خواجہ ازہر عباس
مسلمانوں کے علاوہ دیگر غیرمسلم اقوام عالم کے پاس غور و فکر او رعلوم حاصل کرنے کا صرف ایک ذریعہ عقل ہے۔ عقل انسان کی صلاحیت ہے جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممیز کرتی ہے۔ انسان نے اسی عقل سے کام لے کر اتنی ترقی کی کہ کائنات کی بیشتر قوتوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ یونانی فلاسفر سے لے کر آج تک جو علوم بھی انسانیت نے حاصل کئے یہ سب انسانی عقل کی بدولت ہی کئے ہیں ۔ مسلمانوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے ہاں علم حاصل کرنے کے وہ ذرائع ہیں۔ ایک تو وہی عقل انسانی جو تمام انسانیت میں مشترک پائی جاتی ہے اور دوسرے وحی الہٰی جو صرف ہم مسلمانوں کے ہاں موجود ہے۔ عقل جو علوم حاصل کرتی ہے وہ سالہا سال کی جد وجہد سےحاصل ہوتے ہیں او ران علوم میں غلطی کا امکان و اہتمام ہوتاہے بلکہ وحی الہٰی جو علم فراہم کرتی ہے اس میں انسانی جد وجہد کاکوئی دخل نہیں ہوتا ۔ یہ انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا انعام او راس کا احسان ہی ہوتا ہے۔لَقَدْ مَنَّ اللَّـهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (164۔3) او روحی میں کسی قسم کی غلطی کی گنجائش نہیں ہوتی ۔ تنہا عقل انسانی انسانیت کے مسائل حل کرنے کے قابل نہیں ہے اسے وحی کی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے جذبات عقل کے تابع رکھے اور عقل کو وحی الہٰی کے تابع رکھے ۔ اس طرح انسانی ذات کی بھی تربیت ہوتی ہی جائے گی او راس دنیا میں بھی بہترین معاشرے متشکل ہوں گے۔ کیوں کہ قرآن کریم کا موضوع ہی بہترین معاشرے کی تشکیل ہے۔
لیکن افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں نے وحی الہٰی سےاستفادہ نہیں کیا اور وحی کی جو قدر کرنی چاہئے تھی وہ قدر نہیں کی۔ قرآن کریم میں جو ارشاد عالی ہے۔ مَا قَدَرُوا اللَّـهَ حَقَّ قَدْرِهِ (74۔22) انہوں نے اللہ کی اس درجہ قدر نہیں کی جتنی قدر کرنی چاہئے تھی ۔ وہ دیگر غیر مسلم اقوام جن کے پاس علم حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہم مسلمانوں سے بدر جہاں بہتر ہیں جن کے پاس علم حاصل کرنے کے وہ ذرائع یعنی عقل انسانی اور وحی الہٰی ہیں۔اس کی یہی وجہ ہے کہ ہم نے وحی الہٰی کی قدر نہیں کی ۔ قرآن کریم کی رو سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کے لئے جو ہدایت دی گئی ہے وہ صرف قرآن ہے اور قرآن کریم کی جس قدر بھی قدر کی جائے وہ کم ہے لیکن ہم مسلمانوں نے قرآن کی کما حقہ قدر نہ کرتے ہوئے وحی خفی، الہام ، القاء، کشف، استخارہ، وجدان ، تفادل اور Instition کے نظرئیے وضع کئے جن کےلئے وہ عقیدہ بنایا گیا کہ قرآن کریم کی موجودگی کے باوجود ان ذرائع سے بھی ہر شخص ہر وقت اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کرسکتا ہے ۔ ان خلاف قرآن نظریات نے مسلمانوں کو کسی حال کانہیں چھوڑا اور ان نظریات کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم او راس کے عقائد و اقدار پیچھے چلی گئیں ۔ اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دین مذہب میں تبدیل ہوگیا اور مسلمان بحیثیت مجموعی زوال کی آخری منزل تک پہنچ گئے ۔ صدر اسلام کے بعد سے لے کر آج ہم مسلمانوں میں ہزاروں مصلحین پیدا ہوئے جنہوں نے نہایت ہمدردی اور دلسوزی سےمسلمانوں کے زوال کامداوا کرنا چاہا مگر افسوس کہ مسلمانوں کی حالت تبدیل نہیں ہوئی او راس کی واحد وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے وحی الہٰی یعنی قرآن کریم کو اس کے اصل مقام پرنہیں رکھا اور خلاف قرآن عقائد پر عمل جاری رکھا ۔ ہمارے تمام مصلحین نےمذہب اور دین کا امتیاز کھوج ( detect) ہی نہیں کیا او رنہ ہی مذہب کے دائرہ کےباہر قدم رکھا ۔ وہ مذہب کی ہی اصلاح کرتے رہے ۔ مذہب جو مسلمانوں کے زوال کا اصلی سبب ہے وہ اس پر ہی اصرار کرتے رہے او راس وجہ سے مزید روبہ زوال ہوتے رہے۔
تاریخ انسانیت میں تحریک طلوع اسلام پہلی تحریک ہے جو کسی رسول کی قیادت کے بغیر اقامت دین کی داعی ہوئی ہے۔ اس تحریک نے خلاف قرآن عقائد کی جڑکاٹ کے رکھ دی ہے۔اس تحریک نے قرآن کریم کو اس کے اصل مقام پر رکھا اور وحی خفی ، الہام ، کشف ، وجدان ، القاء جیسے تمام عقائد کو خلاف قرآن ثابت کرکے ان سب پر ضبط نسخ کھینچ دیا اور بے شمار مقالے اور مضامین تحریر کئے جن میں یہ ثابت کیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سےانسانیت کےلئے جو ہدایت آئی ہے وہ صرف قرآن میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ ہدایت کا ایک لفظ بھی قرآن کےعلاوہ او رکسی جگہ نہیں ہے۔ اورجو شخص یہ دعویٰ کرتاہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی طریقہ سےبھی برہ راست ہدایت ملتی ہے وہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے جو باطل پر مبنی ہے اور قرآن کریم کی کھلم کھلا توہین ہے۔اس تحریک نے ساری دنیا کے سامنے دین کو پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ انسانیت کے تمام مسائل کا حل دین کےپاس موجود ہے۔ایمان کا تقاضہ تو یہ تھاکہ ہماری پیشوائیت اس تحریک کا خیر مقدم کرتی اور اس کابھرپور ساتھ دے کر اس کی مددگار بنتی لیکن یہ بات بڑے رنج و افسوس کی ہے کہ ہمارے پیشوائیت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور اس کی سخت مخالفت شروع کردی ۔ حالانکہ اس تحریک کے نظریات خالص قرآنی نظریات ہیں۔ قرآن کریم نے انہی حضرات کے متعلق فرمایا ہے۔وَفَاكِهَةٍ كَثِيرَةٍ (32۔56) تم قرآن جیسی کتاب کو اس لئے جھٹلاتے ہو کہ اس سےتمہاری روٹی چلتی رہے۔
دین کو مذہب میں تبدیل کرنے اور قرآن کے علاوہ روایات کو وحی کادرجہ دینے کا سب سے بڑانقصان یہ ہواکہ جو آیات کریمات مسلمانوں کو اس دنیا میں سرفرازی و سربلندی دینے کے ضامن تھیں ان کی روایات کی رو سے ایسی تفسیر کی گئی اور ان سب آیات کو اس دنیا سےبے تعلق کر کے آخرت کے ساتھ منسلک کردیا ۔ ارشاد عالی ہے مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (78۔22) اس (ابراہیم) نے تمہارا نام مسلمان رکھا پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی تاکہ تمہارے اعمال کی نگرانی رسول کرے اور تم نوع انسانی کےاعمال کی نگرانی کرو ۔ تمہارا فریضہ زندگی یہ ہے کہ تم دیکھو کہ کہا ں ظلم ہورہا ہے او رکہاں بے انصافی ہورہی ہے کہاں دھاندلی ہو رہی ہے۔ تم ساری دنیا کے اعمال کے اوپر نگراں ہو لیکن اس آیت کو دنیا سے بالکل بے تعلق کرکے ہماری روایتی تفاسیر میں یہ لکھا ہے کہ قیامت کے دن جب دوسری امتیں انکار کریں گی کہ پیغمبر وں نے ہم کو تبلیغ نہیں کی اور پیغمبروں سے گواہ مانگے جائیں گے تووہ امت محمدیہ کو بطور گواہ پیش کریں گے یہ امت گواہی دے گی کہ بے شک پیغمبر وں نے دعوے و تبلیغ کر کے اللہ کی حجت قائم کردی تھی ۔ اس طرح کی بے شمار آیات ہیں جن کاتعلق اس دنیا سے ہے لیکن ہماری روایات کی وجہ سے ان کو آخرت کے ساتھ مربوط کردیا گیا ہے اس مختصر سی تمہید کے بعد اصل موضوع تحویل کعبہ کی طرف رافعت کی جاتی ہے۔
تحویلہ قبلہ کے واقعہ کو جس آیت سےمتعلق کیا جاتا ہے اس میں ارشاد ہے سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (142۔2) بعض احمق لوگ یہ کہہ بیٹھیں گے کہ مسلمان جس قبلہ ( بیت المقدس) کی طرف منہ کر کے (سجدہ کرتے تھے) اس دوسرے قبلہ کی طرف مڑ جانے کا کیا باعث ہوا۔(اے رسول) تم ان کےجواب میں کہو کہ پورب پچھم سب اللہ کا ہی ہے جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے اور اس طرح تمہاری قبلہ کے بارے میں ہدایت کی اسی طرح تم کو عادل امت بنایا تاکہ او رلوگوں کے مقابلہ میں تم گواہ بنو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے مقابلہ میں گواہ بنیں۔یہ آیت ہے جس سےتحویل قبلہ کا ثبوت دیا جاتاہے ۔ اب آپ اس آیت کی روایتی تفسیر ملا حظہ فرمائیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو 17۔16 مہینہ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے رہے۔ اس کے بعد کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آگیا تو یہود، مشرکین او رمنافقین اور بعض کچےمسلمان ان کے بہکاوے سے شبہ ڈالنے لگے کہ یہ تو بیت المقدس کی طرف نماز پڑھا کرتےتھے جو پہلے انبیاء کا قبلہ تھا اب انہیں کیا ہوا جو اسے چھوڑ کر کعبہ کو منہ کرنے لگے ۔ کسی نے کہا یہودی کی عداوت و حسد میں ایسا کیا، کسی نے کہا کہ یہ اپنے دین میں مترد دو متحیر ہیں جس سے ان کا نبی اللہ ہونا ظاہر نہیں ہوتا۔نمونہ میں ہے بیت المقدس مسلمانوں کا عارضی قبلہ تھا لہٰذا پیغمبر اسلام انتظار میں تھے کہ قبلہ کی تبدیلی کا حکم صادر ہو۔خصوصا اس بناء پر کہ پیغمبر اکرم کے ور ود مدینہ کے بعد یہودیوں نےاس بات کو اپنے لئے سند بنا لیا تھا او رہمیشہ مسلمانوں پر اعتراض کرتے رہتے تھے کہ ان کا اپنا کوئی قبلہ نہیں ہے او رہم سے پہلے یہ قبلہ کے متعلق کچھ جانتے بھی نہیں تھے ۔ اب ہمارے قبلہ کو قبول کرلینا ہمارا مذہب قبول کرنے کی دلیل ہے۔ جلد اوّل ص 351 معارف القرآن میں تحریر ہے حضرت خاتم الا نبیاء پر جب نماز فرض کی گئی تو بقول بعض علماء ابتداء آپ کا قبلہ آپ کے جد امجد حضرت ابراہیم کا قبلہ یعنی خانہ کعبہ ہی قرار دیا گیا ۔مکہ سے ہجرت کرنے او رمدینہ میں قیام کرنے کے بعد اور بعض روایات کے اعتبار سےہجرت مدینہ سے کچھ پہلے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ آپ بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنائیں ۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق آنحضرت نے سولہ سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی۔ مسجد نبوی میں آج تک اس کی علامات موجود ہیں جہاں کھڑے ہوکر آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز ادا فرمائی تھیں۔ جلد اوّل ص 362 آپ نے آیات ان کا ترجمہ ان کی تفسیر ملاحظہ فرمائی، اب آپ اصل مسئلہ کی طرف توجہ فرمائیں ۔
ہمارے علمائے کرام کایہ نظریہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مکہ کےتیرہ سالہ دور میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے اگرچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ رخ کعبہ کی طرف کیا جائے ۔ اس خواہش کے پیش نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں نماز پڑھتے تھے تو کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف رخ کرلیتے تھے کیونکہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں ایک سمت میں ہی ہوتے تھے ۔ اس لئے حضور کو یہ آسانی تھی کہ دونوں کی طرف رخ کرلیتے تھے لیکن جب آپ مدینہ تشریف لائے تو وہاں بیت المقدس او رکعبہ دونوں مختلف سمتوں میں تھا۔ بیت المقدس مدینہ کی شمال میں ہے اور کعبہ اس کے جنوب میں ہے۔ اس لئے دونوں کی طرف رخ نہیں ہوسکتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ تقریباً سولہ سترہ ماہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کےنماز پڑھائی اس کے بعد ایک دفعہ ہی حکم ہوا کہ اب آپ مکہ کی طرف رخ کریں ۔ جب یہ حکم نازل ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے تو دوران نماز ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سب نمازیوں نےاپنا رخ بدل لیا۔ جس مسجد میں یہ واقعہ ہوا اس کا نام مسجد نمرہ تھا اور اب بھی مدینہ میں ایک مسجد جس کا نام ذو قبلتین ہے، موجود ہے۔ روایت یہ ہے کہ واقعہ اسی مسجد میں پیش آیا تھا ۔ اب آپ ان آیات کی دینی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان آیات کاکوئی تعلق نماز سے ہے ہی نہیں ۔ ان آیات کے ماقبل یا بعد کہیں نماز کا ذکر نہیں ہے۔ مذہبی تفسیر نے اس کو نماز قبلہ رخ نماز سے محدود کردیا۔ اسلام ایک دین ہے اور دین میں ایک مرکزکی بڑی اہمیت ہوتی ہے ۔ امت کے فکر و نظر کا مرکز ایک ہی مقام پر محکم و مستحکم ہوناچاہئے۔ اگر مختلف ملکوں کے دارالخلافوں کی طرح امت مرکز بھی بدلتا رہے تو اس کی حیثیت مقامی مرکز کی بن جاتی ہے۔ قرآن کریم کا پیغام چونکہ ساری انسانیت کےلئے ہے اس لئے اس مرکز بھی اقوام و علل علاقوں او ر خطوں سے بلند ہونا چاہئے تھا ۔ کعبہ مسلمانوں کا وہ مرکز ہے جہاں سے ساری دنیا کے مسلمانوں کو ہدایت ملنی چاہئے او رہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر وقت دن ہو یا رات، مغرب ہو یا مشرق اس کی توجہ کا مرکز کعبہ ہی رہے ، اس میں نماز کے وقت کی کوئی پابندی نہیں ۔
دوسری غور طلب بات یہ ہےکہ خیال ہی مطلقاً غلط ہے کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہوگی اس لئے کہ بیت المقدس کو کبھی بھی اللہ کی طرف سے کسی بھی نبی کا قبلہ قرار نہیں دیا گیا او ر نہ ہی کسی آیت میں آپ کو یہ حکم ہوا کہ وقتی طور پر بیت المقدس کو اپنا قبلہ بنا لیں ۔ نہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ابتدائی زندگی میں بیت المقدس کی طرف رخ کیا ہوگا۔ یہ سب قصے کہانیاں خود ایجاد کردہ ہیں ۔ آپ غور فرمائیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں آنکھ کھولی وہاں ہی شعور کی عمر کو پہنچے ، ہر وقت کعبہ کی نظروں کے سامنے تھا، وہ عربوں کا مرکز تھا ۔ قریش اس کےمتولی تھے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی قریش تھے ۔ تاریخ میں ایسا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی بھی قریش نے کعبہ کو چھوڑ کر بیت المقدس کی طرف رخ کیا ہو۔ وہ ساری دنیا کو کعبہ آنے کی دعوت دیتے تھے تو وہ خود بیت المقدس کی طرف رخ کیسے کرسکتے تھے ۔ یہ سارا قصہ ہی خود تراشیدہ و وضع کردہ ہے کہ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے ۔ ان آیتوں میں نماز میں رخ تبدیل کرنے کے حکم کاکوئی ربط ہی نہیں ہے۔ ان آیات میں نظام کی جگہ نظام بدلنے کا تذکرہ ہے۔ قریش کو معلوم تھا کہ یہ نظام کسی جگہ بھی قائم ہوگیا تو ان کی اہمیت بالکل ہی جاتی رہی گی۔
