تھیں، ان علماء اور مفسرین کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ ان بادشاہوں کی اطاعت کو اللہ اور رسول کی اطاعت قرار دیتے ، اس لئے ان مفسرین نے اس اطاعت رسول کو بجائے زندہ اتھارٹی کے اس کو روایات کی طرف پھیر دیا ۔ اور اب اس طرح اللہ اور رسول کی اطاعت قرآن اور روایات کے ذریعے ہونے لگی ۔اسلامی نظام کی اطاعت سے اللہ اور رسول دونوں کی اطاعت ہوتی تھی اور قرآن کریم نے ان دو اطاعتوں کو ایک اطاعت قرار دے کر اس کےلئے ہر جگہ اس کےلئے واحد کا صیغہ اور واحد کا ضمیر استعمال کی ہے ۔ لیکن اب یہ ایک اطاعت ، دو اطاعتیں قرار پائیں ۔ قرآن کریم سے اللہ کی اطاعت اور حدیث سےرسول اللہ کی اطاعت ہونے لگی ۔ او راس طرح اقامت دین کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کےمسدور کردیا گیا اور اللہ و رسول کی اطاعت کا دروازہ بھی بند ہوگیا ۔ اب ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں رہا کہ جس کی معرفت ہم اللہ اور رسول کی اطاعت کرسکیں ۔
بنو عباس کے دور میں ہمارے قوانین مدون ہوئے جسے اسلامی فقہ اور اسلامی قوانین کہا جاتاہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قوانین نہیں کہا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ اسلامی قوانین نہیں ہیں ۔ کیونکہ اسلامی قوانین وہ ہوتے ہیں جو اسلامی حکومت جاری کرتی ہے۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور خلاف راشدہ کے دور میں قوانین بنا ئے جارہے تھے اورجس ہر زمانے کے اولوالالمر نافذ کرتے ، جو ہر زمانے میں اسلامی مملکت کے افسران ہوتے ہیں ۔ کیونکہ قرآن نے ان کے لئے منکم کی شرط عائد کی ہے۔ سابقہ اسلامی مملکت کے اولولامر کے احکام بعد میں آنے والی حکومتوں پر فرض نہیں ہوتے ۔ ہمارے موجودہ قوانین، ہماری فقہ یا شریعت ملوکیت کےدور کے قوانین ہیں ۔ ان فقہ کا کوئی تعلق نہ تو امام جعفر صادق سے ہے اور نہ ہی امام ابو حنیفہ سے اس کا تعلق ہے۔ ان دونوں قابل احترام حضرات کی کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ یہ قوانین مختلف علماء کرام کے اپنی ذاتی قانونی رائے (Legal Opinion) ہے، اس لئے ان کا کوئی تقدس نہیں ہے۔ لیکن مسلمان ان قوانین کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں او ران مختلف فقہ کی وجہ سے فرقے وجود میں آئے جو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں اور اس فرقہ بندی کی وجہ سے فقہ ہے۔
دین کانظام ختم ہونے کی وجہ سے یہ مختلف فقہ وجود میں آئے ۔ دین کا نظام ختم ہونے کی وجہ سے ہی ہم مسلمانوں پرستش کی رسومات شروع ہوئیں اور پھر روحانیت کا غلط تصور مسلمانوں میں در آیا ۔ جب تک مسلمان روحانیت کا تصور ختم کرے کے، نفس کے تصور کو اختیار نہیں کریں گے وہ کسی طرح بھی دنیا میں ترقی نہیں کرسکیں گے ۔
( جہاں دودھ اور دوا خالص نہ ہو وہاں دعا بھی خالص نہیں رہتی )
جون ، 2016 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL: