خواجہ ازہر عباس ،فاضل درس نظامی
میں نے جناب سے کئی مرتبہ درخواست کی کہ آپ ملاقات کے لئے تشریف لائیں کچھ گفتگو بالمشافہ ہوجائے ۔ آپ اپنی مصروفیت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے چند گذارشات جناب کی خدمت عالی میں پیش کی جاتی ہیں ۔
اس وقت دنیا جس باطنی اضطراب میں مبتلاء ہے اس کا ہر شخص کو احساس ہے،اس اضطراب کو رفع کرنے میں انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے حیات بالکل ناکام رہے ہیں ۔ موجودہ دور کے سارے مسائل عقل انسانی کے پیدا کردہ ہیں اس لئے عقل انسانی ان کو حل کرنے سے قاصر ہے۔ کمیونزم نے ہمارے سامنے دم توڑا۔Occuty Wall St کے تحریک نے نظام سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کردی ہے اس طرح فکر انسانی مسائل حیات کا حل تلاش کرنے کے لئے بالکل ششدر اور حیران کھڑی ہے ہم مسلمانوں کی حالت دیگر اقوام عالم سے بھی بدتر اور زبوں تر ہے ۔ اسی وجہ سے آج مسلمانوں کے تقریباً سارے ممالک اسلامی نظام کی طرف توجہ کررہےہیں ۔ مصر میں اخوان المسلمون اور تونس میں نہضت اقامتِ دین کی کوشش کررہے ہیں ۔ پاکستان میں جماعت اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مرحوم کی تنظیم اور چند دیگر تحریکات دین کی داعی ہیں ۔ مولانامودودی مرحوم نے تحریر فرمایا ‘’حکومت اگر اللہ کے قانون پر عامل ہے اور اس کا حکم جاری کرتی ہے، تو اس کی اطاعت فرض ہے اور اگر ایسی نہیں ہے تو اس کی اطاعت جرم ہے’’۔ جماعت اسلامی سے ہی وابستہ و منسلک ، ایک مشہور اسلامی اسکالر جناب محترم ڈاکٹر محمود احمد نمازی مرحوم نے تحریر فرمایا ‘‘ اسلامی ریاست کا قیام وحی الہٰی اور عقل و منطق دونوں اعتبار سے لازمی تھے ’’۔ (مغرب اور اسلام، خصوصی اشاعت صفحہ 25)
انہوں نے سورۂ حج کی مشہور آیہ کریمہ جس میں اقامتِ دین اور ایتاء الذکواۃ کا حکم دیا گیا ہے (24:55) کا حوالہ دے کر ارشاد فرمایا ‘‘ جہاں انہیں (یعنی مسلمانوں کو) سیاسی غلبہ اور آزادی حاصل نہیں تو قرآن اُن سے اُن ذمہ داریوں (یعنی اقامت صلوٰۃ و ایتاز زکوٰۃ) کو پورا کرنے کامطالبہ نہیں کرتا’’۔ڈاکٹر صاحب مرحوم کا یہ فقرہ حیرت انگیز اور بڑا چشم کشا ہے۔ اُن کے خیال میں غیر قانونی نظام میں صلوٰۃ ( نماز) قائم نہیں ہوسکتی اسی طرح ایرانی انقلاب کے داعی حضرت آیۃ اللہ خمینی نے طاغوت کی حکومت میں زندگی بسر کرنے کو جرم قرار دیا ہے ۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص آپ کو چوغہ چوری کرے تو آپ اس کی بازیابی کے لئے طاغوتی حکومت کی طرف رجوع نہ کریں اور اگر اس طاغوتی نظام کی کوئی عدالت آپ کو چوغہ واپس کرادے، تو آپ وہ چوغہ لینے سے با لکل انکار کردیں ، کیونکہ طاغوتی نظام کی عدالتوں کی اطاعت حرام ہے۔
مشہور اسلامی تنظیم حزب التحریر کے بانی جناب تقی الدین نہبانی نے بھی اسلامی حکومت کے قیام کو فرض قرار دیا ہے ۔ اُن کی کتاب Islamic State ، عربی اور انگلش میں Net پر دستیاب (Available) ہے ۔ مُوّقر جریدہ ترجمان القرآن بابت دسمبر 2010ء میں ایک مضمون ‘‘اقامت دین فرض ہے’’۔ کے عنوان سے طبع ہوا ہے ۔ جو نہایت قیمتی اور فکر انگیز مضمون ہے۔ اس مضمون میں تحریر ہے ‘‘اقامت دین تمام فقہائے اسلام کے نزدیک متفقہ او رمُسلّمہ فریضہ ہے۔ اس میں اختلاف اور تفرقہ حرام ہے ۔ جس طرح دین کی تبلیغ ہماری ذمہ داری ہے ۔ دین کے احکامات پر انفرادی اور اجتماعی طور پر عمل در آمد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔’’ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانیت سے جو وعدے فرمائے ہیں وہ وعدے اسلامی حکومت کی معرفت پورے ہوتےہیں ۔ اقامتِ دین سے اس دنیا میں سر بلند ی و سرفرازی اور غلبہ حاصل ہوتا ہے (24:55، 3:139، 47:35) انسانوں کی دعائیں دین کی معرفت پوری ہوتی ہیں ( 40:60) ۔ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے (47:7) دینی حکومت کے ایک ایک فرد کو رزق فراہم ہوتا ہے۔ یہ سب وعدے دین یعنی اسلامی حکومت سےحاصل ہوتے ہیں ۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ دین اس درجہ اہمیت اور اس زمانہ میں اس کی اس درجہ ضرورت کے باوجود مسلمانوں کے سامنے دین کا تصور واضح نہیں ہے اور یہ مذہب کو ہی بطور دین کے جاری کرنے کے خواہاں ہیں۔ قرآن کریم کی رُو سے اللہ کی اطاعت کے لئے رسول اللہ کی اطاعت لازمی ہے۔ اللہ کی اطاعت ہوتی ہی اطاعت رسول کے ذریعے سے ۔ ارشاد ہوتا ہے مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (4:80)جس نے رسول کی اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔ اللہ کا دیا ہوا دین جس کو حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً جاری فرمایا تھا اور اس کی آپ Final Authority تھے، اس دین کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جگہ جگہ اپنے ماتحت افسران اور کارندے مقرر فرمادیئے تھے ( 2:188، 4:83) ان مقامی حکام کی اطاعت سے اس نظام کی اطاعت ہوتی تھی ، جس کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت کے مرادف تھی ۔ قرآن نے شخصیات کا دور ختم کرکے نظام اور دستور کے دور کی ابتداء کی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم کردہ یہ نظام کوئی وقتی یا ہنگامی نظام نہیں تھا۔ نہ ہی یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ اور نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود تھا ( 3:144)بلکہ اس نظام کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جاری رہنا تھا ۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ زندہ محسوس اتھارٹی جو اس نظام کو جلارہی تھی ۔ اس کی اطاعت اللہ رسول کی اطاعت تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی سر انجام دہی حضرت ابوبکر کی طرف منتقل ہوئی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر کی اطاعت اللہ و رسول کی اطاعت تھی اور یہ سلسلہ اسی طرح آگے چلتے رہنا تھا لیکن مسلمانوں کی بد قسمتی کہ ملوکیت نے غلبہ حاصل کرکے ، اس اسلامی نظام کو ختم کردیا ۔
اسلامی نظام کے منقرض ہونے کے بعد اُس دور کے علماء کے سامنے یہ مسئلہ درپیش ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت تو قرآن کے ذریعے کی جاسکتی ہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کس طرح سر انجام دیں؟ مسلمان اگر خوش قسمت ہوتے، تو وہ اس اسلامی نظام کو دوبارہ جاری کردیتے اور اس نظام کی معرفت اللہ و رسول کی اطاعت ادا کردی جاتی، لیکن اس دور کے علماء سے یہ لغزش ہوئی کہ انہوں نے اسلامی نظام قائم کرنے کے بجائے ، رسول کی اطاعت کو روایات کی طرف منتقل کردیا اور اس طرح انہوں نے اسلامی نظام کے قیام کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا اور اسی وجہ سے انہوں نے روایات کو بھی وحی الہٰی کا درجہ دے دیا لیکن چونکہ روایات وحی الہٰی نہیں ہیں ۔ اس لئے اُن کا یہ خیال غلط ہے کہ ان روایات سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کا واحد ذریعہ اسلامی نظام کی اطاعت ہے جیسا کہ علماء نے اس پر اتفاق کیا ہے۔
روایات پر گفتگو کرنا بڑی Touchy معاملہ ہے ۔ اکثر علماء ایک دوسرے کو منکرین نست کہتے چلے آرہےہیں ۔ تحریک طلوع اسلام کے خلاف بھی اسی طرح سے پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ تحریک خدانخواستہ روایات کی منکر ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہر گز نہیں ہے۔ جن حضرات نےتحریک طلوع اسلام کے سالانہ کنوینشن میں شرکت کی ہے انہیں بخوبی معلوم ہے کہ سالانہ کنوینشن کے پنڈال کو آیہ کریمہ اور حدیث شریف سے سجایا جاتا تھا ۔ اس پنڈال میں ایک طرف آیہ کریمہ کا ایک بہت بڑا بینر آویزاں ہوتا تھا اور اسٹیج کی دوسری طرف ایک اور BANNER آویزاں ہوتا تھا جس میں یہ حدیث شریف تھی ومن استوی یوماہ مھو مغبون ۔ یعنی جس شخص کے دو دن ایک حالت میں گذرجائیں وہ گھاٹے اور خسارے میں رہا ایک طویل عرصہ تک رسالہ طلوع اسلام کے ٹائٹل PAGE پر حدیث لکھی ہوتی تھی ۔ تحریک طلوع اسلام خدانخواستہ حدیث کی منکر نہیں ہے۔ اگر یہ تحریک حدیث کی منکر ہوتی تو نماز کس طرح ادا کی جاتی ۔ اس تحریک کے اکثر حضرات نماز کے پابند ہیں اور وہ وہی نماز ادا کرتےہیں جو سب مسلمان حدیث کی رُو سے اداکرتے ہیں ۔ البتہ یہ تحریک کی حدیث کو وحی نہیں مانتی ۔ یہ تحریک احادیث کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے غور و فکر ،تدوبر وتعقل کا نتیجہ سمجھتی ہے اور اسی موقف کو ثابت کرنے کے لئے صرف چند عقلی دلائل پیش خدمت عالی کئے جاتےہیں ۔
احادیث کے متعلق ہمارےعلماء کرام کا یہ نظریہ ہے کہ ‘‘ کوئی کام تو کیا، ایک حرف بھی آپ کے ذہن مبارک سے ایسا نہیں نکلتا جو خواہش نفس پر مبنی ہو بلکہ آپ دین کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرماتے وہ اللہ کی بھیجی ہوئی وحی اور اس کےحکم کے مطابق ہوتا ہے ۔ اس وجی مَتلُوّ کو قرآن اور غیر مَتلُوّ کو حدیث کہا جاتا ہے ’’ حضرت العلام جناب عثمانی صاحب ، معروف او ربلند پایہ عالم دین حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ لاہور نے تحریر فرمایا ‘‘جس طرح ٹیلفون خود نہیں بولتا بولنے والاپس پردہ کوئی اور ہوتاہے اسی طرح نبی کی زبان سے جو نکلتا ہے وہ درحقیقت اللہ کی آواز ہوتی ہے ’’ حمیت حدیث صفحہ 39’’ اس طرح ہمارے علمائے کرام مسلمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فہم وفکر سے محروم کردیتےہیں۔
قرآن بے شک وحی ہے لیکن اگر یہ احادیث بھی وحی ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ اپنی فہم و فراست سے بولتے تھے وہ کہاں ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت ملنے سے پیشتر چالیس سال تک اپنی عقل و فراست سے بولتے رہے تو کیا انہوں نے نبوت ملنے کے بعد غور و فکر سے بولنا ختم کردیا تھا ۔ قرآن میں ہے قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا (34:46) میں تمہیں ایک نصیحت کرتا ہوں کہ تم ایک ایک دو دو کھڑے ہوجاؤ اور اچھی طرح غور و فکر کرو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اور لوگوں کو فکر کرنے کی نصیحت فرماتے تھے تو لازمی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی غور و فکر کرتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ (12:108) میں اللہ کی طرف دلائل کے ساتھ بلاتا ہوں ۔ ظاہر ہے کہ یہ دلائل حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غور و فکر کے بعد ہی پیش فرماتے ہوں گے اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاہر لفظ وحی ہوتا تھا، تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غور و فکر اور بصیرت پر مبنی اقوال کون سے ہیں؟
حضرت اقدس نے اپنی تحریر میں جو دین کا لفظ استعمال فرمایا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دین کے متعلق جو گفتگو کرتے تھے وحی ہوتی تھی اس کے لئے عرض ہے کہ اسلام میں دین و دنیا کی کوئی تفریق نہیں ہے ۔ قرآن کریم کا ہر حکم عبادت ہے اور ہر عبادت حکم کا درجہ رکھتی ہے ۔ مزید یہ کہ ہماری کُتب روایات میں کہیں یہ تفریق نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول دینی ہونے کی وجہ سے وحی ہے اور یہ قول دنیاوی ہونے کی وجہ سے غیر وحی ہے۔ ہمارے علماء کرام صحاح ستہ کی تمام روایات کو وحی مانتے ہیں اور آج ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم وحی اور غیر وحی احادیث کو الگ الگ کرسکیں ۔ وہ تو تمام احادیث کو وحی گردانتے ہیں ۔ ان میں سے کسی حدیث کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی یا فکری قول نہیں سمجھتے ۔ اس طرح ہمارا یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال وحی تھے تو آپ کے غور و فکر کے اقوال کون سے ہیں؟
(2) اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام اقوال وحی ہوتے تھے اور حضور وحی کے بغیر ایک لفظ بھی نہیں بولتے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (3:159) اہم امور میں مشورہ کرلیا کرو، کا حکم کیوں دیا گیا ۔ مشورہ کرنے کا حکم دینے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کا ہر کام قول وحی نہیں تھا ۔
(3) ہمارےہاں جو روایات ہیں ان میں سے 95 فیصد روایات بالمعنی روایت کی گئی ہیں روایات کے الفاظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں ہیں یہ الفاظ راویوں کے ہیں، راویوں کے یہ الفاظ کیسے ہوسکتے ہیں۔
(4) اگر یہ روایات وحی ہیں، تو وحی کی اطاعت ہے تو اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔ ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت نہیں ہوتی ۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وحی کا ایک حصہ جو قرآن ہے اس سے اللہ کی اطاعت کی جائے اور وحی کا دوسرا حصہ جو احادیث میں ہے، اس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہوسکتی ہو۔ وحی الہٰی سے صرف اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔
(5) وحی قطعی ہوتی ہے (6:73، 2:2) میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا ۔ اسی لئے قرآن کی تلاوت کے بعد صدق اللہ العظیم کہا جاتا ہے ۔ جب کہ حدیث شریف کے بعد اوکماقال علیہ السلام کہا جاتاہے ۔ کمال قال علیہ السلام کہنے سے خود روایت مشکوک ہوجاتی ہے۔
(6) وحی کی مثل نہیں بن سکتی ( 2:23) اسی لئے قرآن کی مثل نہیں بن سکتی ۔ جب کہ روایات کی مثل بن سکتی ہے اور وضعی روایات موجود ہیں۔
(7) وحی میں تضاد نہیں ہوسکتا (4:82) روایات میں تضاد ہوتا ہے ۔ ہر فرقہ کی روایات ایک دوسرے کے خلاف ہیں ۔
(8) وحی ۔ منزل من اللہ ( 2:23) وحی خداوندی (11:13) اور قرآن ( 10:37) تینوں کا معاوضہ طلب کیا گیا ہے۔ لہٰذا یہ تینوں تینوں چیزیں ایک ہیں۔ یعنی صرف قرآن ہی وحی اور منزل من اللہ ہے۔ قرآن کے علاوہ او رکوئی چیز منزل من اللہ نہیں ہے۔
(9) وحی صرف جلی ہوسکتی ہے ( 5:67) وحی خفی نہیں ہوسکتی ۔
(10) وحی صرف متلو ہوسکتی ہے (13:20) وحی غیر متلو نہیں ہوسکتی ۔ تلک عشرۃٍ کاملۃٍ
روایات کے وحی نہ ہونے کی یہ صرف عقلی دلائل ہیں جو اس موضوع سے متعلق ہیں۔ قرآنی آیات سےبھی دلائل پیش کئے جاسکتے ہیں ۔قرآن کریم کے طالب علم کو حق جو اور روشن ضمیر ہونا چاہئے ۔ وہ کبھی ضد پرنہیں اڑتا۔ وحی الہٰی میں خود اتنی کشش ہوتی ہے کہ وہ سعیدِ روحوں کو ایک دفعہ ہی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ اس کی مثال مقناطیس کی طرح ہوتی ہے جو لوہے کے ذرّات کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔اس دور میں جب کہ مسلمان اس مصائب سے دو چار ہیں ۔ ہر سعید روح کو اسلامی نظام کے قیام کی کوشش کرنی چاہئے ۔ جس رزق کی تقسیم قانونِ خداوندی کے مطابق نہیں ہوتی اس کا ایک ایک لقمہ حرام ہوتا ہے ۔ ہم رات دن رزق حرام کھا رہے ہیں ۔ رزق کی تقسیم قانونِ خداوندی کے مطابق صرف اسلامی حکومت میں ہوسکتی ہے جو لوگ رزق حرام کھارہے ہیں ۔ اُن کی نمازیں ، روزے ، عید میلاد النبی ،نعت خوانی اور عشق رسول کے دعا دی ، سب کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ اقامتِ دین میں روایات کو وحی کا درجہ دینا،اور اس کے ذریعہ اطاعت رسول کرنا، مانع آتا ہے کیونکہ جب آپ اطاعت رسول کو حدیث کی طرف منتقل کردیں گے ۔ تو پھر اطاعت رسول کے لئے اقامت دین کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ جب تک آپ اطاعت رسول کا ذریعہ روایات کو قرار دیں ، اسلامی نظام کبھی نہیں ہوسکتا ۔
وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ ( 11:88) (ترجمہ) میں نہیں چاہتا کہ جس چیز سے تمہیں روکتا ہوں ، خود اس کا ارتکاب کروں میں سوائے اصلاح کے اور کچھ نہیں چاہتا ۔
ستمبر ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/need-establishment-islamic-system-/d/99093