اب آپ آیات پر غور فرمائیں ارشاد ہوتاہے ۔سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (142۔2) روایات سے متاثر ہوکرمفسرین کرام نے اس کےمعنی کئے ہیں اب بےوقوف لوگ کہیں گے کہ کس چیز نے پھیر دیا مسلمانوں کو ان کے قبلہ سے جس پر وہ تھے (ترجمہ شاہ عبدالقادر) لیکن اس آیت کایہ ترجمہ ہی غلط ہے اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ یہ بے وقوف لوگ ( یہود) کہیں گے کہ مسلمانوں کا کس چیز نے پھیر دیا اس قبلہ سے جس پر وہ ( یہود) ہیں یعنی یہود قبلے سے کس چیز نے مسلمانوں کو پھیر دیا۔ اس آیت میں ‘‘كَانُوا عَلَيْهَا ’’ کا ترجمہ علماء نے ‘‘تھے کر کے’’ اس سے مراد مسلمانوں کو قرار دیا کہ مسلمانوں نےاس قبلہ ( بیت المقدس) کو کیوں چھوڑ دیا جس طرف وہ رخ کرتے تھے لیکن یہاں ‘‘كَانُوا عَلَيْهَا ’’ کا درست ترجمہ ‘‘ ہے’’ ہے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس قبلہ ( بیت المقدس کو کیوں چھوڑ دیا جس پر یہودی اب ہیں ۔ یہاں ‘‘كَانُوا عَلَيْهَا’’ کا ترجمہ مفسرین نے عمداً محض روایات کے زیر اثر ‘تھے’ کیا ہے لیکن كَانُوا کا ترجمہ ’ہے’ بھی ہوتا ہے ۔ اب آپ ا س کی مثالیں قرآن کریم سے ہی ملاحظہ فرمالیں۔
‘‘كَانُ ’’ فعل ناقص بھی ہوتا ہے او راس کے معنی ہے اور ‘‘ہیں’’ کے آسکتے ہیں ۔
(1) وَكَانَ اللَّـهُ عَلِيمًا حَلِيمًا ۔(51۔33) اللہ علیم و حکیم ہے۔
(2) إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۔(228۔2) اگر وہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔
(3) فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ ۔(109۔11) پس تو شک میں نہ رہ۔
(4) مَن كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا ۔(29۔19) وہ بولے ہم کیوں کر بات کریں اس شخص سےکہ وہ ہے گود میں لڑکا۔
(5) وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ ۔(280۔2) اور اگر (فرض لینے والا) تنگ دست ہو۔
(6) لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ (110۔3) تم سب سے بہتر امت ہو۔
(7) وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ۔(29۔25)۔ اور شیطان ان کو وقت پر دغا دینے والا ہے۔
(8) وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا ۔(27۔17) اور شیطان اپنے پروردگار کی نعمتوں کا انکار کرنے والاہے۔
(9) وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ۔(54۔18) او رانسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے۔
(10) وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا ۔(20۔19) میں قانون توڑنے والی نہیں ہوں۔
ان تمام دس آیات میں (كَانُ) کا ترجمہ تھے کہ بجائے سب مفسرین نے ‘‘ہے’’ کیا ہے۔ اس لئے زیر نظر آیت میں ترجمہ : ہے: درست ہے اور اس کامطلب یہ کہ مسلمانوں نے اس قبلہ (بیت المقدس) کو کیوں ترک کردیا جس کو یہودی آج بھی اپنا قبلہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہمارے علماء کرام عربی کےماہر نہیں ہیں انہیں عربی ادب پر خوب کمانڈ ہے بلکہ انہوں نے عمداً روایات کے زیر اثر اس کا غلط ترجمہ ‘‘تھا’’ کیا او راسی سےمسلمان مراد لے کر تحویل قبلہ کا قصہ وضع کیا ہے۔مسئلہ کو مزید واضح کرنے کےلئے عرض ہے کہ یہودی یہ اعتراض کرتے تھے کہ جب رسول اللہ یہ فرماتے ہیں کہ ہم کوئی نیا دین نہیں لایا ہوں بلکہ یہ وہی دین ہے جو حضرت ابراہیم کے وقت سے چلا آرہا ہے۔ تو انہوں نے اپنا مرکزبیت المقدس کے بجائے کعبہ کوکیوں قرار دے دیا ہے۔ یہ نہیں کہ پندرہ برس تک تو بیت المقدس کو اپنا مرکز بنائے رکھا اور بعد میں اسے چھوڑ دیا بلکہ پہلے ہی دن سے یہ اعتراض ہے کہ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے ہی انبیاء کا دین ہے تو آپ نے اپنا مرکز تبدیل کیوں کردیا۔ اس میں كَانُوا عَلَيْهَا کے الفاظ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمارے علماء کرام اس کا ترجمہ کرتے ہیں جس قبلہ کو مسلمانوں نے پہلے سے قبلہ بنا رکھا تھا اسےکیوں چھوڑ دیا ۔ لیکن یہ ترجمہ ہی غلط ہے۔ اصل ترجمہ یہ ہے کہ یہودی یہ کہیں گے کہ جس قبلہ پر ہم میں ، جو ہمارا قبلہ ہے مسلمانوں نے اس قبلہ کو کیوں چھوڑ دیا۔ كَانُوا عَلَيْهَا کا ترجمہ جس پر وہ ہیں درست ہے اور اس کی سند اور تائید میں دس مثالیں تو قرآن کریم سے لے کر پیش خدمت عالی کی گئی ہیں۔ اس آیت کریمہ سے اگلی آیت میں ارشاد ہے ۔ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (143۔2) او راس طرح ہم نے تم کو ایک امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم انسانیت کےنگراں رہو اور تمہارا رسول تمہارا نگراں رہے ۔ اس آیت کریمہ کے لفظ کذلک نےمذہب اور پرستش کا سارا بھانڈا پھوڑ دیا او ریہ بات واضح کردی کہ اس آیت کا کوئی تعلق نماز سےنہیں بنتا ۔ كَذَٰلِكَ کامطلب یہ کہ قبلہ کے تعین کا نتیجہ یہ ہے کہ تم ایک ایسی امت بن جاؤگے کہ جو ساری دنیا کی نگراں رہے گی او رتمہارا مرکز کعبہ کی مرکزی حکومت تمہاری نگراں رہے گی ۔ کعبہ کو مسلمانوں کی وجہ جامعیت قرار دیا گیا ہے ۔ اسے مَثَابَةً لِّلنَّاسِ (125۔2) اور قِيَامًا لِّلنَّاسِ (97۔5) قرار دیا گیا ہے جب کہ نماز کی یہ حالت ہے کہ وہ خود کعبہ میں بھیڑ جامعیت نہیں بنتی ، اس میں تو چار الگ الگ مصلے چلے آرہے تھے ۔ قرآن کریم نے ایک ایسا اصول دیا ہے کہ جس پر جتنا بھی غور کیا جائے اس کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اس سے ہی متصل آیت میں فرمایا وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (148۔2) ہر فرد کی ایک آئیڈیا لوجی ہوتی ہے۔ اس کا ایک مقصد حیات ہوتا ہے جو ہر وقت، ہر آن، رات دن، شام و سحر ا س کے پیش نگاہ ہوتاہے ۔ قرآن کریم نے مسلمانوں کے آئیڈیا لوجی کی علامت کعبہ کو قرار دے کر ارشاد فرمایا وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا اللَّـهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (149۔2) جہاں سے بھی تم نکلو اپنی توجہ مسلسل بیت الحرام کی طرف ہی رکھو۔ مقصد حیات کعبہ کی نظر یات پر عمل کرناہے اور اسی کےمطابق زندگی گزارنا ہونا چاہئے ۔ صرف نماز کی ادائیگی کے لئے اس کی طرف رخ کرنا کافی نہیں ہے۔
تحویل قبلہ کے بارے میں اگلی چند آیات بھی وضاحت طلب ہیں جن کا مفہوم مذہب اور دین کی رو سے بالکل مختلف نکلتا ہے ۔ ان کا وہ مفہوم پہلے مضامین میں پیش خدمت کیا جا چکا ہے ۔ تاہم نفس مضمون کےلئے ان آیات کی وضاحت ہی کافی ہے ۔ تحویل قبلہ سے مراد صرف نماز ہی میں اس کی طرف منہ کرنا نہیں بلکہ اس مقام سےجو احکامات جاری ہو رہے ہیں ان کی اطاعت کرناہی مقصد حیات ہے ۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ کبھی بھی نہیں ہوا بلکہ کعبہ ہی شروع سےمسلمانوں کا قبلہ رہاہے۔
تحویل قبلہ سےمتعلق مضمون جناب نے ملاحظہ فرمایا ۔ اس موضوع کی اہمیت اپنی جگہ ہےلیکن ا س مضمون کو تحریر کرنے کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہےکہ ہمارے علماء کرام ان آیات سے وحی خفی کی دلیل لاتےہیں جو بالکل غلط ہےاور جس کی تفصیل پیش کی جاتی ہے ۔ تحریک طلوع اسلام حدیث سے انکار نہیں کرتی لیکن یہ تحریک حدیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غور و فکر کا نتیجہ قرار دیتی ہے جب کہ ہماری پیشوائیت ان روایات کو وحی قرار دیتی ہے۔ ان روایات کو وحی قرار دینے کا ایک نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ یہ روایات اسلامی نظام کے قیام میں صدّ راہ اور رکاوٹ بن جاتی ہیں جب کہ اس تحریک کا مطمع نگاہ ہی اسلامی نظام کا قیام ہے۔ قرآن کریم کی رو سے رسول اللہ کی وفات کے بعد ان کی اطاعت ان کے جانشین کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ ان کا یہ جانشین ایک زندہ محسوس اتھرٹی ہوتا ہے جو اسلامی نظام کو جاری رکھتا ہے ۔ چنانچہ اس نظرئیے کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہوجاتی ہے کہ جس نےحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کی اس نے اللہ و رسول کی اطاعت کی لیکن ہماری پیشوائیت اطاعت رسول کو روایات کی طرف منتقل کرتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد روایات پر عمل کرنے سے حضور کی اطاعت ہوجاتی ہے ۔ اس طرح اسلامی نظام قائم کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
اس تحریک نے وحی خفی کی تردید میں بہت مواد فراہم کیا جب کہ ہماری پیشوائیت روایات کو وحی ثابت کرنے میں بالکل نا کام رہی ہے ۔قرآن کریم کی کوئی ایک آیت بھی وحی خفی کی تائید نہیں کرتی ۔ اس لئے ہماری پیشوائیت نےیہ رخ اختیا رکیا کہ وہ چند آیات پیش کرتی ہے جن سے وہ یہ ثابت کرتی ہے کہ قرآن کے علاوہ ایک اور وحی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی جو وحی خفی کےنام سےموسوم ہے۔ان چند آیات میں سے صرف ایک آیت بطور مثال پیش کی جاتی ہے تاکہ ان کا یہ موقف واضح ہوجائے ۔ ارشاد ہوتا ہے ۔مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ (59۔5) کھجور کا درخت جو تم نے کاٹ ڈالا یا جوں کا توں ان کی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا تو خدا کے حکم سے ہے۔
ہمارے علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ ‘‘پورے قرآن میں یہ حکم کہیں نہیں کہ فلاں درخت کاٹے جائیں اور فلاں درخت چھوڑے جائیں ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ کسی اور ذریعہ سےاللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو یہ حکم دیا تھا ’’ یعنی قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی (برہان المسلمین از مسعود احمد امیر جماعت المسلمین) لیکن یہ بات حیرانی کی ہے کہ یہ حکم روایات میں بھی موجود نہیں ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ جب ان چند آیات کے روایات میں موجود نہیں ہیں تو اس سےوحی خفی کا ثبوت کس طرح سےپیش کیا جاسکتا ہے ۔
تحویل قبلہ کے متعلق بھی وہ جو آیات پیش کرتے ہیں ان میں بھی وہ یہی موقف اختیار کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ جب مسلمان پہلے اللہ کےحکم سے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے پھر انہوں نے کعبہ کی طرف رخ کرلیا ، تو اللہ تعالیٰ کا وہ حکم کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرو وہ قرآن میں نہیں ہے۔ وہ یقیناً وحی خفی سےملا ہوگا۔ لیکن یہ دلیل کوئی اہمیت نہیں رکھتی جب یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ تحویل قبلہ کا قصہ ہی بے بنیاد ہے اور اس واقعہ کاکوئی تعلق نماز سے نہیں ہے۔ یہ آیات ایک نظام سے دوسرے نظام کو تبدیل کرنے کےمتعلق ہیں ۔ اور ان آیات او راس واقعہ سے وحی خفی کا کوئی ثبوت مہیا نہیں ہوتا ۔
کعبہ سنتے ہیں کہ گھر سےبڑے داتا کا ریاض زندگی ہے تو فقیروں کابھی پھیرا ہوگا
اپریل، 2016 بشکریہ : صوت الحق ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/religious-meaning-custody-quibla-/d/108651